ہمارے مستقل قارئین اس بات سے واقف ہیں کہ ہم سن دو ہزار نو سے دو ہزار گیارہ تک سڈنی میں رہے، یہ دورانیہ پورے چوبیس ماہ کا تھا کیونکہ ہم اگست کے مہینہ میں وہاں گئے تھے اور اگست میں ہی واپس وطن آئے تھے۔ اُن دنوں روزے بھی اگست میں تھے۔ یوں مسلسل تین رمضان ہم وہاں تھے۔ اس بلاگ کا متن گو کہ پرانے بلاگز پر ہی مشتمل ہے لیکن ہمارا بلاگ ہماری مرضی کے مصداق ہم اسے نئے انداز میں پیش کر رہے ہیں ۔
بالکل شروع کے روزے تھے جب ہم سڈنی پہنچے۔ بلکہ جس دن ہماری پرواز برائے دوبئی تھی اسی شام وطن عزیزمیں پہلے روزہ کا اعلان ہوا تھا۔ پرواز سے پہلے ہی کراچی کے ہوائی اڈہ پر امارات ہوائی باز ادارے والوں نے سحری کا بندوبست کیا ہوا تھا۔ ہم نے جہاز کی روانگی سے قبل سحری کرلی اور دوبئی سے سڈنی کی پرواز میں روزے سے ہی رہے۔ اس پرواز میں فضائی میزبان نے ہمارے روزے کا خیال رکھا اور دوران پرواز افطار کا اہتمام کیا، کھجوروں کی رکابی اور دودھ کے جام کے ساتھ روزہ کھُلوایا گیا اور نماز مغرب کے بعد پُرتعیش عشائیہ پیش کیا گیا۔
سحری ہم نے سڈنی کے قریب کی جب جہاز میں ناشتہ کا وقت ہوا۔ یوں سڈنی اُترتے ہوئے ہم روزہ سے ہی تھے۔ اُن دِنوں ہم کچھ زیادہ ہی بنیاد پرست تھے اور سفر کے دوران روزہ قضا کرنے کی سہولت سے استفادہ نہ کیا۔ خیرسڈنی پہنچے تو فہد الٰہی، احسن شیخ اور شہباز واڈی والا محض تین افراد گھرکے مکین تھے اور گھر نیا نیا کرایہ پر لیا گیا تھا۔ باورچی خانہ میں چیدہ چیدہ برتن اور لوازمات موجود تھے۔ افطارمیں ہمت کرکے پکوڑے بنائے اور جیسے تیسے روزہ کھول لیا۔ جب گھر سے چلے تھے تو محض چائے بنانا اور انڈا اُبالنا جانتے تھے اور واپس وطن آئے تو کھانا پکانے میں اتنے مشاق ہو چکے تھے کہ قورمہ اور بریانی بھی بنا لیتے تھے۔
سحری میں بھی مل جل کر فروزن پراٹھے اور انڈوں کی مدد سے روزہ رکھا گیا۔ یوں ابتداء میں ہم باورچی خانہ میں اتنے متحرک نہ تھے، مگر آہستہ آہستہ منکشف ہوا کہ ہمارے گھر والے کھانا پکانے میں ہم سے بھی گئے گزرے تھے۔ لہٰذا خود سے باورچی خانہ میں قدم رکھنا پڑا۔ یاد رہے کہ سڈنی چونکہ جنوبی نصف کرہ میں واقع ہے اس لئے وہاں موسم ہمارے نصف کُرہ کے لحاظ سے بالعکس ہوتا ہے، ہمارے ہاں گرمیاں اپنے اختتام پر تھیں تو وہاں سردیاں ختم ہوا چاہتی تھیں اور بہار کی آمد آمد تھی۔ اس لئے روزہ خاصے کم دورانیہ کا ہوتا تھا۔
محمود جامی نام کے ایک مصری اُن دِنوں جامعہ یو این ایس ڈبلیو میں مسلم مُصلہ کے کرتا دھرتا تھے۔ وہ اور اُنکا پورا خاندان اس عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا۔ مُصلہ اُس دور میں اَنزیک پریڈ سے متصل اِسکوائر ہاوس میں ہوا کرتا تھا جہاں مسلم طلبہ و طالبات نمازیں ادا کرنے آتے تھے۔ پہلی تراویح ہم نے عربوں کے طریقہ پر پڑھی اور خاصے حیران ہوئے کہ یہ بھی انداز ہوسکتا ہے عبادت کا۔ وطن میں تو ہم دین کی باتیں اور احکامات سُن سُن کر سُنّن بن ہی چکے تھے مگر دین کی صحیح سمجھ تب آئی جب اسے روایات اور ثقافت سے الگ کر کے دیکھا۔
مُصلہ پر ہر دوسرے روز کسی نہ کسی گروہِ طلبہ کی جانب سے افطار کا بندوبست کر دیا جاتا۔ کبھی ملائیشیا والے روزہ کھُلوا رہے ہوتے تو کبھی انڈونیشائی برادران۔ مزہ تب آتا جب سعودی عرب والوں کی باری آتی، اُن کے افطار کے اتنظام میں روایتی مہمان نوازی دیکھنے کو ملتی کہ جب دستر خوان بے شمار اور اعلٰی قسم کی اشیائے خورد و نوش سے بھر جاتا۔ ہم پاکستانی بھی پیچھے نہ رہتے اور بریانی کا خاص اہتمام کیا جاتا جسے کھانے کے شوق میں روزے خوروں سمیت گورے بھی دوڑے چلے آتے۔ بقول غالب
عید پر چاند کی رویت کے لحاظ سے وطن والا تذبذب وہاں بھی دیکھنے میں آیا، عرب تو اُمت کے ساتھ عید مناتے کہ جب سعودی عرب میں عید ہو گی تو ہم بھی عید کر لیں گے، مگر ہم کیونکہ سائنس کے طالب علم ٹھہرے تو وہاں بھی چاند کی سائنس کھوجنے سے باز نہ آئے اور رویت کے مطابق ہی عید منائی۔ پہلی عید نماز بھی ہم نے اپنی جامعہ میں ہی پڑھی۔ ایک بنگلہ دیشی مُصلہ نے یہ سہولت بھی دی ہوئی تھی کہ آپ دو میں سے کسی بھی دن عید نماز ادا کرسکتے ہیں، چاہیں تو سعودی عرب والوں کے ساتھ عید منا لیں یا چاند کی مقامی رویت کے مطابق۔
ستمبر سن دوہزار نو میں رمضان کے دوران ہی تابش خان کراچی سے ہمارے ساتھ رہنے تشریف لائے، یہ ہمارے تین ہم رہائش ارکان کے مشترکہ دوست تھے جو سب کے سب سزابسٹ کے گریجویٹ تھے اور اب یواین ایس ڈبلیو کا اسٹیکر لینے آئے تھے، جی ہاں ان سب کو کراچی میں جامعہ کے اسٹیکر نے موٹیویٹ کیا تھا۔ اور یہ پیسے جمع کر کے یہاں سند حاصل کرنے پہنچے تھے۔
خیر تابش سے جہاں باورچی خانے کے برتن اور دیگر اوزار کراچی سے منگوائے گئے وہیں انھیں لوٹا لانے کا بھی حکم دیا گیا۔ پہلے تو وہ مذاق سمجھے مگر جب انھیں بتایا گیا کہ گورا کیا جانے لوٹے کا استعمال تو وہ مان گئے اور ان کی آمد پرجہاں ان کا سامان کھولا گیا تو لوٹے کو خاص تکریم کے ساتھ ان سے لے کرغسل خانے کی زینت بنایا گیا کہ ہمیں بیت الخلاء اور غسل خانہ الگ الگ دستیاب نہیں تھے۔
اگر تو آپ جَدی پُشتی امیر ہیں تو آپ کے لئے وطن یا دیارِ غیر ایک ہی جیسا ہے لیکن اگر آپ ہماری طرح مڈل کلاسیئے ہیں تو جان لیں کہ دیار غیر میں آپ کا حال ویسا ہی ہوتا ہے جیسا کسی پناہ گزین یا نئے نئے مہاجر کا کسی اور ملک میں۔ اپنے ملک والی عیاشی اور مُلکوں میں نہیں ملتی، وہاں آپ کو اپنا بیت الخلاء بھی خود صاف کرنا پڑتا ہے اور اپنے برتن بھی خود دھونے ہوتے ہیں۔ کپڑے دھونے ہیں تو ساتھ میں استری بھی کرنا ہوں گے، ورنہ دھوبی سے کرانے میں ڈالر خرچ ہوں گے۔ کھانا ایک آدھ بار تو باہر سے کھایا جا سکتا ہے مگر زندہ رہنے کےلئے مستقل باہر سے کھانا ممکن نہیں، یوں جن لڑکوں اور مردوں نے وطن میں ہوتے ہوئے اپنے اپنے گھروں میں ہِل کر پانی نہیں پیا ہوتا وہ بیرون ملک جاکر اپنا سب کام خود کر رہے ہوتے ہیں اور وہ وہ کام بھی کرتے ہیں جو ہمارے ہاں نوکر یا کام والی ملازماوں سے ہی منسوب ہیں۔ یہاں ہماری جھوٹی شان و شوکت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرہ میں ان کاموں کو چھوٹا اور معیوب جانا جاتا ہے جبکہ باہر یہ کام ضرورت اور وقت پڑنے پر کرنے میں ہم کوئی شرم محسوس نہیں کرتے تو گویا ہم نے اپنے معاشرے کی بُنیاد ہی کھوکھلے پن پر رکھی ہے۔ ہمارا مقصد اصلاح معاشرہ کا نہیں مگر قارئین کو سوچنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں کہ جب نبی پیغمبر اپنے ذاتی کام اپنے ہاتھوں سے کیا کرتے تھے تو ہم کس کھیت کی مولی اور گاجر ہیں کہ ہماری گردنوں کا سریہ اور کمر کا درد ہی ختم نہیں ہوتا جبکہ ہم اپنے قدموں سے زمین کو پھاڑ بھی نہیں سکتے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ ان کاموں کے لئے نوکر نہ سہی گھر کی خواتین تو ہیں جن میں ماں، بہن، بیوی اور بیٹی سب شامل ہیں کہ ان کا فرض ہے کہ وہ گھر کے مردوں کی خدمت کریں۔ وہ بھی اس میں خوش ہیں کہ اپنے گھر والوں کے آرام کا خیال کر رہی ہیں، لیکن در حقیقت انھیں ناکارہ بنا رہی ہیں کہ اُن کی جھوٹی مردانہ وجاہت اور انا کو ٹھیس پہنچ جائے گی اگر وہ اپنا کام خود سے کر لیں گے۔ ہمارے ہاں وہ مرد اقلیت میں ہیں جنھوں نے کبھی اپنی بہن کوناشتہ بنا کر دیا ہو یا بخوشی اپنی بیگم کو فل کورس میل نہ سہی ناشتے میں انڈہ ہی تل کر دیا ہو۔
افطار تو ہم اجتماعی طور پر کر لیتے تھے مگر سحری خود سے کرنی پڑتی تھی، کیونکہ سردیوں کے روزے تھے تو انڈوں کی شامت آتی تھی۔ ایک بنگلہ دیشی کے دیسی اسٹور سے ہمارا ہفتہ بھر کا سودا آتا تھا ، جس بازار میں یہ اور اس جیسے دیگر پنساری دوکان کرتے تھے کچھ کچھ کراچی کے گول مارکیٹ کی پرچون کی دوکانوں کا منظر ہوتا تھا، مگر یہ گول مارکیٹ صفائی اور سلیقہ میں انگریز ہی تھی۔ یہاں شان کے مصالحے، اچار و چٹنی سب مل جاتا تھا، روح افزا اور جام شیریں بھی دستیاب تھے۔ اس حوالے سے بے وطنی کا احساس قطعی نہیں ہوا۔ تو سحری میں ہم دو دو فروزن پراٹھے بنا لیتے اور فی کس دو دو انڈے آدھے تلے جاتے یعنی سنی سائیڈ اپ کرکے ایک ایک لسی کے جام کے ساتھ سحری کی جاتی۔ اس قدر دیسی سحری میں پیش پیش محمد عمران تھے جو پہلے رمضان کے بعد سے ہمارے گھر کے مکین بنے تھے، اس دوران ہم باورچی خانہ پر اپنا تسلط پوری طرح قائم کر چکے تھے اور شوق سے سحری تیار کرتے تھے۔
ایک برس تراویح ہم نے ایک آسٹریلیائی مسلمان حافظ کے پیچھے پڑھی کہ ان کے والدین لبنان سے ترک وطن کر نے یہاں آ آباد ہوئے تھے اور ان کی مادری زبان عربی ہونے کی بدولت انکو قرآن سے محبت ورثہ میں ملی تھی۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پورے آسٹریلیا میں مساجد میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کی نماز کا بھی بندوبست دیکھنے کو ملا۔ اور یہ نہایت اچھا انتظام تھا۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہمارے مُصلہ میں بھی خواتین نماز کے لئے آتی تھی تو اس میں سہولت کا پہلو زیادہ ہے۔ وطن میں بھی ہم نے چند مساجد دیکھی ہیں جہاں یہ سہولت مہیا کی جاتی ہے مگر اس قدر عام نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنا دین اپنے ہاتھوں سے مذہب کے ٹھیکیداروں کو دے دیا ہے اور ان کے فیصلوں پر راضی برضا ہیں، جبکہ قیامت کے روز اس بات کے جوابدہ ہم خود ہوں گے کہ ہم نے اپنے دین پر عمل قرآن اور سنت سے ہٹ کر کیوں کیا۔
آخری رمضان میں ہمارے گھر کے مکین بدل چکے تھے اور حافظ عمار انیس ہمارے ساتھ رہنے آگئے تھے۔ تو ان کی امامت میں ہم نے اپنے سڈنی کے قیام کے آخری ایام کی تراویح پڑھی۔ ان کی رفتار اور روانی خاص دیسی حفاظ والی تھی کہ آواز سے زیادہ روشنی کی رفتار کا ساتھ دیتے اور کلام بھول جاتے پھر واپس پلٹے اور درست کرتے۔ یوں بیس رکتیں ادا ہوتیں۔
جھلکیاں
ایک رمضان ہماری پسندیدہ گلوکارہ شریا گھوشال سڈنی میں کانسرٹ کرنے آئیں مگر ہم ان کا پروگرام نہ دیکھ پائے اور اپنے شیطان کو قید ہی رہنے دیا۔
ایک بار افطار کے انتظام کی خاطربازار سے خود بریانی لینے گئے۔
پاکستانیوں کی جانب سے جامعہ میں چندہ بھی جمع کیا اور افطار کا اہتمام کیا۔
سڈنی سے وطن واپسی براستہ کوالالمپور تھی، اب کی بار ہماری شدید بُنیاد پرستی ختم ہوچکی تھی اس لئے ہم نے سفر میں روزہ نہ رکھا۔