Saturday, March 25, 2023

رمضان سڈنی میں

 ہمارے مستقل قارئین اس بات سے واقف ہیں کہ ہم سن دو ہزار نو سے دو ہزار گیارہ تک سڈنی میں رہے، یہ دورانیہ پورے چوبیس ماہ کا تھا کیونکہ ہم اگست کے مہینہ میں وہاں گئے تھے اور اگست میں ہی واپس وطن آئے تھے۔ اُن دنوں روزے بھی  اگست میں تھے۔ یوں مسلسل تین رمضان ہم وہاں تھے۔  اس بلاگ کا متن گو کہ پرانے بلاگز پر ہی مشتمل ہے لیکن ہمارا بلاگ ہماری مرضی کے مصداق ہم اسے نئے انداز میں پیش کر رہے ہیں ۔

بالکل شروع کے روزے تھے جب ہم سڈنی پہنچے۔ بلکہ جس دن ہماری پرواز برائے دوبئی تھی اسی شام وطن عزیزمیں پہلے روزہ کا اعلان ہوا تھا۔ پرواز سے پہلے ہی کراچی کے ہوائی اڈہ پر امارات ہوائی باز ادارے والوں نے سحری کا بندوبست کیا ہوا تھا۔ ہم نے جہاز کی روانگی سے قبل سحری کرلی اور دوبئی سے سڈنی کی پرواز میں روزے سے ہی رہے۔ اس پرواز میں فضائی میزبان نے ہمارے روزے کا خیال رکھا اور دوران پرواز افطار کا اہتمام کیا، کھجوروں کی رکابی اور دودھ کے جام کے ساتھ روزہ کھُلوایا گیا اور نماز مغرب کے بعد پُرتعیش عشائیہ پیش کیا گیا۔

سحری ہم نے سڈنی کے قریب کی جب جہاز میں ناشتہ کا وقت ہوا۔ یوں سڈنی اُترتے ہوئے ہم روزہ سے ہی تھے۔ اُن دِنوں ہم کچھ زیادہ ہی بنیاد پرست تھے اور سفر کے دوران روزہ  قضا کرنے کی سہولت سے استفادہ نہ کیا۔ خیرسڈنی پہنچے تو فہد الٰہی، احسن شیخ اور شہباز واڈی والا محض تین افراد گھرکے مکین تھے اور گھر نیا نیا کرایہ پر لیا گیا تھا۔ باورچی خانہ میں چیدہ چیدہ برتن اور لوازمات موجود تھے۔ افطارمیں ہمت کرکے پکوڑے بنائے اور جیسے تیسے روزہ کھول لیا۔ جب گھر سے چلے تھے تو محض چائے بنانا اور انڈا اُبالنا جانتے تھے اور واپس وطن آئے تو کھانا پکانے میں اتنے مشاق ہو چکے تھے کہ قورمہ اور بریانی بھی بنا لیتے تھے۔

سحری میں بھی مل جل کر فروزن پراٹھے اور انڈوں کی مدد سے روزہ رکھا گیا۔ یوں ابتداء میں ہم باورچی خانہ میں اتنے متحرک نہ تھے، مگر آہستہ آہستہ منکشف ہوا کہ ہمارے گھر والے کھانا پکانے میں ہم سے بھی گئے گزرے تھے۔ لہٰذا خود سے  باورچی خانہ میں قدم رکھنا پڑا۔ یاد رہے کہ سڈنی چونکہ جنوبی نصف کرہ میں واقع ہے اس لئے وہاں موسم ہمارے نصف کُرہ کے لحاظ سے بالعکس ہوتا ہے، ہمارے ہاں گرمیاں اپنے اختتام پر تھیں تو وہاں سردیاں ختم ہوا چاہتی تھیں اور بہار کی آمد آمد تھی۔ اس لئے روزہ خاصے کم دورانیہ کا ہوتا تھا۔

 محمود جامی نام کے ایک مصری اُن دِنوں جامعہ یو این ایس ڈبلیو میں مسلم مُصلہ کے کرتا دھرتا تھے۔ وہ اور اُنکا پورا خاندان اس عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا۔ مُصلہ اُس دور میں اَنزیک پریڈ سے متصل اِسکوائر ہاوس میں ہوا کرتا تھا جہاں مسلم طلبہ و طالبات نمازیں ادا کرنے آتے تھے۔ پہلی تراویح ہم نے عربوں کے طریقہ پر پڑھی اور خاصے حیران ہوئے کہ یہ بھی انداز ہوسکتا ہے عبادت کا۔ وطن میں تو ہم دین کی باتیں اور احکامات سُن سُن کر سُنّن بن ہی چکے تھے مگر دین کی صحیح سمجھ تب آئی جب اسے روایات اور ثقافت سے الگ کر کے دیکھا۔

مُصلہ پر ہر دوسرے روز کسی نہ کسی گروہِ طلبہ کی جانب سے افطار کا بندوبست کر دیا جاتا۔ کبھی ملائیشیا والے روزہ کھُلوا رہے ہوتے تو کبھی انڈونیشائی برادران۔ مزہ تب آتا جب سعودی عرب والوں کی باری آتی، اُن کے افطار کے اتنظام میں روایتی مہمان نوازی دیکھنے کو ملتی کہ جب دستر خوان بے شمار اور اعلٰی قسم کی اشیائے خورد و نوش سے بھر جاتا۔ ہم پاکستانی بھی پیچھے نہ رہتے اور بریانی کا خاص اہتمام کیا جاتا جسے کھانے کے شوق میں روزے خوروں سمیت گورے بھی دوڑے چلے آتے۔  بقول غالب

افطار صوم کی کچھ اگر دستگاہ ہو
اس شخص کو ضرور ہے روزہ رکھا کرے
جس پاس روزہ کھول کے کھانے کو کچھ نہ ہو
روزہ اگر نہ کھائے تو ناچار کیا کرے

عید پر چاند کی رویت کے لحاظ سے وطن والا تذبذب وہاں بھی دیکھنے میں آیا، عرب تو اُمت کے ساتھ عید مناتے کہ جب سعودی عرب میں عید ہو گی تو ہم بھی عید کر لیں گے، مگر ہم کیونکہ سائنس کے طالب علم ٹھہرے تو وہاں بھی چاند کی سائنس کھوجنے سے باز نہ آئے اور رویت کے مطابق ہی عید منائی۔ پہلی عید نماز بھی ہم  نے اپنی جامعہ میں ہی پڑھی۔ ایک بنگلہ دیشی مُصلہ نے یہ سہولت بھی دی ہوئی تھی کہ آپ دو میں سے کسی بھی دن عید نماز ادا کرسکتے ہیں، چاہیں تو سعودی عرب والوں کے ساتھ عید منا لیں یا چاند کی مقامی رویت کے مطابق۔


بلاگ میں لگائی گئی تصویرستمبر اسن دو ہزار نو کوعیدالفطر پر لی گئی تھی، دائیں سے بائیں، یاسر آفندی، احسن شیخ، حافظ عمار انیس، حسن علی،فہد الٰہی، راقم السطوراور شہباز واڈی والا۔

ستمبر سن دوہزار نو میں رمضان کے دوران ہی تابش خان کراچی سے ہمارے ساتھ رہنے تشریف لائے، یہ ہمارے تین ہم رہائش ارکان کے مشترکہ دوست تھے جو سب کے سب سزابسٹ کے گریجویٹ تھے اور اب یواین ایس ڈبلیو کا اسٹیکر لینے آئے تھے، جی ہاں ان سب کو کراچی میں جامعہ کے اسٹیکر نے موٹیویٹ کیا تھا۔ اور یہ پیسے جمع کر کے یہاں سند حاصل کرنے پہنچے تھے۔

خیر تابش سے جہاں باورچی خانے کے برتن اور دیگر اوزار کراچی سے منگوائے گئے وہیں انھیں لوٹا لانے کا بھی حکم دیا گیا۔ پہلے تو وہ مذاق سمجھے مگر جب انھیں بتایا گیا کہ گورا کیا جانے لوٹے کا استعمال تو وہ مان گئے اور ان کی آمد پرجہاں ان کا سامان کھولا گیا تو لوٹے کو خاص تکریم کے ساتھ ان سے لے کرغسل خانے کی زینت بنایا گیا کہ ہمیں بیت الخلاء اور غسل خانہ الگ الگ دستیاب نہیں تھے۔

اگر تو آپ جَدی پُشتی امیر ہیں تو آپ کے لئے وطن یا دیارِ غیر ایک ہی جیسا ہے لیکن اگر آپ ہماری طرح مڈل کلاسیئے ہیں تو جان لیں کہ دیار غیر میں آپ کا حال ویسا ہی ہوتا ہے جیسا کسی پناہ گزین یا نئے نئے مہاجر کا کسی اور ملک میں۔ اپنے ملک والی عیاشی اور مُلکوں میں نہیں ملتی، وہاں آپ کو اپنا بیت الخلاء بھی خود صاف کرنا پڑتا ہے اور  اپنے برتن بھی خود دھونے ہوتے ہیں۔ کپڑے دھونے ہیں تو ساتھ میں استری بھی کرنا ہوں گے، ورنہ دھوبی سے کرانے میں ڈالر خرچ ہوں گے۔ کھانا ایک آدھ بار تو باہر سے کھایا جا سکتا ہے مگر زندہ رہنے کےلئے مستقل باہر سے کھانا ممکن نہیں، یوں جن لڑکوں اور مردوں نے وطن میں ہوتے ہوئے اپنے اپنے گھروں میں ہِل کر پانی نہیں پیا ہوتا وہ بیرون ملک جاکر اپنا سب کام خود کر رہے ہوتے ہیں اور وہ وہ کام بھی کرتے ہیں جو ہمارے ہاں نوکر یا کام والی ملازماوں سے ہی منسوب ہیں۔ یہاں ہماری جھوٹی شان و شوکت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرہ میں ان کاموں کو چھوٹا اور معیوب جانا جاتا ہے جبکہ باہر یہ کام ضرورت اور وقت پڑنے پر کرنے میں ہم  کوئی شرم محسوس نہیں کرتے تو گویا ہم نے اپنے معاشرے کی بُنیاد ہی کھوکھلے پن پر رکھی ہے۔ ہمارا مقصد اصلاح معاشرہ کا نہیں مگر قارئین کو سوچنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں کہ جب نبی پیغمبر اپنے ذاتی کام اپنے ہاتھوں سے کیا کرتے تھے تو ہم کس کھیت کی مولی اور گاجر ہیں کہ ہماری گردنوں کا سریہ اور کمر کا درد ہی ختم نہیں ہوتا جبکہ ہم اپنے قدموں سے زمین کو پھاڑ بھی نہیں سکتے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ ان کاموں کے لئے نوکر نہ سہی گھر کی خواتین تو ہیں جن میں ماں، بہن، بیوی اور بیٹی سب شامل ہیں کہ ان کا فرض ہے کہ وہ گھر کے مردوں کی خدمت کریں۔ وہ بھی اس میں خوش ہیں کہ اپنے گھر والوں کے آرام کا خیال کر رہی ہیں، لیکن در حقیقت انھیں ناکارہ بنا رہی ہیں کہ اُن کی جھوٹی مردانہ وجاہت اور انا کو ٹھیس پہنچ جائے گی اگر وہ اپنا کام خود سے  کر لیں گے۔ ہمارے ہاں وہ مرد اقلیت میں ہیں جنھوں نے کبھی اپنی بہن کوناشتہ بنا کر دیا ہو یا بخوشی اپنی بیگم کو فل کورس میل نہ سہی ناشتے میں انڈہ ہی تل کر دیا ہو۔

افطار تو ہم اجتماعی طور پر کر لیتے تھے مگر سحری خود سے کرنی پڑتی تھی، کیونکہ سردیوں کے روزے تھے تو انڈوں کی شامت آتی تھی۔ ایک بنگلہ دیشی کے دیسی اسٹور سے ہمارا ہفتہ بھر کا سودا آتا تھا ، جس بازار میں یہ اور اس جیسے دیگر پنساری دوکان کرتے تھے کچھ کچھ کراچی کے گول مارکیٹ کی پرچون کی دوکانوں کا منظر ہوتا تھا، مگر یہ گول مارکیٹ صفائی اور سلیقہ میں انگریز ہی تھی۔ یہاں شان کے مصالحے، اچار و چٹنی سب مل جاتا تھا، روح افزا اور جام شیریں بھی دستیاب تھے۔ اس حوالے سے بے وطنی کا احساس قطعی نہیں ہوا۔ تو سحری میں ہم دو دو فروزن پراٹھے بنا لیتے اور فی کس دو دو انڈے آدھے تلے جاتے یعنی سنی سائیڈ اپ کرکے ایک ایک لسی کے جام کے ساتھ سحری کی جاتی۔ اس قدر دیسی سحری میں پیش پیش محمد عمران تھے جو پہلے رمضان کے بعد سے ہمارے گھر کے مکین بنے تھے، اس دوران ہم باورچی خانہ پر اپنا تسلط پوری طرح قائم کر چکے تھے اور شوق سے سحری تیار کرتے تھے۔

ایک برس تراویح ہم نے ایک آسٹریلیائی مسلمان حافظ کے پیچھے پڑھی کہ ان کے والدین لبنان سے ترک وطن کر نے یہاں آ آباد ہوئے تھے اور ان کی مادری زبان عربی ہونے کی بدولت انکو قرآن سے محبت ورثہ میں ملی تھی۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پورے آسٹریلیا میں مساجد میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کی نماز کا بھی بندوبست دیکھنے کو ملا۔ اور یہ نہایت اچھا انتظام تھا۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہمارے مُصلہ میں بھی خواتین نماز کے لئے آتی تھی تو اس میں سہولت کا پہلو زیادہ ہے۔ وطن میں بھی ہم نے چند مساجد دیکھی ہیں جہاں یہ سہولت مہیا کی جاتی ہے مگر اس قدر عام نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنا دین اپنے ہاتھوں سے مذہب کے ٹھیکیداروں کو دے دیا ہے اور ان کے فیصلوں پر راضی برضا ہیں، جبکہ قیامت کے روز اس بات کے جوابدہ ہم خود ہوں گے کہ ہم نے اپنے دین پر عمل قرآن اور سنت سے ہٹ کر کیوں کیا۔

آخری رمضان میں ہمارے گھر کے مکین بدل چکے تھے اور حافظ عمار انیس ہمارے ساتھ رہنے آگئے تھے۔ تو ان کی امامت میں ہم نے اپنے سڈنی کے قیام کے آخری ایام کی تراویح پڑھی۔ ان کی رفتار اور روانی خاص دیسی حفاظ والی تھی کہ آواز سے زیادہ روشنی کی رفتار کا ساتھ دیتے اور کلام بھول جاتے پھر واپس پلٹے اور درست کرتے۔ یوں بیس رکتیں ادا ہوتیں۔

جھلکیاں

ایک رمضان ہماری پسندیدہ گلوکارہ شریا گھوشال سڈنی میں کانسرٹ کرنے آئیں مگر ہم ان کا پروگرام نہ دیکھ پائے اور اپنے شیطان کو قید ہی رہنے دیا۔

ایک بار افطار کے انتظام کی خاطربازار سے خود بریانی لینے گئے۔

پاکستانیوں کی جانب سے جامعہ میں چندہ بھی جمع کیا اور افطار کا اہتمام کیا۔

سڈنی سے وطن واپسی براستہ کوالالمپور تھی، اب کی بار ہماری شدید بُنیاد پرستی ختم ہوچکی تھی اس لئے ہم نے سفر میں روزہ نہ رکھا۔

Sunday, February 12, 2023

امجد اسلام امجد کی یاد میں

 

ہمیں جب اردو شعر و ادب کی سمجھ آنا شروع ہوئی اور اشعار یاد ہونے لگے تو 'اگر کبھی میری یاد آئے'، 'گلاب چہرے پہ مسکراہٹ، چمکتی آنکھوں میں شوخ جذبے' اور 'ایک کمرہ امتحان میں'، منہ زبانی دھرایا کرتے اور سر دھنا کرتے کہ میر اور غالب کا مقام اپنی جگہ مگر امجد ہمارے عہد کے شاعر تھے اور آپ بیتی کو جگ بیتی بنانا خوب جانتے تھے کہ بقول غالب، میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔ دورِ حاضرکی نسل کی کول زبان میں بیان کریں تو امجد اسلام امجد ہمارا چائلڈ ہوڈ کرش تھے۔

جامعہ کراچی میں طالب علمی کے زمانے میں ہماری دلی مراد بھر آئی جب انھیں روبرو سُنا اورپھر بارہا ساکنان شہر قائد کے سالانہ مشاعروں میں ان کے کلام سے محظوظ ہوئے ساتھ ہی انکی کتب پر انکے دستخط بھی لئے۔ اُنکا مشفقانہ اور دھیما انداز انکی انسان دوست شخصیت کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ جب بھی انکی شاعری کی نئی کتاب آتی ہم خود سے خرید کر اسے پڑھتے، ان میں سے موجود بعض کتب اب ہماری اولاد پڑھتی ہے۔

جہاں 'سیلف میڈ لوگوں کا المیہ' اور 'تو چل اے موسم گریہ' نے اردو شاعری میں تہلکہ مچایا وہیں 'زندگی کے میلے میں، خواہشوں کے ریلے میں' بھی زبان زد خاص و عام رہی۔ 'اسے بھول جا' کی طویل بحر ہو یا 'تمہیں نکال کے دیکھا تو سب خسارہ ہے' کی ترکیب، انکے کلام کا ہر ہر حرف خود بخود نظروں یا سماعتوں سے گزر کر دماغ سے ہوتا ہوا دل میں جا پیوست ہوتا۔ حال ہی میں انکی ایک تازہ نظم 'اے میرے دوستوبھلے لوگو' ہمارے معاشرے میں موجود عدم برداشت کی عکاسی کرتی ہے اور اس بات کا درس دیتی ہے کہ جس معافی یا سہولت کو ہم اپنا استحقاق سمجھتے ہیں وہی رعایت اگر دوسروں کو بھی دے دیں تو دنیا امن کا گہوارہ بن جائے۔

'موسم میرے دل کی باتیں تم سے کہنے آیا ہے' جیسی سطر یا 'محبت ایسا دریا ہے کہ بارش روٹھ بھی جائے تو پانی کم نہیں ہوتا' جیسا خیال امجد کے سوا کسی اور کا نہیں ہوسکتا۔ ان کے کلام کی نزاکت، ندرت، اچھوتے پن اور بے ساختگی کی مثال کہیں اور ملنا مشکل ہے۔ جو تھوڑی بہت بھی امجد فہمی رکھتا ہے وہ بخوبی ان کے کلام کو دیگر شعراء کے کلام سے ممتاز کر کے دیکھ اور پہچان سکتا ہے۔

ہم طبیعات کے مدرس ہونے کے دوران گاہے بگاہے طلبہ کو اشعار سُنایا کرتے تھے، ایک بار انکی نظم 'محبت کی طبیعت میں یہ کیسا بچپننا قدرت نے رکھا ہے' پری میڈیکل کے بارہوں جماعت کے سیکشن میں منہ زبانی سُنا ڈالی اور نئی نسل کو امجد کے تخیل پرواز سے روشناس کرایا۔

'علی ذیشان کے لئے ایک نظم' میں انھوں نے نئی نسل کو مخاطب کیا ہے اور عرفان یعنی خود آگاہی کے اس لمحہ کی بات کی ہے جو ہر کسی کے لئے الگ اور منفرد تجربہ ہو تا ہے۔  

ہم امجد کی شاعری پر لکھتے چلے جائیں گے اور ورق تمام ہوتے جائیں گے۔ خرم سہیل نے لکھا ہے کہ امجد کی خواہش تھی کہ وہ تاریخ کے اوراق میں بحیثیت شاعر زندہ رہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ انکی یہ خواہش بجا تھی اور اردو ادب اس پر فخر کرے گا کہ اسے امجد اسلام امجد جیسا شاعر ملا۔

انکے انتقال پرجہاں ہم افسردہ ہیں کہ خوبصورت لفظوں کا ایک با کمال خالق اس دنیا سے رخصت ہوا وہیں ہمیں اس بات کا بھی دکھ ہے کہ پچیس فروری کو ہونے والے مشاعرہ میں وہ موجود نہیں ہوں گے اور ہماری اولاد انھیں پہلی بار روبرو دیکھنے اور سُننے سے محروم ہو گئی۔

وہ یقینا چاند راتوں کی نرم دلگیر روشنی میں ستارہ بن چکے ہیں جو نہ صرف اپنا اجالا رکھتا ہے بلکہ مسافروں کے لئے بھی چراغ منزل کا کام کرتا ہے۔

حق مغفرت کرے۔  

Friday, October 23, 2020

فریدی سیریز پر تبصرہ

 ہمارا پچھلا بلاگ ابن صفی کی عمران سیریز پر تھا، اس بار ہم انکی فریدی سیریز پر بات کریں گے۔

ابن صفی اپنے ہر ناول کا دیباچہ پیشرس کے عنوان سے لکھا کرتے تھے۔ اپنے ابتدائی دور کے ایک پیشرس میں وہ لکھتے ہیں کہ ان کے زمانے میں زیادہ تر مصنفین اردو میں ریوایتی عشق و محبت کی داستانوں کو بیان کرتے تھے یا بازاری قسم کے گھٹیا ناولز عام تھے۔ گنتی کے لکھاری انگریزی یا دیگر زبانوں کے شاہکاروں کے تراجم کرتے تھے مگر سری یعنی جاسوسی ادب اردو میں ناپید تھا۔ ایک محفل میں انھیں کسی بزرگ ادیب نے یہ کہ کر ٹہوکا دیا کہ میاں جاسوسی ادب اردو میں صرف جنسی کہانیوں میں ہی ملتا ہے۔ 
ابن صفی نے اس بات کو ایک چیلنج کے طور پر قبول کیا اور کمال احمد فریدی جیسا لازوال کردار تخلیق کر ڈالا۔ فریدی کہ جو شروع کے ناولز میں اپنے ارتقائی مراحل سے گزرتا ہے، اولا انسپکٹر فریدی کہلاتا ہے اور ترقی کر کے اعزازی طور پر کرنل بنا دیا جاتا ہے، چھوٹے موٹے مجرموں پر ہاتھ نہیں ڈالتا مگر ام اور ملک دشمنوں کو کہیں کا نہیں چھوڑتا۔ اعصابی جنگ ہو یا ہاتھ پیر چلانے ہوں، ہیلی کاپٹر اڑانا ہو یا پیرا شوٹ سے چھلانگ لگانا ہوں وہ ہر میدان میں اپنا لوہا منوایا نظر آتا ہے۔ سنگ ہی آرٹ کی بدولت گولیوں سے بچتا ہے تو میک اپ اور آواز بدلنے کے فنون کے باعث کوئی بھی روپ دھارنے کی مہارت رکھتا ہے۔ سانپوں کو پالتا ہے اور اپنی کوٹھی میں سانئنسی تجربہ گاہ بھی رکھتا ہے، مطالعہ میں غرق ہوتا ہے تو اپنے کتب خانہ میں گھنٹوں بسر کر لیتا ہے۔ ڈانس فلور پر ہوتا ہے تو دیسی بدیسی رقص کی تمام حرکات و سکنات انجام دے ڈالتا ہے۔ غرض انگریزی مقولہ یو آسک فار اٹ، وی ہیو اٹ کے مصداق کبھی بھی کچھ بھی کر سکتا ہے۔
اس کا ساتھی سارجنٹ ساجد حمید جو بعد میں کیپٹن حمید کے نام سے جانا جاتا تھا، کسی طور بھی کرنل فریدی سے کم نہیں۔ کرنل فریدی کو اپنے بڑے بھائی اور باپ کا درجہ دیتا ہے بلکہ پیار سے فادر ہارڈ اسٹون کہتا ہے۔ ہارڈ اسٹون اس وجہ سے کہ فریدی صنف مخالف سے جتنا دور بھاگتا ہے حمید اتنا ہی لڑکیوں میں مقبول ہے اور ان سے ہمہ وقت دوستی کا خواہاں رہتا ہے۔ مگر یہ دونوں کردار اپنی طبیعتوں میں تضادات کے باوجود ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ فریدی مجرموں کے لئے یقینا ہارڈ اسٹون ہے مگر حمید کو اگر ذرا سی بھی خراش آجائے تو ایک پر شفقت باپ اور زخم دینے والوں کے لئے بھوکا شیر بن جاتا ہے۔
ان دونوں میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ علی عمران کی طرح یہ دونوں بھی صنف مخالف پر بری نظر نہیں ڈالتے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک ناول میں کیپٹن حمید کو ایک کیس میں کسی لڑکی کے ساتھ میک اپ میں ایک ہی کمرے میں مجبورا رات گزارنا پڑتی ہے تو وہ نیند کی گولیاں کھا کر سو پڑتا ہے کہ رات میں کہیں اس سے کوئی اخلاق سے گری ہوئی حرکت نہ ہوجائے۔
ہمارے اس بلاگ کا مقصد فریدی اور حمید کے قصیدے بیان کرنا نہیں ہے بلکہ ہم ابن صفی کے قلم کو خراج تحسین پیش کرنا چاہتے ہیں کہ جس کی مدد سے انھوں نے نوجوان نسل کی کردار سازی کی۔
اگر آپ ہمارے بیان کی تصدیق کرنا چاہیں تو ان کے فریدی سیریز کے ناولز کا مطالعہ کر کے دیکھ لیں۔

Monday, September 21, 2020

عمران سیریز پر تبصرہ

جب سے پرانے گانوں کو نئے انداز میں پیش کرنے کا رواج ہوا ہے اس سے بھی پہلے سے کسی کے تخلیق کردہ کرداروں پر مشتمل کہانیاں لکھنے کا سلسلہ چلا آرہا ہے۔ سن اسی اور نوے کی دہائی میں جہاں ہم مرحوم اشتیاق احمد کی انسپکٹر جمشید سیریز کے دلدارہ تھے وہیں مظہر کلیم کی عمران سیریز کے بھی رسیا تھے اور انہی کو اس کردار کا خالق سمجھتے تھے، بھولے بھالے دور کے معصوم قاری تھے نا، شاید اسی لئے۔
مگر جب شعور و آگاہی کی منازل طے کیں تو یہ عقدہ کھلا کہ علی عمران کا کردار جناب اسرار احمد المعروف ابن صفی مرحوم کی تخلیق ہے۔
ہم اپنے طالب علمی کے زمانے میں ابن صفی کے شاہکاروں تک رسائی حاصل نہیں کر پائے، مگر شادی بچوں اور نوکری کے بعد اکیسویں صدی میں انکی عمران سیریز کے تمام ناول پڑھ ڈالے۔
سن 1955 سے 1980 تک کے 25 برسوں میں انھوں نے 120 ناول لکھے جن میں مرکزی کردار علی عمران ہی تھا۔ 
ہم کیونکہ سائنس کے طالب علم ہیں اور ادب میں سائنس فکشن سے واقف ہیں اس لئے یہ بات پورے وثوق سے کہ سکتے ہیں کہ ابن صفی نے پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں جن سائنسی خیالات کو بطور فکشن پیش کیا وہ آج فیکٹ یعنی حقیقت کا روپ دھار چکے ہیں۔ مثلا ایک ناول میں عمران لکڑی کے ایک تختہ پر بجلی کے تاروں کی مختلف لمبائی سے اینٹینا بنا کر کسی کی گفتگو سننا چاہتا ہے۔ یہ خیال آج کی سائنس میں ملٹیپل اینٹینا ایرے کے طور پر موجود ہے جس کی مدد سے ایک مخصوص تعدد کا حیطہ یعنی فریکوئنسی رینج معلوم کیا جا سکتا ہے۔
ادبی اعتبار سے ان کے کرداروں کی تہیں ہیں۔ علی عمران کے کردار کی جہتیں ہر ناول میں ایک کے بعد ایک کر کے سامنے آتی ہیں۔ اگر اس سیریز کے ناول ترتیب وار پڑھے جائیں تو ان میں ایک ربط ملتا ہے جو قاری کو اس سلسلے سے جڑے رہنے پر مجبور کرتا ہے۔
سسپنس کی بات کریں تو ان کا انداز تحریر کسی بھی طور آگاتا کرسٹی سے کم نہیں، ایکشن میں بھی ابن صفی اپنے کرداروں کو مافوق الفطرت نہیں بناتے بلکہ انھیں زخم بھی لگتے ہیں اور وہ بے ہوش بھی ہوتے ہیں۔
بظاہر احمق نظر آنے والا علی عمران جہاں ایک طرف سوپر فیاض کو بلیک میل کرتا ہے تو دوسری طرف ایکسٹو کا کردار ادا کرتا ہے، ایک جانب اپنے باورچی سے مونگ کی دال بنانے پر واویلا کرتا ہے تو دوسری جانب جولیا کی چکنی چوڑی باتوں سے کوسوں دور بھاگتا ہے۔ لیکن ان تمام تضادات کے باوجود ایک چیز جو ان کے کرداروں کو دوسروں سے ممتاز بناتی ہے وہ ہمارے ادب میں موجود روایتی عشق و محبت سے فرار ہے۔ ان کے کرداروں بالخصوص علی عمران کا صنف مخالف سے کوسوں دور بھاگنا اور اپنے دامن کو پاک صاف رکھنا ایسے اوصاف ہیں جو ہمیں جیمز بانڈ جیسے کرداروں میں بھی نہیں ملتے، یہاں یہ نہ سمجھا جائے کہ ہم جیمز بانڈ پر تنقید کر رہے۔
کم کہے کو زیادہ جانیں اور اگر اب تک آپ ابن صفی کے ناول نہیں پڑھ سکے تو وقت نکال کر اول تا آخر پڑھ ڈالئے ہمارا دعوی ہے کہ بیسویں صدی کے ناول آپ کو اکیسویں صدی کے لکھے ہوئے لگیں گے۔
آئندہ ہم ابن صفی کی جاسوسی دنیا یعنی فریدی سیریز کا ذکر کریں گے۔

Monday, February 15, 2016

تصویرِ ہمدرداں ۔ جنے لہور نئی ویکھیا

پس منظر کے لئے گذشتہ بلاگ یہاں پڑھیں۔

یہ جنوری سن دو ہزار چار کے آخری ہفتے کا ذکر ہے کہ ہم بحیثیت انچارج اگزیمینشن سیل کے مسسز گلزار کے ساتھ لاہور روانہ ہوئے۔ اس سفر کا مقصد یہ تھا کہ حکیم صاحب کے نام سے جاری کردہ وظائف دینے کی خاطر لاہور کے ہونہاروں کا  تحریری اور زبانی امتحان لیا جائے اور فاونڈیشن کو نتیجہ ارسال کیا جائے۔ امتحانی پرچے خصوصی طور پر تیار کئے گئے تھے- میٹرک پاس اور انٹر پاس امیدواران کی فہرست کے مطابق پرچے اور امتحانی مواد ہم نے پیک کروا دیا تھا۔
چھبیس جنوری کی شام کو مسسزگلزار اور ہمیں، یامین ڈرائیور نے جناح انٹرنیشنل کے ڈومیسٹک ٹرمینل پر سرکاری گاڑی میں چھوڑا۔ یامین، ہمدرد میں چلتے پھرتے اخبار کا درجہ رکھتے تھے، صاحب لوگوں کے ڈرائیور ہونے کی وجہ سے ان سے ہم لوگ تفریحا یہ پوچھا کرتے کہ اب کے برس تنخواہ میں کتنا اضافہ متوقع ہے، یا  آج کل ایڈمینسٹریشن اور میڈم کے حالات کیسے چل رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ان کی گفتگو غور سے سننا پڑتی تھی کیونکہ انکے بولنے کا ایک خاص انداز تھا کہ وہ معمولی بات کو بھی غیر معمولی بنا دیتے تھے۔
پرواز کا وقت ساڑھے چھ بجے کا تھا مگر فنی خرابی کے باعث پینتیس منٹ کی تاخیر سے اڑان ہوئی۔ فضائی میزبان، عمر شریف کے لطیفوں کی ہو بہو تصویر تھیں کہ جن سے جام بھی طلب کیا جاتا تو تتے پانی کا مزہ دیتا۔ اس کے برعکس کھانا لذ یذ تھا۔ اتنے میں لاہور آن پہنچا اور ہمعلامہ اقبال کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر اترے جہاں سردی بارہ درجہ سینٹی گریڈ تھی۔ ہمارے استقبال کے لئے جناب علی بخاری صاحب موجود تھے، ان کا نام گو کہ ہمارے پی ٹی انسٹرکٹر الحاج اصغر علی بخاری سے ملتا ہے مگر ہمارے بخاری صاحب والی عادات ان میں مفقود تھیں۔
علی بخاری نے ہمیں گاڑی میں لادا تو ہم لوگوں نے چھوٹتے ہی کسی کتب خانہ جانے کی فرمائش داغ دی، اس پر انھوں نے ہمیں تحیر آمیز نگاہوں سے گھورا مگر لاہوری گرم جوشی کے ساتھ فرض میزبانی ادا کرتے ہوئے لالہ زار کتاب گھر پر گاڑی رکوائی، ہم وہاں انٹر، میٹرک کی ڈھیروں کتابیں خریدیں اور دو ہزار کا بل ایڈمنسٹریٹر حافظ پرویز صاحب کے لئے تحفتا رکھ لیا۔
ہمارا پڑاو مرکز ہمدرد، لاہور کی عمارت میں تھا۔ مسسز گلزار کو حکیم صاحب کے زیر استعمال رہنے والا کمرہ دیا گیا اور ہمیں اسی کمرے کے بالمقابل ٹھکانہ ملا۔ سامان وغیرہ ترتیب دینے کے بعد مسسز گلزار کے ساتھ خشک میواجات کی ضیافت اڑائی اور ہماری اور عمارت کی چوکیداری پر مامور گارڈ کے تعاون سے چائے پی۔ آدھی رات کے قریب یہ سطور قلمبند کیں اور سو پڑے۔
اگلی صبح قریبا ساڑھے ساتھ بجے باقاعدہ بیدار ہوئے، میڈم کے ہاتھ کی بنائی کافی پی اور باہر نکل گئے، سردی ایسی تھی کہ اس سے لطف اندور ہوا جا سکتا تھا۔لب سڑک ایک مسجد کی محراب سے سمتوں کا تعین کیا تو پتہ چلا کہ مرکز ہمدرد کا مرکزی دروازہ مغرب کی جانب ہے جبکہ سڑک لٹن روڈ شمالا جنوبا گزرتی ہے۔
ہمدرد مرکز سے جنوبی سمت جو سڑک سیدھی نکلتی ہے وہ پرانی انارکلی جاتی ہے، ہم اسی سڑک پر واقع ایک چھوٹے سے 'شان ہوٹل' میں بیٹھے اور ناشتہ کیا۔
مسسز گلزار سےجو قارئین واقف ہیں انھیں انکی خصوصیات بتلانے کی ضرورت نہیں، پر نافاقف قارئین اتنا جان لیں کہ یہ  اپنے زمانے کی ٹیبل ٹینس کی قومی چیمپیئن ، تاریخ  کی استاد، سینٹ جوزف کالج کراچی کی پرنسپل اور کراچی کی پرانی رہائشی ہیں، خاصی دنیا دیکھ چکی ہیں اور خاصی پریکٹیکل خاتون ہیں۔ اردو میں انکی گفتگو محترمہ بینظیر بھٹو کی اردو کی یاد دلاتی ہے۔

جاری ہے

نوٹ: ان دنوں ہم انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا کی سہولیات سے محروم تھے اور سفروں کے دوران باقاعدہ ڈائری لکھا کرتے تھے۔ یہ بلاگ پرانی ڈائری کی مدد سے تحریر کیا جا رہا ہے۔

Tuesday, February 2, 2016

تصویر ہمدرداں،قصہ معروضی امتحانات کا

اس سلسلے کا آخری بلاگ ہم نےپانچ برس پہلے تحریر کیا تھا۔آج اس سلسلہ کو دوبارہ شروع کرتے ہیں اور گردش ایام کو پیچھے کی طرف دوڑاتے ہیں۔
حکیم محمد شہید کی یاد میں ہمدرد فاونڈیشن نے میٹرک اور انٹر پاس طلبہ و طالبات کے لئے دو دو سالوں کے وظیفہ کا اعلان کیا تھا، پہلے سال یہ وظیفے صرف کراچی کے طلبہ و طالبات کو دیئے گئے، بعد میں ان کا دائرہ لاہور اور پشاور تک بڑھا دیا گیا۔ بورڈ کے سالانہ امتحان میں اعلٰی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں اور معاشی اعتبار سے مستحق طلبہ و طالبات کو یہ وظائف دیئے جانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ سن ۲۰۰۳ کے آخری ایام کا ذکر ہے کہ مسز گلزار کے پاس فاونڈیشن سے خط آیا جس میں ان وظاِئف کی تفصیل تھی اور ان سے سفارشات طلب کی گئی تھیں کہ متذکرہ وظائف کس طور پر دیئے جائیں؟ ہم ان دنوں کالج اور اسکول میں معروضی سوالات پر مشتمل کوئز کرانے میں ماہر ہو چکے تھے اور مسسز گلزار نے ہمیں داخلہ امتحان اور معروضی مقابلوں کا انچارج بنا دیا تھا۔
سن ۱۹۹۸ میں جب ہم ہمدرد میں استاد ہوئے تھے کالج میں داخلے محض امیدوار کا روبرو انٹرویو لینے پر ہوا کرتے تھے۔ ہمارے ہمدرد میں قدم جمنے کے بعد، محترم طارق ظفر اور محترم حسن احمر کے مشورہ پر یہ ہم ہی تھے جنھوں نے مسسزگلزار سے ایک فیلڈ ٹرپ کے دوران یہ بات منوائی کہ آئندہ کالج کے داخلے تحریری امتحان کے بغیر نہیں ہوں گے۔
پنجابی کی کہاوت ہے کہ 'جیہڑا بولے اوہی کنڈا کھولے'، سو مسسز گلزار نے ہمیں یہ ذمہ داری سونپی کہ تحریری امتحان کا مواد تیار کرو۔ ہم نے ہر مضمون کے استاد سے معروضی سوالات تیار کروائے اور انھیں کمپیوٹر پر منتقل  کر کےان کے جوابات کی الگ کنجی یعنی 'کی' وضع کی۔ یہ ساری ڈیزائنگ ہماری تھی۔ عزیزم صالح جتوئی سے ہم نے ایک ٹرانسیرنسی بنوائی جو جوابات کے نشانات پر مشتمل تھی کہ اسکی مدد سے جوابی پرچہ میں الف، ب، ج، د، پر لگائے گئے امیدوار کے نشانات با آسانی جانچے جا سکتے تھے اور محض چند لمحوں میں صحیح جوابات کی گنتی ہو سکتی تھی۔
اس ساری تفصیل کے بیان کرنے کے دو مقاصد ہیں اول یہ کہ آئندہ کے بلاگز کا پس منظر واضح ہو سکے اور دوسرا یہ کہ ہم پندرہ سولہ برس پہلے کی بات کر رہے ہیں کہ جب ہمدرد اسکول میں کمپیوٹر گنتی کے تھے اور انٹرنیٹ ندارد تھا۔ مزید یہ کہ کالج کی عمر تین چار برس تھی سو جو نظام وضح کیا جا رہا تھا وہ عدم سے وجود پا رہا تھا اور اس میں مسسز گلزار کا ہم پر اعتبار شامل تھا۔
جب یہ سارا عمل پایہ تکمیل تک پہنچا تو ہم نے داخلہ فارمز کی بھی فہرست تیار کی اور امیدواران کی تعداد اور منتخب کردہ مضامین کے مطابق پرچوں کی کاپیاں تیار کروائیں اور تحریری امتحان کے مکمل لوازمات کے ساتھ امتحان منعقد کیا۔ ممتحن کی ڈیوٹیز اور امتحانی ہالز کے نمبر تک ہم نے خود ترتیب دیئے۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ نتیجہ اسی دن مرتب دیا۔
اس ابتدائی معروضی طرز کے امتحان کی کامیابی کے بعد مسسز گلزار نے ہمیں زبانی اور معاشی داد کےساتھ ساتھ یہ ذمہ داری مستقل طور پر سونپ دی۔ ہم تحریری معروضی  کوئز کرانے کے انچارج مقرر کر دیئے گئے اور اس کام کا ماہانہ معاوضہ ہماری تنخواہ میں شامل کردیا گیا۔ اس وقت ہم سمیت تمام اساتذہ تنخواہ کے ہندسوں کو کوئی خاص اہمیت نہ دیتے تھے بلکہ کام کرنا چاہتے تھے یہی وہ خلوص تھا کہ جو ہمدرد کی بنیادوں میں حکیم صاحب کے ہاتھوں بھرا تھا۔ ہم کبھی بھی اپنے آپ کو ملازم نہیں سمجھتے تھے کیونکہ مسسز گلزار تمام اساتذہ کو ایک کنبہ کی مانند رکھتی تھیں۔ اسلئے کوئی نوکری نہیں کرتا تھا بلکہ دل سے کام کرتا تھا۔
آنے والے برسوں میں داخلہ امتحان کے علاوہ ہر جماعت اور کلیہ کے مطابق معروضی طرز امتحان کے الگ الگ پرچے تخلیق کر لئے گئے اور ان کا تمام ریکارڈ ترتیب دیا گیا، حتٰی کہ ہر پرچے کا الگ نمبر شمار اس پر درج ہوتا تاکہ کوئی مواد ادھر ادھر نہ ہو سکے۔

اس تمام پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے قارئین اگلے بلاگ کا انتظار فرمائیں۔