Wednesday, December 22, 2010

بچوں کی تقاریر

اپنے بچوں کو اُنکے اسکول کی طرف سے دی گئی تقاریر کی تیاری کیلئے اس بلاگ میں بالترتیب صاحبزادے محمدعلی اورصاحبزادی وجیہہ فاطمہ کی تقاریر کا متن دیا جارہا ہے۔ قارئین بھی اپنے اردگرد کسی بچے کو ان موضوعات پر تقاریر تیار کروانے میں ان سے مدد لے سکتے ہیں۔
نوٹ: یہ تقاریر اُنکےاساتذہ کی تخلیق ہیں جو کے-جی اور دوم درجوں کیلئے لکھی گئی ہیں ،ہم محض انھیں یہاں پیش کر رہے ہیں۔  

علی کی تقریر
محترمہ پرنسپل صاحبہ، معزز اساتذہ کرام اور میرے پیارے ساتھیو
اسلام علیکم
مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ، زبان، منہ اور جسم کے تمام اعضاء لاالہ کا ورد کرتے ہوں، جس کے دل، سینے اور جگر میں اللہ کا عشق جاگتا ہو۔
ہمارے تمام اعضاء اللہ تعالٰی کے مالک ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔ اچھا مسلمان وہی ہے جو اپنے رب کو اپنے اندر بسا لیتا ہے۔ جب اذان کی آواز سنائی دے تو مسجد کی طرف دوڑتا ہے، رمضان کے مہینے میں اُس ایک رب کیلئے بھوکا پیاسا رہتا ہے جو دنیا جہان کا مالک ہے۔
میں نے تیری آنکھوں میں پڑھا ہے اللہ ہی اللہ
سب بھول گیا ہوں  یاد ہےبس اللہ ہی اللہ
شکریہ

وجیہہ کی تقریر
محترمہ پرنسپل صاحبہ، قابل اساتذہ کرام اور میرے پیارے ساتھیو
اسلام علیکم
آج جس موضوع پر میں آپ کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہ رہی ہوں وہ ہے صفائی۔
میرے عزیز ساتھیو، ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہمارے لئےبہترین نمونہ ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناصرف خودصاف ستھرے رہتےتھے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ صفائی نصف ایمان ہے۔ اس کا یہ مطلب  ہے ساتھیوکہ اگر ہم صفائی کا خیال نہ رکھیں تو ہمارا آدھا ایمان ایسے ہی ضائع ہوجائےگا۔
میرے عزیز ساتھیو،صفائی سے مراد صرف جسمانی صفائی نہیں بلکہ اردگردکے ماحول کوصاف رکھنابھی ہماری ذمہ داری ہے۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنا چاہوں گی کہ قدرت نے انسان کی طبیعت میں نفاست اور صفائی رکھی ہے، اس لئے سب کو وہی لوگ اچھے لگتے ہیں جو صاف ستھرے ہوں۔
آخر میں اپنی تقریر کا اختتام اس شعر پر کرنا چاہوں گی
صفائی وپاکی ہے مومن کے ایمان کا حصہ
جو خیال نہیں رکھتےوہ اہلِ ایمان نہیں ہوتے
شکریہ

Sunday, December 19, 2010

انوکھا ساتھی

وہ جب سے اِس فوجی ہسپتال میں داخل ہوا تھا باہر کی دنیا سےکٹ کر رہ گیا تھا۔ اسکا وجود خود اس کے اختیار میں نہ تھا اور دو بستر کے  اس چھوٹے سے کمرے میں قیدتھا کہ جہاں نرس اسکی تیمارداری کرتی اور دوا وغیرہ پلاتی تھی۔وارڈ بوائے دو ساتھیوں کی مدد سے ہر دوسرے دن اسکے بستر کی چادر بدلتے تھے اور ڈاکٹر ہر چھ گھنٹوں کے بعد اسکا معائنعہ کرتے اور دوا تجویز کرتے۔ اسکے دستہ کے جوان بھی اسکی عیادت کو آتے تھے۔ بظاہرسب معمول کے مطابق تھا مگر امن مشن کے اس فوجی ہسپتال میں کوئی اپنا اسکا پُرسانِ حال نہ تھا کیونکہ وہ اپنے گھر اور وطن سے دُور دیارِ غیر میں خدمات انجام دے رہا تھا۔ فرائض کی ادائگی کے دوران اسے اسقدر گہری چوٹ آئی تھی کہ اسکا پوراجسم مفلوج ہو گیا تھا اور وہ فقط اپنی گردن ہلاسکتا اوربات چیت کرسکتا تھاگویااُسکا ذہن مکمل طور پر ٹھیک تھا اورجسم اپاہج۔

باہر کی دنیا سے اسکا تعلق اس کمرے میں ایک ہی کھڑکی کی بدولت تھا جو دوسرے بستر کی جانب تھی اور اس سے آنے والی ہوا اور پرندوں کی چہچہاہٹ سے اسے زندگی کا کسی حد تک اندازہ ہوتا تھا۔ زندگی کہ جو کبھی اس نے بھی گزاری تھی اس کسمپرسی کی حالت سے بہت بہتر تھی۔ اب تو وہ محض اس زندگی کا تصور ہی کر سکتا تھا اوراپنی جسمانی حالت کی وجہ سے  کافی مایوس ہو چکا تھا۔ طرح طرح کے وسوسے اسے تمام وقت گھیرے رہتے کہ کبھی وہ اپنے پیاروں سے مل بھی سکے گا یا انکے دِیدار کے بِنا ہی اسے اس دنیا سے جانا ہوگا، اسکی ریڑھ کی ہڈی کا آپریشن کیا گیا تھا اور ڈاکٹر اسے تسلیاں تو دیتے کہ وہ ٹھیک ہو جائے گا مگر اسے یہ ساری تسلیاں اور دلاسے جھوٹے لگتے تھے۔ وہ اپنے اندر جینے کی اُمنگ کو ہی مار بیٹھا تھا۔
اسکے یہاں آنے کے  چند دنوں کے بعد اسکے کمرے میں ایک اور مریض کو لایا گیا یہ بھی فوجی تھا جو کہ اسی کی طرح غیر مقامی تھا اور اسکا ہم وطن بھی نہ تھا۔ اس نئے مریض کو دوسرے بستر پر جگہ ملنے سےاسے  ایک غمگسارمیسر آگیا۔اس نئے مریض کی دائیں ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی جس پر پلستر چڑھا تھا اور یوں وہ چل پھر نہ سکتا تھا، نیا مریض کافی خوش مزاج تھا اور بہت اچھی اچھی باتیں کرتا تھا۔ دونوں کی جلد ہی دوستی ہو گئی۔ نیا مریض اسے روزانہ نت نئے قصے سناتا اور اسکا جی بہلاتا تھا۔ اس کی کھڑکی سے باہر کی دنیا کو دیکھنے کی حسرت کو بھی اس نئے مریض نے پورا کردیا تھا  کیونکہ نیا مریض اسے باہر کا منظر کسی کرکٹ کے کھیل کے رواں تبصرے کی طرح سناتا تھا " سامنے والے پارک میں مجھے بچے کھیلتے دکھائی دے رہے ہیں، مجھے انکی آوازیں تو نہیں آرہی ہیں مگر انکے چہروں کی چمک اور لبوں کی مسکراہٹ صاف دکھائی دے رہی ہے۔اِدھر ایک جوڑا بیٹھا آسکریم کھا رہا ہے اور اُدھر ایک ماں اپنے ننھے سے بچے کو گیند سے کھیلنا سکھا رہی ہے"
یہ اور ایسے کئی مناظر اس میں آہستہ آہستہ جینےکی  امنگ کو بیدار کرتے اور اِس نئے مریض کی باتیں اسکے ذہن پر خوشگوار اثر ڈالتیں۔یوں وقت گزرتا رہا اور اس کی حالت میں بہتری آتی گئی، اب وہ اپنی قوتِ ارادی کو کام میں لانے لگا تھا اور کسی قدر ہاتھ اور پاوں ہلا جلا سکتا تھا، مگر کمر کو نہیں موڑ سکتا تھا اور نہ ہی بستر سے اُٹھ سکتا تھا۔ ڈاکٹر پُر اُمید اور خوش تھے کہ وہ تیزی سے بہتری کی جانب جا رہا تھا۔ اسکا ساتھی نیا مریض بھی چند دنوں میں اپنے وطن بھیجا جانے والا تھا کیونکہ اسکے  ہم وطن فوجیوں کے دستے کو انکی حکومت نے واپس بُلا لیا تھا۔ ایک صبح جب وہ بیدار ہوا تو نئے مریض کو ساکت پایا، کمرے میں  نرس  اور وارڈ بوائے موجود تھے جنھوں نے اسکے منہ پر چادر ڈال دی ۔ اِس نے نرس سے دریافت کیا کہ اسکے ساتھی کو کیا ہوا تھا،نرس نے اسے بتایا کہ اچانک حرکتِ قلب کے رکنے سے اس نئے مریض کی موت واقع ہو گئی تھی، یہ خبر اسکے لئے ناقابلِ یقین تھی کہ ابھی رات ہی تو دونوں باتیں کرتے رہے تھے اور اب صبح اچانک ایسا ہو گیا تھا۔
اسکا کمرہ پھر سےخالی ہو گیا اوروہ دوبارہ تنہا ہو گیا تھا، مگر اب اسکی جسمانی حالت مزید بہتر ہو چکی تھی اور وہ اپنا اوپری جسم تکیے لگا کر اُٹھانے کے قابل تھا اور ہسپتال کے آہنی پلنگ کی ٹیک کا سہارا لے سکتا تھا۔ اسکی درخواست پر اسے کھڑکی کے ساتھ والے بستر پر منتقل کردیا گیا، بستر پر آنے کے بعد اس نے جیسے ہی کھڑکی سے باہر کا منظر دیکھا تو اسے  وہاں کوئی پارک دِکھا نہ کھیلتے بچے، وہاں تو محض گھنے درختوں کا جنگل تھا  جس سے پرندوں کی چہچہاہٹ آتی تھی۔اس نے نرس سے کہا کہ اسکا ساتھی تو اسے کھڑکی سے باہر کا منظر بتایا کرتا تھا نرس اسے حیرت سے تکنے لگی اور بولی "اوّل تو یہاں کوئی پارک نہیں ہے دوسرا یہ کہ تمہارا ساتھی مریض اپنی بینائی کھو چکا تھا، جنگی حادثے میں ایک گولہ لگنے سے اسکی آنکھوں کی بینائی جاتی رہی اور اونچائی سے گرنے کی وجہ سے وہ اپنی ٹانگ تُڑوا بیٹھا تھا"۔  ختم شُد
(ماخوذ)

Saturday, December 18, 2010

چاول خوروں کے نام

چاول کو متروک لغت میں چانول بھی کہا جاتا تھا، مگر اب اسے 'ن' کے بغیر ہی ادا کیا جاتا ہے۔ تاریخ دانوں کے مطابق اسکی کاشت کا آغار ہندوستان یا چین میں ہوا۔ اسکا  نباتاتی نام اورِیزا سَتِیواہےاور یہ اس پودے کا بیج ہوتا ہے۔ اسے اردو میں دھان بھی کہتے ہیں۔ غذائی اعتبار سے اِس میں اَسی فیصد نشاستہ، گیارہ فیصد پانی، سات فیصد لحمیات،ایک فیصد غذائی ریشہ اور بقیہ دیگر عناصر اور مرکبات شامل ہیں۔ اس تفصیل کے بیان کرنے  کا مقصد قارئین کو کوئی  نباتاتی سبق پڑھانا نہیں ہےبلکہ چاول کی اہمیت اور چاول خوروں کی اس سے محبت بیان کرنا ہے یہ غذائی حقائق تو محض تمہید کے طور پرتحریر کر دیئے گئے ہیں۔
پاکستان چاول کی کاشت اور صارفین کے اعتبار سےدنیا کے بارہ بڑے  ممالک میں شامل ہے۔لگتا ہے کہ ملکہ فرانس نے اپنی قوم کو چاول کھانے کا مشورہ دیا تھا کہ جسے بعد میں تاریخ دانوں نے کیک اور برگر سے بدل ڈالا۔ چاول خوشی اور غم دونوں طرح کی تقاریب میں یکساں مقبول ہے، پڑوس میں میّت ہو یا خاندان میں شادی، بچے کا عقیقہ ہو یا حج کی دعوت، کسی کی نسبت ٹھہری ہو یا کسی کے نکاح کی تقریب ہو دسترخوان، چاول کے بنا نامکمل ہے۔
اقسامِ طعام میں بھی اسکا کوئی ثانی نہیں ہے، میٹھااورنمکین دونوں طرح سے بنایا جا سکتا ہے۔ زردہ، کھیر، فِرنی،پلاو، بریانی، متنجن کچھ بھی بنا لیں اور مزے سے کھائیں۔گڑ والے چاول بھی اگر سادہ دہی کے ساتھ کھائے جائیں تو عجب لطف دلاتے ہیں۔
گُزرے وقتوں میں جب کسی کے پاس اچانک دولت آتی تھی تو وہ نَو دولتیابھی میٹھے چاولوں کی ضیافت دیا کرتا تھا، مگرآجکل تو ٹی وی کی بدولت ماہرینِ باورچی خانہ، جنھیں اردو میں خانساماں اور انگریزی میں شیف کہا جاتا ہےدیگر اقسام کے طعام کے ساتھ ساتھ چاول پر خاص طور پر ہاتھ صاف کرتے ہیں اور ایسا کوئی نہ کوئی پکوان ضرور ایجاد فرماتے ہیں جس کا ذائقہ بعد میں ناظرین کے گھر والوں کو بھگتنا پڑتا ہے اور کسی غلطی کی وجہ سے  چاولوں کا ضیاع الگ ہوتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ جب مغلیہ سلطنت  دہلیزِ زوال پر تھی اسوقت بھی مغلوں کے دسترخوانوں پردیگر پکوانوں کے علاوہ  بیسیوں طرح کے پکوان محض چاول کے ہی ہوتے تھے۔ گویا چاول حکومتوں کو زوال پذیری کی جانب دھکیلنے کا ایک سبب بھی ہیں۔
ہمارے ہاں سندھ میں گرمیوں میں ہم نے اپنے سندھی بھائیوں کو سندھڑی آم کے ساتھ بھی سادہ چاول کھاتے دیکھا ہے، اور ماضی کے مشرقی پاکستان کے باسی کس قدر چاول  پسند ہیں اس سے سب ہی بخوبی واقف ہیں کہ ہمارے یہ بنگالی بھائی مچھلی کے ساتھ چاول کھاتے ہیں۔
چند گھروں میں ظہرانہ ،دال اور چاول کےبغیر نا مکمل ہے اور چند افراد جن میں ہمارےکچھ دوست بھی شامل ہیں اسقدر چاول پسند اور خورے ہیں کہ ان کے ساتھ رہنے والے مہینے کی تاریخوں کا حساب بھی  چاول سے لگاتے ہیں کہ آج اٹھارہ روز سے گھر میں چاول بن رہے ہیں تو ضرور مہینہ کی بھی اٹھارہ تاریخ ہی ہو گی۔
شروع میں ہم نے یہ بتا دیا تھا کہ چاول میں نرا نشاستہ بھرا پڑا ہے تو اگر آپ چاول خورے ہیں تو پھر دُبلے ہونے کا خیال ذہن سے نکال دیں اور چاول کھائے چلے جائیں۔ ہم نےسُنا ہے کہ پُرانا چاول زیادہ لذیزہوتا ہے مگر ہمارے گھر میں چاول بچتا ہی کب ہے کہ پرانا ہو اور لذیز ہو سکےاور گوداموں سے تو ویسے بھی برآمد ہوکر کہیں سے کہیں پہنچ جاتا ہے سو ہم اس خیال سے روزانہ چاول نہیں کھاتے کہ کہیں مستقل قسم کے چاول خوروں کی دلشکنی نہ ہو۔ اُمید ہے کہ اس تحریر سےچاول خوروں کے جذبات مجروح نہیں ہوں گے۔

Wednesday, December 8, 2010

سن 1432ھ کےآغازپر

تمام عالمِ اسلام کو سال ہجری سن چودہ سو بتیس کی آمد مبارک ہو۔ اس نئے قمری برس میں اللہ تعا لٰی سے ہماری دعا ہے کہ تمام عالمِ اسلام کو اخوت ،امن اور سلامتی کے جذبات سے مالا مال کرے اور ہمیں اپنی گمشدہ میراث حاصل کرنے کی توفیق عطا کرے کہ جس کو گنوانے کی وجہ سے ہم ثرّیا سے زمین پر دےمارے گئے ہیں۔

سالِ نو کا آغازمحرم الحرام سے ہوتا ہے جبکہ اختتام ذوالحجہ پر۔ ان دونوں مہینوں میں کئی قدریں مشترک ہیں، دونوں ماہِ حرام ہیں اورایک ساتھ ملےہوئے ہیں، ذیل میں ان مہینوں کا ایک تقابل پیش کیا جارہا ہے۔
سال کا آخری مہینہ بھی قربانی،پہلا بھی قربانی
وہ بھی ماہ کی دس تاریخ کو، یہ بھی ماہ کی دس تاریخ کو
وہ بھی نبی کا لعل ،یہ بھی نبی کا لعل
اُنکی یادبھی مناتے ہیں، اِنکی یاد بھی بُھولا نہیں سکتے
 وہ ذبیح ِعظیم، یہ شہیدِعظیم
اُنھوں نے خواب نبھایا، اِنھوں نے وعدہء طفلی نبھایا
وہ صبر کی ابتدا، یہ صبر کی انتہا
وہ کعبہ کے بنانے والے، یہ کعبہ کو بچانے والے

حضرتِ اسمعیل علیہ اسلام کی فرمانبرداری کو کس خوبصورتی سے اقبال نے بیان کیا ہے کہ  
یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسمعیل (علیہ اسلام) کو آدابِ فرزندی

 آخر میں حضرت امام حُسین کو ہم ان الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں
ہر ابتداسے پہلے اور ہر انتہا کے بعد
ذاتِ نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) بلند ہے ذاتِ خدا کے بعد
 دنیامیں احترام کے قابل ہیں جتنے لوگ
میں سبکو مانتا ہوں مگر مصطفٰی(صلی اللہ علیہ وسلم) کے بعد
قتلِ حُسین (رضی اللہ تعالٰی عنہ) اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

Sunday, December 5, 2010

اپنے پانچ سالہ بیٹے کے نام

ہوسکتا ہے کہ قارئین کو یہ بلاگ بچگانہ لگے،مگر وطن سے دُور رہ کر اس خط کے ذریعہ اپنے پانچ سالہ بیٹے کو کچھ سمجھانےکی کوشش کی ہے۔

پیارے بیٹے محمد علی
اسلام علیکم
آج میں آپ کو ایک خط لکھ رہا ہوں جو آپ خود سے پڑھنا، اگر کوئی لفظ آپ سے نہ پڑھا جا سکے تو وجیہہ یا امی آپ کی مدد کریں گی۔ آپ روزانہ اسکول جاتے ہو اچھا سا پڑھتے ہو تو مجھے بہت خوشی ہوتی ہے کہ علی ایک نیک بچہ ہے اور سب اس سے پیار کرتے ہیں۔
اب میں  آپ کو ایک بات بتاتا ہوں کہ سڈنی میں جب ہم کچرا جمع کرتے ہیں توکاغذ، پلاسٹک، کانچ اور دوسرا کچرا الگ الگ رکھتے ہیں۔ یہاں پر کچرے کے بڑے بڑے ڈرم ہوتے ہیں جو لال اور پیلے رنگ کے ہوتے ہیں۔ لال رنگ کے ڈرم میں کوئی سابھی کچرا ڈال سکتے ہیں جس میں پھلوں کے چھلکے اور تھیلیاں وغیرہ ہوتی ہیں۔ پیلے رنگ والے ڈرم میں کاغذاور پلاسٹک وغیرہ ڈالتے ہیں کیونکہ یہ چیزیں دوبارہ فیکٹری میں استعمال کے قابل بنائی جا سکتی ہیں۔
سب لوگ اپنے گھر کا کچرا اس طرح کے ڈرموں میں ہی ڈالتے ہیں اور ہر پیر کو کچرے والا ٹرک ان ڈرموں کو خالی کرتا ہے۔ اس ٹرک کے اندر لوہے کے دو بڑے بڑے بازو لگے ہوتے ہیں اور ایک موٹر کی مدد سے یہ ٹرک خود ہی کچرے کا ڈرم اٹھا کر خالی کرتا ہے اور خالی ڈرم کو پھر سے محلے کے لوگ بھرتے ہیں۔ اس طرح یہ ٹرک ہر ہفتہ آتا ہے اور کچرا جمع کرتا ہے۔
ہم سب کو اپنا اپنا کچرا خود جمع کرنے کی عادت ہوگی تو ہم اپنا گھر اور محلہ صاف ستھرا رکھ سکیں گے اور ہمارے رہنے اورکھیلنےکودنے کی جگہ اچھی لگے گی۔ آپ بھی ٹافی، چپس اور کھانےپینے کی چیزوں کے کاغذ اور تھیلیاں خود سے کچرے کے ڈبے میں ڈالا کریں۔
اگلے خط میں مزید باتیں ہوں گی۔
اللہ حافظ

Thursday, December 2, 2010

شاعری کا جواب شاعری سے

ہماری ایک پرانی شاگردہ ماہ رُخ انصرخان جوکہ اب میڈیکل کی طالبہ ہیں، شاعری سے خاصا شغف رکھتی ہیں اور اکثر کچھ نہ کچھ کہا کرتی ہیں۔درج ذیل شاعری بھی انہی کی ہے اور اسکے بعد ہم نے اس کا جواب لکھنے کی جسارت کی ہے۔ ماہ رُخ نے اپنی اس کاوش کا عنوان 'شکوہ' رکھا ہے تو ہم نے 'جوابِ شکوہ' پیش کیا ہے۔
ہم دونوں استاد وشاگردہ شاعری کے قواعد سے نابلد ہیں پر اپنی سی جیسی تیسی کوشش کی ہے،قارئین سے گزارش ہے کہ ہماری شاعری کو برداشت کریں اور ماہ رُخ کی حوصلہ افزائی فرمائیں۔شکریہ

شِکوہ
دلِ حساس کو دیا زخم پھر اک اور نرالا
رہا نہ کوئی سہارا نہ ہی پوچھنے والا
مضطرب ہے یہ دل کسی زندان میں
اے خدا بڑے سنگدل ہیں لوگ ترے جہان میں
 گزر رہی تھی زیست پرسکون، اپنی رفتار سے
نہ تھی کوئی فکر، نہ ہی شِکوہ گردشِ دوراں سے
گیا وہ چین وسکوں کسی کی بدمست نگاہ میں
اے خدا بڑے سنگدل ہیں لوگ ترے جہان میں
 گزر جاوں جو حدِغم سےتو رونے نہیں دیتا
عجیب شخص ہے جو راحت کے دو پل بھی جینے نہیں دیتا
چاہوں جو دُوری، تو الجھ جاتی ہوں یادوں کے حصار میں
اے خدا بڑے سنگدل ہیں لوگ ترے جہان میں
 چاہا جو سنبھلنا تو سہارا نہیں دیا
طوفانِ حوادث میں کوئی کنارا نہیں دیا
بجھ گئیں سب مشعلیں راہِ دشوار میں
اے خدا بڑے سنگدل ہیں لوگ ترے جہان میں
 تڑپتا رہا یہ دل،کوئی ہمدرد نہ پایا
شبِ غم ہوئی طویل، مژدہءآفتاب نہ پایا
تھی آنکھ پُرنم اور لب خاموش گوشائے تنہائی میں
اے خدا بڑے سنگدل ہیں لوگ ترے جہان میں
 وہ جورہا تھا دُور رحم ووفا کےسبھی تقاضےتوڑ کے
مری چاہتوں کوکیا فراموش تمام وعدے توڑ کے
ہُواقتل تمناوں کا اسکے عہدِجنون میں
اے خدا بڑے سنگدل ہیں لوگ ترے جہان میں
 ایک ادھوری سی حکایت زیرِلب باقی ہے
وحشتوں کے اس سفر کا مداوا بھی باقی ہے
'ماہی' کچھ نقش خلش بن کر بسا کرتے ہیں دِلوں میں
اے خدا بڑے سنگدل ہیں لوگ ترے جہان میں

جوابِ شکوہ
 دلِ حساس کو ہر دم تری یاد نے سنبھالا
ترا احساس ہے سدا دل میں بسنے والا
رہتاہوں میں ہر پل ترے دھیان میں
اے خدا بڑے سنگدل سہی لوگ ترے جہان میں
گزر رہی ہے زیست پرسکون، اپنی رفتار سے
غم جاں گرچہ ہے،نہیں شِکوہ لیل ونہار سے
مری قسمت، ہوئی مژگاں وہ نگاہ ایک آن میں
اے خدا بڑے سنگدل سہی لوگ ترے جہان میں
خیال ترا مجھے کہیں کھونے نہیں دیتا
ہو جلوت کہ خلوت کسی کا ہونے نہیں دیتا
رکھتا ہے ہردم ساتھ مجھے لامکان میں
اے خدا بڑے سنگدل سہی لوگ ترے جہان میں
چاہا اگربھٹکنا بھی تو ٹھکانا مجھے ملا
طوفانِ حوادث میں کنارا مجھے ملا
ترے وجودکی لَو ہےمرےجذبہ ایمان میں
اے خدا بڑے سنگدل سہی لوگ ترے جہان میں
ترےسواجہاں میں کوئی ہمدرد نہ پایا
تاریکیءشبِ غم کو خیالِ یار نےچمکایا
آنکھوںسے تُواُتراہےدل میں، دل سے پھرجان میں
اے خدا بڑے سنگدل سہی لوگ ترے جہان میں
گوآگیاہوں دوراپنوں کووطن میں چھوڑکے
ممکن نہیں یہ فاصلہ جُڑےدلوں کو توڑدے
مرا یقین ہے کامل اسی آس اسی گمان میں
اے خدا بڑے سنگدل سہی لوگ ترے جہان میں
زیست کے جام میں ابھی مئےباقی ہے
وحشتوں کےسفر میں ساتھ اپنے ساقی ہے
محرومیوں کوسجا رکھتے ہیں ہم طاقِ نسیان میں
اے خدا بڑے سنگدل سہی لوگ ترے جہان میں 

Friday, November 26, 2010

تعبیر کر کے دیکھتے ہیں

 آج ہمیں چند دوستوں  کےتوسط سےسولہویں ایشیائی کھیلوں کی ہاکی کے مقابلے کے بعد کی تقریبِ تقسیمِ انعامات  کی وڈیودیکھنے کو ملی، جب اسے چلایا تو منظر کچھ یوں تھا کہ تختہ فاتحین پر پاکستان، ملائیشیا  اور بھارت کے کھلاڑی موجود تھے۔ انگریزی اور چینی دونوں زبانوں میں اعلان ہوا کہ خواتین و حضرات برائے مہر بانی پاکستان کے قومی ترانے کیلئے کھڑے ہوں اور اس اعلان کے ساتھ ہی قومی ترانے کی دھن بجائی گئی جس کے شروع ہوتے ہی پاکستانی کھلاڑیوں نے یک زبان ہوکر پوری قوتِ گویائی سے پاک سر زمین شادباد کی صدا بلند کی جسکی گونج  سایہ خدائے ذوالجلال پر جا کر ختم ہوئی۔
یہ ترانہ ہم نے بارہا سنا اور پڑھا مگر آج اسے کھلاڑیوں کو پڑھتا دیکھ اور سن کر بے اختیار آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ سچ ہے کہ وطن کی قدر پردیسی ہی کر سکتا ہے۔ اپنے ملک میں رہتے ہوئے ہم تمام سہولتوں اور آسائشوں کو اپنا حق سمجھتے ہیں اور کسی کو خاطر میں نہیں لاتے مگر وطن سے دور رہ کر ہی اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ آپ کسی دوسرے ملک میں ہمیشہ تیسرے درجے کے شہری ہوتے ہیں چاہے آپ اس ملک کا شناختی کارڈ یا پاسپورٹ ہی کیوں نہ حاصل کر لیں۔
اس منظر سے اس بات پر بھی یقین پختہ ہوتا ہے کہ پاکستان قائم رہنے کیلئے بنا ہے اور جب چین و عرب میں پاکستانی ترانہ کی گونج سنائی دے سکتی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ جسطرح ہم نے آج کھیل کے میدان میں جھنڈے گاڑے ہیں ہمارا نوجوان اور پڑھا لکھا با شعور طبقہ سیاسی ، معاشی اور معاشرتی نظام میں بھی تبدیلی لا سکے۔کہ آج کل کے حالات میں ہم اسی طبقہ کو مسیحا مانتے ہیں۔ ہماری بات کو دیوانے کا خواب سمجھنے والوں کو ہم احمد فراز کی زبان میں پہلے ہی جواب دیئے دیتے ہیں
کہانیاں ہی سہی سب مبالغے ہی سہی
اگر وہ خواب ہے تو تعبیر کر کے دیکھتے ہیں 

Wednesday, November 24, 2010

نہ ہوتے گر اشتہارات

اشتہار سازی اور اشتہاربازی رابطہ کا ایک ایسا ذریعہ ہے جسے صدیوں سے انسان  اظہارِ خیال کے طور پر استعمال کرتا چلا آیا ہے۔ بعض اوقات تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ اگر یہ اشتہارات نہ ہوتے تو ہم کتنے دقیانوسی، لاعلم اور محروم قسم کے انسان ہوتے، کہ نہ تو ہمیں یہ پتہ ہوتو کہ بالوں میں کونسا شیمپو استعمال کرنا ہے، نہ یہ کہ صابن کونسا اچھا ہے۔ دودھ سوکھا بہترہے یا چائے میں محض رنگ لانے والا سفوف، سر کی جووں کو کیسے مارنا ہے اور ڈینگی بخار کے مچھروں سے چھٹکارا کیسےپانا ہے۔بچوں کو کونسے اسکول میں داخل کرایا جائے، ان کےاسکول کی وردی یعنی یونیفارم کس دوکان سے خریدا جائے، بیٹی کی شادی کے جہیز کی خریداری سے لے کر اس کے دلہن بننے اور رخصتی تک کے تمام معاملات اور داماد و سسرال کے تحفہ تحائف سمیت ہر قسم کی معلومات ہمیں اشتہارات ہی مہیا کرتے ہیں۔
یہ تو چند سیدھی سی مثالیں تھیں مگر ایک عجب مقابلہ بازی بھی ان اشتہارات میں دیکھنے کو ملتی ہے کہ جب ایک جیسی اشیاء یاخدمات پیش کرنے والے ادارے آپس میں ایک دوسرے کو نیچہ دکھاتے ہیں، دھلائی کے سفوف سے لے کر ، لال رنگ کے مشروبات اور موبائل والوں تک تمام اس دوڑ میں دوسروں پر سبقت لے جانا چاہتے ہیں۔
کیا ہی اچھا ہوتا کی ہم صبح بیدار ہوتے اور منجن سے دانت صاف کر لیا کرتے کہ توٹھ پیسٹ پر بھی اشتہاربازوں کا قبضہ ہے، بیت الخلاء کی صفائی بھی بنا کسی سیالِ خاص کے نہیں کی جاسکتی کہ اس کا بھی اشتہار نشر کیا جاتا ہے۔ اور تو اور سڈنی میں تو خلیفہ بھی اشتہار نشر کرواتے ہیں کہ ایک عدد نائی کی دوکان پر دوشیزائیں صرف بالغان کے بال کاٹیں گی، یہ اشتہار یہاں ریڈیو پر بجتا ہے اور کیا دیسی کیا گورے سب محض اس اشتہار کو سن کر ہی مفت میں اپنے آپ کو ان دوشیزاوں سے بال کٹاتا ہوا تصور کر لیتے ہیں۔
ان اشتہارات کو مزید ترقی انٹرنیٹ سے بھی ملی اور انواع و اقسام کے پیغامات، عرضیاں اور معلوماتی مواد برقی رقعوں یعنی ای میل پر گردش کرنے لگے۔ ایک اسی قسم کی گردشی ای میل ہمیں بھی موصول ہوئی جسکا ترجمہ ہم کچھ اختصار کے ساتھ قارئین کی نذر کرتے ہیں۔

میں اپنے تمام دوستوں اور خاندان والوں کا مشکور ہوں جنھوں نے مجھے کڑی در کڑی چلنے والی ایک ہی ای میل مسلسل سن دوہزار پانچ، چھ، سات ، آٹھ، نو میں بھیجی  اور اب دوہزار دس میں بھی بھیجے جا رہے ہیں ۔ اپنے احباب کی بدولت میں نے
کوکا کولا پینا چھوڑ دیا ہے کیونکہ مجھے پتہ چلاکہ اس سے بیت الخلاء کے داغ دھوئے جا سکتے ہیں
میں اس ڈر سے سینما بھی نہیں جاتا کہ کہیں  میں کسی ایسی نشست پر نہ بیٹھ جاوں جسمیں کوئی  سوئی چھپی ہو اور اسکے  چبھنے پر مجھے ایڈز ہو جائے۔
آپ کے سیکڑوں گردشی پیغامات اور اشتہارات کو میں آگے بڑھا چکا مگر مجھے ابھی تک ایک بھی مفت کا لیپ ٹاپ، کیمرہ، موبائل فون وغیرہ نہیں مل سکا
مجھ میں سے اب ایک گیلے کتے کی سی باس آتی ہے کہ میں خوشبویات اس ڈر سے استعمال نہیں کرتا ہے آپ کے پیغامات کےمطابق ان سے سرطان کا خطرہ رہتا ہے
میں نے اپنی ساری جمع پونجی ایمی بروس کے کھاتے میں منتقل کردی ہے جو کہ ایک سات سالہ بیمار بچی ہے اورایک مہلک مرض میں مبتلا ہے واضح رہے کہ یہ بچی سن انیس سو تیرانوے سے اب تک سات برس کی ہی ہے۔
میں ابھی تک ان لاکھوں ڈالروں کا منتظر ہوں جو کوئی نائجیریا سے اپنے چچا کی جائیداد کی مد میں میرے کھاتے میں منتقل کرنا چاہتا ہے۔ اسقدر اعتماد کا شکریہ
میں اب تک  وصول شدہ اشتہارات میں سے پینتیس پیغامات چار سو افراد کو اس امید پر بھیج چکا ہوں کہ نوکیا اور ایرکسن والے مجھے جدید موبائل مفت میں دیں گے مگر اب تو یہ ماڈل متروک بھی ہے چکے ہیں اور سونی اور ایرکسن آپس میں ایک ہو چکے ہیں۔
اگر آپ یہ پیغام کم از کم گیارہ ہزار دوسو چھیالیس افراد کو اگلے دس سیکنڈ میں نہیں بھیجیں گے تو کل دوپہر ساڑھے بارہ بجے ایک پرندہ آپ کے سر پر فارغ ہو سکتا ہے۔
ویسے آج تک تو ایسا کچھ ہوا نہیں مگر کیا پتہ ہو بھی جائے لہٰذا  یہ اشتہارات  آگے  بڑھاتے رہیں۔شکریہ

Tuesday, November 23, 2010

اردو ہے جسکا نام

اگر آج داغ زندہ ہوتے تو یہ دیکھ کر یقینا بہت خوش ہوتے کہ انکی اور ہماری زبان کی دھوم واقعی سارے جہان میں ہے کیونکہ یہ زبان آج دنیا کی چوتھی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان بن چکی ہے۔ اس میں بولنے کے لحاظ سے ہندی بھی شامل ہے۔ وکی پیڈیا کے مطابق برِصغیر کی اس زبان کے بولنے اورسمجھنے والوں کی کل تعداد سوا چوبیس کروڑ سے زیادہ ہے۔  
یہ اعدادوشمار اپنی جگہ لیکن آج ہم جس جانب قارئین کی توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں وہ ہے صحیح اور درست زباندانی۔ ہم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ اردو لشکری زبان ہونے کی وجہ سے اپنے اندر خاصی جاذبیت رکھتی ہے اور اسکی یہی کشش دیگر زبانوں کے الفاظ کو عام اردوبول چال میں مستعمل کروادیتی ہے۔ مثال کے طور پر انگریزی کے الفاظ پلیٹ، ٹکٹ، بس، کپ وغیرہ ہمارے ہاں اسقدر روانی سے استعمال ہوتے ہیں کہ اب اردو زبان کے الفاظ لگتے ہیں۔
یہاں تک تو بات ٹھیک ہے اور سمجھ میں بھی آتی ہے کہ اردو کا دامن اپنی وسعت کی بدولت ان الفاظ کو اپنے اندر سمو لیتا ہے۔ مگر ہمارے یہاں جب اردو ایک عجب طرح سے بولی جانے لگتی ہے تو داغ، غالب، میر وغیرہ سمیت بےشمار اردو پسندوں پر کیا گزرتی ہو گی اسکا اندازہ چند مندرجہ ذیل  مثالوں سے لگایا جا سکتا ہے۔
"یار میری تو حالت خراب ہوئی وی ہے"
"میں نے آج ہی یہ کام کرا ہے"
"ابے تُو میری مت ہٹایا کر"
ہم نے  محض تین جملے ہی تحریر کئے ہیں جن میں کس پائے کی اردو استعمال کی گئی ہے اسکا ادراک اہلِ زبان بآسانی کر سکتے ہیں۔ "ہوئی وی" ایک ایسی مرکب ترکیب ہے جو ہمیں تو کسی بھی اردو قواعد کی کتاب میں نہیں ملی ہاں ہم "ہوگئی" پڑھ، سمجھ  اور بول سکتے ہیں۔ گویا پہلا جملہ کچھ یوں صحیح کیا جاسکتا ہے
"یار میری تو حالت خراب ہوگئی ہے"
دوسرے جملے میں "کرا" کو "کیا" سے بدل دینے سے قواعد کی رو سے سدھار آجائے گا۔ رہی بات تیسرے جملہ کی تو یہ ہم قارئین پر چھوڑتے ہیں کہ اس قسم کی اردو ہماری ناقص عقل سے بالاتر ہے۔
جہاں اس قسم کی اردوسننے میں آتی ہے وہیں ایک مرض یہ بھی ہے کہ ہم اردو میں دیگر زبانوں بالخصوص انگریزی کی آمیزش کے بنا کوئی جملہ بول ہی نہیں سکتے اور اگر کوئی ایک جملہ مکمل اردو میں کہہ دے تو اسے عجیب نظروں سے دیکھنے کے ساتھ ہمارا تبصرہ ہوتا ہے کہ اسکی اردو بہت "مشکل" ہے، حالانکہ اس غریب نے محض خالص اردو استعمال کی ہوتی ہے، مثال کے طور پر  "یہاں لائف بہت ریلیکس ہے"، "تم آئل کا یوز کیا کرو"، "میں تو ڈیلی واک کرتا ہوں" اب اگر ان چھوٹے سے جملوں کو اردو میں بیان کیا جائے  تو  کچھ یوں ہوگا "یہاں زندگی بہت پُرسکون ہے"، تم تیل کا استعمال کیا کرو"، میں روزانہ چہل قدمی کرتا ہوں"۔
ہمارے خیال میں اسطرح کی بول چال  کہ جس میں خالص اردو کے الفاظ و تراکیب استعمال ہوں بات چیت کو قطعی بوجھل و ثقیل نہیں بلکہ لطیف اور سہل بناتی ہےکہ جس سےاردو زبان کے ساتھ اپنائیت کا احساس ہوتا ہے۔
زبان، دیگر بہت سی چیزوں کے ساتھ ہماری شناخت ہے اور اگر ہم اس سے محبت نہیں کریں گے تو اپنی شناخت کھو دیں گے۔ اردو ہماری قومی زبان ٹھہری اور پاکستانیت کے ساتھ اسکا ایسا ہی رشتہ ہے جیساجسم کا روح سےکہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتے۔اپنی زبان سے محبت کا حق ہم اسوقت ادا کرسکتے ہیں جب ہم اسے صحیح طور پر سیکھیں اور استعمال کریں ورنہ آہستہ آہستہ ہم نے اردو بول چال کے ساتھ ساتھ لکھنے میں بھی جو طرزِ روما اپنا رکھا ہے اس سے عنقریب اردو کا حال بھی کہیں مشرقِ بعید کے ممالک کی زبابوں جیسا نہ ہو کہ  انکا رسم الخط اب محض انگریزی حروفِ تہجی پر ہی انحصار کرتا ہے۔
کرنل محمد خان نے اپنی کتاب بسلامت روی میں لکھا ہے"محبت فرانسیسی کی بجائے اپنی مادری زبان میں ہی کرنا چاہیے۔۔ رومن اردو میں بہرحال دھیمی آواز میں کہ ممکن ہےپڑوس میں کوئی بیمار ہویا کوئی طالبِعلم امتحان کی تیاری کر رہا ہو"۔
اس تحریر کا اختتام ہم دلاور فگار کی زبانی کریں گے
یونیورسٹی کے ایک سوٹ پوش سے
ہم نے پوچھا کیا ہیں آپ کوئی سارجنٹ
کہنے لگے جناب سے مس ٹیک ہو گئی
آئی ایم دی ہیڈ آف دی اردو ڈیپارٹمنٹ

آپکی آراء کا انتظار رہے گا

Monday, November 22, 2010

با ادب با نصیب

کہا جاتا ہے کہ استاد کا رتبہ باپ سے بھی برتر ہے کہ باپ اگر اپنے بیٹے کو عالمِ بالا سے زمین پر لانے کا باعث بنتا ہے تو استاد اپنے  شاگرد کو علم کی دولت سے مالا مال کرکےاسے گیان، دھیان اور آگہی کے ساتویں آسمان پر پہنچا دیتا ہے۔ یہ بھی حکم ہے کہ اگر کوئی تمہیں ایک حرف بھی سکھا دے تو اسکی غلامی کرو، مگر کیا کریں کہ دل اس وقت خون کے آنسو روتا ہے جب چند منچلوں کی جانب سے استادوں پر نازیبا کلمات کسےجاتے ہیں۔
ہم کوئی واعظ ہیں نہ ہی خطیب مگر ایک استادضرور رہ چکے ہیں اور یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ آج بھی ایک استاد کی عزت ہمارے معاشرے میں دیگر معاشروں سے زیادہ کی جاتی ہے۔مگر ساتھ ہی افسوسناک امر یہ ہے کہ ازراہِ مذاق استادوں کے نام رکھنا اوران پر پھبتیاں کسنا بھی آجکل طالبِعلموں کیلئے ایک معمولی سی بات  بن چکی ہے۔  
اقتصادی اور معاشی دوڑ میں استاد بھی اسی معاشرے کا حصہ ہونے کی وجہ سے کسی حد تک نفسانسفی کا شکار ہیں اور  اپنے اہلِ خانہ کی آسودگی  کی خاطر نجی طور پر گھروں میں یا محلوں کے کوچنگ سینٹرز اور اکیڈمیز  میں طلبہ کو پڑھانے پر مجبور ہیں۔ لیکن اسکا مقصد یہ قطعی نہیں ہے کہ استاد کی عزت طالبِعلم پر فرض نہیں ہے۔
اگلے وقتوں میں امراءوروساء اپنی اولادوں کے اتالیق مقرر کیا کرتے تھے جو انھیں ادب آداب اور علوم و فنون سکھاتے تھے۔ یہ اتالیق ان کےگھر کے فرد کی حیثیت رکھا کرتے تھے اور معاشرہ میں شریف زادوں کی پہچان اور شرافت کا اندازہ کرنے کیلئے انکے اتالیق یا استادِ محترم کا نام ہی کافی ہوتا تھا۔
اگرچہ آجکل یہ روایت ختم ہو چکی مگراب بھی  شرفاء کی پہچان جہاں انکے خاندان سے ہوتی ہے وہیں تعلیمی ادارے کا نام بھی لیا جاتا ہے کہ جہاں سے انکی اولاد فارغ التحصیل ہوتی ہے۔اور تعلیمی ادارے کا نام بنانے والے اساتذہ ہی ہوتے ہیں جن سے کسی طالبِ علم نے پڑھا ہو۔ اب اگر یہی طالبِ علم بجائے اس کے کہ اپنے استادوں کو عزت دیں الٹا انکی  بےعزتی کریں یا برے ناموں سے پکاریں تو ایسے بدنصیب نا صرف خود اپنے آپ کو بدنام کرتے ہیں بلکہ اپنے خاندان والوں کا بھی براتاثر چھوڑتے ہیں کہ انکی تربیت کے ذمہ دار تو والدین ہی ہیں۔
تفریح اور مذاق کرنا انسانی فطرت کا حصہ سہی مگر ہم مذاق کرنے کے بجائے مذاق اڑاتے ہیں اور اس کا سب سے بڑا اور آسان نشانہ کسی تعلیمی ادارے میں طبلہ کے ہاتھوں قدرے شریف قسم کے ایسے استاد بنتے ہیں جو طلبہ پر سختی کرکے  انھیں کسی وجہ سے قابو میں نہیں کر پاتے۔ورنہ سخت قسم کے اساتذہ کے سامنے تو شاگرد ویسے بھی منہ کھولنے سے پہلے ہزار بار سوچتے ہیں۔
ان سطور کے لکھنے کا مقصد محض اتنا ہے کہ ہم اپنے اساتذہ کی قدر کریں اور ان کی عزت کریں کیونکہ طالبِعلمی کے زمانے میں کی گئی غلطیاں اگر حصولِ علم سے متلق ہوں تو انکا اثر امتحان کے نتیجہ پر پڑتا ہے لیکن اگر ہم سے کوئی ایسی غلطی ہوئی ہوکہ جس سےجانے یا انجانے میں کسی استاد کا دل دکھا ہوتو اسکا مداوا کرنا خاصا مشکل ہے۔ ہمارے نزدیک  پڑھائی میں کمزور طالبِعلم جو باادب ہو اس ہونہارشاگرد سے لاکھ درجہ بہتر ہے جو بے ادب ہو کیونکہ باادب ہی با نصیب ہوتا ہے۔
آپ کا کیا خیال ہے؟

Sunday, November 21, 2010

ہم نےپراٹھے بنائے

ہمارے بلاگ کے مستقل اور پرانے قارئین اس بات سے واقف ہیں کہ ہم نے اپنےشروع کے بلاگ میں تذکرہ کیا تھا کہ ہم کھانا پکانے سے کچھ ایسے ہی نابلد تھے جیسے پٹھان سائیکل چلانے سے ہوتا ہے۔مگر جب باورچی خانہ میں قدم رکھا تو، ہمارے احبابِ ِسڈنی اس بات کا انتظار کرتے کہ کب ہماری کھانا پکانے کی باری ہو اور انھیں کچھ نیا کھانے کو ملے۔ اب تک کے پندرہ ماہ کے قیام کے دوران ہم شان مصالحہ کے بغیر اور سمیت کافی چیزیں بنا چکے تھے مگر جس شےکی ہمت ہم ابھی تک نہ کرپائے تھے وہ پراٹھے تھے سو آج یہ قسم بھی توڑ ڈالی اور ہم نے پراٹھے بنا ڈالے۔
جی ہاں زندگی میں پہلی بار آٹا گوندھا اور بنا بیلن کے ہی پراٹھے بنانے  کا بیڑا اٹھایا۔ آٹا گوندھنا آسان کام نہیں اگر آپ پانی زیادہ کر دیں تو لئی بن جاتا ہے اور کم کر دیں تو ایک سا نہیں ہو پاتا۔ خیر یہ مرحلہ طے کرتے کرتے اور اپنی انگلیوں سے چپکا آٹا چھڑاتے ہوئے ہمیں نانی تو نہیں مگر اپنی اور اپنی اولاد کی  والدہ محترمہ ضرور یاد آگئیں کہ کس طرح ہم گذشتہ برس تک ان کے ہاتھوں کی بنی روٹی، چپاتی اور پراٹھے اُڑاتے آئے تھے۔ آج خودکو اس حالت میں پا کرہنسی بھی آئی اور اللہ کا شکر بھی ادا کیا کہ ہم ان رشتوں کی نعمت سے مالامال ہیں کہ وطن جاکر پھر سلسلئہ زندگانی کا وہیں سے آغاز ہو گا جہاں سے وقفہ آیا تھا، انشاءاللہ۔
خیر صاحب آٹے میں نمک ڈالنا بھی نہ بھولے اور کچھ دیر کے توقف کے بعد جب آٹا کچھ ٹھہر گیا تو ہم نے پراٹھوں کے لئے پیڑے بنائے، پھر روٹی کی شکل دے کر نعمت خانے کی چپٹی میز پر انگلیوں کی مدد سے اسکے کنارے وضع کئے اور آخر میں ہتھیلیوں پر تھوڑا پھیلا کر قدرے گول کرتے ہوئے تلنے کے برتن یعنی فرائنگ پین میں ڈالا، کیونکہ ہم توّے کی نعمت سے محروم ہیں تو پین کو ہی توّا بنا ڈالا۔ آٹے کو ہم ہلکا سا تیل پیڑا بناتے وقت ہی لگا چکے تھے اور تلتے ہوئے بھی تیل کا استعمال کیا، جب پراٹھے نے پین میں پکتے ہوئے اپنی روایتی صورت اختیار کی تو ہمیں ایسی خوشی ہوئی جیسے کسی بچے کو اپنی رنگ بھری تصویر میں جماعت میں اپنی ٹیچر یعنی استانی سےایک اسٹار یعنی ستارہ ملنے سے ہوتی ہے۔
ایک کے بعد دوسرا پراٹھہ بھی بنایا کیونکہ پہلا کامیابی سے پین سے نکل کر رکابی یعنی پلیٹ میں پہنچ چکا تھا۔ رات کھانا بنانے کی باری بھی ہماری ہی تھی تو گذشتہ رات کی ماش کی دال، بند گوبھی کی ترکاری اور بادرنگ یعنی کھیرے کا رائتہ فرج میں موجود تھے تو ہم نے دونوں سالن گرم کرکے، رائتہ کے ساتھ تناول کیا۔
بادرنگ پشتومیں کھیرے کو کہتے ہیں اور فارسی میں اسکے لئے خیار کا لفظ استعمال ہوتا ہے، ہمارے پٹھان دوست قاضی فہد خان کی محبت میں ہم سب نے کھیرے کو بادرنگ کہنا شروع کردیا ہے اور یہ طے پایا ہے کہ ہمارے ہاں اب کھیرے کو بادرنگ ہی کہا جائے گا۔ قارئین بھی اپنی اردو لغت میں اس لفظ کا اضافہ فرما سکتے ہیں کہ اردو تو ویسے بھی لشکری زبان ٹھہری ۔
بعد میں قاضی فہد خان ، سید فراز علی اور عمار انیس کو بھی ہم نے پراٹھےبنا کر کھلائے جو کہ متذکرہ دال اور ترکای بھرے تھے۔ تو گویا ہم نے ایک ہی دن میں سادہ اور بھرے دونوں طرح کے پراٹھے بنا ڈالے۔ اس بلاگ پر محمد عمران اور ہمارے سڈنی سے گئے دیگر احباب ضرور منہ بسوریں گے کہ انھیں یہ پراٹھے نصیب نہ ہوئے تو ان کے لئے ہم نے یہاں تصاویر لگا دیں ہیں کہ دیکھیں اور مزے کریں۔
اگر کوئی قاری بالخصوص  پردیسی ترکیبِ ترکاری، دال، رائتہ یا پراٹھہ معلوم کرنا چاہے تو ہمیں لکھے، ہم جواب ضرور دیں گے۔  


گوندھے آٹے سے کچے پراٹھے تک


پہلا پراٹھہ پین میں
پہلا پراٹھہ تیار ہوچکنے کے بعد


ہمارے کھانے کی پلیٹوں کا منظر


ماش کی دال بھرا پراٹھہ جو شکمِ قاضی فہد خان میں اتر چکا

Sunday, November 14, 2010

کچھ میرے بارے میں

ہم اس بات پر مسرور ہیں کہ ہمارے بلاگ کواردوبلاگز میں شامل کر لیا گیاہے، اس موقع پر ہم نےسوچا کہ کچھ اپنے بارے میں قارئین کو آگاہ کرتے چلیں تاکہ ہم اس دیارانٹرنیٹ میں اجنبی نہ گردانے جائیں۔
آج سےپینتیس برس قبل شہرِ قائد میں جنم لینے کے بعد ہم نے دیگر بچوں کی طرح رونا شروع کردیا اوریہ عادت غالبا اس وقت تک برقرار رہی جبتکہ ہم پہلی جماعت میں اسکول میں داخل نہ کرادئیے گئے۔ حروف تہجی کی پہچان والدہ محترمہ نے گھر میں ہی کرادی تھی اس وجہ سے ہمیں براہِ راست اوّل درجہ میں داخلہ مل گیا اور پریپ وغیرہ نہیں پڑھنی پڑی۔
زمانہ طالبعلمی میں ریاضی سے خاص رغبت تھی اور جب الجبراء پہلی بار پڑھا تو اسکے گرویدہ ہو گئے۔ ہم جماعتوں سے مشقی سوال حل کرنے کی دوڑ لگاتے اور زیادہ تر جیت ہماری ہی ہوتی۔ اسی زمانہ میں بچوں کے اردو رسائل پڑھنا شروع کئے اور ہمدرد نونہال ہمارا پسندیدہ رسالہ ٹھہرا کہ محلہ کےکتب  فروش کے پاس آتے ہی ہم اسکا تازہ شمارہ خریدتے اور ایک ہی رات میں ختم کر ڈالتے۔ اسی دوران برادرِ خرد بھی ہمارے ہم عصر ہو گئے اور ہمارے اس شوق نے ان پر بھی خاصا اثر ڈالا، ہم دونوں بھائی ابنِ صفی سے لے کراشتیاق احمد اور سیّارہ سے لے کر خواتین ڈائجسٹ تک سبھی پڑھتے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اساتذہ کا کلام اور نثربھی پڑھی یوں اردو سے ایک رشتہ استوار ہوا جس میں بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا چلا گیا۔
دہلی کالج کریم آباد سے انٹرکیا  اور جامعہ کراچی سے طبیعات میں سولہ سالہ سند حاصل کی جوکہ سن انیس سو ستانوے کا واقع ہے۔ ڈگری کے مکمل ہوتے ہی اپنے شعبہ طبیعات، جامعہ کراچی میں عارضی استاد مقرر ہوئے اور ماہ نومبر سن اٹھانوے میں ہمدرد کالج برائے سائنس اور کامرس کراچی میں طبیعات کے لیکچرارمنتخب ہوئے اور درس و تدریس کو اوڑھنا بچھونا جانا۔ یہ سلسلہ سن دو ہزار چھ تک جاری رہا۔اس دوران شہر قائد کے مختلف چنگ سینٹرز میں بھی  پڑھاتے رہے یوں طلبہ وطالبات کی ایک فوج سے تعلق رہا اور ایک کثیر تعداد آج بھی ہم سے باہمی رابطہ میں ہے۔
جوکوئے ہمدرد سے نکلے تو سوئے سرکار چلے اور ایک تحقیقاتی ادارے سے منسلک ہو گئے اور ہنوز اسی سے وابستہ ہیں ۔گذشتہ برس جلا وطن ہوئے اور سرکارکے وظیفہ پر شہرِ اورپیرا ہاوس، سرزمینِ کنگرو میں تحقیقاتی مقالہ پر مشتمل ایم ایس کی ڈگری  کے حصول کی کوشش میں سرگرمِ عمل ہیں۔
اِسی دورِ جلاوطنی میں اردو کی محبت انٹرنیٹ کے ذریعہ اُمڈ پڑی اور بلاگ کا آغاز کیا، مقامی ساتھیوں کے حالات قلمبند کئے اور پھر ہمدرد کی یادداشتیں حوالہ قارئین کیں کبھی کبھار دیگر چند ایک مضامین پر بھی لکھا، یوں نصف صد کے قریب ذاتی تجربات اور مشاہدات بلاگ کر چکے ہیں، اب اردو بلاگز کا پلیٹ فارم نصیب ہوا ہے توہمارا مطالعہ بڑھے گا  اورنئے موضوعات پر لکھنے کی ہمت ہوگی۔
امید ہے کہ قارئین ہماری حوصلہ افزائی فرمائیں گے ورنہ بقول غالب
ع  ہم کہاں کے دانا تھے کس ہنر میں یکتا تھے
جزاک اللہ

Tuesday, November 9, 2010

غزلیاتِ اقبال

آج سے 133 برس قبل شہرِصنعتِ سامانِ کھیل، سیالکوٹ میں ایک ایسی شخصیت  نے آنکھ کھولی جسے اپنی دور بیں نگاہوں سے برِصغیر کے مسلمانوں کو ایک خواب منتقل کرنا تھاکہ جس خواب کی تعبیر ملکِ خداداد کی صورت سن انیس سو سینتالیس میں ہمیں ملی۔ ہم بات کر رہے ہیں حضرتِ علامہ محمد اقبال کی جو بجا طور پر ایک فلسفی، مُفّکر، شاعراور وسیع قلب  ونظررکھنے والے انسان تھے۔
اُن کے حالاتِ زندگی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں لہذا اُنکی زندگی پر بحث کی بجائےآج انکی سالگرہ کے موقع پر اُنکو خراج تحسین پیش کرنے کی خاطر ہم اُنکی غزلیات پر بات کریں گے جو اُنکی نظموں کے برعکس کچھ پس منظر میں چلی جاتی ہیں۔ شکوہ اور جوابِ شکوہ بلاشبہ معرکۃالآراء نظمیں ٹھہریں اور انکا مقابلہ فنی اور معنوی اعتبار سے کسی بھی شاعر کے کلام سے کیا جا سکتا ہے ، بچوں کی دعا اور ہمدردی بھی زبانِ زدِ خاص و عام ہیں مگر غزلیاتِ اقبال بھی اپنے اندر اسقدر گہرائی و گیرائی رکھتی ہیں کہ قاری اگر شاعر کے نام سے ناواقف ہو توانھیں غالب یا اُن جیسے کسی بلند خیال شاعر کے تخیل کا نتیجہ سمجھے گا۔
ہمارے بیان میں صداقت کا اندازہ ذیل میں درج چند اشعار سے کیا جاسکتا ہے۔
ہو دید کا جو شوق تو آنکھوں کو بند کر
ہے دیکھنا یہی کہ نہ دیکھا کرے کوئی
اس شعر میں بیک وقت درد اور غالب کا رنگ جھلکتا دکھائی دے رہا ہے۔

جس طرح میر نے رنج وغم جمع کر کے دیوان کئے تھے، اقبال بھی ان کے ہمنوا نظر آتے ہیں، فرماتے ہیں کہ
مرے اشعار اے اقبال کیوں پیارے نہ ہوں مجھے
مرے ٹوٹے ہوئے دل کے یہ درد انگیز نالے ہیں

ہستی اور عدم کی تکرار کا حسین امتزاج اس شعر میں ملتا ہےاور ساتھ ہی سہل ممتنع کی عکاسی بھی ہوتی ہے
کوئی اب تک نہ یہ سمجھا کہ انساں
کہاں جاتا ہے،آتا ہے کہاں سے

غالب خود کو طُور پر لے جانے کی ضد کرتے تھے، اقبال نے اسی بات کو نہایت خوبصورتی سے کچھ یوں بیان کرڈالا
کھنچے خودبخودجانبِ طُور موسٰی
کشش تیری اےشوقِ دیدار کیا تھی

میر نے ہستی کو حباب کہا تو اقبال نے اسے شرر سے مشابہت دی ،کہتے ہیں  
آیا ہے تُو جہاں میں مثالِ شرار دیکھ
دَم دے نہ جائے ہستیِ ناپائدار دیکھ

واعظ ہر شاعر کے نشانے پر رہتا ہے اور ہر شاعر اس کی درگت بناتا دکھائی دیتا ہے، یہاں بھی اقبال کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔
اُمیدِحور نے سب کچھ سِکھا رکھا ہےواعظ کو
یہ حضرت دیکھنے میں سیدھے سادے بھولےبھالے ہیں

بیانِ ہجر و وصال میں بھی اقبال نے  اندازِ لطافت اپنائے رکھا اور کچھ اس طور ان دونوں ادوار کو وقت سے ناپا ہے کہ طبیعات کی روح سے  ہم نظریہء اضافیت کی تشریح اس شعر میں پاتے ہیں
مہینے وصل کے گھڑیوں کی صورت اڑتے جاتے ہیں
مگر گھڑیاں جُدائی کی گرزتی ہیں مہینوں میں

کسی نے اقبال سے پوچھا تھا کہ عشق کی انتہا کیا ہے توفرمایا کہ عشق کی کوئی انتہا نہیں، سائل بولا کہ آپ تو عشق کی انتہا کا تقاضا کرتے ہیں، فرمایا کہ جناب پورا شعر ملاحظہ فرمائیں،
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

اللہ پر یقین رکھنا اور ایمان لانا بھی کوئی اقبال سے سیکھے کہ خالی دامن رکھنے کےباوجود بھی اسکی رحمت سے مایوس نظر نہیں آتے، فرماتے ہیں
کوئی یہ پُوچھے کہ واعظ کا کیا بگڑتا ہے
جو بےعمل پہ بھی رحمت وہ بےنیازکرے

عظمتِ آدم اور  ملائک پر اسکی برتری کا ثبوت جہاں درد اور  غالب کے ہاں ملتا ہے کہ دامن نچوڑنے پر فرشتے وضو کرتے ہیں اور گستاخی فرشتہ شانِ آدم میں ناپسندیدہ گردانی جاتی ہے وہیں اقبال لب کشائی کرتے ہیں
ہے مری ذلّت ہی کچھ میری شرافت کی دلیل
جس کی غفلت کو مَلک روتے ہیں وہ غافل میں ہوں

حضرت رابعہ بصری کے حولے سے ایک حکایت بیان کی جاتی ہے کہ وہ ایک دن جنت اور دوزخ کواس نیت سے ختم کرنے چلیں کہ لوگ جزا اور سزا کی وجہ سے اللہ کی عبادت نہ کریں بلکہ رب کو رب ہونے کی بدولت پُوجیں۔ اقبال اسی فلسفہ کو ایک شعر میں سموتے ہیں
سوداگری نہیں، یہ عبادت خداکی ہے
اے بے خبرجزا کی تمنّا بھی چھوڑ دے

اس شعر کا مضمون اپنی مثال آپ ہے کہ
تُو بچا بچا کے نہ رکھ اسے، ترا آئنہ ہےوہ آئنہ
کہ شکستہ ہو تو عزیر تر ہے نگاہِ آئنہ ساز میں

ہم نے صرف بانگِ درا سے چنداشعار منتخب کئے ہیں جو اقبال کے ابتدائی دور کی غزلیات پر محیط ہیں۔ اقبال پر ابتک بہت کچھ لکھا جا چکا ہےاور اقبالیات ایک علیحدہ مضمون کی حیثیت رکھتا ہے، ہماری یہ ننھی سی کاوش اقبال سے محبت کا ایک حقیر سا نذرانہ ہے جو ہم انکے نام کرتے ہوئے قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں کہ شائد کسی اقبال پسند کے دل میں ہماری بات اتر جائے۔
ڈھونڈتا پھرتا ہوں اےاقبال اپنے آپ کو
آپ ہی گویا مسافر آپ ہی منزل ہوں میں