Friday, March 12, 2010

(تین دوست (پہلا ٹکڑا


کسی گاؤں میں تین دوست رہا کرتے تھےاسد، ناصر اور انور. اسد موچی کا بیٹا تھا، ناصرکا خاندان کھیتی باڑی کرتا تھا اور انور کے باپ کے پاس ایک ٹریکٹر تھا جو وہ کرایے پر دوسروں کے کھیتوں میں چلاتا تھا. یہ تینوں دوست مل کراسکول جاتے تھے اور ایک ساتھ اسکول کا کام کرتے اور کھیلتے تھے. یہ تینوں دوست ساتویں جماعت میں پڑھتے تھے اور اپنی جماعت کے لائق طالب علم تھے. پڑھنے لکھنےکے ساتھ ساتھ انکو کھیل کود وغیرہ سے بھی دلچسپی تھی. اسد کا نشانہ بہت اچھا تھا وہ غلیل سے کسی بھی چیز کا نشانہ لے سکتا تھا. ناصر کبڈی کھیلتا تھا اور بہت سے مقابلے جیت چکا تھا. انور کو تیراکی کا شوق تھا اور وہ الٹا بھی تیر سکتا تھا. ان باتوں کے ساتھ ان کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ یہ ہر کسی کی مدد کو تیار رہتے تھے اورگاؤں والوں کے لاڈلے تھے ،سب ان کو پیار کرتے تھے.
انکے گاؤں کے قریب ہی ایک گھنا جنگل تھا جس میں جنگلی جانور بھی تھے. اس جنگل میں بے شمار درخت تھے جن سے جنگل ہرا بھرا نظر آتا تھا. حکومت کی طرف سے یہاں درخت کاٹنا منع تھا. کیوں کہ درخت اس ماحول کو خوب صورت بناتے تھے.
یہ دوست اکثر اس جنگل کے قریب جایا کرتے تھے جہاں ایک ندی گاؤں اور جنگل کے بیچ میں بہتی تھی اور اس پر ایک لکڑی کا پل بنا ہوا تھا. ان تینوں کو اس جگہ پر کھیلنا بہت پسند تھا.
یہ ہم ان دنوں کا ذکر کر رہے ہیں جب ان کے گاؤں میں بجلی بھی نہیں آئی تھی سو شام ہوتے ہی لوگ اپنے گھروں کو لوٹ جاتے تھے.
وہ جمہ کی چھٹی تھی اور نماز کے بعد کھانا کھا کر کچھ دیر آرام کے بعد یہ تینوں ندی کی طرف جا نکلے، سردی کا موسم ختم ہوا تھا اور اب بہار کے دن تھے، آسمان پر ہلکے ہلکے بادل تھے اور چاروں طرف پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو پھیلی تھی، ندی کا صاف اور ٹھنڈا پانی، سہ پہر کا ڈھلتا سا سورج اور درختوں کے لمبے ہوتے ساے اس جگہ کو حسین بنا رہے تھے کہ جیسے جنت کا کوئی گوشہ ہو.
یہ تینوں دوست ندی کے کنارے کھیلنے لگے، اسد اپنی غلیل سے ندی میں دور تک پتھر پھینک رہا تھا اور کبھی ادھر ادھر پھدکتی گلہریوں کو ڈرا رہا تھا. ناصر جانگیا پہنے کبڈی کے داؤ پیچ دوہرا رہا تھا کہ جیسے پہلوان اکھاڑے میں تربیت حاصل کرتے ہیں اور انور ندی میں تیراکی کر رہا تھا. تینوں آپس میں باتیں بھی کر رہے تھے. اسد، ناصر سے بولا یار یہ انور ندی میں کافی دیر تک دبکی لگا لیتا ہے، ناصر بولا ہاں اب اس کو پانی میں رہنے کی کافی مشق ہو گی ہے ایسا لگتا ہے کہ یہ پانی میں ہے رہتا ہو. ویسے تم نے بھی نشانہ بازی میں خوب مہارت حاصل کر لی ہے لگتا ہے کہ اس بار گاؤں کے میلے میں تم دوبارہ جیتو گے. انور اس دوران پانی سے باہر آ چکا تھا ناصر کی بات کی تائید کرتا ہوا بولا کہ ہاں ناصر یہ اسد تو اُڑتی چڑیا کا بھی نشانہ لگا سکتا ہے. ابھی انور کی بات پوری ہی ہوئی تھی کہ انہیں جنگل کی طرف سے کچھ آواز آتی محسوس ہوئی.
جاری ہے......
مکمل کہانی پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔

Thursday, March 11, 2010

بلا عنوان


ایک تازہ ترین مشاہدے نے ہمیں یہ بلاگ لکھنے پر مجبور کر دیا ہے، قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک کام کی غرض سے ہمارا اپنے اسکول کی سال اول کی ایک پروفیسر کے دفتر جانا ہوا تو وہ خاصی مصروف دکھائی دیں. ایک صاحب ان کے دفتر میں تھے اور چند ایک باہر قطار میں منتظر تھے، ہم بھی باہر کھڑے ہو گئے. اسی لمحے صدر مدرس یعنی ہیڈ آف دی اسکول تشریف لاے اور بے دھڑک پروفیسر کے کمرے میں گھس گئے. اس پر باہر موجود ایک منچلے طالب علم نے آوازہ کسا کہ قطار میں آئیے. بظاہر معمولی سی بات تھی مگر ذھن کے دریچے ماضی کی جانب ہوے کہ جب محمود و ایاز ایک ساتھ صف آرا ہوتے تھے، یا امیر المومنین کا دامن ایک ادنی غلام بھی پکڑ سکتا تھا اور ان سے برابری کی بنیاد پر سوال کر سکتا تھا. اور جب یہ ہوتا تھا تو مسلمان پوری دنیا پر حمکرانی کرتے تھے. مگر اب بقول غالب
ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند
گستاخی فرشتہ ہماری جناب میں
سو ہم کب گفتار کا غازی بننے کے بجاتے کردار کا غازی بننا پسند کریں گے؟ ہم لوگوں کا المیہ کچھ ایسا ہے کہ جیسے کسی خاندان کی سونا اگلتی زمین ہو اور اس پر خوب فصل ہوتی ہو پھر کسی کارن وہ زمین بیچنا پڑ جاے اور دو تین نسلوں کے بعد اسی خاندان کا کوئی فرد اپنے بچوں کے ساتھ اس زمین کے پاس سے گزرے تولہلہاتے کھیتوں کو دیکھ کر اپنے بچوں سے کہے کہ بیٹا دیکھو یہ تمہارے آباؤ اجداد کی زمین تھی. مگر کیا کریں کہ یہ لہلہاتی کھیتیاں اب دوسروں کے ہاتھوں سراب ہوتی ہیں تو ظاہر ہے کہ زمین ان کے لئے ہی سونا اگلے گی.
جب تک ہم ذات پات ،عہدہ، کرسی اور امارت و غربت پر لوگوں کو تقسیم کرتے رہیں گے تو استحصال جاری رہے گا.ہمارے معاشرے میں انتشار کی وجہ بھی شاید یہی ہے کہ ہم دوسروں کو ہمیشہ نیچا دکھانے کی کوشش میں سرگرم رہتے ہیں یوں تعمیری سوچ و توانائی فرد و معاشرے دونوں میں پنپنے ہی نہیں پاتی.حکومت یا سیاست دانوں پر الزام دھرنا بہت آسان ہے مگر اپنے آپ کو بدلنا نہایت مشکل کام ہے کہ بقول شاعر
نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنی خبر،رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر
پڑی اپنی برائیوں پہ جب اپنی نظر تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا
ایسی صورت حال میں ہم اپنی نئی نسل سے پر امید ہیں کہ یہ معاشرے میں تبدیلی لا سکتی ہےاور ہم یقینا بہتری کی جانب گامزن ہو سکتے ہیں. ہم عموما گزرے وقت کا ذکر کرتے ہیں اور حل کو برا کہتے ہیں مگر ایک حدیث کے مطابق مومن حال میں زندہ رہتا ہے. تو حال میں زندہ رہنے پرہی مستقبل بہتر ہو سکتا ہے. آپ کیا سمجھتے ہیں ؟

Wednesday, March 10, 2010

موسم سڈنی کا اور بیاں اپنا

ہو سکتا ہے کہ آپ کو یہ عجیب لگے مگر سچ یہی ہے کہ جو مزہ مادری زبان میں بات کرنے کا ہے وہ کسی اور بولی میں نہیں، بقول آتش
ع زبان غیر سے کیا شرح آرزو کرتے
سو ہم نے یہ سوچا کہ یہ بلاگ ہے اور یہاں اگراردو میں ابتدا کی جاے تو پڑھنے والوں کو لاگ آن ہونے کے بعد اس سے لگن ہو سکتی ہے. اب ذھن میں کچھ خاص مضمون نہیں ہے سوکچھ حال سڈنی کے موسم کا بیان کرتے ہیں بقول غالب
کلکتہ کا جو ذکر کیا تُو نے ہمنشیں
اِک تیرمیرے سینے میں مارا کہ ہاے ہاے
سڈنی سے جانے کے بعد شاید ہم بھی چچا غالب کے ہمنوا ہوں. خیر بات ہو رہی تھی یہاں کے موسم کی تو دوستو سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ آسٹریلیا تاج برطانیہ کے زیر سایہ رہنے کے با وجود بھی اپنا موسم الگ رکھتا ہےاور یہاں کے باسیوں کو جنوبی نصف کرہ میں ہونے کے کارن ایشیا اور یورپ کے بالعکس موسمی حالات کا سامنہ کرنا پڑتا ہیں. یعنی مئی، جون، جولائی، اگست موسم سرما کے مہینے ہیں، اسی طرح دیگر موسم بھی ہیں. یہ بات خاصی عجیب سی لگتی ہےجبتکہ آپ اس کا تجربہ نہ کر لیں. یہاں تک تو بات سمجھ میں آتی ہے مگر سڈنی کا موسم تو انسانوں کے بدلنے سے بھی زیادہ تیزی سے بدل جاتا ہے. اگر ایک دن ٣٥ درجہ تو اگلے ہی روز ٢٠ درجہ (یہ ہم موسم گرما کا ذکر کر رہے ہیں). ابھی کل ہی کی بات ہے اچھا خاصا موسم تھا نہ سرد نہ گرم اور آج ٢٢ درجہ ہو گیا ہے کہ سردی محسوس ہونے لگی. ان دنوں یہاں پر پت جھڑ کا موسم ہے اور عنقریب سردی آیا چاہتی ہے. سڈنی سمندر کے کنارے آباد ہے بلکہ بقول پطرس ساحل سڈنی کے کنارے واقع ہے یوں یہاں پر باد صبا کے ساتھ ساتھ نسیم بحر بھی رواں رہتی ہے.
یہاں کی برسات بھی نرالی ہے گو کہ بن بادل نہیں ہوتی مگر ہوتی ہے تو خوب ہوتی ہے کہ گویا برستی جاے ہے مسلسل برسات آھستہ آھستہ.
پچھلے ماہ کی بارش کئی برسوں کی برسات پر بازی لے گئی اور سڑک پر کوڑے کے ڈرم آب باراں میں ترتے پاے گئے.
پاے تو چینی بھی جاتے ہیں سڈنی میں کہ مومن سے معذرت کے ساتھ تم مرے پاس والے شعر میں 'تم' سے مراد چینی ہیں.
سو دوستو سڈنی کا موسم اپنی انفرادیت کے ساتھ ہر برس قریبا ٢٦ ہفتے بارش لاتا ہے یعنی ٥٠ فیصد ہفتہ وار تعطیل پر آپ کپڑے نہیں سوکھا سکتے. تو اگر آپ سفر سڈنی کا قصد رکھتے ہیں تو اس بلاگ سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں.
آپ کی آرا کا انتظار رہے گا