Sunday, April 18, 2010

آسٹریلیا میں خیمہ زنی - قدرت کے نظارے-4


ہفتہ ٣ اپریل کی فجر ادا کر کے ہم نے عمران کا کیمرہ لیا اور گرد و نواح کا جائزہ لینے نکل کھڑے ہوے. پتہ یہ چلا کہ یہ جگہ سڑک کچھ کچھ شرقا غربا واقع تھی اور ہماری خیمہ بستی شاہراہ ١٨ یعنی سنو ماونٹین ہائی وے کی جنوبی جانب تھی. کوما ایک وادی ہے جو اسی شاہراہ کے دونوں کناروں پر آباد ہے. کچھ عکس بندی کرنے پر واپس آکر ناشتہ بنانے میں مدد کی، ساتھی حضرات ایک ایک کر کے بیدار ہو رہے تھے اور اس بات پر خوش تھے کہ رفع حاجت کے لیے قطار نہیں بنانی پڑے گے(یہ بات صرف پردیس میں اجتماعی طور پر رہنے والے ہی سمجھ سکتے ہیں). ناشتہ میں خاص اہتمام تھا، قیمہ کام دے رہا تھا، بن، ڈبل روٹی، مکھن اور دیگر لوازمات کے ساتھ دودھ پتی چاے، ناشتہ کا لطف دوبالا کر گئی. یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ رات مشرقی یورپ کے کچھ سیاح ہمارے پڑوس میں ہی آن ٹھرے تھے. ان میں سے ایک خاتون باورچی خانہ میں ہی چوبی بنچ پر سوئی تھیں، ہمارے باورچی خانے میں آنے سے پیشتر ہی وہ سب لوگ سفری سامان سے چاے بنا باورچی خانہ استمعال کیے بنا چکے تھے اور ابھی ہم ناشتہ فرما رہے تھے کہ وہ اپنی اگلی منزل کی جانب روانہ ہو چکے تھے.
خیر ناشتہ کر کے ہم گاڑیوں میں سوار ہو کر شاہراہ ١٨ ناپنے نکل پڑے. سفر کے دوران بارہا ایسا ہوا کہ شاہراہ کے نمبر شمار کو سنگ میل سمجھا گیا. مگر شکر ہے کہ یہ غلط فہمی صرف مسافروں کو رہی ڈرائیور ہوشیاری سے گاڑیاں چلاتے رہے. راستے کے مناظر کی خوبصورتی کو تفصیل سے بیان کرنے کیلیے یہ بلاگ نا کافی ہو گا اس بات کی تائید وہ تمام افراد کریں گے جو اس سفر پر ہمارے ساتھ تھے. کبھی سڑک پہاڑوں میں بل کھاتی تو کبھی اتار چڑھاؤ طے کرتی. پہاڑ، وادیاں، درخت، چراہ گاہیں، بادل، دھوپ چھاؤں کی آنکھ مچولی اورسوندھی نسیم کے جھونکے ارد گرد کو جنت نظیر بنا رہے تھے. خاص طور پر جب ہم اترائی میں جاتے تو سامنے تا حد نگاہ یوں گمان ہوتا کہ ایک وسیع پردے پر تصویر کشی کر دی گئی ہو. قدرت کی صناعی کی انگنت نشانیوں میں سے ایک پرتو ان مناظر میں ہم کو دکھائی دیا.
ان مناظر کی خوبصورتی کو نظر و دل میں سمو کر ہم جھیل جنڈا بائین پہنچے یہ جھیل بھی نہایت پر کشش تھی، ایک وادی میں صاف شفاف نیلگوں پانی برف کےپگھلنے پر اتر رہا تھا اور اس جھیل کی صورت میں جمع ہو رہا تھا. یہاں کچھ دیرتصویریں کھینچنے اور چہل قدمی کے بعد اگلی منزل کی طرف روانہ ہوے.
جاری ہے

Friday, April 16, 2010

آسٹریلیا میں خیمہ زنی - سونا خیموں میں-3


داخلی گرزگاہ پر سڑک سے متصل قصبہ سے متعلق معلومات آویزاں تھیں، وہاں سے کچھ راستوں کا اندازہ لگایا اور قصبہ میں داخل ہوے، ایک ہوٹل سے خیمہ زنی کی جگہ کا پتہ کیا، معلوم ہوا کہ کوما سے باہر جاتے ہوے ایک عدد کاروان سراے ہے.سو سیدھی سڑک پر قصبہ سے باہر نکلے ہی تھے کہ لب سڑک سنوٹیلز Snowtels Family Caravan Park خاندانی کارواں سراۓ (نام کے اس اردو ترجمہ کو پڑھ کر کوما جانے والے ہمسفر ضرور ہنسیں گے). خیر جب ہم وہاں پہنچے تو رات کے ٩ بج چکے تھے اور دفتر کی روشنی بجھ چکی تھی. دروازہ کھٹکھٹانے پر ایک عمر رسیدہ خاتون نے استقبال کیا اور ہمیں ٹہرنے کی اجازت دی. باورچی خانہ اور غسل خانہ مفت تھے. خیموں کے لیے اپنی پسند کی کوئی بھی جگہ کے انتخاب کی سہولت عنایات کی گئی. انہوں نے کارواں سراۓ کا ایک نقشہ دیا کہ اس میں سے آسانی سے کوئی جاہ ڈھونڈھ لی جاے. اب اندھیرا اس قدر تھا کہ ہمیں گاڑیوں سے اتر کر پیدل ہی جگہ کا تعین کرنا پڑا، باورچی خانے کے ساتھ قدرے ہموار زمین پر خیمہ زنی کا فیصلہ کیا گیا اور گاڑیوں کی روشنی میں خیمے گاڑے گئے. عمران، شہباز اور فراز علی اس میں پیش پیش تھے. خیمے برابر پیمائش کے نہ تھے لہٰذا طے ہوا کہ تین اور پانچ افراد کے سونے کی ترتیب رہے گی. ہمارے خیمے میں فراز علی، عمران اور راقم السطور تھے اور باقی افراد دوسرے خیمے تھے. مگر دونوں جانب حالات کچھ یوں تھے کہ بقول شاعر
ع پاؤں پھیلاؤں تو دیوار میں سر لگتا ہے
خیمے لگانے کے بعد منہ ہاتھ دھونے اور تازہ دم ہونےکی خاطر جب ہم غسل خانوں کی جانب گئے تو وہاں کی صفائی کا معیار دیکھ کر حیران رہ گئے کہ نہ تو وہاں پان کی پیکیں تھیں، نہ مخصوص فون نمبر اور نہ ہی اجنتا اور الورا کے نمونے. اسقدر صاف ستھرے غسل اور استنجا خانے تو ہم نے وطن کے پانچ ستاروں والے ہوٹلوں میں بھی نہیں دیکھے.
رات کے کھانے میں قیمہ اور روٹی تھی، کھانا کھا کر سو پڑے کہ اگلے دن پہاڑوں کی سیر کو جانا تھا.
جاری ہے

Wednesday, April 14, 2010

آسٹریلیا میں خیمہ زنی - کوما براستہ کینبرا-2


چالان کروانے اور برگر کھانے کے بعد دوبارہ سفر کا آغاز ہوا، اب فکر تھی نماز عصر کی اور ابھی یہ معلوم نہیں تھا کہ اگلی منزل کون سی ہو گی. راستے میں گاڑیوں میں گیس بھروائی اور ساتھ ہی تصویر کشی کا سلسلہ بھی جاری رہا. قریبا سوا چھے بجے ہم دارالحکومت کینبرا میں داخل ہو چکے تھے. طے یہ ہوا کہ یہیں عصر اور مغرب ادا کر لی جائیں اور پھر آگے کا سفر کیا جاے.
آج کی جدید دنیا میں ہم سب جی پی ایس کے استمعال سے واقف ہیں کہ یہ رہنما کا کام دیتے ہیں. مگر سفر کے آغاز میں ہی ہم پر یہ بات آشکارہ ہو گئی کہ یہ رہنما آپ کو بھٹکا بھی سکتے ہیں اگر نقشاجات ٹھیک طور پر موجودہ معلومات کے مطابق نہ ہوں. تو ہوا کچھ یوں کہ تین تین جی پی ایس ہوتے ہوے بھی ہم صحیح سمت کا تعین نہ کر پاے اور آخر میں کام آیا تو نوکیا کا ای 71. لہٰذا ہم کینبرا کی سڑکوں سے گزرتے ہوے با لآ خر مسجد کینبرا آن پوہنچے.
کینبرا کا ذکر کریں تو یوں سمجھ لیں کہ اسلام آباد کی نقل بنا کر آسٹریلیا میں بسا دی گئی ہے. من و عن وہی سڑکیں اور بناوٹ دکھائی دی.
اب آتے ہیں خانہ خدا کی طرف، مسجد کینبرا وہاں کے مؤذن کے مطابق سن ١٩٦٠ میں تعمیر کی گئی تھی. اس مسجد کی خاص بات یہ ہے کہ اس پر عربی خیمہ کی مانند نوکیلی چھتری نما دوپختہ چھتیں تعمیر کی گئی ہیں اور جنوبی جانب ایک مینار ہے. فیصل مسجد کی طرح اسکی مغربی سمت بھی پہاڑ ہیں. وضو خانہ اور استنجا خانہ ساتھ ہی ہیں اور سب سے اچھی بات یہ ہے کہ یہاں پر دیسی استنجا خانہ ہے، جسے دیکھ کر بے اختیار وطن کی یاد آگئی. عصر اور مغرب ادا کر کے ایمان تازہ ہو گیا کیوں کہ امام صاحب نہایت خوش الحان تھے.
نمازوں کے بعد دوبارہ سفر کا آغاز ہوا منزل تھی ١٢٠ کلو میٹر دور کوما (کاف کوالٹے پیش کے ساتھ پڑھا جاے) اب تک ہم لگ بھگ ٣٠٠ کلو میٹر کا سفر کر چکے تھے. یہ سفر اندھیرے کا تھا. مقررہ رفتار سے گاڑی دوڑاتے رات میں کوما کی حدود میں داخل ہوے، یہ ایک چھوٹا سا قصبہ ہے مگر تمام سہولتوں سے آراستہ ہے.
جاری ہے

Wednesday, April 7, 2010

آسٹریلیا میں خیمہ زنی، ابتدائیہ - 1


بھئی سڈنی جا کر گنتی ہو گی کہ کس کی سب سے زیادہ تصویریں ہیں وہ آئس کریم کھلاۓ گا، عمران کا جملہ جیسے ہی مکمل ہوا ہم سب نے پیچھے مڑ کر دیکھا اس وقت ہم یارنگوبلی نامی غاروں کی جانب پیدل گامزن تھے. قصہ کچھ یوں ہے کہ ہم آٹھ افراد اور دو گاڑیوں پر مشتمل چھوٹا سا قافلہ سنوئی ماونٹینز ویلی یعنی برفیلے پہاڑوں کی وادی کی سمت جمعہ ٢ اپریل ٢٠١٠ کی دوپہر رواں تھا، شاہراہ ہیوم جسے ٥ نمبر کی شاہراہ بھی کہتے ہیں جنوبی سڈنی کا ایک بڑا راستہ ہے کہ جس پر گاڑی کے سفر کا اپنا ہی مزہ ہے.
اس سفر کا مقصد کیمپنگ یعنی خیمہ زنی کرنا تھا کہ جس کے ساتھ تکہ کا ارادہ بھی تھا، منصوبہ بندی کافی دنوں سے جاری تھی اور اس کا خیال فراز خان کا پیش کردہ تھا.آٹھ میں سے دو صاحبان کے نام آچکے دیگر کے نام یوں ہیں، فہد الہی، شہباز واڈی والا، سید فراز علی، انس شاہین، یاسر آفندی اور راقم السطور. فراز خان اور انس شاہین آپس میں کزن ہیں اور ایک ہی علاقے میں رہتے ہیں، یاسر آفندی ہمارے محلہ دار ہیں اور بقیہ پانچ ایک ہی گھر میں رہائش پزیر ہیں.انس اور فراز علی کے سوا باقی سب یونیورسٹی آف نیو ساؤتھ ویلز کے طلبہ ہیں. یہ دونوں بھی پڑھتے ہیں.
یہاں پر ایسٹر کی تعطیلات کی وجہ سے ٤ روزہ طویل اختتام ہفتہ یعنی ویک اینڈ تھا اب ہم ان چھٹیوں میں ایسٹر تو منا نہیں سکتے تھے لہٰذا کیمپنگ کا ارادہ کیا. یکم اپریل رات گئے تک بھنا قیمہ تیار ہوتا رہا، اس سے پیشتر خریداری بھی کی گئی جس میں خیمہ ایک اہم شے تھی.
ایک گاڑی ہمارے ہاں سے روانہ ہونا تھی اور دوسری لیور پول سے، گاڑیوں کے مالکان واڈیوالا اور انس تھے.عمران اور میں بس اور ریل کا سفر کر کے لیور پول جا پہنچے جہاں انس نے ہمیں اسٹیشن سے گاڑی میں لے لیا. بقیہ افراد بھی وہاں آن پہچے کیونکہ فراز خان کا گھر یہیں تھا اور اس نے گھر سے سامان لینا تھا. ایک بجے ہم یہاں سے روانہ ہوۓ اور نماز جمعہ کی خاطر کیمبل ٹاون کی مسجد میں رُکے. نماز کے بعد ہائی وے فائیو پر دوبارہ سفر کا آغاز ہوا. راستے میں انس نے چالان کروا لیا، سو کی حد رفتار پر محترم ١٢٨ کی رفتار پر تھے، کیونکہ مقامی شہری ہیں اس وجہ سے دوگنے پوائنٹس کا جرمانہ ڈالر کے علاوہ ہوا یہ ایسٹر کی بدولت تھا، ایک جگہ برگر کھانے رکے برگر بہت مزے کے تھے اور انس کی والدہ نے خود بناے تھے جو پنیر، سلاد کے پتے،گوشت کے پارچہ اور تل والا بن سے بناتے گۓ تھے،یہ برگر کھا کر کراچی کے بند کواب کا مزہ آگیا.
جاری ہے