ہفتہ ٣ اپریل کی فجر ادا کر کے ہم نے عمران کا کیمرہ لیا اور گرد و نواح کا جائزہ لینے نکل کھڑے ہوے. پتہ یہ چلا کہ یہ جگہ سڑک کچھ کچھ شرقا غربا واقع تھی اور ہماری خیمہ بستی شاہراہ ١٨ یعنی سنو ماونٹین ہائی وے کی جنوبی جانب تھی. کوما ایک وادی ہے جو اسی شاہراہ کے دونوں کناروں پر آباد ہے. کچھ عکس بندی کرنے پر واپس آکر ناشتہ بنانے میں مدد کی، ساتھی حضرات ایک ایک کر کے بیدار ہو رہے تھے اور اس بات پر خوش تھے کہ رفع حاجت کے لیے قطار نہیں بنانی پڑے گے(یہ بات صرف پردیس میں اجتماعی طور پر رہنے والے ہی سمجھ سکتے ہیں). ناشتہ میں خاص اہتمام تھا، قیمہ کام دے رہا تھا، بن، ڈبل روٹی، مکھن اور دیگر لوازمات کے ساتھ دودھ پتی چاے، ناشتہ کا لطف دوبالا کر گئی. یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ رات مشرقی یورپ کے کچھ سیاح ہمارے پڑوس میں ہی آن ٹھرے تھے. ان میں سے ایک خاتون باورچی خانہ میں ہی چوبی بنچ پر سوئی تھیں، ہمارے باورچی خانے میں آنے سے پیشتر ہی وہ سب لوگ سفری سامان سے چاے بنا باورچی خانہ استمعال کیے بنا چکے تھے اور ابھی ہم ناشتہ فرما رہے تھے کہ وہ اپنی اگلی منزل کی جانب روانہ ہو چکے تھے.
خیر ناشتہ کر کے ہم گاڑیوں میں سوار ہو کر شاہراہ ١٨ ناپنے نکل پڑے. سفر کے دوران بارہا ایسا ہوا کہ شاہراہ کے نمبر شمار کو سنگ میل سمجھا گیا. مگر شکر ہے کہ یہ غلط فہمی صرف مسافروں کو رہی ڈرائیور ہوشیاری سے گاڑیاں چلاتے رہے. راستے کے مناظر کی خوبصورتی کو تفصیل سے بیان کرنے کیلیے یہ بلاگ نا کافی ہو گا اس بات کی تائید وہ تمام افراد کریں گے جو اس سفر پر ہمارے ساتھ تھے. کبھی سڑک پہاڑوں میں بل کھاتی تو کبھی اتار چڑھاؤ طے کرتی. پہاڑ، وادیاں، درخت، چراہ گاہیں، بادل، دھوپ چھاؤں کی آنکھ مچولی اورسوندھی نسیم کے جھونکے ارد گرد کو جنت نظیر بنا رہے تھے. خاص طور پر جب ہم اترائی میں جاتے تو سامنے تا حد نگاہ یوں گمان ہوتا کہ ایک وسیع پردے پر تصویر کشی کر دی گئی ہو. قدرت کی صناعی کی انگنت نشانیوں میں سے ایک پرتو ان مناظر میں ہم کو دکھائی دیا.
ان مناظر کی خوبصورتی کو نظر و دل میں سمو کر ہم جھیل جنڈا بائین پہنچے یہ جھیل بھی نہایت پر کشش تھی، ایک وادی میں صاف شفاف نیلگوں پانی برف کےپگھلنے پر اتر رہا تھا اور اس جھیل کی صورت میں جمع ہو رہا تھا. یہاں کچھ دیرتصویریں کھینچنے اور چہل قدمی کے بعد اگلی منزل کی طرف روانہ ہوے.
جاری ہے