کسی گاؤں میں تین دوست رہا کرتے تھےاسد، ناصر اور انور. اسد موچی کا بیٹا تھا، ناصرکا خاندان کھیتی باڑی کرتا تھا اور انور کے باپ کے پاس ایک ٹریکٹر تھا جو وہ کرایے پر دوسروں کے کھیتوں میں چلاتا تھا. یہ تینوں دوست مل کراسکول جاتے تھے اور ایک ساتھ اسکول کا کام کرتے اور کھیلتے تھے. یہ تینوں دوست ساتویں جماعت میں پڑھتے تھے اور اپنی جماعت کے لائق طالب علم تھے. پڑھنے لکھنےکے ساتھ ساتھ انکو کھیل کود وغیرہ سے بھی دلچسپی تھی. اسد کا نشانہ بہت اچھا تھا وہ غلیل سے کسی بھی چیز کا نشانہ لے سکتا تھا. ناصر کبڈی کھیلتا تھا اور بہت سے مقابلے جیت چکا تھا. انور کو تیراکی کا شوق تھا اور وہ الٹا بھی تیر سکتا تھا. ان باتوں کے ساتھ ان کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ یہ ہر کسی کی مدد کو تیار رہتے تھے اورگاؤں والوں کے لاڈلے تھے ،سب ان کو پیار کرتے تھے.
انکے گاؤں کے قریب ہی ایک گھنا جنگل تھا جس میں جنگلی جانور بھی تھے. اس جنگل میں بے شمار درخت تھے جن سے جنگل ہرا بھرا نظر آتا تھا. حکومت کی طرف سے یہاں درخت کاٹنا منع تھا. کیوں کہ درخت اس ماحول کو خوب صورت بناتے تھے.
یہ دوست اکثر اس جنگل کے قریب جایا کرتے تھے جہاں ایک ندی گاؤں اور جنگل کے بیچ میں بہتی تھی اور اس پر ایک لکڑی کا پل بنا ہوا تھا. ان تینوں کو اس جگہ پر کھیلنا بہت پسند تھا.
یہ ہم ان دنوں کا ذکر کر رہے ہیں جب ان کے گاؤں میں بجلی بھی نہیں آئی تھی سو شام ہوتے ہی لوگ اپنے گھروں کو لوٹ جاتے تھے.
وہ جمعہ کی چھٹی تھی، نمازاورکھانے کے بعد انہوں نے کچھ دیر آرام کیا اور پھر ندی کی طرف جا نکلے، سردی کا موسم اختتام پر تھا اوراب بہار کے خوشگوار دن تھے، آسمان پر ہلکے ہلکے بادل تھے اور چاروں طرف پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو پھیلی تھی، ندی کا صاف اور ٹھنڈا پانی، سہ پہر کا ڈھلتا سا سورج اور درختوں کے لمبے ہوتے ساے اس جگہ کو حسین بنا رہے تھے کہ جیسے جنت کا کوئی گوشہ ہو.
یہ تینوں دوست ندی کے کنارے کھیلنے لگے، اسد اپنی غلیل سے ندی میں دور تک پتھر پھینک رہا تھا اور کبھی ادھر ادھر پھدکتی گلہریوں کو ڈرا رہا تھا. ناصر جانگیا پہنے کبڈی کے داؤ پیچ دوہرا رہا تھا کہ جیسے پہلوان اکھاڑے میں تربیت حاصل کرتے ہیں اور انور ندی میں تیراکی کر رہا تھا. تینوں آپس میں باتیں بھی کر رہے تھے. اسد، ناصر سے بولا یار یہ انور ندی میں کافی دیر تک دبکی لگا لیتا ہے، ناصر بولا ہاں اب اس کو پانی میں رہنے کی کافی مشق ہو گی ہے ایسا لگتا ہے کہ یہ پانی میں ہی رہتا ہو. ویسے تم نے بھی نشانہ بازی میں خوب مہارت حاصل کر لی ہے لگتا ہے کہ اس بار گاؤں کے میلے میں تم دوبارہ جیتو گے. انور اس دوران پانی سے باہر آ چکا تھا ناصر کی بات کی تائید کرتا ہوا بولا کہ ہاں ناصر یہ اسد تو اُڑتی چڑیا کا بھی نشانہ لگا سکتا ہے. ابھی انور کی بات پوری ہی ہوئی تھی کہ انہیں جنگل کی طرف سے کچھ آواز آتی محسوس ہوئی.
یوں لگا کہ جیسے ہاتھی کی تکلیف دہ چنگھاڑ ہو، تینوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، انور ندی سے باہر نکلا اور بولا 'چلو جنگل میں جا کر دیکھتے ہیں کہ کیا ماجرا ہے' یہ تینوں ندی کا پل پار کر کے جنگل کی طرف چل پڑے. ابھی یہ جنگل میں داخل ہی ہوے تھے کہ آواز پھر سنائی دی. اب تو صاف پتہ لگ رہا تھا کہ یہ ہاتھی ہی کی چنگھاڑ ہے. آواز کے رخ پر چلتے چلتے جب یہ لوگ جنگل کے بیچ میں پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ چار افراد جن کے پاس شکاری بندوقیں تھیں درختوں کے پیچھے ایک کھلی جگہ پر بیٹھے تھے اور ان کے بیچ میں ایک ہاتھی گرا ہوا تھا. ان لوگوں نے بندوقوں کی مدد سے ہاتھی کوبیہوش کرنے کے انجکشن مارے تھے جس کی وجہ سے ہاتھی کو تکلیف ہوئی اور وہ چنگھاڑتا ہوا گرا اور بیہوش ہو گیا.
یہ شکاری ایک جیپ پر یہاں تک آے تھے جو درختوں کے پیچھے کھڑی تھی. یہ جیپ شائد جنگل کے دوسرے راستے سے یہاں لائی گئی تھی. کیونکہ ندی اور جنگل کی دوسری جانب ایک بڑی سڑک تھی جو شہر کو جاتی تھی. اب یہ شکاری اس ہاتھی کے دانت نکالنا چاہتے تھے. ہم آپ کو یہ بتا دیں کہ ہاتھی کا شکار اس کے دانتوں کی وجہ سے ہی کیا جاتا ہے اور اس کا شکار کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ ہاتھی کو اسکی دونوں آنکھوں کے بیچ میں گولی مارنی پڑتی ہے یا پھر اس کے دل کا نشانہ لینا پڑتا ہے. یہ شکاری کچھ نا تجربہ کار لگتے تھے تبھی انہوں نے صرف ہاتھی کو بیہوش کیا تھا. اب ان لوگوں نے اپنے تیز شکاری چاقو نکالے اور ہاتھی کی طرف بڑھے تاکہ اس کے دانت نکال سکیں.
یہ تینوں دوست اس منظر کو دیکھ رہے تھے. شکاریوں نے اپنی بندوقیں رکھ دی تھیں اس پر اسد نے فورا اپنی غلیل سے نشانہ لگا کر ایک شکاری کے سر پر پتھر مارا، اس شکاری کے ہاتھ میں چاقو تھا اور یہ ہاتھی کا دانت نکالنے کی کوشش کر رہا تھا. جیسے ہی اس کو پتھر لگا اس کے سر سے خون نکلنے لگا اور وہ اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا، باقی شکاریوں نے اپنی بندوقوں کی طرف ہاتھ بڑھایا. اس دوران اسد ایک درخت پر چڑھ چکا تھا اور انور گھوم کر شکاریوں کی جیپ تک پہنچ گیا تھا، اس نے جیپ میں بیٹھ کر دیکھا تو چابی لگی ہوئی تھی، کیونکہ یہ اپنے ابو کے ساتھ ٹریکٹر چلاتا تھا تو اسے اس بات کا اعتماد تھا کہ وہ جیپ با آسانی چلا سکے گا. اس نے جیپ سٹارٹ کی اور تیزی سے بڑی سڑک کی طرف دوڑائی تا کہ تھانے جا کر مدد لا سکے. اس دوران اسد نے باری باری تینوں شکاریوں کے ہاتھوں کا نشانہ لے کر ان کی بندوقیں گرا دیں، ناصر تو اسی انتظار میں کھڑا تھا اس نے جلدی سے چاروں بندوقیں اٹھا لیں اور بھاگ کھڑا ہوا. تین شکاری اپنے اپنے ہاتھوں کو اور ایک سر کو پکڑ کے بیٹھا تھا. یہ سب اس اچانک حملے پر بوکھلا گئے. ان لڑکوں نے شکاریوں کو ان کی نانی یاد دلا دی. ابھی شکاری پوری طرح سنبھل بھی نہ پائے تھے کہ انور پولیس لے کر پہنچ گیا، کیونکہ تھانہ جنگل سے زیادہ دور نہ تھا.
پولیس نے آتے ہی چاروں شکاریوں کو پکڑا اور ہتھکڑیاں لگا دیں. انسپکٹر نے لڑکوں کا شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ یہ چاروں شکاری اسی طرح سے جانوروں کا غیر قانونی طور پر شکار کرتے تھے اور انکو شہر کے چڑیا گھر میں بیچ دیتے تھے یا انکی کھال وغیرہ اتار کر مہنگے داموں فروخت کرتے تھے. پولیس اور محکمہ جنگلات والے کافی عرصہ سے ان لوگوں کی تاک میں تھے. اس طرح ان بچوں کی ہوشیاری سے یہ شکاری پکڑے گئے.
ہاتھی صرف بیہوش تھا اور اس کے ایک دانت پر چاقو کا ہلکا سا زخم تھا تو گاؤں کے جانوروں کی دیکھ بھال کرنے والے پرانے ڈاکٹر نے ہاتھی کو طبی امداد دی اور ہاتھی کچھ دیر میں ہوش میں آگیا. گاؤں والوں نے ان تینوں لڑکوں کو شاباشی دی کہ ان کی وجہ سے ایک معصوم جانور کی جان بچ گئی.