Saturday, May 29, 2010

تابش نے مچھلی تلی

آج عمران کے ساتھ سودا سلف کی خریداری کر رہے تھے کہ تابش کا فون آیا، موصوف نے مچھلی لانے کی فرمائش کی اور تاکید کی کہ سردخانے یعنی فرج کی اور صاف کی ہوئی ہو. دراصل آج تابش کے ہی کھانا پکانے کی باری تھی، اس وجہ سے ان کی بات ماننا پڑی. خوش قسمتی سے ان کی مطلوبہ مچھلی مل گئی اور ہم نے دو کلو مچھلی کے ساتھ شان لاہوری مچھلی مصالحے کے دو عدد پیکٹ بھی خریدے کیونکہ یہ بھی فرمائش میں شامل تھا. آج رات کے کھانے میں کچھ منفرد ہونے والا تھا. ہم نے اپنے سڈنی کے 9 ماہ کے اب تک کے قیام میں مچھلی کھائی تو ضرور مگر گھر میں بنا کر نہیں کھائی تھی.

گھر آتے ہی تابش نے مچھلی گرم پانی میں نرم کر کے مصالحہ لگا کر چھوڑ دی. شام میں ارادہ یہ ہوا کہ مچھلی کے ساتھ دہی کا رائتہ اور چاول بنا لیے جائیں. باسی نہاری کا شوربہ موجود تھا تو اس میں ہم نے چاول بنانے کا فیصلہ کیا. فراز نے رائتہ بنایا اور پراٹھےسینکے. ہم نے نہاری کے شوربہ میں پانی بڑھا کر کچھ نمک مرچ ڈالی اور پہلے سے بھگوے ہوے چاول ڈال کر بنا لیے. ہم تو ایک طرف ہو گئے اصل کام تابش نے کیا اور کم تیل میں ہلکی آنچ پر مچھلی تلی. جیسے ہی مچھلی کے چند قتلے تل کر تیل سے نکلے ہم نے بے صبری سےایک قتلہ چکھا مزہ ناقابل اعتبارحد تک اچھا تھا. خیر دل پر پتھر رکھکر انتظار کیا کہ ساری مچھلی تل لی جاۓ. تابش نے مچھلی تین تھالیوں میں ٹشو پیپر پر نکالی اور ہم نے کھانے کی میز سجائی.

ویسے تو ہمارے یہاں اکثر رات کے کھانے پہ ایسا ہی اہتمام ہوتا ہے مگر چھٹی کے روز تو اس قسم کا کھانا پکانا اور کھانا تفریح کا درجہ رکھتا ہے. ابھی کھانا لگا ہی تھا کہ ایک مہمان بھی آ گئے یہ الله کا خاص کرم رہا ہے کہ ہمارے یہاں ساتھ کھانے سے برکت رہتی ہے اور اضافی فرد یا افراد سے اس میں مزید اضافہ ہوتا ہے. کھانے کی میز پر چھے افراد نے پیٹ بھر کر کھایا اور شہباز کا حصہ پہلے ہی الگ کر دیا گیا. کھانے کے بعد احمد کراچی کا ملتانی سوہن حلوہ بھی (سڈنی میں) کھایا جو ہمیں آج تحفہ کے طور پربنگالی بھائی (دکاندار) نے دیا تھا. جس دوران یہ سطورلکھی جا رہی ہیں کافی بنائی جا رہی ہے جو احسن بنا رہے ہیں. امید ہے کہ جب یہ بلاگ پوسٹ ہو گا ہم کافی پی رہے ہوں گے. قارئین اس بلاگ میں تصویروں سے بھی لطف اندوز ہو سکتے ہیں. ان تصویروں سے ہمارے جملوں کی حقیقت مزید آشکارا ہو گی.

الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمارے دستر خوان اور دل کشادہ کرے, آمین

.آپ لوگ تصاویر ملاحظہ فرمائیں ہماری کافی آ گئی ہے

کھانے کی میز پر تابش گٹار کیساتھ

کھانا سجی ہوئی میز

فراز پراٹھا اچھالتے ہوے

تابش کی خوشی دیکھنے والی ہے، مچھلی کی تھالیاں ہاتھ میں

مچھلی تلی جارہی ہے
ہمارے دواعلی خانسامے جن کو پردیس نے کھانا پکانا سکھایا

Friday, May 28, 2010

بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے

داغ دل ہم کو یاد آنے لگے،
لوگ اپنے دیے جلانے لگے،
پس منظر میں اقبال بانو کی پر سوز آواز میں باقی صدیقی کی غزل بج رہی تھی، سرمد اس غزل کو بار بار سنے جا رہا تھا. آج پھر وہ ماضی میں کھویا ہوا تھا.

یہ ان دنوں کی بات تھی جب وہ یونیور سٹی میں پڑھتا تھا. سیکنڈ ائیر میں آتے ہی اسکی دوستی سارہ نامی ایک لڑکی سے ہو گئی تھی، ابتدا میں یہ دونوں گروپ میں مل کر پڑھتے تھے مگر آھستہ آھستہ دونوں ایک دوسرے کے قریب آتے چلے گیے. معاملہ نوٹس کے لین دین سے کارڈز کے تبادلے تک جا پہنچا اور با لآخر ایک روز سرمد نے سارہ سے اپنے دل کی بات کہ ہی ڈالی. ادھر بھی یہی حال تھا جیسا ادھر کا سماں تھا، یوں چہار سو رنگ بکھرنے لگے اور دونوں کو زندگی حسیں لگنے لگی کہ جیسے ان دونوں نے اپنی اپنی منزل پا لی ہو. دھیرے دھیرے ان کے گروپ کے قریبا سب لوگوں کو ان کی محبت کا پتہ چل گیا کہ عشق اور مشک چھپاے نہیں چھپتے.

'ارے بھئی تم یونیور سٹی پڑھنے آتے ہو یا عشق جھاڑنے' سرمد نے اپنے دوستوں کو قدرے سخت لہجے میں ڈانٹا. 'چھوڑو یار سرمد، تم تو جذباتی ہو جاتے ہو ایک دم، اب کوئی خود ہی لائن دے تو ہم کیا کریں.' زبیر نے اسے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی مگر سرمد اس کے جملے پر اور بھڑک اٹھا. 'یہ جو لائن دینے والی لڑکیاں اور تم جیسے لڑکے ہیں ان کا یہی مقصدہوتا ہے یونیور سٹیآ کے صرف وقت گزارنا ' اور پھر یہی سرمد جب سارہ کی زلفوں کا اسیر ہوا تو زبیر اسے وہ لمحات یاد دلاتا کہ جب وہ کسی لڑکی کو دیکھ کر کوئی جلمہ کہنے پر غضبناک ہو جاتا تھا. خیر یہ معاملے دل کے تھے کہ کسی پر کبھی بھی آسکتا ہے. مخلوط تعلیم کا اثر کسی طور تو ظاہر ہونا ہی تھا.
امتحانات میں ایسا ہوتا کہ سرمد اپنے نوٹس سارہ کو دے رہا ہوتا اور ادھر سارہ کچھ سرمد کی مدد کرتی، عام طور پر لڑکیاں پڑھاکو سمجھی جاتی ہیں یا کم از کم محنتی ہوتی ہے مگر سارہ میں یہ دونوں خصوصیات ناپید تھیں، انٹر میں بھی بس جیسے تیسے پڑھ لیا تھا اور اب پولیٹیکل سائنس میں پڑھتی تھی کہ اس میں رٹا لگایا جاسکتا تھا. سرمد شروع سےہی محنتی تھا مگر بدقسمتی سےکبھی اچھے نمبر نہیں لے پاتا تھا یوں غربت اور کم نمبروں کی وجہ سے آرٹس پڑھنے پر مجبور تھا. بی کام کا اسکا رجحان بالکل بھی نہیں تھا ورنہ دیگر لڑکوں کی طرح یہ انتخاب موجود تھا.

سارہ ایک امیر زادی تھی اور شوقیہ پڑھ رہی تھی، سرمد میں یوں دلچسپی لینا محض وقت گزارنا اور یونیورسٹی میں اپنے ساتھ ایک محافظ رکھنا تھا. سارہ کی پرانی سہیلیاں یہ بات اچھی طرح جانتی تھیں کہ سارہ، سرمد کے ساتھ کتنی سنجیدہ ہے. ادھر سرمد دل و جان سے سارہ کا خیال رکھتا اور اس کیلیے یہ تعلق زندگی کا اہم ترین رشتہ تھا.
ایسا نہیں ہے کہ معاشرہ میں اس عمر کے سب لڑکے لڑکیاں ایسی ہی سوچ رکھتے ہیں یا ایسا ہی عمل کرتے ہیں مگر اتنا ضرور ہے کہ کسی نہ کسی حد تک ہر کوئی اس دور سے گزرتا ضرور ہے. اب یہ بات الگ ہے کہ کس کا دامن کتنا بھیگتا ہے اور کس پر ماحول کا کتنا اثر ہوتا ہے. نیکوں کے یہاں بد اور بدوں کے یہاں نیک پیدا ہوتے آے ہیں، آذر کے گھر میں ابراھیم اور نوح کے گھر میں یام پیدا ہوے، مگر یہ بھی سچ ہے کہ ماہ کنعان میں محو ہونے والی زلیخا ہی تھی. یوں آدم و حوا کا ازلی تعلق فطرت پر ہی قائم ہے. بات صرف اتنی سی ہے کہ یہ تعلق احکام الہی کے مطابق ہی حسین لگتا ہے ورنہ نہایت قبیح و بدنما بن جاتا ہے.

بالآخر وہی ہوا کہ سرمد اور سارہ کی محبت کی بیل پروان نہ چڑھ سکی، سمسٹر کے بعد ان دونوں میں کوئی رابطہ نہ رہا، سیکنڈ ائیر کا نتیجہ آنے سے پہلے ہی سارہ کی شادی ہو گئی اور وہ امریکہ جا بسی. سرمد کیلیے یہ خبر کسی بم کے دھماکے سے کم نہ تھی وہ ذہنی طور پر اسقدر کرب و پستی کا شکار ہوا کہ پڑھائی چھوڑ دی اور ایک دفتر میں معمولی سی نوکری کرنے لگا. اس دفتر میں اسے اپنے والد کی وجہ سے کام ملا تھا کیونکہ وہ یہاں سے حال ہی میں ریٹائر ہوے تھے. سرمد عارضی طور پر یہاں رکھا گیا تھا. سرمد نے اپنے رجحان کے بر خلاف بی کام کا امتحان دے ڈالا اور نتیجہ آنے پر اسے دفتر میں مستقل کر دیا گیا، اسی دوران اسکا ارادہ سی ایس ایس کے امتحان میں بیٹھنے کا ہوا اور دو سال کے اندر اندر تیاری کر کے وہ نا صرف یہ کہ مقابلہ کے امتحان میں کامیاب ہوا بلکہ صوبہ بھر میں امتیازی نمبر حاصل کیے، یہاں اس کی خوش قسمتی نے کام دکھایا اور اسے وزارت خارجہ میں ایک اہم عہد ہ پر فائز کیا گیا. جیسے ہی اس کی تعیناتی اسلام آباد میں ہونے لگی اسکی ماں نے اسکی شادی کر دی . سدرہ نہایت اچھی شریک حیات ثابت ہوئی اور ان کی زندگی پرسکون گزارنے لگی.

شادی کے پہلے ہی برس میں اسے سرکاری دورے پر امریکہ جانا پڑا، سرمد، سدرہ کو بھی ساتھ لے گیا. ان کا قیام نیو یارک میں تھا. ایک شام ہوٹل سے دونوں چل قدمی کیلیے مین ہٹن کے مرکزی پارک کی طرف نکل پڑے. یہاں اچھی خاصی رونق تھی اور ہر عمر کے افراد دکھائی دے رہے تھے. یہ دونوں بھی ایک بنچ پر آن بیٹھے اور باتیں کرنے لگے.اتنے میں ایک گیند ان کے قریب آ گری، اس گیند کو لینے کیلیے ایک تین چار برس کا بچہ دوڑتا ہوا آیا. گیند سرمد کے پاس آکر گری تھی تو اس نے اٹھا لی، اتنے میں بچہ اسکے قریب آکر بولا 'مے آئی ہیو مائی بال پلیز' سرمد نے گیند اسے دے دی. پیچھے سے اسکی ماں اسے بلانے چلی آئی سرمد کی نظر ایک لمحے کو اسکی جانب اٹھی وہ اسے ایک نظر میں ہی پہچان گیا تھا، وہ کوئی اور نہیں سارہ ہی تھی. سارہ نے اسے نہیں دیکھا تھا، کیونکہ اسکی توجہ اپنے بیٹے پر تھی.
اس رات وہ دیر تک جاگتا رہا اور باقی صدیقی کی غزل سنتا رہا ساتھ ہی اپنی ڈائری لکھتا رہا سی ڈی پلئیر کی آواز اس کے کانوں تک آ رہی تھی
خود فریبی سی خود فریبی ہے، پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے
اب تو ہوتا ہے ہر قدم پہ گماں، ہم یہ کیسا قدم اٹھانے لگے

سدرہ سو رہی تھی اور غزل شاید آٹھویں باربج رہی تھی. رات کے آخری پہر میں اسکی آنکھ لگ گئی. اگلے دن وہ دفتری مصروفیت سے فارغ تھا اور مطمئن تھا کہ آج سدرہ کو شاپنگ پر لے جاے گا. ناشتہ کے بعد سدرہ کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی. وہ اسے فورا قریبی ہسپتال لے گیا وہاں ابتدائی معا ئنہ کے بعد اسے انتظار کرنے کا کہا گیا اور سدرہ کو لیڈی ڈاکٹر کے پاس بھیج دیا گیا. انتظار گاہ میں ایک عورت بیٹھی رو رہی تھی. سرمد چکرا کر رہ گیا کہ یہ کیسا گورکھ دھندہ ہے کہ ہر جگہ اسے وہی دکھائی دیتی ہے. مگر یہ اسکا گمان نہیں حقیقت تھی کہ وہ رونے والی عورت سارہ ہی تھی، اب کی بار سارہ نے بھی اسے دیکھا اور پہچان گئی.
'کیا ہوا ہے سارہ، کیوں رو رہی ہو؟' وہ گویا ہوا. 'وہ عدم' وہ اتنا ہی کہ پائی اور زاروقطار رودی. سرمد نے اسے دلاسہ دیا اور پوچھا 'کون عدم! تمہارا بیٹا؟ کیا ہوا اس کو؟'. 'وہ سیڑھوں سے گر گیا ہے اور سر پھٹ گیا ہے اسکا، خوب خون نکلا ہے.' وہ بمشکل جملہ مکمل کر سکی. سرمد یہ سن کر پریشان ہو گیا، کیونکہ سارہ کے ساتھ کوئی اور دکھائی نہیں دے رہا تھا. انتظارگاہ کے کیفے سے وہ اسکے لیے جوس لے آیا. اس نے پینے سے انکار کیا مگر سرمد کے سمجھانے پر پینے لگی، اب وہ کسی حد تک چپ ہو چکی تھی. سرمد اسکے سامنے والی بنچ پر بیٹھ گیا. سارہ نے پوچھا 'تم یہاں کیسے؟' 'اندر میری بیوی سدرہ کا چیک اپ چل رہا ہے ہے.' سرمد نے جواب دیا. 'کب کی شادی تم نے؟' سارہ نے پوچھا. 'اسی سال.' سرمد نے مختصر سا جواب دیا.

ہسمپتال کی اس انتظار گاہ اور اپنی یونیورسٹی کے زمان و مکان میں دوری کےباوجود تقدیر نے انکو ایک ہی وقت اور مقام پر لا ملایا تھا کہ جسکا تصور ان دونوں کے ذہن کے بعید ترین گوشوں میں بھی نہ تھا. انسان کتنا ہی ایک دوسرے سے بھاگتا پھرے یا چھپنے کی کوشش کرے یہ دنیا بہت چھوٹی ہے اور کبھی نا کبھی کہیں نہ کہیں آمنا سامنا ہو ہی جاتا ہے.

سدرہ کو شاید تفصیلی معا ئنہ کی ضرورت تھی. ادھر عدم کے بھی ٹانکے لگنے تھے اور سارہ کو بتا دیا گیا تھا کہ وہ انتظار کرے کیونکہ عدم کو سکون کا انجکشن دیا گیا تھا، یوں ان دونوں کے پاس کرنے کو اور کچھ نہیں تھا. 'تمہارا شوہر کیوں نہیں آیا؟' سرمد نے سوال کیا. سارہ کے چہرے پر کرب و سکون کے ملے جلے سے جذبات نمودار ہے، 'وہ مر چکا ہے' سارہ نے اپنا سر کرسی کی ٹیک پر سہارتے ہوے جواب دیا. سرمد کے منہ سے بے اختیار آہ نکلی. 'میری زندگی کے یہ پانچ سال جس تکلیف میں گزرے ہے وہ میں ہی جانتی ہوں اور کیوں نہ گزرتے میں نے تمہیں دھوکہ جو دیا تھا، تمہارا دل دکھایا تھا.' سارہ کی زبان پر پشیمانی کے الفاظ آ ہی گئے. 'ایوب ایک بد قماش شخص نکلا، میرے پاپا نے اسکی دولت دیکھتے ہوے میری شادی اس سے کی. جس سے انکو کاروبار کی شراکت میں فائدہ ہوا کیونکہ ایوب کے انکے شراکت داروں کے ساتھ مراسم تھے. یہاں آکر پتہ چلا کہ اس کے مراسم بازاری عورتوں سے بھی تھے. اگر ایوب کے ضعیف والدین کا خیال نہ ہوتا تو میں شروع میں ہی اسے چھوڑ چکی ہوتی. اسکی موت نے خود ہی یہ قصہ تمام کر دیا.' وہ برسوں کا فاصلہ جلموں میں طے کرتی گئی. 'مجھے معاف کر دینا سرمد میں سوچتی تھی کہ میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا تو جواب میں تمہارا ہی خیال آتا تھا.'

سرمد کے پاس اس کےسوا کہنے کو کچھ نہ تھا 'میں نے تمہیں معاف کیا سارہ'

اتنے میں سرمد کو بلا لیا گیا سدرہ کا چیک اپ ہو چکا تھا اور خبر خوشی کی تھی کہ انکے آنگن میں ننھا پھول کھلنے والا تھا. یہ دونوں خوشی سے نہال باہر نکلے تو سامنے سارہ بیٹھی تھی. سرمد نے دونوں کا تعارف کرایا، 'سدرہ یہ سارہ ہے میرے ساتھ یونیورسٹی میں تھی، اور یہ میری بیوی سدرہ ہے.' اتنے میں سارہ کو بلا لیا گیا اور وہ اپنے بیٹے کو دیکھنے دوڑی گئی. سرمد اور سدرہ نے باہر کی راہ لی. گاڑی میں بیٹھتے ہوے سدرہ بولی 'اگر بیٹی ہوئی تو اسکا نام سارہ رکھیں گے' سرمد چونک سا گیا. 'صبح میں نے آپکی ڈائری پڑھ لی تھی جب آپ غسل خانے میں تھے.' سدرہ نے اقرار کیا اور سرمد مسکرا کر رہ گیا اس کے ذہن میں باقی صدیقی کی غزل کا شعر گونجنے لگا
ایک پل میں وہاں سے ہم اٹھے، بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے

Monday, May 17, 2010

باتیں جامعہ کراچی کی


قصہ کچھ یوں ہے کہ . سن 1993 کا ماہ نومبر تھا کہ جب ہم نے جامعہ کراچی کے چکر لگانا شروع کیے اور 1994 کے ماہ جنوری میں ہم شعبہ ریاضی میں سال اول کے طالب علم کا درجہ حاصل کر سکے، اس وقت مقصد عزت کی ایک ڈگری کا حصول تھا کہ گیان و دھیان کی شہر کی سب سے بڑی سرکاری درسگاہ ہماری یہی مادر علمی تھی. سال اول میں ہم نے ریاضی، اضافی ریاضی اور طبیعات کے سائنسی مضامین پڑھے جن میں سے طبیعات میں دونوں سمسٹرز میں امتیازی نمبر حاصل کیے جو کہ 70 فیصد بنتے تھے. اس کارن ہم اپنا تبادلہ شعبہ طبیعات میں کرا پاے. تقدیر میں طبیعات کا استاد اور محقق بننا لکھا تھا. یوں ہم نے بقیہ 3 سال طبیعات ایک اہم مضمون کے طور پر پڑھا.
سال اول میں ہم نے اپنے طور پر ہی پڑھنے کی کوشش کی مگر جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ جامعہ میں رہن سہن کا انداز جداگانہ ہے تو گروپ بنا کر پڑھنے لگے. ہم کوئی پوزیشن ہولڈر قسم کے طالب علم نہ تھے مگر اتنا ضرور تھا کہ اساتذہ کی نظرمیں رہتے تھے خاص طور پر طبیعات میں تو مشہور تھے کہ ہم تبادلہ کرا کر آۓ تھے.
جامعہ کراچی میں ایک خاص قسم کا ماحول ہے اور آپ کو اس کے مطابق ہی چلنا پڑتا ہے. مثلا پوائنٹ میں آنا جانا، سلور جوبلی سے ڈیپارٹ تک پیدل چلنا، بارش میں دو دو بار آئس کریم کھانا. لائبریری کے لان میں دیر تک بیٹھنا، پی جی میں کباب رول کھانا، مجیدے کے ہوٹل سے انڈہ گھوٹالا کھانا اور تین تین بار گریبی مانگنا، پوائنٹ میں جلدی جاکر جگہ گھیرنے کیلیے سیٹ پر پتھر رکھ آنا. کمبائنڈ یعنی گروپ اسٹڈی کرنا وغیرہ وغیرہ. آج ہم جب اپنے چند شاگردوں سے سنتے ہیں کہ وہ جامعہ میں خود کو مکمل طور پر ماحول کے مطابق نہیں ڈھال پاے تو وہ ہمیں کسی دوسرے سیارے کی مخلوق لگتے ہیں. کچھ بھی ہو جامعہ کا ماحول گزشتہ 16 سالوں سے تو ہم نے ایسا ہی دیکھا ہے، سنا ہے کہ اب امتحان کا طریقہ کار کچھ بدل گیا ہے اور سمسٹر سسٹم باقاعدہ رائج کردیا گیا ہے جو کہ سالانہ سے زیادہ آسان مانا جاتا ہے یہ اور بات کہ طلبہ ہر وقت حالتِ امتحان میں رہتے ہیں مگر ہمارے تجربہ کے مطابق جامعہ کراچی میں پڑھنا آج بھی نہایت آسان ہے.
اگر آپ شروع سے ٹیچر کے ساتھ ساتھ تمام لیکچر دوہراتے رہیں یا کم از کم روز کا روز پڑھ لیں تو آخر میں دقت نہیں ہوتی. (بلا گ پر امید ہے کہ ہمارے شاگرد ضرور آرا دیں گے کہ سر آپ کو نہیں پتہ کہ کتنا مشکل ہے اب پڑھنا) تو ہم پہلے ہی مانے لیتے ہیں کہ ہاں بہت مشکل ہے آج کل پڑھنا، کیونکہ ہم نے جب پڑھا تھا تو موبائل اور انٹرنیٹ اس قدر بچہ بچہ کی رسائی میں نہ تھے اور خاصا وقت نکل آتا تھا، اور تو اور اس دور میں ہم نے طلبہ و طالبات کو ٹیوشن بھی پڑھاتے دیکھا. ہم خود بھی شام کو کوچنگ میں پڑھاتے تھے. یہ شغل تو آج بھی بہت سے طلبہ کرتے دکھائی دیتے ہیں.
امتحان کے دنوں میں جب پرچوں میں گیپ ملتا تو رات رات بھر ایک دوسرے کے ہاں رک کر پڑھتے تھے اور چاے پراٹھوں کا دور چلتا تھا، بلکہ شاہ رخ خان اور کاجل کی 'دل والے دلہنیا لے جائیں گے' بھی ہم نے امتحانوں کے گیپ کے دوران ایک دوست کے گھر دیکھی تھی. مقصد یہ سب بیان کرنے کا یہ ہے کہ جو لوگ امتحانوں کو اپنے اوپر طاری کر لیتے ہیں اور بیمار پڑ جاتے ہیں یا کمرہ امتحان میں گم سم ہو جاتے ہیں انھیں چاہیے کہ پر سکون رہ کر پرچوں کی تیاری کریں. اس دور میں ہم ایف ایم بھی سنا کرتے تھے اور کافی اشعار رات 12 سے 4 کے غزل رنگ پروگرام سے سن کر یاد کیے تھے.
ہمیں ان تمام طالب علموں پر بھی ہنسی آتی تھی جو عین امتحان کے روز نوٹس اور لیکچر لے کر کمرہ امتحان کے سامنے بلکہ اندر بھی پڑھ رہے ہوتے تھے یہاں تک کہ جب تک امتحانی پرچہ تقسیم نہ کر دیا جاتا ان کے نوٹس نظروں سے نہ ہٹتے. اس قسم کی 'ساڑھے گیارہ بجے والی' پڑھائی ہماری سمجھ سے بالاتر تھی. ہمیں یقین ہے کہ ایسی قوم جامعہ میں ہر دور میں رہی ہے. اس قسم میں لڑکیوں کی تعداد خاصی دیکھنے میں آتی ہے ویسے بھی اب جامعہ کراچی جامعہ زنانہ بن چکی ہے.
اس بلاگ کا اختتام ہم سینیٹر جاوید جبّار کے الفاظ پر کرتے ہیں جو انہوں نے 1998 میں جامعہ کراچی میں ایک تقریب کے موقع پر کہے تھے 'ہم یہ نہیں کہتے کہ جامعہ کراچی، کراچی میں ہے بلکہ کراچی، جامعہ کراچی میں ہے'

رب کا شکر ادا کر بھائی

آج صبح بیدار ہونے پر فجر پڑھی، ایک دم سے خیال آیا کہ یہ روز و شب گذرتے جاتے ہیں اور ہم اپنی عمر کی چونتیس بہاریں تو دیکھ ہی چکے ہیں، مگر ان چونتیس برسوں میں اس پروردگار کا شکر کتنی بار بجا لاے. کسی نے سلام کیا اور حال پوچھا تو جواب سلام کے بعد ہم میں سے بہت سوں کا جملہ یہی ہوتا ہے 'الله کا شکر ہے' گو کہ یہ بھی ایک انداز ہے زبان سے شکر ادا کرنے کا. مگر ہم عملا رب کا شکر ادا نہیں کر رہے ہوتے. ایک ای میل شائد آپ لوگوں نے بھی پڑھی ہو اس مضمون کو تمثیلی انداز میں کچھ یوں بیان کرتی ہے کہ ایک شخص کو جنت کا دیدار ہوا وہاں مختلف شعبہ جات تھے کہ جہاں فرشتے کاموں پر معمور تھے. ایک شعبہ میں کافی رش دکھائی دیا تو اس شخص نے سوال کیا کہ یہاں پر اس قدر رش کیوں ہے اور آخر یہاں ہو کیا رہا ہے؟ جواب ملا کہ اس جگہ پر زمین سے لوگوں کی دعائیں آتی ہیں اور ان کو قلم بند کیا جاتا ہے. آگے بڑھنے پر دوسری جگہ بھی بہت سے فرشتے کام میں مصروف نظر آے، یہاں پر ان دعاؤں کے مطابق آرڈر تیار ہو رہا تھا اور زمین پر لوگوں تک انکی خواہشات کے مطابق ان کی حاجت روائی کا بندو بست کیا جا رہا تھا. اسی شعبہ میں آگے پڑھنے پر ایک کمرے میں ایک عدد فرشتہ با لکل فارغ بیٹھا دکھائی دیا تو اس شخص نے نہایت تعجب سے سوال کیا کہ تم خالی ہاتھ کیوں بیٹھے ہو کوئی کام کیوں نہیں کر رہے؟ فرشتے نے جواب دیا کہ میرا کام دعاؤں کے پورا ہونے کے بعد ان کی رسید درج کرنے کا ہے، زمین سے کوئی رسید موصول ہو گی تو میں اسے رجسٹر میں لکھوں گا نا !
سو ہمارا حال یہی ہے کہ ہم مالک سے تقاضہ کرتے ہیں کہ یہ اسی کی ہی شان ہے جس کو چاہے اور جسقدر چاہے نوازے. مگر جب باری شکر کی آتی ہے تو ہم سے یہ کلمہ ادا نہیں ہوتا. بچپن میں بڑوں سے ایک شعر سنا کرتے تھے اور اس وقت محظوظ ہوتے تھے کہ یہ کیسی بات ہے، شعر کچھ یوں تھا کہ
رب کا شکر ادا کر بھائی
جس نے ہماری گاے بنائی
وقت کے ساتھ ساتھ اس شعر کا مطلب سمجھ میں آتا گیا کہ شکر ادا کرنا ایسا ہی ہے جیسے سانس لینا کیونکہ یہ سانس کا نظام بھی اگر بے ترتیب ہو جاے تو یہ وجود کسی قابل نہیں رہتا. ہم کوئی عالم تو نہیں ہیں مگر الله سے تعلق کی بابت اتنا ضرور محسوس کرتے ہیں کہ جو مالک ہمارے ساتھ ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قربت رکھتا ہے وہ کبھی بھی کسی پر اسکی استطاعت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا اور نہ ہی اسے تنہا چھوڑتا ہے. اور نہیں تو کم از کم ہم نماز پنجگانہ میں اس مالک کے سامنے ایک انداز سے شکر تو بجا لا سکتے ہیں لہٰذا اس کا اہتمام ضروری ہے.
ہر حال میں رہا جو ترا آسرا مجھے
مایوس کر سکا نہ ہجوم بلا مجھے
اسی مالک کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں یہ سطورلکھنے اور آپ کو پڑھنے کی توفیق دی.
کسی کو تاج وقار بخشے، کسی کو ذلت کے غار بخشے
جو سب کے ماتھے پہ مہر قدرت لگا رہا ہے وہی خدا ہے

Saturday, May 15, 2010

(تین دوست (مکمل


کسی گاؤں میں تین دوست رہا کرتے تھےاسد، ناصر اور انور. اسد موچی کا بیٹا تھا، ناصرکا خاندان کھیتی باڑی کرتا تھا اور انور کے باپ کے پاس ایک ٹریکٹر تھا جو وہ کرایے پر دوسروں کے کھیتوں میں چلاتا تھا. یہ تینوں دوست مل کراسکول جاتے تھے اور ایک ساتھ اسکول کا کام کرتے اور کھیلتے تھے. یہ تینوں دوست ساتویں جماعت میں پڑھتے تھے اور اپنی جماعت کے لائق طالب علم تھے. پڑھنے لکھنےکے ساتھ ساتھ انکو کھیل کود وغیرہ سے بھی دلچسپی تھی. اسد کا نشانہ بہت اچھا تھا وہ غلیل سے کسی بھی چیز کا نشانہ لے سکتا تھا. ناصر کبڈی کھیلتا تھا اور بہت سے مقابلے جیت چکا تھا. انور کو تیراکی کا شوق تھا اور وہ الٹا بھی تیر سکتا تھا. ان باتوں کے ساتھ ان کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ یہ ہر کسی کی مدد کو تیار رہتے تھے اورگاؤں والوں کے لاڈلے تھے ،سب ان کو پیار کرتے تھے.
انکے گاؤں کے قریب ہی ایک گھنا جنگل تھا جس میں جنگلی جانور بھی تھے. اس جنگل میں بے شمار درخت تھے جن سے جنگل ہرا بھرا نظر آتا تھا. حکومت کی طرف سے یہاں درخت کاٹنا منع تھا. کیوں کہ درخت اس ماحول کو خوب صورت بناتے تھے.
یہ دوست اکثر اس جنگل کے قریب جایا کرتے تھے جہاں ایک ندی گاؤں اور جنگل کے بیچ میں بہتی تھی اور اس پر ایک لکڑی کا پل بنا ہوا تھا. ان تینوں کو اس جگہ پر کھیلنا بہت پسند تھا.
یہ ہم ان دنوں کا ذکر کر رہے ہیں جب ان کے گاؤں میں بجلی بھی نہیں آئی تھی سو شام ہوتے ہی لوگ اپنے گھروں کو لوٹ جاتے تھے.
وہ جمعہ کی چھٹی تھی، نمازاورکھانے کے بعد انہوں نے کچھ دیر آرام کیا اور پھر ندی کی طرف جا نکلے، سردی کا موسم اختتام پر تھا اوراب بہار کے خوشگوار دن تھے، آسمان پر ہلکے ہلکے بادل تھے اور چاروں طرف پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو پھیلی تھی، ندی کا صاف اور ٹھنڈا پانی، سہ پہر کا ڈھلتا سا سورج اور درختوں کے لمبے ہوتے ساے اس جگہ کو حسین بنا رہے تھے کہ جیسے جنت کا کوئی گوشہ ہو.
یہ تینوں دوست ندی کے کنارے کھیلنے لگے، اسد اپنی غلیل سے ندی میں دور تک پتھر پھینک رہا تھا اور کبھی ادھر ادھر پھدکتی گلہریوں کو ڈرا رہا تھا. ناصر جانگیا پہنے کبڈی کے داؤ پیچ دوہرا رہا تھا کہ جیسے پہلوان اکھاڑے میں تربیت حاصل کرتے ہیں اور انور ندی میں تیراکی کر رہا تھا. تینوں آپس میں باتیں بھی کر رہے تھے. اسد، ناصر سے بولا یار یہ انور ندی میں کافی دیر تک دبکی لگا لیتا ہے، ناصر بولا ہاں اب اس کو پانی میں رہنے کی کافی مشق ہو گی ہے ایسا لگتا ہے کہ یہ پانی میں ہی رہتا ہو. ویسے تم نے بھی نشانہ بازی میں خوب مہارت حاصل کر لی ہے لگتا ہے کہ اس بار گاؤں کے میلے میں تم دوبارہ جیتو گے. انور اس دوران پانی سے باہر آ چکا تھا ناصر کی بات کی تائید کرتا ہوا بولا کہ ہاں ناصر یہ اسد تو اُڑتی چڑیا کا بھی نشانہ لگا سکتا ہے. ابھی انور کی بات پوری ہی ہوئی تھی کہ انہیں جنگل کی طرف سے کچھ آواز آتی محسوس ہوئی.
یوں لگا کہ جیسے ہاتھی کی تکلیف دہ چنگھاڑ ہو، تینوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، انور ندی سے باہر نکلا اور بولا 'چلو جنگل میں جا کر دیکھتے ہیں کہ کیا ماجرا ہے' یہ تینوں ندی کا پل پار کر کے جنگل کی طرف چل پڑے. ابھی یہ جنگل میں داخل ہی ہوے تھے کہ آواز پھر سنائی دی. اب تو صاف پتہ لگ رہا تھا کہ یہ ہاتھی ہی کی چنگھاڑ ہے. آواز کے رخ پر چلتے چلتے جب یہ لوگ جنگل کے بیچ میں پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ چار افراد جن کے پاس شکاری بندوقیں تھیں درختوں کے پیچھے ایک کھلی جگہ پر بیٹھے تھے اور ان کے بیچ میں ایک ہاتھی گرا ہوا تھا. ان لوگوں نے بندوقوں کی مدد سے ہاتھی کوبیہوش کرنے کے انجکشن مارے تھے جس کی وجہ سے ہاتھی کو تکلیف ہوئی اور وہ چنگھاڑتا ہوا گرا اور بیہوش ہو گیا.
یہ شکاری ایک جیپ پر یہاں تک آے تھے جو درختوں کے پیچھے کھڑی تھی. یہ جیپ شائد جنگل کے دوسرے راستے سے یہاں لائی گئی تھی. کیونکہ ندی اور جنگل کی دوسری جانب ایک بڑی سڑک تھی جو شہر کو جاتی تھی. اب یہ شکاری اس ہاتھی کے دانت نکالنا چاہتے تھے. ہم آپ کو یہ بتا دیں کہ ہاتھی کا شکار اس کے دانتوں کی وجہ سے ہی کیا جاتا ہے اور اس کا شکار کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ ہاتھی کو اسکی دونوں آنکھوں کے بیچ میں گولی مارنی پڑتی ہے یا پھر اس کے دل کا نشانہ لینا پڑتا ہے. یہ شکاری کچھ نا تجربہ کار لگتے تھے تبھی انہوں نے صرف ہاتھی کو بیہوش کیا تھا. اب ان لوگوں نے اپنے تیز شکاری چاقو نکالے اور ہاتھی کی طرف بڑھے تاکہ اس کے دانت نکال سکیں.
یہ تینوں دوست اس منظر کو دیکھ رہے تھے. شکاریوں نے اپنی بندوقیں رکھ دی تھیں اس پر اسد نے فورا اپنی غلیل سے نشانہ لگا کر ایک شکاری کے سر پر پتھر مارا، اس شکاری کے ہاتھ میں چاقو تھا اور یہ ہاتھی کا دانت نکالنے کی کوشش کر رہا تھا. جیسے ہی اس کو پتھر لگا اس کے سر سے خون نکلنے لگا اور وہ اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا، باقی شکاریوں نے اپنی بندوقوں کی طرف ہاتھ بڑھایا. اس دوران اسد ایک درخت پر چڑھ چکا تھا اور انور گھوم کر شکاریوں کی جیپ تک پہنچ گیا تھا، اس نے جیپ میں بیٹھ کر دیکھا تو چابی لگی ہوئی تھی، کیونکہ یہ اپنے ابو کے ساتھ ٹریکٹر چلاتا تھا تو اسے اس بات کا اعتماد تھا کہ وہ جیپ با آسانی چلا سکے گا. اس نے جیپ سٹارٹ کی اور تیزی سے بڑی سڑک کی طرف دوڑائی تا کہ تھانے جا کر مدد لا سکے. اس دوران اسد نے باری باری تینوں شکاریوں کے ہاتھوں کا نشانہ لے کر ان کی بندوقیں گرا دیں، ناصر تو اسی انتظار میں کھڑا تھا اس نے جلدی سے چاروں بندوقیں اٹھا لیں اور بھاگ کھڑا ہوا. تین شکاری اپنے اپنے ہاتھوں کو اور ایک سر کو پکڑ کے بیٹھا تھا. یہ سب اس اچانک حملے پر بوکھلا گئے. ان لڑکوں نے شکاریوں کو ان کی نانی یاد دلا دی. ابھی شکاری پوری طرح سنبھل بھی نہ پائے تھے کہ انور پولیس لے کر پہنچ گیا، کیونکہ تھانہ جنگل سے زیادہ دور نہ تھا.
پولیس نے آتے ہی چاروں شکاریوں کو پکڑا اور ہتھکڑیاں لگا دیں. انسپکٹر نے لڑکوں کا شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ یہ چاروں شکاری اسی طرح سے جانوروں کا غیر قانونی طور پر شکار کرتے تھے اور انکو شہر کے چڑیا گھر میں بیچ دیتے تھے یا انکی کھال وغیرہ اتار کر مہنگے داموں فروخت کرتے تھے. پولیس اور محکمہ جنگلات والے کافی عرصہ سے ان لوگوں کی تاک میں تھے. اس طرح ان بچوں کی ہوشیاری سے یہ شکاری پکڑے گئے.
ہاتھی صرف بیہوش تھا اور اس کے ایک دانت پر چاقو کا ہلکا سا زخم تھا تو گاؤں کے جانوروں کی دیکھ بھال کرنے والے پرانے ڈاکٹر نے ہاتھی کو طبی امداد دی اور ہاتھی کچھ دیر میں ہوش میں آگیا. گاؤں والوں نے ان تینوں لڑکوں کو شاباشی دی کہ ان کی وجہ سے ایک معصوم جانور کی جان بچ گئی.

Friday, May 14, 2010

آسٹریلیا میں خیمہ زنی - مقابلہ تصاویر کا اور واپسی-8


ہم سب آگے چل رہے تھے اور عمران صاحب کیمرہ ہاتھ میں لیے ہماری اور درختوں سے ڈھکی رہگزر کی تصویریں کھینچ رہے تھے، اسی لمحے تصویروں کی گنتی والی بات کہی گئی. ہم پہاڑ کی گول چکر کاٹ کر آگے بڑھے تو ہمارے سامنے ایک غار تھا جس کا دھانہ کافی بڑا. اس میں داخل ہوے تو ایک عجیب ہی منظر تھا اندر سے پہاڑ کی چھت میں ایک بہت بڑا سوراخ تھا اور اس سے آسمان صاف دکھائی دے رہا تھا، اس طرح کا منظر ہم نے کراچی میں پیرا ڈائز پوئنٹ پہ عمودی چٹان میں تو دیکھا تھا مگر یھاں افقی طور پر زندگی میں پہلی بار دیکھا. خیر اندر جانے پر گھپ اندھیرا تھا، اس اندھیرے میں کمی اس وقت آئی جب مدھم سے برقی قمقمے روشن دکھائی دیے. جب ہماری آنکھیں اندر کی اس مدھم روشنی سے مانوس ہوئیں تو ہم نے جانا کہ ہم ایک آہنی پل پر چل رہے تھے جو اسقدر چوڑا تھا کہ اس پر ایک وقت میں ایک ذی روح چل سکتا تھا. ماحول میں ٹھنڈک تھی اور ارد گرد چونے کی قلمیں تھیں جن سے پانی ٹپک رہا تھا اور عجب سا جلترنگ سنائی دے رہا تھا. یہاں درج معلومات پڑھنے سے پتہ چلا کہ قدیمی آسٹریلیائی باشندے ان غاروں میں رہا کرتے تھے اور شکار کی خاطر باہر نکلتے تھے. گویا کہ لغوی اعتبار سے پتھر کے دور کا منظر ہمارے سامنے تھا. چونے کی قلمیں مختلف رنگوں میں تھیں کہیں سفیداور کہیں ان میں پہاڑی عناصر کی بدولت سلیٹی رنگ نمایاں تھا. چند ایک مقامات پر ہمیں راستہ ٹٹول کر قدم رکھنا پڑے ایسے میں ایک جگہ ہمارا ہاتھ الٹے رخ پر چونے کی قلم پر پڑ گیا اور ہلکی سی خراش آ گئی اور چونا خون سے کیمیائی طور پر ملا تو 'چونا لگانے' کے محاورے کا اصل مطلب سمجھ آ گیا. جب ہم اس غار سے باہر نکلے تو سورج کی روشنی سے آنکھیں چندھیا گئیں. انہی چندھیائی آنکھوں نے ایک دیسی خاندان کو غار کی جانب جاتے دیکھا، اس میں شیر خوار سے لے کر انکل آنٹی کی عمر کے افراد تھے جو بات قابل دید و ذکر ہے وہ یہ کہ خاتون نے فیروزی رنگ کی شلوار قمیض زیب تن کی ہوئی تھی اور اس پر گلے سے لے کر دامن تک کام کیا ہوا تھا کہ جیسے کسی شادی کی تقریب سے آ رہی ہوں یا جانے والی ہوں. ہماری اس تفصیلی جزئیات نگاری پر اگر کسی کو کوئی اعتراض ہو تو ہم معذرت خواں ہیں مگر ہم نے جو دیکھا من و عن بیان کیا ہے.
یہاں سے نکلے اور شاہراہ نو ماؤنٹین کا سفر شروع کیا، پہلے ارادہ ہوا کہ مختصر راستہ (شارٹ کٹ) اختیار کیا جاے مگر جی پی ایس نے دھوکہ دیا اور ہمیں ایک عدد کچے راستے پر لے گیا، پھر تے پایا کہ شاہراہ نہ چھوڑی جاۓ اور کوما سے کینبرا کا وہی راستہ طے کیا جاۓ جس سے ہم یہاں تک آے تھے. لہٰذا ہم کوما کی طرف عازم سفر ہوے، کوما پہنچے تو ہمیں حسن، عمار، عثمان اور انکے دوست ملے جو گزشتہ رات ہی آے تھے اور آج جا رہے تھے. یہ بھی ہمارے محلہ دار ہیں اور یاسر انہی کے ساتھ رہتے ہیں. ہم نے یہاں سے گاڑیوں کی ٹنکیاں بھروا لیں اور بنا رکے دارالحکومت کینبرا جا کر دم لیا. دوسری گاری شہر میں ہم سے بچھڑ گئی اور اسلامک سنٹر جا پہنچی جبکہ ہم نے کینبرا مسجد میں ہی عصر اور مغرب ملا کر پڑھی. نماز کے بعد سڈنی جانے والی شاہرا ہ پر ملے اور طے کیا کہ اپنے اپنے طور پر سڈنی پہنچا جاتے، لہٰذا آزادانہ انداز سے گاڑیاں دوڑائی گئیں، ہم تو رہتے میں سو پڑے جب آنکھ کھلی تو سڈنی کے مضافات میں داخل ہو رہے تھے قریبا دس بجے گھر پہنچے، جب گاڑی سے اترے تو گاڑی کا میٹر 1428کلو میٹر کا کل طے کردہ فاصلہ بتا رہا تھا.

جھلکیاں
قیمہ دو دن تک کام آتا رہا.
خیمے گاڑنے میں سب نے تیزی دکھائی.
اذانوں اور نمازوں کا بقدر توفیق اہتمام رکھا گیا.
تصویروں کی گنتی میں فراز علی کا پہلا نمبر رہا.
واپسی میں عمران نے بھی گاڑی چلائی اور اس کا الکوحل ٹیسٹ بھی ہوا جو جناب نے پاس کر لیا.
سفر کے دوران سڑک پر جب کسی جانور کی لاش نظر آتی تو شہباز اور فراز علی کے درمیان بحث ہوتی کہ یہ کون سا جانور تھا، دونوں کے اس ماہرانہ بحث و مبا ہحثه پر ہمیں پابندی لگانا پڑی.
پورے سفر میں ہم زندہ کینگرو نہ دیکھ پاے البتہ مردہ کا نظارہ ضرور ہوا جو کسی گاڑی کے نیچے آگیا ہو گا.
وادی سنووئی ماونٹین کی اہمیت پر ایک بلاگ الگ سے لکھا جاے گا.
ختم شد

Sunday, May 9, 2010

آسٹریلیا میں خیمہ زنی - ٹھریڈبو اور قدیم غار-7


اگر ایک مستاوی ضلا ع مثلث بنایاجاے، جس کا ہر ضلع 60کلو مٹر کا ہو اس طرح کہ اس کے ایک کونے پر کوما دوسرے پر جھیل جنڈا بائین ہو تو تیسرے پر جھیل اڈا منبی ہو گی. اول الذکر کوما کےشمال مغرب میں موخر الذکرجنوب مغرب میں واقع ہے. کیونکہ ہم اپنا سامان باندھ چکے تھے اور یہ طے تھا کہ رات تک سڈنی پہنچ جانا ہے تو سب بے فکر تھے کہ آرام سے قرب و جوار کے دیگر مقامات دیکھ لیے جائیں. جھیل اڈا منابی میں لوگ کشتی رانی کرتے دکھائی دیے. اس کے اطراف میں پہاڑ تھے تو ہمیں اترائی میں جانا پڑا، یہاں ہم چند لمحے رکے کیونکہ ہمارے ذہنوں میں یارنگو بلی کے غاروں کی سیر تھی جو کہ ایک منفرد تجربہ ہونے والی تھی، اس وقت تک ہم نے غاروں کی جانب سفر کا قصد نہیں کیا تھا مگر غور و خوص کے بعد فوری طور یہ فیصلہ کیا گیا کہ یہاں آکر غار نہ دیکھنا بیوقوفی ہوگی. لہٰذا 70کلو میٹر مسافت کی غرض سے دوبارہ گاڑیوں میں آن بیٹھے. یہ غار کوزیسکو نیشنل پارک میں واقع ہے. یہ پارک 690,000 ہیکٹر پر پھیلا ہوا ہے اور تھریڈبو بھی اسی میں شامل ہے، یوں سمجھ لیں کہ ہم دو دن اسی پارک میں ہی گھومتے رہے. گزشتہ روز تھریڈبو میں داخلے کا جرمانہ 16ڈالر دے چکے تھے اور اب اس کو 24 گھنٹوں سے زیادہ ہونے کے کارن یہاں دوبارہ پارکنگ فیس بھرنا پڑی، غاروں کا راستہ شاہراہ سے 7 کلومیٹر کی اترائی میں ہے، یہاں پہنچے تو ظہر کی نماز کا وقت تھا، اذان دی گئی اور ہم سب خدا کے حضور سر بسجود ہوے، یہ جگہ ایک معلوماتی مرکز اور غاروں کی داخلی چوکی تھی. سڑک کی دوسری جانب ہوٹل تھا جہاں سیاح رہائش پزیر تھے، ہماری نماز کے دوران چند سیاح ہمیں مسلسل تکتے رہے، بلکہ ایک آدھ نے ہماری نماز کے دوران تصویر بھی کھینچ ڈالی. نماز کے بعد غار کی طرف گاڑی لے کر چلے اور وہاں پارکنگ میں گاڑیاں کھڑی کیں. یہ غار یہاں موجود چاروں میں سے ایک تھا جس کا ہم مشاہدہ کرنے جا رہے تھے. اس کی پیمائش 400 میٹر تھی اور یہ چونے کے پتھر کی غاریں تھیں. یہاں درج معلومات سے پتہ چلا کہ ان غاروں میں قدیمی آسٹریلیائی باشندےaboriginals رہا کرتے تھے. تاج برطانیہ کا دائرۂ کار یہاں تک آیا اور ان لوگوں کو ان کے اصل وطن میں ہی غلامانہ زندگی گزارنی پڑی. انگریز سرکار نے یہاں آباد کاری کی اور اس خطہ کو دنیا سے روشناس کرایا، تاریخ دانوں کے مطابق آسٹریلیا ہی کالا پانی تھا جہاں سیاسی اور جنگی قیدی بھیجے جاتے تھے. گویا اس وقت کا گوانتاناموبے.
جاری ہے

Friday, May 7, 2010

آسٹریلیا میں خیمہ زنی - تکہ پارٹی-6


مرغ تکہ کی تیاری میں انس شاہین صاحب پیش پیش تھے، وہ سڈنی سے ہی فراز خان کے ساتھ تمام بندوبست کر کے چلے تھے. جس دوران تکوں کی تیاری کی جا رہی تھی اس دوران ہم میں سے چند لوگ ٹیبل ٹینس سے شغل فرما رہے تھے جو کہ وہاں واقع اسپورٹس روم میں کھیلی جا رہی تھی اور ان میں ہم بھی شامل تھے. تکوں کی طرف دوبارہ لوٹے تو پتہ چلا کہ یہ آسٹریلیا کے کوئلے ہیں کہ آگ ہی نہیں پکڑتے حالانکہ انکو جلانے کیلیے اسٹارٹر کا بندوبست بھی کیا گیا تھا. مگر یہ کوئلے کسی ایسے مردہ درخت کی باقیات معلوم ہوتے تھے کہ جن کی شاخوں پر کسی پرندے نے آشیانہ نہ بنایا ہو کہ بڑی مشکل سے جلے، اس پر ایک پرانہ پنجابی گیت یاد آگیا جس کے بول کچھ یوں تھے کہ
ع رںاں والیاں دے پکن پراٹھے تے چھڑیاں دی اگ نہ بلھے
ان کوئلوں کو ایک عدد تکوں کیلیے مخصوص کروی چولہے میں دہکایا گیا، جس میں جالی رکھی جانا تھی اور اس پر تکہ سجا کر بھونے جانا تھے.
خیر اسی دوران فراز علی نے بھی الگ سے لکڑیاں اکھٹا کر کے پتھروں کا چولہا بنا کر آگ جلا ڈالی اور اس پر تکہ لگانا شروع کر دیا. ادھر انگریزی انداز کا تکہ بھی بننا شروع ہو گیا. واڈی والا کے پاس منفرد اور اچھوتا خیال تھا اس نے چولہے میں آلو ڈال دئے جو کہ المونیم کے ورق میں لپٹے ہوے تھے. جب یہ آلو بهن کر تیار ہوے تو ان میں سوراخ کر کے پنیر بھر کر کھایا، نہایت ہی لزیز لگے. تکے بھی آہستہ آہستہ بن رہے تھے اور ساتھ ساتھ کھاے بھی جا رہے تھے، فراز علی نے جو تکہ لکڑیوں کی آگ پر بھونا اس کا مزہ الگ تھا، موسم میں پہاڑوں کی روایتی خنکی تھی اور ہم تکوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے ساتھ ہی آگ بھی سینک رہے تھے، تکوں کے بعد اسی چولہے پہ چاے بنائی گئی. کوئلوں کی آنچ پر بنی اس چاے میں کراچی کے پٹھان ہوٹلوں کی چاے سے کہیں زیادہ مزہ تھا. رات دیر گئے تک آگ سینکنے کے ساتھ ساتھ خوش گپیاں ہوتی رہیں. اور ایک بجے کے بعد سب سو پڑے.
صبح بیدار یو کر ناشتے کی تیاری کی اور خیموں کو اکھاڑا کہ آج سڈنی واپسی تھی، ناشتہ میں ابھی تک قیمہ چل رہا تھا، کچھ رات والے تکے بھی تھے. ناشتہ کر کرا کر اور سب سامان سمیٹ کر ہم نے جھیل اڈا منابی کی راہ لی.
جاری ہے

Wednesday, May 5, 2010

آسٹریلیا میں خیمہ زنی - آسٹریلیا کا بلند ترین مقام ہمارے قدموں تلے-5


ابھی ہم جنڈا بائین جھیل کی خوبصورتی کے سحر میں ہی تھے کہ کچھ 27 کلو میٹر کے فاصلے پر درہ شارلٹ ہمارا منتظر تھا. گو کہ ہمیں کوئی درہ تو دکھائی نہ دیا مگر اس مقام کی آسٹریلیا میں خاصی اہمیت ہے. اول یہ کہ یہ ملک کا سب سے بلند مقام ہے جو 1857میٹر کی بلندی رکھتا ہے اب اگر اس بلندی کو پاکستان کے نقطہ نظر سے دیکھیں تو یہ ہماری ملکہ کوہسار مری سے بھی 400 میٹر کم ہے. اس مقام کی دوسری اہمیت اسکے برفیلے پہاڑ ہیں اور انہی برف پوش کوہ و بیاباں کی بدولت موسم سرما میں یہاں اسکینگ (یعنی برف پر پھلسنے کے کھیل) ہوتی ہے تیسری اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ مقام آسٹریلیا کیلیے بجلی پیدا کرنے کا منبع بھی ہے (اسکی تفصیل ہم آگے بیان کریں گے).
یہاں پہنچنے کے دوران کچھ کچھ مری جیسا سفر رہا جس میں سڑک کے ایک جانب پہاڑ تو دوسری جانب کھائی آ جاتی تھی. اونچائی کی وجہ سے اچھی خاصی سردی محسوس ہو رہی تھی. گاڑیوں سے اترتے ہی ایک کپکپی سی طاری ہو گئی. ہمارے جسم آہستہ آہستہ بیرونی درجہ حرارت کے عادی ہو گئے اور ہم یہاں چہل قدمی کرنے لگے. یہاں پر ایک صدیوں پرانا درخت تھا جسے مقدس مانا جاتا ہے اور عام عقیدہ ہے کہ اس پر مرنے والوں کی روحیں آتی ہیں. اس درخت کا رنگ آتشی گلابی تھا جو دیکھنے میں تو خاصا دلکش تھا مگر اس روایت کی بدولت پراسرار لگ رہا تھا. یہ جگہ کسی حد تک سطح مرتفع تھی جس کے دونوں جانب کھائیاں تھیں، سڑک سے ہٹ کر دوسری جانب ہموار ڈھلوانیں تھیں جن کو دیکھ کر بخوبی اندازہ ہوا کہ یہیں اسکینگ ہوتی ہو گی. یہاں تصویر کشی کے بہت سے مناظر تھے لہذا سب نے زاویے، پس منظر اور اندازبدل بدل کر تصاویر بنوائیں. کچھ لوگوں نے تو پوز کی خاطر گرم کپڑے اتار کر صرف ٹی شرٹ میں بھی تصویر کھینچوائی. کیونکہ یہاں پر گاڑی کی پارکنگ محدود دورانیے کی تھی اس وجہ سے آدھ گھنٹے سے کم وقت میں ہم دوبارہ گاڑیوں میں آن بیٹھے.
اب ہم اگلی منزل کی جانب اترے مقام کا نام تھا تھریڈ بو، یہ ایک کسی قدر تنگ سی وادی ہے جو جدید سہولتوں سے آراستہ ہے اور شمالا جنوبا پھیلی ہے. یہاں کافی تعداد میں سیاح آتے ہیں جس کے با عث یہ وادی پر رونق تھی. یہاں ایک لمبی سڑک پر مٹر گشت کیا اور کافی پی.
نماز ظہر کیلیے مقام کا انتخاب کیا اور عمران نے اذان دی، واڈی والا کی امامت میں سر بسجود ہوے، اقبال کی نظم شکوہ میں ہم نے افریقه کے تپتے ہوۓ صحراؤں اور یورپ کے کلیساؤں کے ساتھ آسٹریلیا کی وادیوں کا بھی اضافہ کر دیا. یہ اسی مالک کی دی ہوئی توفیق تھی جو ہمیں اس دیارغیر میں بھی اپنی رحمت کی لپیٹ میں لیے ہوے تھی، جس نے ہمیں اس قطعہ اراضی پر بھی اپنے ہونے کا یقین دلایا اور ہمارے یقین اور ایمان کی تازگی کو ایک نئی جلا بخشی. بقول مظفر وارثی
ع دکھائی بھی جو نہ دے نظر بھی جو آرہا ہے وہی خدا ہے
جب ہم تھریڈ بو سے کوما کیلیے روانہ ہوے تو شام کے ساے لمبے ہو رہے تھے، عصر واپس مقام خیمہ زنی پہنچ کر ادا کی، کچھ ہی دیر میں مغرب بھی پڑھی اور رات کے مرغ تکہ کی تیاری میں لگ گئے.
جاری ہے