Monday, June 28, 2010

سڈنی-آمد سے واپسی تک، ایک شرارت-5

تابش سے جہاں اور بہت سا سامان اور ضروری دستاویزات وطن سے منگوائے گئے وہیں ایک بہت ہی اشد چیز دو عدد لوٹے تھے جنہیں لانے پر تابش کو کوئی اعتراض تو نہ تھا مگر حیرت تھی کہ کیا حقیقتا لوٹوں کی ضرورت ہے بھی یا مذاقا لانے کو کہا ہے؟ ان کے آنے پر لوٹا دکھائی رسم ادا کی گئی اور یوں ہمارے غسلخانے میں طہارت کے لئے مناسب بندوبست ہوگیا۔ اتنی تفصیل سے یہ سب بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وطن میں ہم ان باتوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتےکیونکہ یہ سب معمول کا حصہ ہوتی ہیں مگر پردیس میں آپ کو یہی عام سی باتیں خاصی مشکل اور الگ معلوم ہوتی ہیں۔

ان لوگوں نے پڑھائی کے ساتھ ساتھ کام کی تلاش بھی شروع کی تاکہ کچھ روز مرہ کا خرچ نکل سکے۔ یہ ذکر ہم پہلے ہی کر چکے ہیں کہ آسٹریلیا میں بین الاقوامی طلبہ و طالبات سستے ترین مزدور ہیں لہذا مزدوری کی کھوج میں یہ لوگ بھی سرگرداں رہے۔

تابش نے ایک عدد نگار خانہ ساکن عکسبندی یعنی فوٹو اسٹوڈیو میں کام شروع کیا جس میں یہ متوقع گاہکوں کو فون پر بظاہر سستی تصاویر کھینچوانے پر آمادہ کرتے۔ ان ہی دنوں کیونکہ سب ہی کہیں نا کہیں نوکری ڈھونڈ رہے تھے اس وجہ سے سب کو مختلف اداروں سے فون یا خط موصول ہوتے۔ جن میں یا تو معذرت کی گئی ہوتی یا انٹرویو کا بلاوا ہوتا۔ ایسا ہی ایک فون فہد کو موصول ہوا فون کرنے والے نے اپنا نام رابرٹ بتایا اور خود کو آریکل (oracle) سے وابستہ بتایا، فہد الہی اس فون پر اچھل کھڑے ہوئے کیونکہ اتنی بڑے ادارے سے رابطہ ہونا بھی انتہائی اعزاز کا باعث تھا۔ رابرٹ نے فہد سے خاصی تفصیل سے بات کی اور فون پر ہی انٹرویو لے ڈالا اور تسلی دی کو آپ کا نام زیر غور رکھا جائے گا، ادھر فہد اس بات کو بار بار دوہرا رہے تھے کہ وہ اگلے چار ماہ تک دستیاب ہیں کیونکہ جامعہ میں امتحان کی وجہ سے تعطیلات تھیں۔ فہد نے سب کواس فون کے متعلق بتایا، شام میں شمس قاضی اور محمود ورائچ بھی آگئے اور ان لوگوں نے بھی اس بات پر خوشی کا اظہار کیا، بلکہ فہد سے آئسکریم کھلانے کو کہا، فہد نے سب کو میکڈونلڈز سے آئسکریم لا کر پیش کی۔ اسی لمحہ تابش نے اپنے موبائل فون پر ایک کال کی ریکارڈنگ چلائی جو رابرٹ اور فہد کے درمیان دوپہر کو ہوئی تھی، یہ کال کرنے وا لے رابرٹ صاحب دراصل تابش ہی تھے، ادھر فہد کو جیسے ہی سارا پسمنظر سمجھ میں آیا تو آئسکریم ہاتھ میں لئے ایک ہی جملہ دوہراتے رہے کہ حد ہے یار کچھ دن تو اس بات کا بھرم رہنے دیتے۔ اصل میں یہ سارا منصوبہ تابش کا ہی ترتیب دیا ہوا تھا، شہباز کو فہد نے اس بات پر کافی چڑایا تھا کہ تم سمینٹک (symantec) کے سند یافتہ ہو اور کال مجھے آئی، تم ایسا کرنا کہ میرے ماتحت بن جانا، جب تابش نے گھر آکر شہباز کو حقیقت بتائی تو شہباز نے ہی شمس اور محمود صاحبان کو بلانے کو کہا کہ مزید تفریح رہے گی اور وہ فہد کے غصہ کو ٹھنڈا کرنے کیلئے یہ بات اپنے اوپر لے لیں گے۔

جاری ہے 

Sunday, June 27, 2010

سڈنی - آمد سے واپسی تک- آمدِ تابش اور پہلی عید -4

 ان ستائیس روزوں میں سے گھر میں ہم نے بمشکل آٹھ دس روزے ہی افطار کئے ہوں گے باقی سارے جامعہ میں ہی افطار ہوئے۔ طرح طرح کے کھانے اور ذائقوں سے واسطہ پڑا۔ سب سے زیادہ اہتمام سعودی عرب کے دوست کرتے کہ لوگ کھاتے کھاتے تھک جاتے مگر یہ لوگ کھلاتے کھلاتے نہیں تھکتے۔ رزق میں برکت کا اصلی نظارا رمضان کے دوران یہاں دیکھنے کا ملا جس میں عرب سے لے کر مشرق بعید کے سارے اسلامی ممالک کی ثقافت شامل تھی۔

گو کہ ہم نے آتے ہی اعلان کیا تھا کہ ہم برتن دھو دیا کریں گے کیونکہ کھانا پکانے سے ہم نا بلد تھے مگر پردیس میں آکر ہم نے اس میدان میں بھی قدم رکھ دیا۔ابتدا میں افطار کیلئے پکوڑے اور آلو پنیر کے بٹاٹے بنائے۔

ہمارے آنے کے بعد گھر میں انٹر نیٹ کا بندوبست ہوا۔ گھر میں کچھ اشیاء بھی ایک ایک کر کے آنے لگئیں۔ یہاں عام طور پر لوگ اپنا استعمال شدہ سامان گھر کے باہر رکھ دیتے ہیں تاکہ ہم جیسے پردیسی یہ سازوسامان اپنے استعمال میں لاسکیں۔ لہذا سب سے پہلی چیز وہ میز تھی جس کی تصویر گذشتہ بلاگ میں تھی اور اس پر ہم نے افطار کا سامان رکھا ہوا تھا۔ اسکے بعد ہم نے کرسیاں اور استری کی میز خریدی۔ ٹوسٹر، فرج، واشنگ مشین اور استری بھی خریدے گئے اور یوں نہانے کےٹب کو ہمارے  کپڑوں سے نجات ملی۔ بعد میں ایک عدد پرانی کھانے کی میز جو کہیں سے بھی پرانی نہیں لگتی خریدی ساتھ ہی ایک مائکروویواوون بھی ہمارے یہاں لایا گیا، یوں مکان مکینوں کے ساتھ ساتھ سازوسامان سے بھی بھر گیا۔ 

ستمبر کے پہلے عشرے میں ایک اور صاحب کا اضافہ ہوا جناب تابش امان خان، فہد الہی کے ہم جماعت رہ چکے ہیں اور فراز خان کے لنگوٹیئے تھے۔ یہ بھی ایک مقامی جامعہ میں ایم ایس کے مقصد سے یہاں وارد ہوئے تھے۔ اسطرح ہماری تعداد پانچ ہوگئی۔تابش صاحب آتے ہی پہلے روز  باقی لڑکوں کےساتھ مینلی نامی ساحل کی سیر کو چل پڑے اس بات سے ان کے شوق سیاحی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔اگر ان کی مکمل تعریف بیان کی جائے تو پورا بلاگ ان کے نام کرنا پڑے گا۔ چنداہم خصوصیات میں نیند میں بولنا، غسلخانے کے باہر بھی گانا، رات میں دو بجے اٹھ کر کارن فلیک کا ناشتہ کرنا اور دودھ کی بوتل واپس فرج میں نہ رکھناشامل ہیں۔ اب اس سے زیادہ ہم نہیں لکھنا چاہ رہے۔

ایک دن ہم سب گھر والوں کو محمود ورائچ اور شمس قاضی نے افطار پر مدعو کیا۔ فہد اور احسن پہلے ہی ان کے ہاں چلے گئے جبکہ شہباز، تابش اور ہم نےافطار کے وقت جانے کا ارادہ کیا۔ تابش اور ہمیں آئے ابھی چند دن ہی ہوئے لہذا شہباز ہمارے راہبر تھے۔ اب ہوا کچھ یوں کہ ہم لمبے راستے کی بس میں بیٹھے جو مرکزی اسٹیشن یعنی سینٹرل جاتی تو تھی مگر گھوم کر، سینٹرل آکر گذر بھی گیا اور شہباز کو پتہ ہی نہ چلا۔ خیر ہم بس ڈرائیور سے اس بات کی تصدیق کر کے اتر گئے کہ سنٹرل گذر گیا ہے۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ لیکبہ کیسے پہنچا جائے ادھر افطار کا وقت بھی قریب تھا۔ آخر شہباز کا ای71 کام آیا اور اس کے راہنما یعنی جی پی ایس کی مدد سے ہم پیدل قریب ترین ریلوے اسٹیشن ریڈفرن پہنچے۔ یہاں سے ریل کا ٹکٹ لیا اور جب ہم لیکبہ پہنچے تو افطار کو بیس منٹ گذر چکے تھے۔ اس طرح سے ہم نے سڈنی کو کافی حد تک راستہ بھٹک کر دریافت کیا۔

رمضان نہایت پرسکون گزرے اور حافظ فہد الہی نے بھی تراویح ایک مقامی مصلے پہ پڑھائی۔ ختم قرآن دو دو جگہ نصیب ہوا۔ جامعہ کے مصلے پر بھی باقاعدہ تراویح ہوتی جو کہ عرب طرز کی تھی، یہ ہمارا اس طرح کی تراویح پڑھنے کا پہلا تجربہ تھا جس میں آٹھ رکعت کے بعد وتر اور طویل دعا ہوتی تھی۔

یہاں پر وطن کی طرح گھروں میں میتھین استعمال نہیں ہوتی بلکہ برقی چولہے کھانا پکانے کے کام آتے ہیں، جن کی 'آنچ' برقی وولٹیج کے بڑھانےاور گھٹانے سے برقرار رکھی جاتی ہےاور اس میں فولاد کی پتری کو گولائی میں جلیبی کی مانند چولہے کی شکل دی جاتی ہے۔ ایسا ہی ایک عدد برقی چولہا ہمیں مالک مکان کی طرف سے ملا تھا، ایک دفعہ سحری میں شہباز دودہ گرم کر رہے تھے کہ اچانک فولادی پٹی میں سے چنگاریاں نکلنے لگئیں اور بالکل کسی آتش بازی کے انار پھٹنے کا منظر تھا، شہباز سر پر ہاتھ رکھ کچن کے کونے میں جا دبکے اور ہم دیکھتے ہی رہے کہ بالآخر کچن کے فیوز کے اڑنے پر برقی رو منقطع ہوئی اور یہ آتشبازی تھمی۔ ۔ اس واقع کے بعد ہمیں ایک عدد چھوٹی برقی پلیٹ مالک مکان سے بطور چولہا ملی جس پر پانی گرم کرنے کے لئے بھی  مدتوں انتظار کرنا پڑتا۔ 

عید الفطر کا اجتماع بھی جامعہ میں تھا جو کہ نہایت ہی روح پرور تھا کہ اس میں قریبا دنیا کے طول و عرض سے مسلمان جمع ہوئے ان میں مرد، خواتین، بوڑھےاور بچے سب ہی شامل تھے۔ امام صاحب نے عربی و انگریزی دونوں زبانوں میں خطبہ دیا۔ بعد میں عید ملنے کا منظر بھی قابل دید تھا۔ 

عید پر ہم نے پہلی دفعہ یہاں کا مشہور ساحل بونڈائی دیکھا جس کی تفصیل احاطہ تحریر میں نہیں لائی جا سکتی۔

کھانا پکانے اور گھر کی صفائی وغیرہ کی باریاں مختص کی گئیں اور ہر کوئی اپنی باری کے مطابق  زیادہ تر شان مصالحہ سے کھانا بنا لیتا، لیکن ہم اس کے بغیر ہی کچھ نہ کچھ بنا لیتے اور آہستہ آہستہ اس میں بہتری آتی چلی گئی اور باقی لوگ ازرائے مذاق ہمیں وہ دن یاد دلاتے کہ جب ہم نے یہ اعلان کیا تھا کہ ہم کھانا پکانے کے علاوہ کوئی بھی کام کر لیں گے۔

تصاویر کے بارے میں
سب سے پہلی تصویر میں فہد کھانا پکاتے ہوئے جو کہ اولین کھانوں میں سے تھا۔ 
دوسری تصویر میں سالن جو اس دن بنائے گئے۔
تیسری میں ہم گھر کے پہلے فرنیچر کے ساتھ جو فہد کے ساتھ اتوار بازار سے پیدل لے کر آئے۔
چوتھی تصویر میں ہمارا کچن میں پہلا کارنامہ۔
تابش اپنی آمد کے پہلے یا دوسرے ہی دن پانچویں تصویر میں برتن دھوتے ہوئے۔
آخری تصویر میں عید الفطر نماز کے بعد جامعہ کی مرکزی گزر گاہ پر شہباز، ہم، فہد،حسن،حافظ عمار، احسن اوریاسر۔

جاری ہے

Saturday, June 26, 2010

سڈنی-آمد سے واپسی تک- ہم اور رمضان -3

اسی طرح دن گزرتے رہے اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ  
لوگ ماحول، موسم اور حالات کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالتے چلے گئے۔ انسان معاشرتی جانور کہلاتا ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا بہت چھوٹی ہے، تو ان ہی باتوں کے پسمنظر میں ان لوگوں کا حلقہءاحباب بنتا چلا گیا۔ یاسر آفندی کے بڑے برادر شہباز کے دوست نکلے، یاسر، عاطف اور فراز خان اسی جامعہ میں ہی آے تھے۔ اس حلقہ میں مزیدافراد کا اضافہ ہوتا گیا جن میں حسن، عمار، عمران اور  صفیان، عمیر کے نام لینا ضروری ہے۔ ان سب کا یہاں آنے کا بنیادی مقصد تو اعلی تعلیم کا حصول ہی تھا مگر اس میں ڈالر کا حصول بھی شامل ہوتا گیا۔

ابھی صرف ان تینوں کی بات ہی کی جارہی ہے تو یہ بتاتے چلیں کہ ان لوگوں نے گھر کی تلاش کے ساتھ ساتھ سڈنی کو بھی کنگال ڈالا اور اسکے تقریبا تمام اہم ساحل دیکھ ڈالے۔ سڈنی کے ساحل پوری دنیا میں اپنا الگ مقام رکھتے ہیں اور یہاں ہر عمر اور مزاج کے افراد کے لیے تفریح کا سامان میسر ہے۔ ان لوگوں نے شروع میں یہ سب اس وجہ سے دیکھا کیونکہ یہ لوگ ہفتہ وار سفری پاس خریدتے تھے جو بس، ریل اور فیری یعنی کشتی سب پر چلتا تھا اور یہ پورے ہفتہ اسے انگنت مرتبہ استعمال کر سکتے تھے۔

اگست کے آخری ہفتہ میں ماہ رمضان کا آغاز ہوتے ہی ان کے شب و روز میں تبدیلی آچکی تھی۔ اگست کی24 تاریخ کو کہ جس دن آسٹریلیا میں تیسرا اور وطن میں دوسرا روزہ تھا، صبح آٹھ بجے کے لگ بھگ ہم بھی ان لوگوں سے آن ملے۔ ہمارا یہاں آنا کیسے ہوا وہ ایک الگ داستان ہے، مختصر یہ کہ ہمیں سرکار کی طرف سے وظیفہ ملا تھا اور ہم ان لوگوں کے برعکس تحقیقی سند حاصل کرنے تھے
، جامعہ وہی تھی اور ان لوگوں تک رسائی فیصل خان کی بدولت ممکن ہوئی جو محمود ورائچ  کے دوست اور ہمارے دفتر سے ہی وابستہ تھے۔
ہمیں شروع میں الگ کمرہ ملا، کیونکہ باقی سب پہلے سے ہی ایک کمرہ میں سوتے تھے تو خالی الگ کمرہ ہمیں دے دیا گیا اور ہنوز ہم یہیں مقیم ہیں۔ ہم آتے ہی سفری تکان اور وقت کے فرق یعنی جیٹ لیگ کا شکار رہے اور دو دن کےبعد کچھ آب و ہوا اور ماحول سے مانوس ہوے۔ ہم نے آتے ہی ان سے کہ دیا تھا کہ ہمیں کھانا پکانا بالکل نہیں آتا اور اس میں کچھ مبالغہ بھی نہ تھا۔

افطار مع عشائیے کے جامعہ کے مصلہ پر ہو جاتی تھی اور خوب ہوتی تھی کہ ایک دن پاکستانی طلبہ افطار کا بندوبست کر رہے ہیں تو دوسرے دن ملائیشیا کے دوست، تیسرے دن عمانی تو اس سے اگلے دن بنگالی، غرض ہم نے ستائیس روزے سڈی میں افطار کئیے کیونکہ رمضان انتیس کا ہوا تھا اور ہمارا ایک روزہ امارات کے طیارے میں کھلا تھا۔

تصاویر کے بارے میں۔ پہلی تصویر میں سڈنی میں مشاہدہ کی گئی قوس قزح۔
دوسری تصویر ہمارا افطار کا دسترخوان ہے جو دراصل تکیہ کا موم جامہ تھا۔
تیسری تصویر میں افطار کا سامان جو میز پر رکھا ہے، اس میز کی کہانی آئندہ آئے گی۔
جاری ہے

Wednesday, June 23, 2010

سڈنی-آمد سے واپسی تک- گھر میں تھا کیا 2






یہ گھردو کمروں پر مشتمل تھا جس میں سے ایک سڑک کے اوپراور متوازی تھا کہ اس کی کھڑکیوں سے مغربی سمت سے آنے والی ہوا کے ساتھ ساتھ ہر وقت ٹریفک کا شور بھی آتا تھا. جس میں گاڑیوں کے انجن کی آواز شامل تھی، ہارن اور دھواں یہاں نا پید ہے. دوسرا کمرہ بھی ایک کھڑکی رکھتا تھا جو ایک عدد راہداری میں مشرقی جانب کھلتی تھی. یہ گھر اوپری منزل پر تھا کیونکہ سڑک کے رخ پر نیچے کی منزل میں دفاتر اور کلینک وغیرہ تھے. کمروں کی مختصر راہداری کے فورا بعد ڈائننگ ہال یا بیٹھک نما کمرہ تھا جس میں کچن پچھلے برآمدے کی جانب تھا اور کچن کے ساتھ ہی غسل خانہ تھا. غسل خانے کی دلچسپ بات یہ تھی کے اس پر لیڈیز کی تختی لگی تھی شاید یہ گھر پہلے دفتر کے طور پر استعمال ہوتا تھا اس وجہ سے یہ تختی لگائی گئی تھی.
غسل خانے کے ساتھ بغل میں الماری دی گئی تھی. کچن کے پچھواڑے دھلائی کی مشین کی کھولی بنی ہوئی تھی جہاں پانی کا کنکشن بھی دیا گیا تھا. برآمدہ ایک عدد صحن بھی رکھتا تھا جس میں سبز رنگ کا مصنوعی فرش بچھا تھا، صحن کے اختتام پر ایک سٹور تھا اور دوسری جانب چوبی دروازہ تھا جو پچھلی طرف سیڑھیوں پر کھلتا تھا. پیچھے نیچے پارکنگ کی جگہ تھی اور ایک ٹین کی دیوار کے بعد میک ڈونلڈز تھا.
اس گھر میں آکر سامان کی صحیح معنوں میں ترتیب بنائی گئی، یہ تینوں اپنے ساتھ پورے گھر کا سازوسامان لے کر آے تھے. جس میں چمچ سے لے کر دیگچیاں تک شامل تھیں، مصالحاجات، ادویات، بجلی کا سامان، تار لگے ہوے آسٹریلیائی پلگ والے بورڈ، کپڑے سکھانے کے لیےرسی کہ جس کی الگنی باندھی جا سکے بھی ان کے ساتھ وطن سے ہزارہا میل کی طے مسافت کر کے آئی تھیں. کچن میں ایک عدد برقی چولہا اور کیبنٹ تھے. غرض خالی مکان کو گھر کرنا تھا۔
احسن کے ذمہ کراچی سے کھانا پکانے کے برتن لانا تھے، جبکہ فہد نے ادویات وغیرہ لانے کی ٹھانی تھی۔ واڈی والا بجلی کے سامان کے علاوہ اپنے ساتھ ڈیوڈرنٹ لانا نہ بھولے ۔
شروع شروع میں اس گھر میں ان کو خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ جن میں سے زیادہ تر مشکلات کھانے پینے سے تعلق رکھتی تھیں۔ مثلا حلال چیزوں کا حصول، بسکٹ اور چاکلیٹ بھی دیکھ بھال کراستعمال کرنا پڑتے۔ پھر چیزوں کی قیمتیں بہت زیادہ لگتی تھیں، خاص طور پر جب زرمبادلہ میں سوچتے تو کچھ بھی خریدنے میں جی کڑا کرنا پڑتا۔
یہ سڑک یعنی انزیک پریڈ، کنگزفرڈ نامی علاقہ کی اہم شاہراہ ہے۔ کنگزفرڈ کی آبادی لگ بھگ دو ہزار کے قریب ہے جس میں سے آدھی چینیوں پر مشتمل ہے۔ یہاں زیادہ تر کاروبار بھی ان ہی لوگوں نے سنبھال رکھا ہے۔ ہر اسٹور اپنی مرضی سے اشیاء کی قیمتیں لگاتا ہے اور آپ کو کافی تحقیق کرنا پڑتی ہے کہ کون سی چیز کہاں سے خریدی جاے۔ مثال کے طور پر ایک اسٹور پر ٹماٹر تین ڈالر فی کلو ہیں تو آلو دو ڈالر کے کلو۔ اب دوسرے اسٹور پر یہی معاملہ الٹا ملے گا۔ اس بات سے یہ سبق ملتا ہے کہ یہاں گھر کا پورا سودا ایک دوکان سے نہ خریدا جاے۔
توان لوگوں نے اس قسم کے بہت سے معاملات کی کھوج وقت کے ساتھ ساتھ لگا ڈالی۔ابتدا میں کھانا پکانے کی ضرورت خاطر خواہ نہ پڑی کیونکہ انکے پاس خشک خوراک کا ذخیرہ تھا۔ جب وہ ختم ہونے لگا تو یہ لوگ شان مصالحہ کے ڈبوں پر لکھی تراکیب پڑھ کر کھانا پکانے لگے کچھ نہ کچھ بن ہی جاتا اور صبر شکر کےساتھ کھا لیا جاتا۔ آہستہ آہستہ جب علاقہ اور دوکانوں کا پتہ چلنے لگا تو حلال گوشت پر بھی ہاتھ صاف کیا گیا۔ مگر دقت یہ تھی کہ ابھی گھر میں برقی آلات مع فرج، واشنگ مشین وغیرہ غیر موجود تھے۔
ایک اور بڑی کمی انٹرنیٹ کی تھی کیونکہ فون کا کنکشن بھی نہیں تھا تو سخت سردی میں وطن والوں سے رابطے کی خاطر پچھواڑے رات میں بیٹھا جاتا اور میکڈونلڈز کے انٹرنیٹ کے سگنلز لیپ ٹاپ کے وایر لیس پر وصول کرنے کے جتن ہوتے رہتے۔
کپڑے دھونے کا معاملہ بھی انوکھا تھا۔ نہانے کا ٹب ڈاٹ لگا کر بند کیا جاتا اور اس میں پانی روک کر سرف ڈال کر کپڑے بھگو کر چھوڑے جاتے اور بعد میں کنگھال پچھواڑے سکھاکر سنبھالے جاتے۔ گھر میں موجود اسٹور مالک مکان نے نہیں دیا تھا تو کپڑے سوٹ کیسسز میں ہی رہتے اور یہ سوٹ کیس لابی میں دیوار سے لگے رہتے۔ غرض بقول غالب
گھر میں تھا کیا کہ تیرا غم اسے غارت کرتا
وہ جو رکھتے تھے اک حسرت تعمیر سو ہے
(جاری ہے)

Monday, June 21, 2010

1-سڈنی - آمد سے واپسی تک- آمد اور تلاشِ مکان













13 جولائی 2009 کو تین پاکستانی لڑکے فہد الہی، شہباز واڈی والا اور احسن شیخ سڈنی کے ہوائی اڈے پر اترے. مقصد نیو ساؤتھ ویلز یونی ورسٹی سے ایم ایس کی ایک سالہ ڈگری کا حصول تھا. عارضی رہائش کا بندوبست مسلم اکثریت والے علاقه لیکمبہ میں تھا جہاں سےشمس قاضی اور محمود وڑائچ انھیں ایک وین میں ائیر پورٹ لینے آے اور اپنے ساتھ ٹہرایا. ان سے جان پہچان تبلیغی جماعت میں احسن کے ماموں کی وجہ سے ہوی جو خود بھی سڈنی عرصہ دراز سے مقیم ہیں. احسن محمود وڑائچ سے برقی رقعہ ( ای میل) پر وطن سے رابطے میں تھا.

محمود وڑائچ نے انہیں جامعہ کے ماحول اور نشست و برخاست کے آداب سکھاے اور شمس قاضی نے سڈنی کے راستوں سے واقفیت کرائی. یہ دونوں اشخاص اس شہر غیر میں اپنے ثابت ہوے اور پہلی بار ملاقات کے باوجود بھی با لکل اجنبیت کا احساس نہیں ہونے دیا. دن بھر کام ہوتے اور رات میں تاش کی محافل جما کرتیں، ہارنے والا پچیس ڈالر کا مکھن پھل (ایواکاڈو) کا شیک پلاتا تھا.
لیکمبہ سے جامعہ کا سفر ایک گھنٹہ کا ہے. جس میں سے آدھا بس اور آدھا ریل سے طے ہوتا ہے. یہ تینوں روز دو گھنٹہ کی مسافت طے کرتے کرتے رہائش اور جامعہ کے درمیان کے راستے سے بخوبی واقف ہو گئے تھے. وقت اور کرایے کی بچت کے ساتھ ساتھ سفری تکان سے بچنے کے لیے ضروری تھا کہ جامعہ کے قریب ہی رہائش کا کوئی بندوبست کیا جاے سو ان دونوں صاحبان کی مدد سے تلاش رہائش میں سرگرم ہو گئے. ہم یہ بتاتے چلیں کہ سڈنی میں بس اور ریل کے کرایے آسٹریلیا میں دیگر شہروں سے زیادہ ہیں اور اس پر ظلم یہ ہے کہ بین الاقوامی طلبہ کیلیے کوئی رعایت نہیں ہے کیونکہ ہم سے ہی ایک طور پران کے مقامی طلبہ کا خرچہ نکلتا ہے. یہی وجہ ہے کہ یہاں کی ایک بڑی صنعت تعلیم کی ہے جس سے ہر سال زر مبادلہ یہاں آتا ہے اور یہی بین الاقوامی طلبہ یہاں پر گھنٹہ وار اجرت والے سستے ترین مزدور ہیں. خاص طور پر برصغیر کے طلبہ کہ یہ ہماری زبان میں دیسی کہلاتے ہیں اور ہر طرح کے موسمی حالات اور آقا کی غلامی میں گزر بسر کر سکتے ہیں.
رہائش کی تلاش ان تینوں کیلیے نوکری اور رشتے کی تلاش جیسی ہی ثابت ہوئی کیونکہ راستوں سے واقف نہ ہونے کے سبب پیدل چلنا اور گھروں کا جائزہ لینا ایک خاصہ تھکا دینے والا کام تھا. ریل کے سفر میں ہونے والے اعلانات رات سوتے میں ان کے دماغوں میں گونج رہے ہوتے 'ڈورز کلوزنگ پلیزاسٹینڈ کلیئر'.

اگر کوئی مکان پسند بھی آتا تو کرایے پر لینے میں بھی مشکلات تھیں کیونکہ ان کی کوئی لین دین کی معلومات سڈنی کے سرکاری دفتر میں نہ تھی جسے کریڈٹ ہسٹری کہا جاتا ہے. یہاں بھی محمود وڑائچ نے انکی مدد کی اور ضمانتی کی حثییت سے کرایہ نامہ بنوایا اور اگست کے پہلے ہی ہفتہ میں جامعہ کی بغل میں یہ لوگ انزیک پریڈ پر ایک گھر میں منتقل ہوے.

(جاری ہے)

Friday, June 18, 2010

غالب، غالب ہے

مرزا اسد الله بیگ خان غالب جو مرزا نوشہ کے خطاب سے بھی جانے جاتے ہیں خود کو یوں روشناس کراتے ہیں
پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا

فارسی اور اردو ادب کے افق پر اٹھارویں صدی میں جنم لینے والے اس شاعر نے گو کہ تمام عمر قرض کی مے پیتے گزاری مگر اپنے کلام اور مراسلات سے ان دونوں زبانوں کو ایک ایسا بیش بہا خزانہ بخشا کہ جس کے بغیر ان زبانوں کا ادب مکمل نہیں ہوتا. ان کے کلام پر تبصرہ اور شرحیں بہت بڑے بڑے ناقدین نے لکھی ہیں اور ہمارا یہ مضمون گویا سوررج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے مگر ہم اپنے حافظے کی مدد سے غالب کے ہی چند اشعار پر لکھنے کی جسارت کر بیٹھے ہیں.

تجھ سے تو کچھ کلام نہیں لیکن اے ندیم
مرا سلام کہیو اگر نامہ بر ملے !!!
اپنے عاشق کا تذکرہ اس سے بہتر انداز میں ہم نے کسی اور کے یہاں نہیں دیکھا رشک اور پرتری کے ملے جلے جذبات کے ساتھ غالب نے اپنے رقیب کو دوست کہ کر مخاطب کیا ہے اور فرماتے ہیں کہ تم سے کیا گلہ کریں جو نامہ بر ہمارے عاشق کو خط پہنچاتا تھا جب وہ اس کے سحر سے نہ بچ سکا تو تم تو ویسے بھی ہمارے رقیب ہو.

غالب کی ایک غزل جو ہمیں بہت پسند ہے، مطلع ہے
سب کہاں کچھ لا لا و گل میں نمایاں ہوگئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں

اسی غزل میں کہتے ہیں کہ
ہم موحد ہیں ہمارا کیش ہے ترک رسوم
ملتیں جب مٹ گئیں اجزا ے ایماں ہوگئیں
اس میں اکائی کی بات کی گئی ہے اور دین کو رسومات سے عاری بیان کیا گیا ہے. انہی رسومات کی بدولت ہم آج اصل دین سے کوسوں دور ہوتے جاتے ہیں.

ہم طبیعات پڑھاتے رہے اور اس سے متعلق پڑھا بھی بلکہ ابھی بھی یہ سلسلہ جاری ہے، کائنات کی تخلیق اور آغاز بھی طبعی علوم کا حصہ ہے انتظام کائنات کے اسرار طبعی طور پر معلوم کیے گئے اور آج ہم یہ بتا سکتے ہیں کہ کائنات کی تخلیق کے پہلے ثانیہ میں مادہ اور توانائی کا کیا تناسب تھا مگر اس سے پہلے کیا تھا ؟ اس سوال پر ساری سائنس دھری کی دھری رہ جاتی ہے غالب اس ہونے اور نہ ہونے کو بیان کرتے ہیں اور سرن والوں پہ سبقت لے جاتے ہیں، فرماتے ہیں
نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

الفاظ کا چناؤ اور خیال کی ندرت دونوں سے کلام غالب بھرپور ہے.
میں بلاتا تو ہوں اسکو مگر اے جذبہ دل
اس پہ بن آے کچھ ایسی کہ بن آے نہ بنے
عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالب
جو لگاے نہ لگے اور بجھاے نہ بنے
اساتزہ فرماتے ہیں کہ اچھا شعراپنے اندر کئی پرتیں رکھتا ہے اور پڑھنے والے کو آپ بیتی و جگ بیتی دونوں کا لطف دے جاتا ہے. غالب کے کئی اشعار ایسے ہیں جو ضرب المثال بن چکے ہیں کہ ایک مصرع ہی مطلب کو بیان کر دیتا ہے اور کہیں بھی صادق آجاتا ہے، جیسے
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا
بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے
مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پہ کہ آساں ہوگئیں
غالب کا اپنے بارے میں یہ کہنا کہ تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا بالکل سچ ہے کیونکہ ان میں ایک فلسفی کی روح موجود تھی جو اپنے گرد و پیش سے متاثر ہوتی تھی اور وہ ایسی باتیں کہ گئے جو ٣ صدیاں گزارنے پر بھی دور حاضر کی لگتی ہیں.

تکنیکی اعتبار سے بحر چھوٹی ہو یا بڑی دونوں میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے.
ابن مریم ہوا کرے کوئی
مرے دکھ کی دوا کرے کوئی
یا
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستاے کیوں
دونوں اشعار میں بحروں کا خاصہ فرق ہے مگر مضمون ہر طور مکمل ہیں.

اپنے آپ کو بھی کافی الگ الگ انداز سے بیان کرتے ہیں
بنا ہے شاہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے

ہوئی مدت کہ غالب مر گیا پر یاد آتا ہے
وہ ہر اک بات پہ کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا

غالب خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہے
روئیے زار زار کیا کیجیے ہاے ہاے کیوں
اگر ہم چاہیں تو غالب پر مزید لکھ سکتے ہیں مگر ان ہی کے بقول
سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کیلیے
اتنا ضرور کہیں گے کہ غالب، غالب ہے.

Thursday, June 17, 2010

ایک دن استاد محترم کے گھر

ہم اپنی تحقیقی میز پر لیپ ٹاپ رکھے اپنے کام میں مگن تھے کہ استاد محترم (ہمارے سرپرست تحقیقی) نے ہمیں آکر چونکا دیا اور گویا ہوے کہ اس بار ہفتہ وار تعطیلات پر کیا کر رہے ہو؟ اگر فارغ ہو تو ہمارے یہاں بروز ہفتہ ظہرانہ پر چلے آؤ. ہم نے اپنی دستیابی ظاہر کرنے کےساتھ ساتھ حلال کھانے کی فرمائش بھی کردی کہ کہیں ہم کھانے میں لحم خنزیر اور آب شر خرد و نوش نہ کر رہیں ہوں.

سڈنی میں یہ ہمارا دسواں مہینہ ہے اور پہلی بارہمارے سپروائزر نے ہمیں اپنے گھر آنے کی دعوت دی. جناب ڈاکٹر رابرٹ جان سٹیننگ برطانوی ماں کے بیٹے ہیں اور بڑی ادبی انداز کی انگریزی بولتے ہیں. عمر ستر برس ہے اور آئنوسفیرک فزکس میں پی ایچ ڈی ہیں. ساتھ ہی عیسائیت کی تبلیغ بھی فرماتے ہیں اور ہماری جامعہ کا ایک آن لائن کورس بھی پڑھاتے ہیں جو مختلف مذاھب کے تقابلی مطالعہ سے متعلق ہے. گویا اسلام سمیت دیگر مذاھب پر گہری نظر رکھتے ہیں. ان کی اہلیہ محترمہ کیرل کینیڈا سے تعلق رکھتی ہیں. اس پس منظر سے ان کے انگریز اور عیسائی ہونے کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے.

ہفتہ 12 جون 2010 کو ہم مقررہ وقت پر انکے بتاے ہوے ریل کے اسٹیشن بنام کلارا (اسی نام پر اس علاقه کا نام بھی ہے) پر تھے.اور جیسے ہی ہم پلیٹ فارم کا آہنی پل چڑھ کر مشرقی سمت سڑک پر اترے استاد محترم سامنے سے اپنی نئی ٹویوٹا یارس میں آتے دکھائی دیے. وقت کی پابندی پر خاصے خوش ہوے اور کہا کہ ابھی ریڈیو پر بارہ بجے کی خبریں شروع ہوئی ہیں. گاڑی میں بیٹھ کر ہم انکے گھر پہنچے. یہ سڈنی کا شمالی حصہ ہے اور پورا علاقہ نہایت سرسبز ہے. ہمیں یہاں کہیں بھی زمین ایک ہزار گز سے زیادہ ہموار نظر نہیں آئی. راستہ پرپیچ تھا اور سڑک کے دونوں اطراف عالیشان کوٹھیوں نما مکانات تھے. استاد محترم ہمیں بتاتے رہے کہ یہاں چینی بڑی تعداد میں رہتے ہیں اور ان کے پاس بیشمار دولت ہے، کہ ایک گھر سڈنی میں ہے تو دوسرا ہانگ کانگ میں. تیسرا نیو ہارک تو چوتھا دوبئی میں. غرض الله نے جنکو دیا ہے چھپڑ پھاڑ کردیا ہے.

استاد محترم کا گھر بھی اچھا خاصہ کشادہ اور دو منزلہ تھا. اس قطعہ اراضی کی شکل گو کہ چوکور تھی مگر اس کا کوئی بھی ضلع متوازی اور یکساں نہیں تھا. اسی وجہ سے ہمارے استاد محترم کے پانچ ہمساے تھے. مرکزی دروازے کے عین سامنے گیراج تھا جس میں ایک گاڑی پہلے سے کھڑی تھی. اور گیراج میں باغبانی سمیت ہر طرح کے اوزار موجود تھے. اندر داخل ہوتے ہی ایک صاف ستھری راہداری کے بائیں جانب ڈرائنگ اور ڈائننگ تھا. اور ڈائننگ کے ساتھ ہی راہداری کی دیوار کے پیچھے باورچی خانہ تھا. خاتون خانہ آرام کرسی پر براجمان تھیں سلام دعا کے بعد ہمیں جوس اور خشک میوہ جات پیش کیے گئے. تھوڑی دیر میں ہی کھانے کی میز سجا دی گئی. مربع شکل کی میز کے گرد چار کرسیاں تھیں، اور ہم چوتھے فرد تھے کیونکہ تیسرے استاد جی کے فرزند تھے جو سینتیس برس کے ہیں مگر ضعف دماغ کی وجہ سے اپنی عمر سے پانچ گنا کم عمر بچے جیسی حرکتیں کرتے ہیں. اس بیماری کا انگریزی نام Down Syndrome ہے.

کھانےمیں ہماری خاطر چنے کا سالن اور کینیڈا کے چاول تھے، دیگر لوازمات میں ابلی ہوی سبزی (جس میں کھیرا اور غالبا پپیتہ شامل تھا) اور دہی تھا جس کے اوپر ایرانی لال رنگ کا مصالحہ 'سماق' چھڑکا گیا تھا. اس کے معنی سرخ چٹانی پتھر کے ہیں. میٹھے میں مکئی کے آٹے کا کیک تھا. کھانا بلا شبہ اچھا تھا مگر ہم دیسیوں کی زبان کے چٹخارے کا نہیں تھا. کھانے کے بعد شام میں پھل اور کافی بھی پیش کیے گئے.

کھانے اور کافی کے درمیان ہم نے ایک دوسرے کو اپنے خاندانوں اور تھذیب و روایات سے تصاویر کے ذریعہ روشناس کرایا ہوتے ہوتے بات مذھب پر آن پہنچی جس کیلیے ہم ذہنی طور پر تیار تھے.ادھر استانی جی بائبل لے آئیں اور ادھر استاد جی قرآن پاک کا انگریزی ترجمہ لے بیٹھے اورعیسائیت کا پرچار شروع کر دیا. ہم آدم علیہ سلام سے لے کر عیسی علیہ سلام تک سب قصہ کہانیاں انکی بائبل کی رو سے سنتے رہے. انبیا سے تو ہم الحمد الله واقف ہیں کیوں کہ یہ ہمارے ایمان کا حصہ بھی ہے. مگر انکی بائبل (اصل انجیل کی تحریف کی وجہ سے ہم یہ صیغہ استمعال کر رہے ہیں) کچھ عجب باتیں بیان کرتی ہے. مثلا ذ بیعہ الله اسمعیل علیہ سلام نہیں بلکہ اسحق علیہ سلام تھے. اور مسیحا نے رحمتہ العالمین کی خوشخبری نہیں سنائی. اور انسان پیدائشی گنہگار ہے اس وجہ سے مسیحا کا جنم انسان کی صورت میں ہوا اور انہوں نے خود مصلوب ہوکر انسانیت کو بچا لیا اور اب سارے عیسائی اس بیوقوفی میں ہیں کہ ہم بخشے بخشاے ہیں اور سیدھے جنت میں جا پہنچیں گے.

جس بات پر ہمارے استاد محترم حیرت زدہ تھے وہ یہ تھی کہ قرآن بھی عیسیٰ علیہ سلام کے دوبارہ ظہور کی بات کرتا ہے اور انکی بائبل بھی یہی کہتی ہے. ہم نے اس پر اضافہ کر دیا کہ وہ تو ایک محمدی کی حیثیت سے تشریف لائیں گے اور سارے انبیا مسلم ہی تھے. یہ بات ان دونوں کے لیے قابل ہضم نہ تھی. تثلیث کا تصور تو نہایت ہی انوکھا ہے کہ الله، روح اور مسیح ایک ہی ہیں یعنی اکائی کی تثلیث اور تثلیث کی اکائی ہے. مثال میں پانی کی تین طبعی حالتوں سے سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ جیسے ہم پانی کا کیمیائی فارمولا نہ جانتے ہوں. مختصر یہ کہ ہماری معلومات میں اضافہ ضرور ہوا اور ہم بھی ان کو برابر جواب دیتے رہے.

شام ہوتے ہی ہم نے واپسی کا قصد کیا اور استاد محترم ہمیں اسٹیشن چھوڑ آے. شہر پہنچ کر بس لی اور گھر پہنچے تو مغرب کو آدھ گھنٹہ بیت چکا تھا اور ساڑھے پانچ بجے تھے. استانی جی نے ہمیں موبائل پر مختصر پیغام بھیجا اور ہدایت کی کہ سردی سے بچیں اور ساتھ ہی کیک کا شکریہ ادا کیا جو ہم انکے لیے لے گئے تھے. انکا اپنے مذھب کی تبلیغ کرنا اپنی جگہ، ہم نے بھی الله کے فضل سے ظہر اور عصر ایک کٹرعیسائی کے گھر ادا کی.

Thursday, June 10, 2010

جوتا نامہ

تازہ ترین خبر کے مطابق آرمینیہ کی ایک عدد غار میں کھدائی کے دوران ایک جوتا برآمد ہوا ہے، جس پر تحقیق جاری ہے. کاربن ڈیٹنگ سے معلوم ہونے والی عمر لگ بھگ ساڑھے پانچ ہزار سال بتائی جا رہی ہے. یعنی کہ احرام مصر سے بھی ایک ہزار سال قدیم. آثار قدیمہ کے ماہرین کے مطابق یہ جوتا گاے کی کھال سے بنایا گیا ہے. اس کی خاصیت یہ ہے کہ یہ بےجوڑ چمڑے سے تخلیق کیا گیا تھا. اور اس میں تسمہ بھی چمڑے کا استمعال کیا گیا ہے. آج کے دور کے جوتا ساز بھی اس جوتے پر تبصرہ فرما رہے ہیں. کچھ کے مطابق یہ پہن کر سیا گیا ہوگا. اس پر دھیان بے اختیار ان حسینوں کی طرف جاتا ہے جو لباس کے ساتھ بھی ایسا ہی برتاؤ کرتے ہیں.

ابھی تک اس جوتے کے مالک یا مالکہ کے بارے میں کوئی بات وثوق سے نہیں کہی جا سکتی. تاثر کچھ ایسا ہے کہ اس سات نمبر کے مکیشن نما جوتے کی مالک کوئی خاتون رہی ہوں گی. خیر یہ اور اس جیسی بہت سی قیاس آرائیاں جاری ہیں. ہم اس سوچ میں ہیں کہ شکر ہے کہ ابھی تک ایسی سائنس دریافت نہیں ہوئی جو اس جوتے کے مالک، چرم ساز یا اس گاے کے چال چلن پر روشنی ڈال سکے جس کی یہ باقیات ہیں. ہمارے مطابق اس دور میں اس جوتے کے مالک کو نہ تو نوکری کی تلاش تھی نہ ہی رشتے کی ورنہ یہ جوتا بھی دیگر بہت سے محاوراتی جوتوں کی مانند کب کا گھس گیا ہوتا.

شکل سے یہ جوتا بنا نوک کا لگتا ہے لیہذا کسی کو اس کی نوک پر بھی نہیں رکھا جا سکتا ہوگا. اس جوتے پردال کے نشانات بھی نہیں ہیں تو اس میں دال بھی نہیں بٹتی ہو گی. اس کے دوسرے جوڑی دار کا بھی کچھ نہیں پتہ گویا یہ جوتا کسی کام کا نہیں کیونکہ کچھ چیزیں جوڑوں میں ہی مکمل ہوتی ہیں اکائی کے طور پر ان کی کوئی حثییت نہیں ہوتی.بظاھر یہ دائیں پیر کا جوتا دکھتا ہے. مگرپیر کا معلوم ہونا یا نہ معلوم ہونا کوئی اتنی بڑی بات نہیں. پاکستان میں بننے والے کھسوں میں بھی دائیں بائیں کا پتہ نہیں چلتا اور اگر چل جاے تو آسانی رہتی ہے ورنہ ادل بدل کر بھی پہن سکتے ہیں.

ایک قیاس یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ یہ جوتا کسی دولہے کی ہمشیرہ نسبتی یعنی سالی کے ہاتھ لگا ہوگا اور سالی نے اتنی رقم کا مطالبہ کیا ہوگا کہ دولہا آدھی ہی دے سکا ہوگا اور یوں ایک پیر میں ہی جوتا پہن سکا اور سالی نے اس جوتے کو ایسا چھپایا کہ ساڑھے پانچ ہزار سال تک کسی کے ہاتھ نہ لگا.

اس جوتے کی دریافت پر اکبر الہ آبادی یاد آ رہے ہیں کہ انہوں نے جوتے کو بھی شعر میں استمعال کیا ہے فرماتے ہیں
بوٹ ڈاسن نے بنایا میں نے اک مضمون لکھا
ملک میں مضمون نہ پھیلا اور جوتا چل گیا
یہ جوتا ہم کو اتنا چلا ہوا نہیں لگتا ورنہ چل کر نہ جانے کہاں سے کہاں نکل گیا ہوتا اور یوں اتنی مدت بعد دریافت نہ ہوتا. ویسے اگر اکبر الہ آبادی مضمون جوتے پر لکھتے تو ہمیں امید ہے کہ وہ کسی حد تک چل جاتا. جیسے ہمارا یہ بلاگ انٹرنیٹ پر کچھ نہ کچھ تو چلے گا ہی.

Tuesday, June 1, 2010

اف اف مرچی


اس بلاگ کے عنوان سے آپ لوگ کہیں یہ نہ سمجھیں کہ ہم کسی گانے کی بابت کچھ بیان کرنے والے ہیں. دراصل ہم مرچی یعنی مرچ پر ہی اظہار خیال کی جسارت کر بیٹھے ہیں، ہم یہ بلاگ ان تمام مرچی پسند اور زبان کے چٹخارے لینے والے چٹوروں کے نام کرتے ہیں جو بقول شاعر یوں کہتے ہیں کہ (روح غالب سے معذرت کے ساتھ)
ع نہ ہو مرچ تو کھانے کا مزہ کیا

ایسے افراد کا جائزہ لینے سے پیشتر ہم مرچوں پر کچھ روشنی ڈالنا چاہیں گے. کہا جاتا ہے کہ یہ پھل یا سبزی امریکہ سے تعلق رکھتی ہے اور 7500 ق م سے وہاں اگائی اور استمعال کی جاتی رہی ہے. آثار قدیمہ کے ماہرین کے مطابق مرچ کے استعمال کے 6000 ق م پرانے شواہد ملک اکواڈر سے ملے ہیں. کولبمس نے جب امریکہ دریافت کیا تو دیگر اشیا کی طرح مرچ بھی دریافت ہو گئی یوں یہ اندلس آن پہنچی اور پھر مشرق بعید سے ہوتی ہوئی برصغیر میں داخل ہوئی. ایک اور روایت کے مطابق یہ براستہ پرتگال برصغیرلائی گئی. خیر راستہ کچھ بھی اور لانے والا کوئی بھی ہو مرچ کے ذائقہ پر اس سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا.

اب آتے ہیں مرچ خوروں کی جانب، ان میں سے چند ایک تو آجکل ہمارے اردگرد ہیں بلکہ یوں کہنا بہتر ہوگا کہ ہم ان کے درمیان ہیں. ہم نے شروع شروع میں کھانا بنایا تو مرچوں پر ہاتھ ہلکا رکھا مگر کچھ ہی دنوں میں اندازہ ہو گیا کہ ہمارے ان کرم فرماؤں کے درمیان رہنے کیلیے اپنی زبان میں چاشنی بھلے نہ ہو کھانوں میں مرچیں ضروری ہیں. اور ہم کہ جو مرچ کے نام سے ہی مرچیلے ہو جاتے تھے اب اپنے معدہ کو اسقدر مرچ زدہ کر چکے ہیں کہ ایاز امین سے ایاز مرچوی ہو چکے ہیں.
ہمارے سڈنی کے ساتھیوں میں سے ایک صاحب کو فشار خون کی شکایات ہے تو وہ اس بلند دوران لہو پر بند کھانے میں نمک گھٹا کرمرچ بڑھانے سے باندھتے ہیں گویا بقول غالب 'آبلوں پر حنا باندھتے ہیں'. ابھی کل ہی کی بات ہے کہ ہمیں ان کا فون موصول ہوا کہ کہ فوری سوال کا جواب دیں کہ اگر کھانےمیں مرچ زیادہ ہو جاے تو کیا کیا جاے. ان کی محبت ہے کہ یہ ہمارا خاص خیال رکھتے ہیں کہ کہیں مرچ بہت زیادہ نہ ہو جاۓ، یہاں زور بہت پر ہے.

ایک اور ہمدرد بھی ہیں کہ ان کو مرچیں رونق کا باعث لگتی ہیں اور یہ کھانوں کو رونق بخشنے کیلیے کبھی سرخ، کبھی سبز اور کبھی سیاہ (مرچ سپید ابھی ہمارے یہاں استمعال نہیں ہوتی) مرچوں کا استمعال اسقدر بےدریغ کرتے ہیں کہ جیسے یہ مرچیں زندگی میں آخری بار استمعال کر رہے ہوں. کہاوت ہے کہ 'کھاؤ من بھاتا اور پہنو جگ بھاتا' مگر ہمارے ان مرچ پسند بھائیوں کا من بھاتا کھانا مرچوں سے بھرپور ہوتا ہے. ان کا نعرہ ہے کہ 'مرچ کھپے اسان کھے مرچ کھپے'

جب ہم اس بلاگ کو لکھنے کا ارادہ کر رہے تھے تو ہم نے وکی پیڈیا پر مرچ کے متعلق معلومات پڑھی (اور اس میں سے کافی باتیں یہاں بیان بھی کی گئی ہیں) ان تفصیلات میں یہ بھی درج تھا کہ مرچ کے فوائد بھی ہیں، جیسا کہ زہر تریاق کا درجہ بھی رکھتا ہے اسی طرح مرچ السر کا علاج بھی ہے اور اس سے موٹاپے پر بھی قابو پایا جاسکتا ہے. اس سے پہلے کہ مرچ پسند موٹے خواتین و حضرات اس بات پر خوش ہوں ہم یہ بتاتے چلیں کہ یہ تجربات چوہوں پر کیے گئے ہیں. ہاں مرچ کے نقصانات میں معدہ کے سرطان اور بڑی آنت کی بیماریاں شامل ہیں.

بات یہ ہے کہ کسی بھی چیز کی زیادتی اور کمی اگر ایک خاص حد سے تجاوز کر جاے تو مسائل جنم لیتے ہیں. سو معملات میں میانہ روی کا حکم دیا گیا ہے.

(ہمارے اس بلاگ سے اگر کسی مرچ پسند کے دل کو ٹھیس پہنچی ہو تو ہم اس پر معزرت خواہ ہیں)