Saturday, July 24, 2010

ہماری توجہ کے طالب شاہی قلعہ اور شالیمار باغ


جتنی محبت ہمیں اپنی جائے سکونت، شہر قائد یا آبائی شہر ملتان کہ جو شمس تبریز اور بہاوالدین زکریا کی جائے آرام ہے سے ہے اتنی ہی انسیت داتا کی نگری لاہور سے بھی ہے اور یہ محبت ہمیں اس بات پر مجبور کرتی ہے کی ہم کسی نہ کسی طور پر اسکا حق ادا کریں۔ اب اس دور جلاوطنی میں ہم اپنے قلم کی بدولت ہی کچھ حق مبحت ادا کرنے کی ہمت کر پارہے ہیں۔ موضوع بحث لاہور کے تاریخی مقامات ہیں جن میں شاہی قلعہ اور شالیمار باغ شامل ہیں۔ اس قلعہ اور باغ کو اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم، سائنس اور ثقافت یعنی یونیسکو نے عالمی ورثہ کا درجہ دیا ہے جو کہ پاکستان کیلئے یقینا اعزاز کی بات ہے مگر ساتھ ہی قابل تشویش امر یہ ہے کہ یہ مقامات عالمی ورثہ کی اس فہرست میں شامل ہیں جنھیں گردش ماہ وسال اور انسانی عدم توجہ کے باعث خطرے میں قرار دیا گیا ہے۔
ان مقامات کی تاریخ پر نظر ڈالیں تویہ شان مغلیہ کے رعب و دبدبہ اور جاہ وجلال کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔شاہی قلعہ کے تیرہ دروازے ہیں اور یہ کئی عمارات پر مشتمل ہے، جن میں شیش محل، عالمگیری دروازہ، نولکھا، موتی محل، دولت خانہ خاص و عام، جھروکہ درشن، دولت خانہ جہانگیراور خوابگاہ وغیرہ شامل ہیں۔ ان تمام عمارات کو مختلف ادوار میں مغلیہ فرمانرواوں نے تعمیر کرایا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ شاہی قلعہ دور مغلیہ سے پہلے بھی موجود تھا جس کا ثبوت یہاں کھدائی کے دوران محمود غزنوی کے دور کے سکہ کے ملنے سے ہوتا ہے جو کہ گیارہویں صدی میں ہندوستان پر حملہ آور ہوا تھا جبکہ مغلیہ دور  کا آغاز بابر کی آمد پر سولہویں صدی عیسوی میں ہوا۔ یوں شاہی قلعہ میں وقت کے ساتھ ساتھ عمارات کا اضافہ ہوتا رہا۔
شالامار یا شالیمار باغ جی ٹی روڈ پر واقع ایرانی طرز کے باغات ہیں جنھیں سترہویں صدی کے وسط کے لگ بھگ شاہ جہاں نے تعمیر کرایا۔ اسکی تعمیر میں ایک برس لگا۔ یہ ایک چار دیواری کے اندر ایک شمالا جنوبا پھیلا ہوا ہے، اس میں تین باغات ہیں جو ایک نہر کی مدد سے سیراب کیئے جاتے ہیں۔ ان تین باغات کو فرح بخش، فیض بخش اور حیات بخش کے نام دیئے گئے ہیں۔ یہ باغات سطح زمین سے مختلف اونچائی رکھتے ہیں۔ شالیمار میں چار سو دس فوارے اور پانچ آبشاریں ہیں۔
مندرجہ بالا مختصر تعارف سے یہ بات تو واضع ہو جاتی ہے کہ یہ دونوں مقامات اپنی تعمیر کے لحاظ سے منفرد ہیں اور ان کا مصرف بھی خاصہ اہم تھا۔ گزرے وقتوں میں ان مقامات نے کئی شاہی خاندانوں، امراء و روسا اورمعزز مہمانان کو آتا جاتا دیکھا ہو گا، مگر وقت کے ساتھ ساتھ ان مقامات کا حسن ماند پڑتا گیا اور عالمی ورثہ یونیسکو نے ان دونوں مقامات کو اپنے چوبیسویں اجلاس سن دو ہزار میں حکومت پاکستان کی درخواست پر پر خطر قرار دے دیا۔
اس وقت سے اب تک گو کہ ان عمارات کی تزئین و آرائش ہوتی رہی مگر اب بھی یہ خطرے والی فہرست سے باہر نہیں ہو سکیں۔ مان لیا کہ دس برس قبل ہماری اس وقت کی حکومت نے یونیسکو کی مدد سے ان عمارات کو آفت زدہ قرار دلا دیا لیکن بحیثیت ایک پاکستانی کے یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم خود ان عمارات کا تحفظ کریں بالکل ویسے جیسے ہم اپنے آباو اجداد کی جائیداد یا خاندانی حویلی کی حفاظت کرتے ہیں۔
کسی بھی ملک میں اگر ایسے اہم مقامات ہوں تو وہ لوگ نا صرف یہ کہ اس کی حفاظت کرتے ہیں بلکہ اپنی آنے والی نسلوں کو اپنے پرکھوں کے کارنامے بڑے فخر سے سناتے ہیں، ساتھ ہی ایسے مقامات سیاحوں کی دلچسپی کا باعث بھی ہوتے ہیں۔
اوپیرا ہاوس سڈنی گو کہ اتنا تاریخی نہیں مگر سڈنی کی پہچان ہے اور ہر آسٹریلیائی باشندہ اس پر فخر کرتا ہے۔ اس کی بدولت روزانہ ہزاروں ڈالر کا کاروبار ہوتا ہے اور سیاح دنیا کے ہر ملک سے یہاں آتے ہیں۔
ہم زندہ دلان لاہور سے بخوبی واقف ہیں، یہ بے فکرے قسم کے لوگ ہیں اور اپنے شہر سے سڈنی کے شہریوں سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ اگر لاہور کی فوڈ یا ٹورسٹ اسٹریٹ آباد ہو سکتی ہیں تو یہی لاہوری شاہی قلعہ اور شالیمار باغ کو بھی مقامی اور عالمی سطح پر اوپیرا ہاوس سے کہیں زیادہ روشناس کرا سکتے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہی کہ اس عالمی تاریخی ورثہ کو محفوظ کرنے کیلئے ہر سطح پر عملی اقدامات اٹھائے جائیں، ہم صرف مسئلہ کی سنگینی بیان کر کے رو پیٹ کر خاموش ہونے کے قائل نہیں بلکہ ہماری نظرمیں ان تاریخی مقامات کو محفوظ کرنے کا طریقہ بھی ہے۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ لاہور میں کئی اچھے اور معیاری تعلیمی ادارے ہیں جن میں لاہور کالج آف آرٹس اہم ہے، یہاں کے طلبہ و طالبات کو ان مقامات سے بہتر آرٹس لاہور میں شاید ہی کہیں مل سکے۔ تو ان کی مدد سے ان عمارات کی تزئین بآسانی انجام دی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ان عمارات کے ایک ایک حصہ کو بڑے بڑے نجی اداروں کی عارضی تحویل میں دے کر انھیں ان حصوں کی سجاوٹ کا ذمہ سونپا جا سکتا ہے۔ ساتھ ہی مخیر حضرات بھی اپنی دولت کا اعشاریہ چند فیصد ان عمارات پر صرف کر سکتے ہیں۔ اپنے ملک کے نونہالوں اور نوجوانوں سے ہماری امیدیں وابستہ ہیں یہ مستقبل کے معمار کم از کم ان مقامات کی ہفتہ وار صفائی کا کام رضاکارانہ طور پر انجام دے سکتے ہیں جس میں ان کے ہاتھ اور بدن گرد آلود تو ہوں گے مگر اسکے بدلے میں جو انوکھی خوشی انھیں حاصل ہو گی وہ مادی طور پر نہیں تولی جا سکتی۔ ایک عام شہری کی حیثیت سے ایسے کسی بھی مقام پر جاکر اس کی صفائی اور اصل خوبصورتی کو قائم رکھنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ غرض یہ کہ ہر سطح پر جبتکہ ہم خود ان عمارات کو نہیں اپنائیں گے اسوقت تک یونیسکو یا کسی اور ادارے کی امداد بھی بےکار جائے گی۔
سن دوہزار چھے میں ماہ اپریل کی انتیس تاریخ کو ہم نے شاہی قلعہ کے مرکزی دروازے کی عسکبندی کی جو یہاں پیش کی جارہی ہے اس تصویر سے اس قلعہ کی عظمت اجاگر ہوتی۔ ان جیسے دیگر مقامات کو بھی ہماری توجہ کی ضرورت ہے۔
اس بات کا جواب ہم قارئین پر چھوڑتے ہیں کیا لاہور شاہی قلعہ اور شالیمار باغ کے بغیر لاہور لگے گا؟ 

Tuesday, July 20, 2010

عشائیہ نینڈوز پر

 آخر کار وہ دن آن پہنچا کہ یاسر آفندی نے اپنا روانگی برائے بریزبین کا ہوائی ٹکٹ پرنٹ کر لیا اور ہمیں انھیں الوداعی ضیافت دینا پڑی۔ مقام تھا ماروبرا، پیسیفک اسکوائر شاپنگ سینٹر کا نینڈوز وقت رات کے پونے نو اور ہم دس افراد چار میزیں جوڑے قریبا بارہ افراد کی جگہ پر براجمان ہوئے۔
نینڈوز سے سبھی واقف ہیں مگر شاید یہ بات سب نہ جانتے ہوں کہ پتگالی طرز کے اس مرغذدہ فاسٹ فوڈ کا آغاز جوہانسبرگ میں تیئیس برس قبل ہوا۔ اس کا نام اسکے سب سے پہلے مالک کے بیٹے کے نام پر رکھا گیا۔ آج پاکستان سمیت چونتیس ممالک میں اسکی شاخیں موجود ہیں اور آسٹریلیا میں یہ حلال گوشت کے کھانے اور فاسٹ فوڈ پیش کرتے ہیں۔
پیسیفک اسکوائر کے اپارٹمنٹس میں زیادہ تر سعودی رہتے ہیں تو علاقہ میں حلال گوشت ویسے بھی با آسانی مل جاتا ہے۔ نینڈوز میں بھی دیسی رنگ جھلکتا ہے اور میزبان اور کام کرنے والے دیسی ہی ہیں۔ کاونٹر پر جا کر آرڈر دینے میں صفیان اور عثمان نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا بلکہ عثمان نے تو 'دیسی گرل' دیکھ کر اپنے بنک کارڈ سے بل کی ادائگی بھی کر ڈالی۔ آرڈر کے آنے تک تفریح ہوتی رہی اور یاسر تصاویر لیتے رہے، سب سے زیادہ تیاری حسب عادت و روایت تابش نے کی ہوئی تھی، ویسے تو سبھی خوش لباس ہیں، مگر عثمان اور تابش کی بات سب سے جدا ہے، واڈی والا کا ذکر نشست و برخاست و پوشاک نہ کرنا زیادتی ہوگی ڈیوڈرنٹ کے بغیر انکی تیاری ادھوری رہتی ہے، فراز علی اور کسی چیز کا خیال رکھیں یا نہ رکھیں سر پر ٹوپی ضرور لیتے ہیں۔ احسن اور ہم درویش ہیں کہ منہ اٹھا کر چل پڑتے ہیں شائد ہمارے گھر والے اس کی وجہ ہماری بڑی عمر بیان کریں گے۔ یاسر تو خیر مہمان خصوصی تھے تو انکی تعریف تو کرنا ہی پڑے گی۔ ایک نووارد بھی ہمارے ساتھ تھے انکا پورا نام قاضی فہد خان ہے، انکا تعلق کوئٹہ سے ہے، عثمان اوسامہ کیساتھ لاہور میں پڑھ چکے ہیں اور گذشتہ ہفتہ ہی سڈنی تشریف لائے ہیں۔ صفیان اور فراز خان دونوں ہی سادگی پسند ہیں البتہ فراز خان سڈنی میں این ای ڈی کی اور کراچی میں یو این ایس ڈبلیو کی جرسی پہننا پسند فرماتے ہیں۔
جب آرڈر لایا گیا تو سب آہستہ آہستہ اپنی پسند کا مرغ اڑانے لگے، مرچ پسند دوستوں نے ایکسٹرا ہاٹ کا آرڈر دیا تھا اور مائلڈ پیری پیری کے ساتھ لطف اندوز ہونے لگے کہ احمد فراز سے معزرت کے ساتھ
ع نشہ بڑھتا ہے مائلڈ جو ایکسٹرا ہاٹ میں ملے

ہم سمیت چار افراد نے سپریمو برگر کا آرڈر دیا تھا جو کہ مائلڈ کےساتھ تھا، یہ آرڈر سب سے آخر میں دوشیزہ نے لاکر دیا جو کہ کاونٹروالی دیسی گرل تھی۔ اس نے ایک ادائے ناز سے بالوں کی لٹ کو ماتھے پر دائیں جانب گرا رکھا تھا اور بقیہ بالشت بھر زلفوں کی پونی بنا رکھی تھی۔ جب ظالم نے برگر پیش کیا تو وہ برگر کے بجائے جام لگا اور ہم خود کو نینڈوز کی جگہ کسی مے خانے میں تصور کرنے لگے۔اب قارئین سمجھ سکتے ہیں کہ عثمان اور صفیان نے کاونٹر پر دیرکیوں لگائی تھی۔
برگر خوب تھا اور تمام افراد نے سیر ہوکر اپنی پلیٹوں سےبھرپور انصاف کیا۔ اس دوران آپس میں نوک جھونک بھی جاری رہی اور بعد میں شوقین حضرات نے تمباکو نوشی کا دور بھی لگایا۔ یوں یہ محفل تمام ہوئی۔ 
  یاسر کے موبائل سے لی گئی تصویریں بھی پیش کی جارہی ہیں پہلے انھیں شامل نہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ ہم تک یہ دیر سے پہنچیں۔

Friday, July 9, 2010

سڈنی-آمد سے واپسی تک، چلو چلو گریفتھ چلو-7

ایسا ہی ایک مقام سڈنی سے635  کلو میٹر مغرب میں شاہراہ ہیوم پر واقع ہے، جہاں موسم کی مناسبت سے سنگترے، انگور اور دیگر اجناس کے ساتھ پیاز کی کاشت ہوتی ہے۔ اس مقام کا نام گریفتھ ہے۔ یہاں آسٹریلیا میں  میکڈونلڈز کو فراہم کرنے کیلئے مختلف اجناس کے کھیت ہیں، اور آبپاشی کا وسیع نظام کارفرما ہے۔

ہم ان لوگوں کو سلام کرتے ہیں کہ جنھوں نے کبھی کوئی دیہات یا کھیت نہ دیکھا اور پیاز کے بارے میں معلومات صرف یو ٹیوب اور انٹرنیٹ سے اخذ کیں اس پر بھی انکا عزم یہ  کہ ہم ملکر پیاز کا کھیت ہاتھوں سے کھود ڈالیں گے۔ دراصل دور فراغت تھا اور کچھ لوگ معاشی لحاظ سے اس قدرے تنگ دست تھے کہ کسی قسم کا بھی محنت طلب کام کرنے کو تیار تھے تاکہ ناصرف یہ کہ روزمرہ کا خرچہ نکالا جا سکے بلکہ جامعہ میں اجرت یعنی فیس دے سکیں۔

پیاز کو الف لیلہ میں یوں بیان کیا گیا ہے۔ "ہم تو اسے نیک آدمی خیال کرتے تھے، مگر وہ تو پیاز کی طرح نکلا، سربوڑھا اور قلب جوان"   

18 نومبر 2009 کی رات کوایک گاڑی انزیک پریڈ، سڈنی سے روانہ ہوئی، منزل گریفتھ، مقصد بوڑھا سر کاٹ کر جوان پیاز اکھاڑنا اور عازم سفر محترم شمس قاضی، جناب شہباز واڈی والا، جناب احسن شیخ اور جناب عمیر فاروق۔ رات بھر کے سفر کے بعد یہ لوگ مرکز شہر پہنچے اور ایک مصلہ میں جا کر ڈیرا لگایا، وہاں چند پاکستانی حضرات سے ملاقات ہوئی۔ ان لوگوں نے انھیں وہاں کا کچھ کچھ حال بیان کیا۔ حاصل شدہ معلومات کے مطابق یہ پیاز کھودنا آسان کام نہیں تھا۔کھیت میں اکڑوں بیٹھ کر ایک ہاتھ سے پیاز اکھاڑنا پڑتے تھے اور دوسرے سے ایک بڑی سی قینچی کی مدد سے سر کاٹ کر بڑے سے ٹوکرے میں جمع کئے جاتے تھے۔ کھیت کا عالم کچھ یوں تھا کہ موسم کی سختی کے ساتھ ساتھ جنگلی مکھیاں مسلسل آپ کا طواف کرتی ہیں اور انکا پسندیدہ مقام آرام آپکا چہرہ ہوتا ہے۔ یہ ساری معلومات مصلہ میں مختلف لوگوں سے ملیں۔ مکھیوں سے بچنے کا طریقہ بھی بتایا گیا کہ ایک عدد ٹی شرٹ لے کر اس کے گلے والی جگہ کو آنکھوں اور ماتھے پر پہن کر قمیض کی آستینوں کو گدی پر باندھ لیا جائے کہ صرف آپکی آنکھیں ہی دکھائی دیں۔

ان لوگوں کو حاصل شدہ معلومات کے مطابق قینچیاں اور ٹوکریاں بھی خریدنا تھیں جو کہ ایک بنیئے کی دوکان سے ملیں اور بنیئے نے ان سے اصل قیمت سے کم رکھ کر ٹوکریاں دے دیں۔ ساتھ ہی انکو اپنے نام بھی کھیت کے دفتر میں لکھوانے تھے، احسن کے پاس پاسپورٹ نہ تھا جو کہ اس مقصد کے لئے درکار تھا۔ باقی سب لوگ اپنا نام لکھوا کر آگئے ادھر جب یہ کاروائی جاری تھی  اِدھر تازہ دم سپاہی بھی گریفتھ کےلئے تیاری پکڑ رہے تھے، جن میں تابش، فراز خان اور عاطف شامل تھے، تو احسن نے ان کو فون پر اپنا پاسپورٹ گھر سے لانے کو کہا۔ وہاں یہ لوگ اگلے دن کی تیاری کر کے جلد سونے لگے کہ علی الصبح کام کے لئے روانہ ہوں گے، اسی دن بعد دوپہر دوسرا قافلہ بذیعہ بس گریفتھ روانہ ہوا اور جمعہ کی صبح سحری کے وقت وہاں پہنچا، ان کو گاڑی کے ذریعہ لاری اڈا سے مصلہ پنچا دیا گیا اور آرام کا کہا گیا جبکہ  پہلے قافلہ والے منہ اندھیرے ہی کام کے لئے روانہ ہوئے کہ دوپہر سے پہلے پہلے کام ختم کر کے آرام ہو گا۔

ہم پہلے ہی یہ بات بیان کر چکے ہیں کہ منصوبہ بندی اور عمل میں خاصہ فرق ہوتا ہے،  اگر ساجھے داری کا کوئی کام ہو تو تمام فریقین کا باہمی رضامند ہونا ضروری ہے اور ساتھ ہی یہ بات بھی اہمیت رکھتی ہے کہ کبھی بھی اپنی کشتیاں نہ جلائی جائیں اگر آپ کسی کے ساتھ ملکر کوئی کام شروع کریں تو اپنے آپ کو ہر طرح کے نشیب و فراز کےلئے تیار رکھیں۔ ان تمام لوگوں میں سے مستقل کام کسی کے پاس نہ تھا، مگر کسی نا کسی طور پر سڈنی میں جگہ بنائے ہوئے تھے۔

یہ لوگ اپنی گاڑی میں ہی کھیتوں کو روانہ ہوئے جبکہ دیگر پشت لادے اور مقامی مزدور روزانہ کی بس میں۔ کھیت کا منظر خوب تھا، طریقہ کار کے مطابق  ایک جگہ سے بڑا کریٹ ملتا تھا جس میں ایک من پیاز آتی ہے اور فی کریٹ کے حساب سے رقم کی ادائگی کی جاتی ہے۔ اب ان لوگوں نے یوٹیوب کی جو ویڈیو دیکھی تھی اس میں ایک چھوٹی ٹوکری دکھائی گئی تھی جو جلد ہی بھر جاتی ہے اس بڑے کریٹ کو دیکھ کر تو ان کے اوسان ہی خطا ہو گئے۔ خیر کھیت میں ہدایت کے مطابق جگہ منتخب کرنے کے بعد کاروائی اکھاڑ پیاز کا آغاز کیا گیا۔ اب آئی ٹی کے ماہرین اور انجینیئر صاحبان وطن سے ہزارہا میل دور گریفتھ کے کھیت میں ٹوکری رکھے ہاتھ میں قینچی لئے منہ پر ڈھاٹا باندھے پیاز کھود رہے ہیں، ساتھ ساتھ تبصرے فرمائے جا رہے ہیں کہ یار یہ پیاز کیسی ہے، اس والی کی شکل دیکھو، اسکا رنگ دیکھو، وغیرہ وغیرہ۔ خدا خدا کرکے ایک کریٹ بھرا اس دوران کسان نے آکر انکو سرزنش بھی کی کہ وہ لوگ نئے ہونے کی وجہ آہستہ آہستہ ہاتھ چلا رہے تھے۔ اب ہوا کچھ یوں کہ ہمت جواب دیتی گئی سب سے پہلے شمس قاضی نے ہاتھ پیر چھوڑے اور اعلان کیا کہ میں یہاں سے پسپائی اختیار کرتا ہوں، اب یہ ان سب میں بڑے تھے تو انکی بات کا وزن سب نے محسوس کیا۔ تعید کرنے والوں میں سب سے پہلے شہباز واڈی والا تھے، احسن نے بھی ہاں میں ہاں ملائی اور عمیر فاروق کو بھی چاروناچار اکثریت کی رائے کا ساتھ دینا پڑا کیونکہ جمہوریت میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے۔ اس طرح جو کام منہ اندھیرے شروع ہوا تھا وہ اشراق سے پہلے ہی اختتام پذیر ہوا۔ یہ تشنہ لب جماعت جب واپس مصلہ پہچنی تو ایسا عالم تھا کہ جسکی مثال ہمیں پنجابی میں یاد تو آرہی ہے مگر احاطہ تحریر میں نہیں لائی جا سکتی۔ دوسری پلٹن نے جب یہ لٹا پٹا کارواں دیکھا تو ان کے اوسان خطا ہو گئے کہ فجر میں تو یہ لوگ اچھے بھلے کام کے لئے روانہ ہوئے تھے محض چار گھنٹوں میں آخر ایسا کیا ہو گیا کہ ان کو الٹے قدموں لوٹنا پڑا۔ اب ان لوگوں نے اپنی ہار تسلیم کرتے ہوئے واپسی کا سامان باندھا اور یہ جا اور وہ جا۔ تابش، فراز خان اور عاطف ایک دوسرے کی شکلیں ہی تکتے رہے کہ جب ان لوگوں سے کچھ نہ ہو سکا تو یہ کون سی کھیت کی پیاز تھے، ہم نے محاورہ حسب حال بدل دیا ہے۔
خیر ان لوگوں نے جمعہ نماز وہیں ادا کی جیسے کہ اللہ نے انکو اسی مقصد کےلئے گریفتھ دکھایا تھا۔ نماز کے فورا بعد انھوں نے واپسی کی بس کی ٹکٹ خریدی، جب فراز خان لاری اڈے سے ٹکٹ لینے جانے لگے تو ان کی ملاقات چند پاکستانی حضرات سے ہوئی انھوں نے پوچھا کہ آپ لوگ تو آج ہی آئے تھے آج ہی واپس چل دئیے، اس پر فراز خان نے انھیں دکھ بھری بپتا سنائی کہ چار جوان چار گھنٹوں میں ایک کریٹ بھر پائے اور فی کس دس ڈالر کمائے، اس پر ان صاحبان کا ردعمل ایسا تھا کہ جیسے فراز ان سے مذاق کر رہے ہوں۔ فراز نے انھیں یقین دلایا کہ وہ سچ کہ رہے تھے تو وہ لوگ بتانے لگے کہ دو افراد مل کر چار گھنٹوں میں اور نہیں تو دو کریٹ تو بھر ہی لیتے ہیں،لہذا بہتر ہے کہ آپ لگ سڈنی کا راستہ ہی ناپیں۔ یوں دوسرا قافلہ بھی فقط بارہ گھنٹوں کے قیام گریفتھ کےبعد روانہ سڈنی ہوا۔

تصاویر کے بارے میں: پہلی تصویر میں گریفتھ کا مصلہ۔
دوسری تصویر میں شہباز تھکے ہارے۔

 نیچے دیا گیا رابطہ یوٹیوب کی وڈیو کا ہے  
جس میں آپکوچند ہندوستانی طلبہ پیاز کے کھیت میں کام کرتے دکھائی دیں گے۔

جاری ہے 

Saturday, July 3, 2010

سڈنی- آمد سے واپسی تک، فراز علی اور حُبِ شیر-6

نومبر کے پہلے ہفتہ میں سید فراز علی ہمارے گھر میں عارضی طور پر وارد ہوئے، انکے بھائی، یاسر آفندی کے چچا کے دوست ہیں لہذا یاسر آفندی کو انکے رہنے کے انتظام کا ذمہ سونپا گیا۔ یاسر نے ہم گھر والوں سے کہا تو سب نے متفقہ طور پر عارضی سکونت کی باضابطہ اجازت دے دی کہ چلو کچھ دنوں کی بات ہے۔انکے سونے کا بندوبست ہمارے کمرہ میں تھا اور پہلے ہی دن جب یہ اپنا جیٹ لیگ ختم کرنے کی خاطر کمرے میں سوئے تو ہم پر یہ حقیقت آشکارا ہوئی کہ جناب کو سوتے میں کروٹ بدل کر فاصلہ طے کرنے کا مسئلہ ہے کہ سوتے کہیں ہیں تو پہنچتے کہیں اور ہیں۔ بعد میں پتہ چلا کہ انہیں گرمی بہت لگتی ہے اس وجہ سے نیند میں بے چین رہتے ہیں۔

انکی انگنت خصوصیات ہیں، ہم اختصار کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ پیدل چلنے میں کمال کا درجہ رکھتے ہیں، سڈنی شہر اور انزیک پریڈ کے درمیان کا شاید ہی کوئی ایسا راستہ ہو گا جس سے یہ واقف نہ ہونگے اور وہ بھی پا پیادہ۔ کسی بات کو ایک حرف ادھر ادھر کیے بغیر کئی کئی بار بے تکان بیان کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔کھانے میں مرچ زدہ تمام خوراکیں پسند کرتے ہیں اور دودھ سے خاص رغبت رکھتے ہیں۔ پوری پراٹھہ سے لے کر مچھلی کی بریانی تک بنا لیتے ہیں۔ چمچ سے کافی اور چینی پھینٹ سکتے ہیں اور وہ بھی ایسی کہ اس میں چینی کے دانے بھی پس جاتے ہیں۔ پھٹے جوتوں کو جوڑ سکتے ہیں، پہاڑ جیسی چڑھائی پر بائیسکل چلا سکتے ہیں۔ اور بھوک کی شدت پر لڑ بھی سکتے ہیں۔ انکے لئے اور کچھ بھی نہ کہا جائے توفوجی درسگاہ پٹارو کا نام ہی کافی ہے کیونکہ یہ وہاں کے منجھلے دھلے ہیں۔  

انکے گھر میں آنے سے کئی معاملات میں تبدیلی واقع ہوئی، ایک دن انھوں نے چولہے کو ایسا چمکایا کہ نئے کا گمان ہونے لگا، اسی طرح غسلخانے  کی چلمچی یعنی واش بیسن بھی نیا کر دیا کہ ہم اس میں تھوکنے سے بھی گھبرانے لگے۔یوں انھوں نے ہمارے یہاں صفائی کے معیار متعین کئے جس سے کچھ لوگوں کو مشکلات بھی ہوئیں پر اس طرح مجموعی طور پر گھر میں بہتری آئی۔

انھی دنوں احسن صاحب ایک اچھوتا خیال لے کر آئے، ہم اسکا پسمنظرتفصیل سے بیان کرتے ہیں۔ اصل قصہ بلاگ کی اگلی قسط میں پیش کیا جائے گا۔ 

آسٹریلیا کی اقتصادیات بڑی حد تک معدنیات پر انحصار کرتی ہے، اس کے علاوہ یہاں زراعت کا شعبہ بھی اچھی پیداوار دیتا ہے۔ اس کا  اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آسٹریلیاگندم برآمد کرنے والے دس بڑے ممالک میں شامل ہے۔ اس کے ساتھ یہاں کی مصنوعات شیر بھی پوری دنیا میں جانی جاتی ہیں، جس میں پنیر اہم ہے۔ ہرے بھرے کھیت و کھلیان ہر طرح کی اجناس اگانے کے قابل ہیں۔ اس وجہ سے یہاں مختلف پھلوں اور سبزیوں کے موسم میں دیہاڑیدار مزدور جن میں طلبہ و طالبات کے ساتھ ساتھ خاص اس مقصد کیلئے آئے ہوئے سیاح جوپشت لادے یا بیک پیکر کہلاتے ہیں، شامل ہوتے ہیں آتے ہیں۔ یہ لوگ چند دنوں میں اچھے خاصے ڈالر سمیٹ کر اپنی تعطیلات کو کام میں لاتے ہیں۔ کیونکہ یہ کام سخت قسم کے موسمی حالات میں ہاتھوں سے انجام دینا ہوتا ہے تاکہ پھل کو بنا نقصان کے اصل ہیئت میں اتارا جا سکے لہذا بقول شاعر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ۔

تصویر میں سید فراز علی سڈنی میں اپنی پہلی عیدالاضحی کے بعد 
جاری ہے