جتنی محبت ہمیں اپنی جائے سکونت، شہر قائد یا آبائی شہر ملتان کہ جو شمس تبریز اور بہاوالدین زکریا کی جائے آرام ہے سے ہے اتنی ہی انسیت داتا کی نگری لاہور سے بھی ہے اور یہ محبت ہمیں اس بات پر مجبور کرتی ہے کی ہم کسی نہ کسی طور پر اسکا حق ادا کریں۔ اب اس دور جلاوطنی میں ہم اپنے قلم کی بدولت ہی کچھ حق مبحت ادا کرنے کی ہمت کر پارہے ہیں۔ موضوع بحث لاہور کے تاریخی مقامات ہیں جن میں شاہی قلعہ اور شالیمار باغ شامل ہیں۔ اس قلعہ اور باغ کو اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم، سائنس اور ثقافت یعنی یونیسکو نے عالمی ورثہ کا درجہ دیا ہے جو کہ پاکستان کیلئے یقینا اعزاز کی بات ہے مگر ساتھ ہی قابل تشویش امر یہ ہے کہ یہ مقامات عالمی ورثہ کی اس فہرست میں شامل ہیں جنھیں گردش ماہ وسال اور انسانی عدم توجہ کے باعث خطرے میں قرار دیا گیا ہے۔
ان مقامات کی تاریخ پر نظر ڈالیں تویہ شان مغلیہ کے رعب و دبدبہ اور جاہ وجلال کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔شاہی قلعہ کے تیرہ دروازے ہیں اور یہ کئی عمارات پر مشتمل ہے، جن میں شیش محل، عالمگیری دروازہ، نولکھا، موتی محل، دولت خانہ خاص و عام، جھروکہ درشن، دولت خانہ جہانگیراور خوابگاہ وغیرہ شامل ہیں۔ ان تمام عمارات کو مختلف ادوار میں مغلیہ فرمانرواوں نے تعمیر کرایا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ شاہی قلعہ دور مغلیہ سے پہلے بھی موجود تھا جس کا ثبوت یہاں کھدائی کے دوران محمود غزنوی کے دور کے سکہ کے ملنے سے ہوتا ہے جو کہ گیارہویں صدی میں ہندوستان پر حملہ آور ہوا تھا جبکہ مغلیہ دور کا آغاز بابر کی آمد پر سولہویں صدی عیسوی میں ہوا۔ یوں شاہی قلعہ میں وقت کے ساتھ ساتھ عمارات کا اضافہ ہوتا رہا۔
شالامار یا شالیمار باغ جی ٹی روڈ پر واقع ایرانی طرز کے باغات ہیں جنھیں سترہویں صدی کے وسط کے لگ بھگ شاہ جہاں نے تعمیر کرایا۔ اسکی تعمیر میں ایک برس لگا۔ یہ ایک چار دیواری کے اندر ایک شمالا جنوبا پھیلا ہوا ہے، اس میں تین باغات ہیں جو ایک نہر کی مدد سے سیراب کیئے جاتے ہیں۔ ان تین باغات کو فرح بخش، فیض بخش اور حیات بخش کے نام دیئے گئے ہیں۔ یہ باغات سطح زمین سے مختلف اونچائی رکھتے ہیں۔ شالیمار میں چار سو دس فوارے اور پانچ آبشاریں ہیں۔
مندرجہ بالا مختصر تعارف سے یہ بات تو واضع ہو جاتی ہے کہ یہ دونوں مقامات اپنی تعمیر کے لحاظ سے منفرد ہیں اور ان کا مصرف بھی خاصہ اہم تھا۔ گزرے وقتوں میں ان مقامات نے کئی شاہی خاندانوں، امراء و روسا اورمعزز مہمانان کو آتا جاتا دیکھا ہو گا، مگر وقت کے ساتھ ساتھ ان مقامات کا حسن ماند پڑتا گیا اور عالمی ورثہ یونیسکو نے ان دونوں مقامات کو اپنے چوبیسویں اجلاس سن دو ہزار میں حکومت پاکستان کی درخواست پر پر خطر قرار دے دیا۔
اس وقت سے اب تک گو کہ ان عمارات کی تزئین و آرائش ہوتی رہی مگر اب بھی یہ خطرے والی فہرست سے باہر نہیں ہو سکیں۔ مان لیا کہ دس برس قبل ہماری اس وقت کی حکومت نے یونیسکو کی مدد سے ان عمارات کو آفت زدہ قرار دلا دیا لیکن بحیثیت ایک پاکستانی کے یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم خود ان عمارات کا تحفظ کریں بالکل ویسے جیسے ہم اپنے آباو اجداد کی جائیداد یا خاندانی حویلی کی حفاظت کرتے ہیں۔
کسی بھی ملک میں اگر ایسے اہم مقامات ہوں تو وہ لوگ نا صرف یہ کہ اس کی حفاظت کرتے ہیں بلکہ اپنی آنے والی نسلوں کو اپنے پرکھوں کے کارنامے بڑے فخر سے سناتے ہیں، ساتھ ہی ایسے مقامات سیاحوں کی دلچسپی کا باعث بھی ہوتے ہیں۔
اوپیرا ہاوس سڈنی گو کہ اتنا تاریخی نہیں مگر سڈنی کی پہچان ہے اور ہر آسٹریلیائی باشندہ اس پر فخر کرتا ہے۔ اس کی بدولت روزانہ ہزاروں ڈالر کا کاروبار ہوتا ہے اور سیاح دنیا کے ہر ملک سے یہاں آتے ہیں۔
ہم زندہ دلان لاہور سے بخوبی واقف ہیں، یہ بے فکرے قسم کے لوگ ہیں اور اپنے شہر سے سڈنی کے شہریوں سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ اگر لاہور کی فوڈ یا ٹورسٹ اسٹریٹ آباد ہو سکتی ہیں تو یہی لاہوری شاہی قلعہ اور شالیمار باغ کو بھی مقامی اور عالمی سطح پر اوپیرا ہاوس سے کہیں زیادہ روشناس کرا سکتے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہی کہ اس عالمی تاریخی ورثہ کو محفوظ کرنے کیلئے ہر سطح پر عملی اقدامات اٹھائے جائیں، ہم صرف مسئلہ کی سنگینی بیان کر کے رو پیٹ کر خاموش ہونے کے قائل نہیں بلکہ ہماری نظرمیں ان تاریخی مقامات کو محفوظ کرنے کا طریقہ بھی ہے۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ لاہور میں کئی اچھے اور معیاری تعلیمی ادارے ہیں جن میں لاہور کالج آف آرٹس اہم ہے، یہاں کے طلبہ و طالبات کو ان مقامات سے بہتر آرٹس لاہور میں شاید ہی کہیں مل سکے۔ تو ان کی مدد سے ان عمارات کی تزئین بآسانی انجام دی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ان عمارات کے ایک ایک حصہ کو بڑے بڑے نجی اداروں کی عارضی تحویل میں دے کر انھیں ان حصوں کی سجاوٹ کا ذمہ سونپا جا سکتا ہے۔ ساتھ ہی مخیر حضرات بھی اپنی دولت کا اعشاریہ چند فیصد ان عمارات پر صرف کر سکتے ہیں۔ اپنے ملک کے نونہالوں اور نوجوانوں سے ہماری امیدیں وابستہ ہیں یہ مستقبل کے معمار کم از کم ان مقامات کی ہفتہ وار صفائی کا کام رضاکارانہ طور پر انجام دے سکتے ہیں جس میں ان کے ہاتھ اور بدن گرد آلود تو ہوں گے مگر اسکے بدلے میں جو انوکھی خوشی انھیں حاصل ہو گی وہ مادی طور پر نہیں تولی جا سکتی۔ ایک عام شہری کی حیثیت سے ایسے کسی بھی مقام پر جاکر اس کی صفائی اور اصل خوبصورتی کو قائم رکھنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ غرض یہ کہ ہر سطح پر جبتکہ ہم خود ان عمارات کو نہیں اپنائیں گے اسوقت تک یونیسکو یا کسی اور ادارے کی امداد بھی بےکار جائے گی۔
سن دوہزار چھے میں ماہ اپریل کی انتیس تاریخ کو ہم نے شاہی قلعہ کے مرکزی دروازے کی عسکبندی کی جو یہاں پیش کی جارہی ہے اس تصویر سے اس قلعہ کی عظمت اجاگر ہوتی۔ ان جیسے دیگر مقامات کو بھی ہماری توجہ کی ضرورت ہے۔
اس بات کا جواب ہم قارئین پر چھوڑتے ہیں کیا لاہور شاہی قلعہ اور شالیمار باغ کے بغیر لاہور لگے گا؟