Tuesday, August 31, 2010

سڈنی آمد سے واپسی تک، قاضی فہد، واڈیوالا اور لال اجرک-13

فہد الٰہی ہم سے جون کے آخر میں رخصت ہوئے اور جولائی میں ایک اور معصوم آدمی اس قافلہ میں شامل ہوا۔ نام قاضی فہد خان، گویا فہد کی جگہ ایک اورفہد، سکنہ کوئٹہ اور کراچی، تعلیم لاہور میں حاصل کی یعنی کہ پورے ملک سے تعلق رکھتے ہیں۔ چائے خوب بناتے ہیں اور گھر کے کام کاج میں سیّد فراز علی کے نقش قدم پر ہیں۔ پہلے ہی دن ہم سے دوستی ہو گئی، کیونکہ ان کو ہوائی اڈہ سے وصول کرنے والوں میں ہم بھی شامل تھے، اگلے روز جامعہ کا دورہ بھی کرا دیا۔ یہ بھی ہماری ہی جامعہ کے طالب علم ہیں۔

ان کا بات کرنے کا انداز شستہ ہے، کسی بات پر حیرت یا غصہ کا اظہار کرنا ہو تو 'پاگل ہے کیا؟' کہتے ہیں۔ انکی آمد سے تابش امان خان بڑے ہو گئے کیونکہ وہ اب تک اس ٹولےمیں سب سے کمسن تھے۔  چند دنوں میں انھوں نے بس کے درمیان اپنی جگہ بنا لی ہے۔ مزید جوہروقت کے ساتھ ساتھ کھل رہے ہیں تفصیل آتی رہے گی۔

شہبازواڈیوالا اور احسن شیخ کا باقاعدہ تعارف بیان کرنا رہ گیا تھا گو کہ یہ بلاگ ان ہی لوگوں سے شروع ہوا تھا۔ احسن،شہباز، فہد اور تابش، شہید ذوالفقار علی بھٹو اسٹیٹیوٹ سے ڈگری یافتہ تھے اور یہاں اعلیٰ تعلیم کی خاطر آئے تھے، تابش اور فہد کی بابت تفصیل بیان ہو چکی، اب ہم واڈیوالا کی عادات پر روشنی ڈالیں گے۔

شہباز واڈیوالا کا نام ذہن میں آتے ہی پہلا خیال سمینٹک کا آتا ہے، سٹی اسکول سے کسی نے کسی بھی سال میں کوئی سی سند ہی حاصل کیوں نہ کی ہو انکا کوئی نہ کوئی تعلق  شہباز واڈیوالا سے ضرور نکل آتا ہے اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو یہ اس شخص کی بدقسمتی سمجھی جائے۔ نہایت شریف آدمی ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صنف مخالف سے دور بلکہ پیچھے رہتے ہیں چاہے وہ جامعہ میں ہو یا ٹی ایسٹو کی محفل موسیقی یعنی کنسرٹ میں۔ ان پر یہ شعر صادق آتا ہے کہ
آرزوئیں ہزار رکھتے ہیں
تو بھی ہم جی کو مار رکھتے ہیں

کمپیئوٹر سے متعلق کوئی بھی مسئلہ ہو حل کرسکتے ہیں، اور کسی بھی بات کا تجزیہ کر سکتے ہیں، ساتھ ہی اس کی سائینسی توجیہ بھی بڑے وثوق سے دیتے ہیں۔ دوسروں سے بحث میں الجھلتے ہیں تو ایک تکیہ کلام استعمال کرتے ہیں، اسی تکیہ کلام پر دوستوں نےانکو ایک ادارے کا صدر مدرس بنا ڈالا ہے اور انکے نام سے اسناد چھاپ دی ہیں جن پر ان کے دستخط ہونا باقی ہیں۔

یہاں آکر سیّد فراز علی انکے خاص دوست بنے دونوں میں کچھ ایسا ہی رشتہ ہے جیسے ٹریفک پولیس کا چالان سے۔ عمران کی ان پر خاص عنایت رہتی ہے، ویسے تو ہم بھی ان کے دلدادہ ہیں مگر تابش کی ان سے محبت الگ انداز کی ہے کہ شہباز سے ورزش کروانی ہو یا کراچی سے کوئی اسناد منگوانے ہوں، فاعل اور مفعول دونوں اپنی مثال آپ ہیں۔

شہباز کا ذکر ایک چیز کے بغیر نامکمل ہے اور وہ ہے لال رنگ کی اجرک جو نہ جانے  کس نے انکو کراچی سے چلتے وقت اس شرط پر دی تھی کہ اسے اپنے تن سے جدا نہ کریں گے، اور انھوں نے سعادتمند بچوں کی طرح اس بات کو ایسا گرہ میں باندھا کہ اسی اجرک کو قیام سڈنی کے دوران اپنا اوڑھنا بچھونا  بنائے رکھا۔

جسطرح غالب کو اس بات سے کوئی غرض نہ تھی کہ انکے اشعار میں معنی ہیں یا نہیں اسی طرح شہباز بھی ستائش اور صلہ کی پرواہ نہیں کرتےاور کام دنیا کے بدستور کئے جاتے ہیں۔انکی ترجیحات عام آدمی کی سمجھ سے بالاتر ہیں، ہم دعا گو ہیں کہ اللہ انھیں اپنی خواہشات کو حصول میں سرخ رو کرے، آٰمین۔

جاری ہے 

Saturday, August 28, 2010

سڈنی -آمد سے واپسی تک، اعلٰی شخصیت، حافظ فہد الٰہی -12

فہد الٰہی جھیل جنڈابئین کے کنارے


تمام افراد اس وقت تک پردیس کے طور طریقوں سے بخوبی واقف ہو چکے تھے، چند ایک مستقل کام بھی کرتے تھے اور ساتھ پڑھتے بھی تھے۔ زندگی میں ایک  ٹھہراو سا آگیاتھا۔ لڑکے مختلف نوعیت کے کام کرتے تھے جن میں بوجھ اٹھانا،  ڈبوں میں سامان بھرنا، بڑے بڑے گوداموں میں ذخیرہ کا حساب کتاب اور کھاتہ داری کرنا، ہوٹل میں برتن دھونا اور کھانا پکانا، گھر گھر جاکر پیزا پہنچانا اور دیگر  محنت مزدوری  شامل ہے۔ جو لوگ اپنے وطن میں  خود سےہِل کر پانی نہیں پیا کرتے تھےوہ یہاں آکر گورے کا بوجھ اٹھاتے ہیں اور مزدوری کرتے ہیں، محنت مزدوری کو یہاں کوئی معمولی  نہیں سمجھا جاتا۔ وطن میں  بندہ مزدور کے اوقات سخت اور اجرت معمولی ہے لیکن  یہاں اوقات بیشک سخت سہی  ، اجرت پسینہ خشک ہونے سے قبل ہی ادا کر دی جاتی ہے اور خوشکن ہی ہوتی ہے۔ ایک مزدور بھی میکڈونلڈز میں آپ کے برابر بیٹھ کر برگر کھا رہا ہوتا ہے کیونکہ اسکی جیب اس بات کی اجازت دیتی ہے، یوں طبقاتی فرق یہاں کم دکھائی دیتا ہے۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ زندگی کے  منفرد، سخت اور فائدہ مند تجربات کے لئے ایک بار پردیس کا مزہ ہر کسی کو چکھنا چاہیئے کہ جیسے سونا آگ میں تپ کر کندن بنتا ہےویسے ہی پردیس کی بھٹی بھی آپ کو کندن بنا دیتی ہے، بشرطیکہ آپ پہلے سے سونا ہوں، ورنہ جس طرح تعلیم جہلا  کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی اسی طرح پردیس بھی بعض اوقات کوئی اثر مرتب نہیں کرپاتا۔

ایسٹر کے موقع پر کوما کے سفر کی روداد تو ہم پہلے ہی قارئین کی نذر  کر چکے ہیں  لہٰذا اب آگے کا ذکر کرتے ہیں۔ کوما سے واپس آکر سب پڑھائی میں جت گئے، جامعہ نیو ساوتھ ویلز والے جس طرح سے پڑھتے تھے اس کے ہم چشم دید گواہ ہیں، فہد الٰہی کا وتیرہ تھا کہ کسی بھی  مضمون کے قلمی  بیان یعنی رپورٹ  کو اس وقت تک جمع نہ کراتے جبتکہ آخری تاریخ نہ آجاتی، یہی حال شہباز واڈیوالا اور احسن شیخ کا بھی تھا کیونکہ ان کے منتخب کردہ مضامین کم و بیش ایک جیسے تھے۔ احسن شیخ تو ان سے بھی چار ہاتھ آگے رہتے اور آخری تاریخ سے بھی نہیں ڈرتے تھے۔ ذکر فہد الٰہی کا نکلا ہے تو انکا تفصیلی تعارف پیش کرتے ہیں ویسےبھی   ان کی اپنی فرمائش  ہے کہ ان پر کچھ لکھا جائے۔

فہد الہٰی، حافظ ہیں اور ہم نے انکی امامت میں نمازیں اور تراویح بھی پڑھی ہیں، خطیبانہ صلاحیت رکھتے ہیں۔ کسی کا ادھار نہیں رکھتے اور زبانی چکانا ہو تو ان سے بہتر ادھار چکانے والا ہم نے کم ہی دیکھا ہے۔ کھانے میں اپورٹو کا بونڈائی برگر پسندیدہ خوراک ہے بشرطیکہ قیمت کوئی اور ادا کرے۔ یاسر آفندی اور فراز خان کےاسقدر گہرے دوست ہیں کہ کچھ لوگ ان تینوں کی دوستی پر حسد بھی کرتے ہیں۔

ایک بار جامعہ میں کسی استاد نے تمام طلبہ کی قومیت دریافت کی تو سب بتانے لگے،انھوں نے خودکوپاکستانی کہہ کر ایک دم استاد سمیت پوری جماعت کی معلومات میں یوں اضافہ فرمایا کہ میرے پاس کینیڈا کی شہریت بھی ہے۔ اس  انکشاف کو واڈیوالا نے ابھی تک یاد رکھا ہوا ہے۔

اگر آپ فہد الٰہی سے کہیں کہ آپ رات صحیح طرح نہ سو سکے تو وہ جواب دیں گے کہ 'یار میں تو ساری رات جاگتا رہا'۔ اسی طرح آپ کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں  آپ سوچنے لگتے ہیں کہ کیا یہ ساری خوبیاں مجھ میں ہیں بھی یا نہیں۔  ان کے دوستو ں کے مطابق فہد الٰہی کھڑے کھڑے آپ کا سودا کر سکتے ہیں اور آپ کو پتہ بھی نہیں چلے گا اور آپ کے ساتھ برادر یوسف کا برتاو کیا جا چکا ہو گا۔

گھر کے کامو ں میں خاصی دلچسپی لیتے ہیں، انکی اہلیہ یقینا ان سے خوش رہیں گی، کیونکہ رات سونے سے قبل بچا ہوا سالن فرج میں رکھ دیتے ہیں، گھر کے کھلے دروازے بند کر دیتے ہیں اور ہفتہ وار راشن کی خریداری رضاکارانہ طور پر شوق و ذمہ داری سے کرتے ہیں۔ کھانا لذیز پکاتے ہیں خاص طور پر بھُنا ہوا قیمہ ۔ تابش پر برتن نہ دھونے کا جرمانہ بھی بڑے کمال سے لگاتے ہیں، عثمان حسن سے باتوں باتوں میں اضافی برتن مزے سے دھُلوا لیتے ہیں۔ مگر واڈیوالا سے بحث میں نہیں جیت سکتے۔

اس سال جون کے مہینہ میں یہ وطن چلے گئے اور قریبا ایک ماہ وہیں قیام کیا، ان کا ارادہ واپس آکر آخری پرچہ دینا اور پھر کینیڈا سدھارنا تھا۔ یوں یہ اس ٹولے  کے پہلے مسافر تھے جو قافلہ سے رخصت ہوئے۔ آجکل مِّسیساگا میں مقیم ہیں اور اکیلے شب و روز بسر کر رہے ہیں۔ وہا ں رہ کر  نوجوان نسل یعنی یوتھ کے بارے میں سوچتے اور منصوبے بناتے ہیں۔ ہم انکے لئے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالٰی انھیں انکے نیک مقاصد میں کامیابی عطا کرے، آٰمین۔

ہم سب گھر والے انکی کمی نہایت شدّت سے محسوس کرتے ہیں کہ بقول غالب
تھی وہ اک شخص کے تصور سے
اب وہ رعنائی خیال کہاں   
جاری ہے 

Friday, August 27, 2010

سڈنی -آمد سے واپسی تک، احوالِ عمران-11

محمد عمران، سال نو کی تقریب ہر

ماہ فروری میں محمد عمران ہمارے یہاں وارد ہوئے، یہ نیم آسٹریلیائی ہیں یعنی آسٹریلیا میں مستقل رہائش کا ویزا رکھتے ہیں۔ حسب روایت یہ بھی عارضی مقیم تھے۔ ہمارا گھر ٹھہرا جائے سکونت برائے دیسی برادران تو انھوں نے بھی اپنی جگہ بنا لی۔ ان کی خوبیاں بیان کرنا آسان کام نہیں ہے، قد چھ فٹ سے نکلتا ہوا، سکنہ لاہور، شوق بےشمار۔عکسبندی، تیراکی، کشتی رانی، کرکٹ، دوڑ، ورزش، کوہپیمائی اورسیاحت انکے مشاغل میں شامل ہیں۔ یہ باقاعدہ سفر نامے بھی لکھتے رہے ہیں اور وطن عزیزکے طول وعرض سے کافی حد تک واقف ہیں۔

 لاہور تعلیمی اداروں کا شہر کہلاتا ہے تو انھوں نے ہمارے اندازے کے مطابق شہر  راوی کے ہر کالج  ، زنانہ ومردانہ،کے چکرضرور لگائے ہونگے۔ کنوارےپن کی تیس بہاریں دیکھ چکے ہیں، مزید کا پتہ نہیں۔ رات کے بارہ بجے بھی میکڈونلڈز یا کے ایف سی کے برگر کھانے کو تیار ہو جاتے ہیں، بلکہ دوسروں کو بھی تیار کر لیتے ہیں۔ بات کرنے اور کہنے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں اور موقع محل دیکھ کر بات کرتے ہیں۔

انکی آمد سے جہاں دیگر امور میں تبدیلی واقع ہوئی وہاں لوگوں کے مجموعی بیان کے مطابق خرچ بڑھتا گیا جوں جوں ہوا دی۔ ایک کام جس سے یہ کنی کترا جاتے ہیں بیت الخلا کی صفائی ہے، گو کہ فراز علی کی ان پر گہری نظر ہوتی ہے مگر ابھی تک یہ ان کے ہتھے نہیں چڑھ سکے۔ کوئی نہ کوئی ترکیب یا بہانہ ان کے پاس اس  کام سے بچنے کا نکل ہی آتا ہے۔

ان پر ایک دم سے کوئی خاص قسم کے طعام کی تیاری کا بھوت بھی سوار ہو جاتا ہے، ایک دفعہ کباب پراٹھہ رول بنا ڈالے۔ ترکیب انکی خود کی تھی، مرغی کا گوشت اور آلو ابال کر ان کا بھرتا بنا لیا اور بھراسکے  کباب بنا کر تل لئے، پراٹھے بنے بنائے لےلئے تھے وہ بھی بنا ڈالے اور کباب کو کیچپ کے آمیزہ کے ساتھ پراٹھہ میں لپیٹ کر رول تیار کر لئے۔ گو کہ باقی افراد نے بھی ان کی مدد کی مگر مرکزی خیال انہی کا تھا۔

اپنی زندگی میں آنے والے حسینوں کا ذکر اس خوبی سے بیان کرتے ہیں کہ اندازہ لگانا مشکل ہو جاتا ہے کہ دروغ ہے یا حقیقت، ہمارے کنوارے ساتھی کبھی رشک اور کبھی حسد بھری نظروں سے انھیں دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ ان کے بقول ان کا دائرہ کار صرف لاہور تک محیط نہ تھا بلکہ کراچی تا خیبر اس دشت کی سیاحی فرما چکے ہیں۔ گمان کیا جا سکتا ہے کہ آسٹریلیا آکر تائب ہو گئے ہیں۔

انسان دوستی میں بھی کسی سے کم نہیں ہیں، کسی کی جامعہ کی فیس کی ادائگی ہو یاکسی کو ویسےقرض دینا ہو، تحفہ تحائف کا معاملہ ہو یا پیسوں سے ہٹ کر کوئی امداد ان کا اوپر والا ہاتھ ہروقت حاضر ہے۔ لاہوری طرز کی جگدبازی میں بھی اپنی مثال آپ ہیں اور فی البدیہہ جملے اور خاکے تخلیق کر لیتے ہیں، کہ سامنے والے سے کوئی جواب نہیں بن پاتا۔ اپنے بستر کی چادر کو سلوٹ زدہ دیکھ کر آگ بگولہ ہو جاتے ہیں۔

ترجیحات کی بات کرتے ہیں اور سال میں دو دو چکر وطن کے لگا لیتے ہیں۔  ترجیحات کی بات کرتے ہیں اور نوکیا کے پرانے ترین ماڈل سے ایک دم آئی فون پر  آجاتے ہیں، ترجیحات کی بات کرتے ہیں اور  روزمرہ کے راشن سے ہٹ کر کبھی روزانہ ہی  برگر یا بروسٹ اڑاتے ہیں، ترجیحات کی بات کرتے ہیں اور بس و ریل کا سفر کرتے کرتے  ہنڈا اکارڈ خرید لیتے ہیں۔ ترجیحات کی بات کرتے ہیں اور روایتی دیجیٹل کیمرہ سے ڈی ایس ایل آر پر جست لگا لیتے ہیں۔غرض جو دل چاہے کرتے ہیں یعنی من موجی آدمی ہیں۔ انکی  ہمہ جہت شخصیت کو ہم غالب کے اس مصرع میں سمیٹیں گے،
ع ہے ولی پوشیدہ اور کافر کھلا
جاری ہے 

Thursday, August 26, 2010

سڈنی-آمد سے واپسی تک، حسن علی-10

بیمبوکا میں کام کرنے والے حسن علی کافی متحرک قسم کے آدمی ہیں اور سڈنی میں زمانے کے کئی نرم گرم موسم تجربہ کر چکے ہیں، ان کے خاص الخاص دوستوں میں عمّار انیس، یاسر آفندی اور فہد الہی شامل ہیں،ویسے تو ان کے آقا رچرڈ سمیت دیگر دیسی لڑکے بھی ان کے احباب میں شامل ہیں مگر ان تینوں سے انکو ایک عجب طرح کی انسیت ہے۔ حسن نے سن 2008 میں سڈنی میں قدم رنجا فرمایا اور جامعہ نیو ساوتھ ویلز میں اپنی ڈگری کا آغاز کیا، گاڑیاں دھوئیں، بنا اجرت کے تربیت کے نام پر ایک اسٹور میں کام کیا اور آخرکار رچرڈ صاحب کے یہاں جھاڑ پھونک کیلیئے ملازم ہوئے اور یہ تحریر لکھتے  وقت وہ رچرڈ کے مینیجر اور دست راز بن چکے ہیں۔ ایک ڈگری کرنے کے بعد آجکل دوسری ایک قدرے سستی جامعہ سے کر رہے ہیں۔
انکی سالگرہ کا کیک نو اور دس جنوری کی درمیانی شب کوجی نامی ساحل پر کاٹا اور ملا گیا، جی ہاں یہ کیک کسی کو کھانے کو نصیب نہیں ہوا بلکہ اسکو بطور ابٹن حسن علی کے تمام ظاہری اعضاء سمیت کپڑوں پر  رگڑا گیا۔ یہ طوفان بدتمیزی ان کے گھر کے مرکزی کرایہ دار نے ترتیب دیا تھا اور بقول انشاء جی، ہم بھی وہیں موجود تھے۔ پر چپ ہی رہے اور کچھ نہ کہا۔
اگلے دن ہم گھر والوں اور حسن علی کے گھر والوں نے ایک مشترکہ دعوت کا اہتمام کیا۔ جس میں سب نے بھرپور حصہ لیا، فہد الہی نے قیمہ بھونا، حسن علی نے اپنے یہاں کڑاہی مرغ بنایا، ہم نے چینی انداز کے چاول سبزی اور مرغ کے ساتھ بنا ڈالے، مگر ان سب  طعاموں پر فراز علی کے پراٹھے بازی لے گئے جس میں اصل کمال آٹا گوندھنے سے لےکر اور پراٹھے بنانے تک کا تھا جو فراز علی نے خالی ہاتھوں سے انجام دیا۔ تلنے میں ہم نے کام دکھایا۔ یہ تمام لوازمات تیار کرنے کے بعد ہم حسن کے گھر روانہ ہوئے ۔ وہاں لڑکوں نے مختلف گیتوں پر بھنگڑا ڈالا اور پھر کھانے کے ساتھ بھرپور انصاف کیا گیا، آخر میں میٹھا بھی کھایا جو کہ بازاری کسٹرڈ تھا یہ ٹھوس سے زیادہ مائع حالت میں تھا، لہذا نوش کرنا پڑا۔
تصاویر  ہم نے فلکر پر ڈال دی ہیں جو کہ اس  ربط پر جاکر دیکھی جاسکتی ہیں۔
جاری ہے 

Wednesday, August 25, 2010

سڈنی - آمد سے واپسی تک، عثمان حسن اور سالِ نَو-9

اس فارم سے واسپی پراحسن نے اور بھی مختلف نوعیت کے کام کئے جن کی تفصیل آئندہ آتی رہے گی، اس بلاگ میں ہم مزید کرداروں کا تعارف پیش کریں گے۔ قارئین کو تابش کی وہ فون کال تو یاد ہو گی جو فہد الہی کو کی گئی تھی، فہد کو آریکل میں تو ملازمت نہ مل سکی مگر ایک نجی ادارے بنام بیمبوکا میں کام مل گیا، یہاں حسن علی اور یاسر آفندی نینڈوز والے پہلے سے کام کرتے تھے یوں اب تین دیسی ایک گورے کے ایک ساتھ ملازم ہو گئے، یہ گورے صاحب جن کا نام رچرڈ ہے ایک بوڑھے غیر شادی شدہ آقا ہیں جو اپنی سلطنت پر راج کرتے ہیں ۔ ان کے جوڑی دار بھی کاروبار میں شریک ہیں اور یہ لوگ ملکر طلبہ کو کام پر رکھتے ہیں اور ان کی مجبوریوں کو اجرت میں بدلتے ہیں۔ رچرڈ صاحب بہادر کے کردار پر پوری کتاب مرتب کی جا سکتی ہے جس سے قارئین بالخصوص ہمارے احباب سڈنی خوب مزے لےکر پڑھیں گے مگر بقول غالب
ع سفینہ چاہیئے اس بحر بیکراں کیلیئے
ان ہی دنوں حسن علی نے اپنے خالہ زادکو چند ہفتہ ہمارےیہاں ٹھہرانے کی درخواست کی جو اتفاق رائے سے منظور کرلی گئی اور یوں عثمان حسن عارضی طور پر  سکونت پذیر ہو گئے، گو کہ عارضی طور پر تو سید فراز علی بھی وارد ہوئے تھےمگر بعد میں وہ مستقل ہوگئے تھے۔ خیر عثمان حسن کی  تعریف کچھ یوں کی جا سکتی ہے کہ یہ ہر فن مولا ہیں، بنا تربیت کے موٹر سائیکل چلا کر چوٹ کھا سکتے ہیں بلکہ کھا چکے ہیں، کہیں کام ملنے کی امید ہو تو صورت حال کے مطابق مطلوبہ بھیس اختیار کر لیتے ہیں، کافی بھلے ہی زندگی میں کبھی نہ بنائی ہو مگر اس قدر اعتماد کے ساتھ ذکر کافی بیان کریں گے سامنے والا سمجھے گا کہ کہیں یہ مجھے اپنی کافی شاپ پر کام نہ دے دے۔ نقال بہت اچھے ہیں اور کھڑے کھڑے اچھے اچھوں کی نقل اتار سکتے ہیں، کھانے میں عجلت ہو تو دو دو انڈے کچے ہی حلق سے نیچے اپنے معدہ میں اتار لیتے ہیں۔ اور ایک خاص صلاحیت یہ بھی ہے کہ آٹھ سے اسّی سال کی صنف نازک کو ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ان کی موجودگی میں آپ ہنسے بنا نہیں رہ سکتے۔ برتن دھونے میں کمال حاصل ہے اور دوسروں کے میلے برتن بھی بڑے شوق سے دھوتے ہیں بشرطیکہ کھانا پیٹ بھر کر کھایا ہو۔
انہی دنوں تک سید فراز علی ہمارے ہاں مستقل ہو چکے تھے اور ان کے مزید جوہر رفتہ برفتہ کھلنے لگے، جن میں برتن نہ دھونے والوں، کھانا وقت پر نہ پکانے والوں اور ذمہ داری سے دیگر امورخانہ داری پوری نہ کرنے والوں پر خاص نظر رکھنا شامل تھا۔
سال نو کی آمد پر سڈنی میں آتش بازی کا خوبصورت منظر پیش کیا جاتا ہے جسے بلامبالغہ دنیا بھر کے سیاح ملاحظہ کرنے آتے ہیں، یہ منظر دیکھنے کی خاطر ہم سب بھی اکتیس دسمبر کی دوپہر کو اوپیراہاوس جا پہنچے، وہاں اسقدر بھیڑ تھی کہ ہمارے پہنچتے پہنچتے مرکزی مقام کا داخلہ بند کر دیا گیا اور ہمیں مجبورا اوپیرا کے بازو میں ایک ہوٹل کی پختہ روّش پر فرش بچھاکر بیٹھا پڑا۔ ہم اپنے ساتھ سامان خوردونوش لے گئے تھے جو وقتافوقتا کام آتا رہا اور ہم لوگ منہ چلاتے رہے۔ ساتھ میں تاش کی بازیاں بھی جمتی رہیں اور ہماری ٹولیاں وہاں آنے والے لوگوں پر کبھی اچٹتی اور کبھی تفصیلی نظریں ڈالتی رہیں۔ سال نو کی تقریب یہاں کی بڑی تقریبات میں سے ایک ہے جس میں آتش بازی سمیت، بحری اور ہوائی جہازوں کے کرتب بھی شامل ہیں۔ یہ تمام کراتب شام پانچ بجے سے شروع ہوتے ہیں اور رات بارہ بجے آخری مظاہرہ پیش کیا جاتا ہے۔ یہ آخری آتشبازی قابل دید ہوتی ہے، جس میں رنگ و نور کا سیلاب سا آسمان پر امڈ آتا ہے اوربندرگاہی پل یعنی ہاربر برج اور اوپراہاوس کا پورا علاقہ بقعہ نور بن جاتا ہے۔ ہم سب یہ مناظر پہلے فقط ٹی وی پر دیکھا کرتے تھے مگر اس بار ظاہر کی آنکھ سے تماشہ کرنے کا تجربہ کافی خوش کن تھا، کہ اس کی جھلک آج بھی گمان میں غالب ہے۔ قارئین  اس بلاگ میں دی گئی ویڈیو سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں جو ہم نے خود بنائی تھی، ساتھ ہی تصویر میں عثمان کوبرتن دھوتے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
جاری ہے 

Saturday, August 21, 2010

سڈنی- آمد سے واپسی تک، اصطبل گھوڑوں کا-8




میں پام بیچ، ایک آسٹریلیائی گوبھی کی شکل کے درختوں پرمشتمل ساحل کے خاصا قریب پہنچ چکا ہوں جہاں آسٹریلیائی موج مستی کرنے آتے ہیں، ابھی میرا یہاں آنے کا مقصد کچھ اور ہے، لہذا پام بیچ پھر کبھی سہی۔ میں ایک نیشنل پارک کے احاطہ تک آگیا ہوں جو جنگل نما ہے یہاں میں جنگل کی آگ سے پریشان ہوں کیونکہ یہاں موجود واحد مکان نوے کی دہائی میں نذر آتش ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں لوگ چلتی پھرتے گھروں یعنی کاروان کے چھکڑوں میں رہتے ہیں انکے سفر کی رفتار تیس میل فی گھنٹہ یا زیادہ ہو سکتی ہے۔
یہ خاصا مضافاتی قصبہ ہے کہ جس کا اپنا بس اسٹاپ بھی نہیں ہے اور مرکز شہر یہاں سے ڈیڑھ گھنٹہ کی مسافت پر ہے، مگر شاید اسی دوری کی بدولت اس مقام کا حسن قابل دید ہے۔
یہاں جوڑی دار طوطے اور مور، مرغوں سے پہلے ہی ہمیں بیدار کردیتے ہیں، دن کا آغاز ساڑھے چھ بجے ہماری نازی مالکن کے خوف سے ہی ہوجاتا ہے، یہ خاتون دو افراد کے برابر طاقت و جثہ رکھتی ہیں، پتہ نہیں کیا کھاتی ہیں۔
چھکڑوں میں رہنا بھی زندگی کے منفرد تجربات میں سے ایک تھا، آپ قدرت کے اس قدر قریب ہوجاتے ہیں کہ لال بیگ آپ کے ہم نشین بن جاتے ہیں، جی ہاں عمیر جو میرے ساتھ تھے، کے ساتھ ملکر میں نے کم و بیش تیس مورٹین اسپرے اور دس لال بیگ بم سے ایک ہزار کے قریب لال بیگ مارے۔ لال بیگوں کی اس افراط کی وجہ ہمارے اس چھکڑے میں گذشتہ مقیم تین عدد سکھ تھے کہ جنھوں نے اس کو اتنا غلیظ کر رکھا تھا کہ ہفتوں کے ان دھلے برتن لال بیگوں کے حوالے کر دیے تھے اور ان لوگوں کو لال بیگوں کے ساتھ سونے میں کراہت محسوس نہیں ہوتی تھی۔ ہمارے ساتھ والے اصطبل میں دو پوسم یعنی بڑے آسٹریلیائی چوہے، چہار سو مور، مرغے، کنگرو کی نسل جیسے ولابی، خرگوش، بھیڑیں، مرغیاں اور بلیاں اس فارم پر پائی جاتی تھیں اسی وجہ سے علی الصبح ہی چرند پرند کی تسبیح شروع ہو جاتی تھی۔ مجھے مرغیوں سے نفرت سہی مگر انھی کی بدولت تازہ انڈے کھانے کو ملتے جو زندگی میں پہلے کبھی نہ کھائے تھے۔
شکراس بات کاہے کہ چھکڑے میں کسی مکڑے سے واسطہ نہیں پڑا ما سوائے ایک دو عدد پیلی دھاری والے مکڑے کے جو کہ کھیت میں اپنے جال میں آڑھی ترچھی لکریں کھینچ رہا تھا، مگر مجھے اس کے قریب جانے کی ہمت نہ ہوئی۔
نازی مالکن کا ذاتی چھکڑا تھا جسکی وہ واحد مقیم تھیں اور اس میں صاف اور قیمتی قالین بچھا تھا، یہ انکی اپنی قسمت تھی، ادھر ہمارے چھکڑے میں تپتی دوپہر میں چنٹیاں حملہ آور ہوتی تھیں، مگر یہ خاصی بے ضرر تھیں۔ گمان کیا جا سکتا ہے کہ لال بیگ یہاں کا قومی نہیں تو علاقائی حشرہ ضرور ہے کیونکہ اس علاقہ کے ایک چھوٹے سے ڈھابے میں بھی ہمیں یہ حشرہ نظر آیا۔
دن مشکل اور گرم ہیں، یہ آسٹریلوئی اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ بین الاقوامی طلبہ اور پشت لادوں سے کیسے ناجائز فائدہ اٹھایا جائے۔ طلبہ اس طرح کا سخت کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، دو سال بھرپور انداز سے محنت کرنے جس میں بنا اجرت کی مزدوری تربیت کے نام پرشامل ہے اور بھاری رقوم جامعات کو اجرت کے طور پردینے کے بعد کہیں جاکر اس قابل ہوتے ہیں کہ یہاں مستقل سکونت کے ویزا کیلئے درخواست دے سکیں۔
جس مالکن کیلئے میں کام کر رہا تھا وہ ایک صورتگر جراح یعنی پلاسٹک سرجن تھیں اور ان کے پاس گھوڑوں کی مختلف اقسام موجود تھیں، اس فارم کا تعلق ان کے پیشہ سے قطعی نہ تھا بلکہ یہ گھوڑے پال کر ایک طرح سے حکومت کی مدد کر رہی تھیں جس پر انھیں سرکاری طور پر خاصی مراعات حاصل تھیں۔ آسٹریلیا میں اس قسم کے کام پر حکومت آپ کو ناصرف یہ کہ سہولتیں مہیا کرتی ہے بلکہ ایک خطیر رقم بھی ادا کرتی ہے جو ٹیکس کی واپسی یا کسی اور صورت میں ہو سکتی ہے، اسی وجہ سے ہم جیسے طلبہ یہ لوگ معمولی اجرت پر رکھ لیتے ہیں اور یوں پیسے کی گردش جاری رہتی ہے۔
اس فارم میں گھوڑے مختلف عمروں کے تھے، چند تو ہم سے بھی قدیم تھے کہ ان کی عمر تیس برس بتائی گئی، اتنی عمر کے باوجود بھی یہ مکمل چاک و چوبند تھے۔ یہ مختلف دوڑوں میں حصہ لیتے رہے تھے اور اب عمر یا کسی معمولی بیماری کی وجہ سے دوڑ کے میدان سے باہر رہنے پر مجبور تھے۔ جہاں تک انکی اقسام کا تعلق ہے تو ان میں کئی عربی نسل کش گھوڑے، دو خوبصورت ایرانی گھوڑے، اخل تیکس یعنی ترکستانی گھوڑے جن کے بارے میں ہم پہلے بالکل نہیں جانتے تھے، نازی نسل کے ٹریکیہنر گھوڑے جو نازی صوبہ پروشیا سے تعلق رکھتے ہیں، اس صوبہ کو دوسری جنگ عظیم کے بعد روس اور پولینڈ نے بانٹ لیا تھا، شامل تھے۔ ان کے علاوہ چوتھائی میل یعنی کم فاصلے کے کوارٹر گھوڑے بھی اس فارم پر موجود تھے۔
کیونکہ میرا یہاں قیام محض چند ہفتوں کا ہے اس وجہ سے مالکن نے مجھے اپنا اصطبل صاف کرنے کا حکم دیا ہے، جس میں گھوڑوں کی دیکھ بھال اور صفائی بھی شامل ہے۔ میں یہ بات بلا مبالغہ کہ سکتا ہوں کہ مجھے گھوڑوں سے کبھی واسطہ نہیں پڑا مگر ایک کہاوت ہے کہ مالک کی اگاڑی اور گھوڑے کی پچھاڑی سے دور رہنا چاہیے کہ کیا پتہ تیس برس کا گھوڑا کب دو لتی جھاڑ دے۔ ان میں سے تین گھوڑوں کو تو سکھوں نے بھی ہاتھ نہیں لگایا تھا اللہ جانے ان گھوڑوں کی قربت کیسی ہو گی۔
مندرجہ بالا سطور احسن محمد شیخ کے روزنامچہ کا ترجمہ ہیں جو انھوں نے گھوڑوں کے ایک فارم پر کام کے دوران انگریزی میں قلمبند کیا۔ دراصل دورہ گریفتھ کی نا کامی کے بعد احسن نے ہمت نہ ہاری اور کام کی تلاش جاری رکھی اور بالآخر شہر سے اکتالیس کلومیٹر دور وہ اس فارم پر کام دریافت کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ان کے ساتھ اس فارم پر متاثرین گریفتھ میں سے ایک، عمیر فاروق بھی تھے۔ یوں ان دونوں کا وقت انٹرنیٹ سمیت کئی جدید سہولتوں سے ماورا گذرتا تھا اس وجہ سے یہ اپنا روزنامچہ مرتب کر سکے اور ہمیں سڈنی کے اس بلاگ کے سلسلے کی یہ قسط بنی بنائی دستیاب ہوگئی اور قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے۔
جاری ہے