فہد الٰہی ہم سے جون کے آخر میں رخصت ہوئے اور جولائی میں ایک اور معصوم آدمی اس قافلہ میں شامل ہوا۔ نام قاضی فہد خان، گویا فہد کی جگہ ایک اورفہد، سکنہ کوئٹہ اور کراچی، تعلیم لاہور میں حاصل کی یعنی کہ پورے ملک سے تعلق رکھتے ہیں۔ چائے خوب بناتے ہیں اور گھر کے کام کاج میں سیّد فراز علی کے نقش قدم پر ہیں۔ پہلے ہی دن ہم سے دوستی ہو گئی، کیونکہ ان کو ہوائی اڈہ سے وصول کرنے والوں میں ہم بھی شامل تھے، اگلے روز جامعہ کا دورہ بھی کرا دیا۔ یہ بھی ہماری ہی جامعہ کے طالب علم ہیں۔
ان کا بات کرنے کا انداز شستہ ہے، کسی بات پر حیرت یا غصہ کا اظہار کرنا ہو تو 'پاگل ہے کیا؟' کہتے ہیں۔ انکی آمد سے تابش امان خان بڑے ہو گئے کیونکہ وہ اب تک اس ٹولےمیں سب سے کمسن تھے۔ چند دنوں میں انھوں نے بس کے درمیان اپنی جگہ بنا لی ہے۔ مزید جوہروقت کے ساتھ ساتھ کھل رہے ہیں تفصیل آتی رہے گی۔
شہبازواڈیوالا اور احسن شیخ کا باقاعدہ تعارف بیان کرنا رہ گیا تھا گو کہ یہ بلاگ ان ہی لوگوں سے شروع ہوا تھا۔ احسن،شہباز، فہد اور تابش، شہید ذوالفقار علی بھٹو اسٹیٹیوٹ سے ڈگری یافتہ تھے اور یہاں اعلیٰ تعلیم کی خاطر آئے تھے، تابش اور فہد کی بابت تفصیل بیان ہو چکی، اب ہم واڈیوالا کی عادات پر روشنی ڈالیں گے۔
شہباز واڈیوالا کا نام ذہن میں آتے ہی پہلا خیال سمینٹک کا آتا ہے، سٹی اسکول سے کسی نے کسی بھی سال میں کوئی سی سند ہی حاصل کیوں نہ کی ہو انکا کوئی نہ کوئی تعلق شہباز واڈیوالا سے ضرور نکل آتا ہے اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو یہ اس شخص کی بدقسمتی سمجھی جائے۔ نہایت شریف آدمی ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صنف مخالف سے دور بلکہ پیچھے رہتے ہیں چاہے وہ جامعہ میں ہو یا ٹی ایسٹو کی محفل موسیقی یعنی کنسرٹ میں۔ ان پر یہ شعر صادق آتا ہے کہ
آرزوئیں ہزار رکھتے ہیں
تو بھی ہم جی کو مار رکھتے ہیں
کمپیئوٹر سے متعلق کوئی بھی مسئلہ ہو حل کرسکتے ہیں، اور کسی بھی بات کا تجزیہ کر سکتے ہیں، ساتھ ہی اس کی سائینسی توجیہ بھی بڑے وثوق سے دیتے ہیں۔ دوسروں سے بحث میں الجھلتے ہیں تو ایک تکیہ کلام استعمال کرتے ہیں، اسی تکیہ کلام پر دوستوں نےانکو ایک ادارے کا صدر مدرس بنا ڈالا ہے اور انکے نام سے اسناد چھاپ دی ہیں جن پر ان کے دستخط ہونا باقی ہیں۔
یہاں آکر سیّد فراز علی انکے خاص دوست بنے دونوں میں کچھ ایسا ہی رشتہ ہے جیسے ٹریفک پولیس کا چالان سے۔ عمران کی ان پر خاص عنایت رہتی ہے، ویسے تو ہم بھی ان کے دلدادہ ہیں مگر تابش کی ان سے محبت الگ انداز کی ہے کہ شہباز سے ورزش کروانی ہو یا کراچی سے کوئی اسناد منگوانے ہوں، فاعل اور مفعول دونوں اپنی مثال آپ ہیں۔
شہباز کا ذکر ایک چیز کے بغیر نامکمل ہے اور وہ ہے لال رنگ کی اجرک جو نہ جانے کس نے انکو کراچی سے چلتے وقت اس شرط پر دی تھی کہ اسے اپنے تن سے جدا نہ کریں گے، اور انھوں نے سعادتمند بچوں کی طرح اس بات کو ایسا گرہ میں باندھا کہ اسی اجرک کو قیام سڈنی کے دوران اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا۔
جسطرح غالب کو اس بات سے کوئی غرض نہ تھی کہ انکے اشعار میں معنی ہیں یا نہیں اسی طرح شہباز بھی ستائش اور صلہ کی پرواہ نہیں کرتےاور کام دنیا کے بدستور کئے جاتے ہیں۔انکی ترجیحات عام آدمی کی سمجھ سے بالاتر ہیں، ہم دعا گو ہیں کہ اللہ انھیں اپنی خواہشات کو حصول میں سرخ رو کرے، آٰمین۔