Saturday, September 25, 2010

تصویرِ ہمدرداں – چلتے ہو تو سندھ کو چلیے

قارئین نےگذشتہ یادداشتوں کو اب تک جو پذیرائی  بخشی ہے اس پر ہم انکے ممنون ہیں اور مزید لکھنے کی ہمت کر رہےہیں، چند ایک فرمائشیں بھی کی گئیں کہ کالج اور اسکول کی تقریبات الگ الگ بیان کی جائیں یا سال بہ سال ماضی کو قلمبند کیا جائے تو اس پر ہم یہ کہیں گے کہ ہم، ہمدرد کو بحیثیت اکائی مانتے ہیں لہٰذا کالج و اسکول دونوں کا تذکرہ ساتھ ساتھ آتا رہے گا اور  رہی بات ہر سال کے حالات کو انفرادی طور پر بیان کرنے کی تو اب ذہن کے دریچے ماضی کے دالانوں پر اسقدر آسانی سے وا نہیں ہو پاتے۔ اس لئے جو ربط یا بے ربط یاد داشتیں ہیں پیشِ خدمت ہیں۔ اب موضوع کی جانب آتے ہیں۔
کسی بھی تعلیمی ادارے میں محض کُتب اورعملہ تدریس ہی  منتقلی معلومات کا ذریعہ نہیں ہوتے بلکہ ارد گرد کا ماحول اور تفریحی یا تعلیمی سفر بھی  طلبہ و طالبات کو براہِ راست مشاہدات و تجربات فراہم کرتے ہیں۔ان  دوروں میں تربیت  کا جو حصول ہوتا ہے وہ روایتی عملِ تدریس سے کہیں زیادہ کارگر و کارآمد ہوتا ہے کہ اسکی یادیں ہمیشہ طالبعلموں کے ذہنوں میں تازہ رہتی ہیں۔
ایسے سیاحتی، معلوماتی اور تفریحی دوروں کا آغاز مسزگلزار کے بلاک تھری میں  آتے ہی ہو گیا تھا کہ جب  طلبہ کو موئن جودڑو لے جایا گیا ، ہماری معلومات کے مطابق دودفعہ بذریعہ طیارہ یہ تعلیمی سفر عمل میں لائے گئے کیونکہ یہ ہم سے پہلے کے تھے۔ ہمارے پاس تصاویر کا جو ذخیرہ ہے وہ سن دو ہزار ایک  سے ہے کہ جب موئن جودڑو والے سفر کے بعد ایسے دوروں کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ متذکرہ تعلیمی  گشت کالج کے طلبہ کے ساتھ بھٹ شاہ اور ہالا کی جانب تھا۔ اسکے بعد ہر برس اسطرح کے سفروں کا اہتمام کیا جاتا رہا جو اسکول و کالج دونوں کے لئے ہوا کرتے تھے۔ کبھی چوکنڈی، ہالیجی ،مکلی اور شاہ جہاں مسجد ٹھٹہ  تو کبھی غلام محمد بیراج کوٹری، سندھ عجائب خانہ حیدرآباد،بھٹ شاہ اور ہالا کا سفر کیا جاتا۔ ہم اساتذہ کو یہ سارے راستے منہ زبانی یاد ہو گئے تھے اور ہر برس ان ہی مقامات کو دیکھ کر  ہم مختلف عمارات کی تاریخی اہمیت سے بھی واقف ہو گئے تھے، طلبہ وطالبات کیلئے یہ تفریح ہو اکرتی تھی اور ساتھ ہی ان کی معلومات میں اضافہ بھی ہوتا تھا، خاص طور پر وہ طلبہ جو کبھی کراچی سے باہر نہیں گئے تھے وہ ان دوروں میں خوب لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔
طلبہ وطالبات کیلئے ان سفروں  کی افادیت و اہمیت اپنی جگہ مگر یہ بات بیان کرنا ضروری ہے کہ یہ  تفریحی دورے مسز گلزار اور انکے اساتذہ کی  ذاتی دلچسپی کے بغیر ناممکن تھے۔ طلبہ کو محض یہ پتہ چلتا تھاکہ انہیں چند سو روپے جمع کرانے ہیں مگر ان مسافرتوں کی منصوبہ بندی کسی دردِ سر سے کم نہیں، بخاری صاحب، سجاد احمد، سلیم جتوئی، طارق ظفر، حسن احمر صاحبان اور کبھی کبھار راقم السطور بھی بس کے اڈے پر جایا کرتے کہ بس والوں سے سفری معاملات طے کئے جائیں ۔ بسوں کے چناو میں اس بات کا خیال رکھنا پڑتا تھا کہ سفر آرام دہ رہے  اورکسی کو کوئی شکایت نہ ہو۔ طلبہ سے جمع شدہ رقم اور تعدادِ افراد  کے مطابق بسوں کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ بسوں کی بکنگ کے بعدنشستوں کی ترتیب طے کی جاتی تھی اور اساتذہ کرام کے ذمہ بس   لگائی جاتی تھی کہ ایک امیر ہوتا تھا اور باقی سب اسکی پیروی کرتے تھے ۔ بسوں پر نمبر لگانا صالح جتوئی کے ذمہ ہوتا تھا۔ اور سفر کے دن صبح سویرے ہی ہمدرد مرکز پر سب جمع ہوتے اور ترتیب کے مطابق ہر کوئی اپنی اپنی مقررہ بس میں سوار ہوتا۔ اکثر ایسا ہوتا کہ مسز گلراز  کے ساتھ  میڈم سعدیہ راشد اور انکی کوئی مہمان خاتون  ہماری ہمسفر رہتی تھیں۔ سفرکے آغاز کے ساتھ ہی شہر سے باہر نکلنے کے بعد طلبہ  گانے،شور مچانے اور بسا اوقات ناچنے میں مشغول ہو جاتے جبکہ اساتذہ، مسز گلزار سمیت تاش کی بازی جماتے۔ جب طلبہ کی بس  طالبات کی بس کے پاس سے گزرتی یا اسکے معکوس بھی ہوتا تو بسوں کے پردے ٹھیک ہونے لگتےاور چند ایک کو یہ پردے ناگوار بھی گزرتے۔
مقامِ مشاہدہ پر پہنچ کر وقت کا  تعّین کرنا بھی ایسے دوروں کو کامیاب کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرتا تھا۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ بارہا مسز گلزار نے بالخصوص طالبات کو ڈانٹا کہ بس کو بیوٹی پارلر بنا رکھا ہے۔ ہوتا یوں تھا کہ لڑکیوں کی بس منزل پر پہنچ کر اپنے مسافروں کو اتارنے میں ناکام رہتی تھی  ، ہاں ایسا ہو جایا کرتا لیکن اس وقت جب مسز گلزار کی دھاڑ سنائی دیتی۔ ایک دفعہ ایسا بھی ہوا کہ کسی اور ادارے کے منچلے لڑکوں نے ہماری بس کے پاس آکر ادھم مچانے کی کوشش بھی کی لیکن مسز گلزار اور اساتذہ کی معا ملہ فہمی کی وجہ سے کوئی بدمزگی نہ ہو پائی ورنہ ہمارے یہاں بہنوں کے بھائیوں کی کمی نہیں ہے۔
جو لوگ مکلی کے قبرستان جا چکے ہیں انہیں یاد ہوگا کہ مکلی کے داخلی راستے پر ہی ایک سپیرا بیٹھا رہتا ہےا ور ہر آتے جاتے کو ایک ہی کہانی سناتا اور سانپ دکھاتا ہے۔ اس شہر ِ خموشاں میں جو کہ صدیوں سے قائم ہے اسلامی تعمیرات کے منفرد نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں، ایسے ہی شاہکار چوکنڈی میں بھی موجود ہیں۔
بھٹ شاہ پر شاہ عبدالطیف بھٹائی کا مزار اور ریسٹ ہاوس سے متصل چھوٹا سا عجائب خانہ بھی قابلِ دید ہیں۔ حیدرآباد کا عجائب خانہ تو خیر معلومات سے پر ہے ہی، مگر مزہ غلام محمد بیراج پر سڑک پار کرنے کے دوران آتا تھاکہ جب طلبہ و طالبات کا لشکر اِس پار سے اُس پار جاتا یا واپس آتا۔ ہالیجی یا کینجھر پر چندایک تو مچل جاتے کہ ہمیں پانی میں اترنا ہے، بڑی مشکل سے انہیں کشتی کی سیر سے بہلانا پڑتاتھا۔مسجدِ شاہ جہاں ٹھٹہ بھی کیا خوب ہے کہ اس کے گنبد آپ پورے گن ہی نہیں پاتےاور اس میں طبیعات کی شاخ صوتیات  کا عمل مشاہدہ کیا جا سکتا ہے جس سے آواز گنبد در گنبد صوتیاتی انعکاسی کروئی سطحوں پر سفر کرتی ہے۔
بھنھور کا تاریخی مقام وہاں موجود دیگر آثار کے ساتھ ساتھ منجنیق کی وجہ سے خاصی اہمیت رکھتا ہے، یہاں پر سمندری پانی سے نمک بھی حاصل کیا جاتا ہے، جس کے تالاب آثار کے قریب دیکھے جا سکتے ہیں۔
ہالا شہر سندھ کی ثقافت اور مقامی کاریگروں کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ جہاں اجرک کے ساتھ ساتھ ہنر مند ہاتھوں سے تراشیدہ لکڑی کا سامان اور ریوایتی ملبوسات کراچی والوں کی قوتِ خرید کے مطابق با آسانی دستیاب ہیں۔ ہالا کے بازار میں ایک لطیفہ دیکھنے کو ملا کہ وہاں ایک چاٹ فروش نے  ریڑھی پر گیت کے بول لکھے تھے کہ
دُکھائے دل جو کسی کا وہ آدمی کیا ہے
کسی کے کام نہ آئے وہ زندگی کیا ہے
اور نیچےقاری  کی معلومات میں اضافہ کی خاطر نور جہاں کا نام درج تھا  
اس سے پیشتر کہ قارئین اس پوسٹ کو مطالعہ پاکستان یا معاشرتی علوم کا کوئی باب سمجھیں ہم دوبارہ ہمدرد کی جانب آتے ہیں۔ ان سفروں میں شرارتوں سے بھرپور  کئی واقعات بھی ہوئے مثال کے طور پر دسمبر سن دو ہزار تین میں جماعت دہم والوں نے ایک کارنامہ انجام دیا کیا کینجھر پر ایک بس کی کھڑکی کا شیشہ توڑ ڈالا، اس پر میڈم کی عدالت میں سب لڑکوں کو سزا سنائی گئی اور پوری جماعت پر جربانہ ڈالا گیا، ہمیں معلوم ہے کہ الزام جس طالبِعلم پر لگا تھا وہ قصور وار نہیں تھا مگر جماعت کے ایکے کی وجہ سے اصل مجرم کو چھپا لیا گیا تھا۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ ہمیں اصل شرارت کرنے والے کا بھی پتہ ہے، اور ان دونوں کے نام ہمارے حافظہ میں آج بھی تازہ ہیں،ہم اراداتا انکے نام نہیں لے رہے مگر طلبہ کی یاددہانی کو اسی  جماعت کے  حافظ نعمان ظفر صدیقی کا ذکر کررہے ہیں کہ ہمیں یہ جتھا یاد ہے۔
اب کہنے کو یہ شرارت تھی اورچند طلبہ اس سے لطف اندوز بھی ہوئے ہونگے، مگر تمام ڈرائیور اور انکے ماتحت جو کہ کراچی تا خیبر سفر کرتے ہیں کے سامنے ہمدرد کا نام بدنام ہوا کہ ان سب نے اپنے ملنے والوں اور مسافروں تک کو یہ کہا ہوگا کہ ہمدرد کے لڑکے اتنے شرارتی تھے کہ نہ انہوں نے ادارے کے نام کا لحاظ رکھا اور نہ حکیم صاحب کی عزت کا۔
اسی طرح ایک بار چند لڑکے بس کی نشستوں کے نیچے چھپ گئےاور ان کو ڈھونڈنے میں تمام اساتذہ پریشان ہوئے کہ بالآخر ان کی دریافت پر بخاری صاحب کو میڈم سعدیہ راشد کے سامنے انہیں تھپڑوں سے نوازنا پڑا۔ سفر کے دوران تمام طلبہ و طالبات کی ایک طرح سے ذمہ داری ادارے پر ہوتی تھی اور کسی کے اِدھر اُدھر ہو جانے پر کیا صورتِ حال ہو سکتی تھی اس کا اندازہ ذی شعور بخوبی کر سکتے ہیں۔
ان اِکّا دُکّا ناخوشگوار  واقعات کے علاوہ یہ تمام دورے نہایت خوشکن ثابت ہوتے، واپسی کا سفر بھی لطف اندوز کرتا۔ طلبہ ناچ گانا اور شور شرابا جاری رکھتے ایک بار چند لڑکوں نے  میڈم گلزار کوفلم'  دِل تو پاگل ہے' کا گانا بھولی سی صورت انتساب کیا۔
ہمدرد مرکز پہنچ کر تمام طالبعلم مجموعی طور پر سفر کی تھکن کے باوجود خوش دکھائی دیتے اور ہم اساتذہ آخری طالبِعلم کے رخصت ہونے کے بعد ہی مرکز سے جاتے۔
ہمیں امید ہے کہ اب بھی یہ مناظر کم و بیش ایسے ہی جاری و ساری ہیں کہ بقول شاعر
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا
جاری ہے  

Tuesday, September 14, 2010

تصویرِہمدرداں- جب بہار آئی تو۔۔۔۔

ایک تقریب جو ہر سال کالج کےطالبِعلموں کیلئے منعقد کی جاتی رہی، جشنِ بہاراں ، بسنت میلہ یا پتنگ اڑانے کامقابلہ تھی۔ اس سلسلے کا آغاز سن دو ہزار میں کیا گیا اور اس کی بنیاد ڈالنے والوں میں محترم سجاد صاحب کا نام لیا جا سکتا ہے، اسوقت سے یہ میلہ کم و بیش ہر سال فروری/مارچ میں منعقد ہوتا چلا آرہا ہے۔ اسکی سب سے منفرد بات وہ پتنگ ہے جو صالح جتوئی ایک روز قبل ہی چمکدار پٹیوں ، رنگ برنگی ڈوریوں اور غباروں سے بلاول اسٹیڈیم کی سیڑھیوں پر تخلیق دیا کرتے تھے۔ اس تقریب کی  اصل رونق اسی پتنگ کے دم سے ہوتی تھی۔ اولین پتنگ جب بنی تو ہم بھی صالح جتوئی کی مدد کو موجود تھے، یوں ہمارا نام بھی شہیدوں میں لیا جا سکتا ہے۔
سن دو ہزار میں جشنِ بہاراں کے موقع پرطلبہ کا تیسرا جتھا یعنی بیچ تھا جس نے   اس تقریب کا انعقاد  پہلی بار دیکھا،اس کا افتتاح مسز گلزار نے پتنگ اڑا کر کیا اور ان کی معاونت کنور سارم حسین اور جویریہ بدّر نے کی۔ اسکے بعد یہ سلسلہ چل نکلا اور ہر سال ہی رنگین پتنگوں اور آنچلوں کی بہار بلاول اسٹیڈیم میں قوس قزہ کی صورت اُترا کرتی۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں پتنگ اڑانے کے علاوہ دیگر کھیل بھی شامل ہوتے گئے۔ جن میں رسہ کشی، دوڑ، نشانہ بازی وغیرہ شامل ہیں۔ کرکٹ کا مقابلہ بھی ہوا کرتا جس میں اساتذہ اور طلبہ کی ٹیمز حصہ لیتی تھیں اور طلبہ کا دل رکھنے کی خاطر اساتذہ مقابلہ ہار جایا کرتے تھے۔
یوں یہ جشن ایک باقاعدہ میلے کی صورت اختیار کرتا گیا، کرکٹ کے مقابلہ کے دوران رواں تبصرے کئے جاتے جس سے طلبہ کو زبان دانی اور تقریر کا فن سیکھنے میں مدد ملتی، طلبہ کے ساتھ ساتھ طالبات بھی اس ساری کاروائی میں بھرپور اور برابر کا حصہ لیتیں۔ میلے کیلئے اپنا اپنا اسٹال سجایا جاتا، جس میں طالبعلم ساجھے داری میں چھوٹی موٹی عارضی دوکان پیش کرتے۔ کہیں چاٹ چھولے مل رہے ہیں تو، کہیں مشروب، کوئی بریانی بیچ رہا ہے تو کوئی آئسکریم فروخت کرتا نظر آتا ہے، کسی نے سی ڈیز کا اسٹال لگا رکھا ہے تو کوئی بِنا سرمایہ کاری کے قسمت کا حال ہاتھ دیکھ کر بتا رہا ہے، کوئی ابّا کی پرانی بندوق اٹھا لایا ہے اور نشانہ بازی کروا رہا ہے تو کسی نے مِینا بازار کی کون مہندی سے طالبات سمیت خواتین اساتذہ کی ہتھیلیاں حنا سے سرخ کر دی ہیں۔ غرض ایک دیدنی منظر اور سماں تخلیق پاتا کہ آج بھی چشمِ تصور میں سب کچھ ایک متحرک فلم کی مانند قید ہے اور یہ سطور لکھتے ہوئے ہم خود کو مسز گلزار کے سونی سائیبرشاٹ کے محدب عدسے کے پیچھے محسوس کرتے ہیں۔
جاری ہے  

Monday, September 13, 2010

گُڑ کی سی بات

ایک اخباری ٹی وی چینل نے عید کے حوالے سے ایک خبر دکھائی جس میں ایک مسجد کے باہر پہرا دینے والے پولیس کے سپاہی کو روتا دکھایا گیا ہے کہ عید کے روز بھی وہ اپنوں سے دُور ہے اور اسکی آنکھوں میں آنسو ہیں۔ یہ آنسو ہمارے معاشرے کی بے حسی کو ظاہر کرتے ہیں کہ عید کے روز بھی اس سپاہی کو کوئی گلےلگانے کو تیار نہیں۔ یو ٹیوب کی اس ویڈیو کے نیچے مختلف افراد نے تبصرہ جات فرمائے ہیں جو کہ کچھ ملے جلے سے ہیں۔چند کے مطابق پولیس والے اسی لائق ہیں اور کچھ فرماتے ہیں کہ وہ بھی انسان ہیں انھیں بھی عید منانے کا حق ہے اور انکا بھی خیال رکھنا چاہیئے۔

ہم محترم مرحوم اشفاق احمد صاحب کو اپنا پیر و مرشد مانتے ہیں، وہ اپنی کتاب زاویہ میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ وہ عید پر اپنے علاقے کے تھانیدار سے عید ملنے چلے گئے تو تھانیدار فرطِ جذبات سے آبدیدہ ہو گیا اور کہنے لگا کہ اشفاق صاحب اللہ آپ کا بھلا کرے کہ آپ نے ہمیں بھی انسان سمجھا۔

ہم لوگ اپنے طور پر چیزوں کو دیکھنے کے عادی ہیں اور زیادہ تر دوسروں کو ہی قصور وار گردانتے اور جانتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر میں گاڑی چلاتے ہوئے کوئی غلطی کروں گا یا گاڑی کے کاغذات پورے نہیں رکھوں گا تو ٹریفک پولیس والے کے پکڑنے پر میں اس بات کو ترجیح دونگا کہ میرا وقت ضائع نہ ہو اور میں سو پچاس دے کر چھوٹ جاوں۔ اس معاملہ میں رشوت لے کر جتنا پولیس والا قصور وار ہوگا اتنا ہی خطا کار میں بھی ہونگا کیونکہ میں نے ایک چھوٹا راستہ یعنی شارٹ کٹ اختیار کیا۔

ہم نے  اپنے انفرادی کردار اور سوچ سے پورامعاشرہ اسی طور پر ترتیب دے دیا ہے، پھر ہم بڑے مزے سے الزام پولیس ، حکومت یا دوسروں پر ڈال دیتے ہیں۔ ہمارا ملک جس قسم کے حالات سے دوچار ہے اس میں آئے دن کے بم دھماکوں سے بیچارے عبدالستار جیسے کتنے ہی پولیس والے قربانی کا بکرا بنتے ہیں اور بدلے میں انکے اہل خانہ کو جھوٹی تسلیاں بھی نہیں ملتیں۔ ہم کم از کم اتنا تو کر ہی سکتے ہیں کہ انھیں ان کے فرض کی ادائگی پر تمغہ نہ سہی اخلاق سے سلام ہی کر لیں یا مسکرا کر دیکھ لیں۔

عبدالستار جیسے پولیس یا فوج کے سپاہیوں کی وجہ سے ہی ہم رات کو چین کی نیند سو سکتے ہیں کہ یہ کہیں مساجد اورکہیں پاک سر زمین کی سرحدوں پر پہرا دے رہے ہوتے ہیں۔ سیاچن کے برفیلے پہاڑ ہوں یا گرمیوں کے دوران کھوکھرا پار یا واہگہ بارڈر، ان ہی جیسے سپاہیوں کی بدولت دشمن اپنی سرحدوں تک محدود ہے۔

کہا جاتا ہے کہ بندہ گُڑ نہ دے گُڑ کی سی بات تو کرے، کیا ہم اتنا بھی نہیں کر سکتے؟  جواب ہم قارئین پر چھوڑتے ہیں۔ 

Saturday, September 11, 2010

تصویرِ ہمدرداں- ہمدرد کی بس میں سفر ہو رہا ہے

بس نمبر 29  کا ذکر ہم کر چکے کہ یہی بس ہماری سواری برائے سفرِ ہمدرد رہی۔ ہم بس میں سوار ہوتے ہی حاضر سروس یعنی آن ڈیوٹی ہو جایا کرتے تھے۔ کون بس میں کس نشست پر بیٹھا ہے اور کیا کر رہا ہے  بلکہ بعض اوقات یہ بھی  پتہ چل جاتا تھا کہ کیوں کر رہا ہے۔ پرائمری کےمعصوم  بچے آتے جاتے سوتے رہتے تھے  اور اسکول یا گھر آنے پر ہی اٹھتے تھے۔  شروع میں ہم بھی چکرا گئے خصوصا پہلی مرتبہ کہ ہمدرد آ کر ہی نہیں دے رہا تھا، سرجانی ٹاون تک تو کراچی ہم نےپہلے بھی دیکھا تھا مگر شاہراہ مدینۃ الحکمت پر سفر ہمیں انگریزی والا سفر لگنے لگا۔ پرانے ہمدرد والے جانتے ہیں کہ یہ سڑک کیسے معرضِ وجود میں آئی ، بہت شروع میں یہ فقط راستہ ہوا کرتی تھی پر آہستہ آہستہ یہاں ہمدرد کی بدولت رونق ہونے لگی۔ اسکول، ولیج اسکول ، کالج،جامعہ اورروح افزا کے کارخانے نے اس علاقہ کے لوگوں کو جہاں تعلیم اورروزگار کے مواقع بخشے وہیں ذرائع آمد ورفت میں بھی ترقی ہوئی۔ حکیم محمد سعید کو اللہ اسکا اجر عطا فرمائے کہ انھوں نےصدقہ جاریہ کا اہتمام کیا۔
بس کے اندر کے مناظر سے پہلے ہم باہر کے حالات بیان کرتے چلیں، گورنر معین الدین  حیدر کے حکم پر یہ سڑک نئے سرے سے بچھائی گئی تھی۔ہمدرد جاتے ہوئے سرجانی کے بعد یہ شاہراہ مرغی خانوں اور دیگر کار خانوں کے بیچ سے گزرتی ہے،  جب آپ سرجانی کا آخری چوراہا پار کر کے مرکزی شاہراہ کی طرف چڑھائی پر آتے ہیں تو امونیہ گیس کی ایک ناقابلِ فراموش بُو آپ کے نتھنوں سے ہوتی ہوئی حلق کے راستے سیدھی پھیپڑوں میں اترتی ہے، اس مقام پر ہم نے اچھے خاصے بے پردہ لوگوں کو باپردہ ہوتے دیکھا ہے۔  پھر آپ دائیں جانب موڑ کاٹ کر جاویداں سیمنٹ فیکٹری سے آنے والے مرکزی راستہ پر آتے ہیں اور یوں شہر کی آلودہ فضا سے کسی حد تک چھٹکارا پاتے ہیں، مگر یہ عارضی نجات اس وقت رفو چکر ہوجاتی ہے  جب آپ شہر صنعت کے قریب پہنچتے ہیں کہ کراچی کی کچرا کنڈی  میں جلنے والے کچرے کا دھواں آپ کے پھیپڑوں کو پھر سے گُدگُداتا ہے اور آپ  پر ؛یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے؟' کے معنی وحی کی صورت اترتے ہیں۔ حضرت آباد تک آتے آتے سورج کی موجودگی کا ٹھیک ٹھیک ارداک ہو جاتا ہے اور اگر آپ مشرقی سمت بِنا پردوں کی بس میں سو رہے ہوتے ہیں تو شمسی توانائی آپ کے جِلدی مساموں میں وٹامن ڈی کی اسقدر زیادتی کر دیتی ہے کہ آپ چار و ناچار  خواب بس سے بے بسی کے عالم میں فقط بس میں پہنچ جاتے ہیں۔ اتنے میں جامعہ ہمدرد کے قریب شمالی گزر گاہ یعنی ناردرن بائی پاس کا کوہان چڑھ اور اتر کر آپ سیدھے ہوکر بیٹھ جاتے ہیں کہ چلو منزل آن پہنچی۔ یہ تجربہ ہمدرد کے سبھی مسافر کر چکے ہیں ، امید ہے کہ سب ہمارے مندرجہ بالا بیان سے اتفاق کریں گے۔

اب آتے ہیں بس کے داخلی معاملات پر، صبح کا وقت خاصا بھاگ دوڑ کا ہوا کرتا تھا خصوصا جب آپ سویرے دیر سے بیدار ہوں، ان گناہگار آنکھوں نے دیکھا کہ لوگ جوتے ہاتھ میں پکڑے بس میں سوار ہو رہے ہیں، ناشتہ بس میں فرمایا جا رہا ہے، بال سنوارنے کو بھی بس سے بہتر کوئی جگہ نہیں۔  چند منچلے اسکول کی وردی بھی بس میں سوار ہو کر ترتیب دیتے تھے وگرنہ وہ شلوار قمیض کا تاثر دیتی تھی۔  ہمدرد کی بسوں کے ڈرائیور  حضرات ایک خاص قسم کی مخلوق ہیں کہ ان پر کسی کا کوئی بس نہیں چلتا تھا۔ بادشاہ لوگ ہیں کہ حدِ رفتار کی کوئی حد نہیں- چند منٹ کی دیر یا عجلت  پربچوں کے  والدین  اور کبھی کبھار اساتذہ کے ساتھ تکرار  بھی روز مرہ کا حصہ تھی۔مرکزی دروازے سے اسکول میں داخل ہونے پر دنیا بدل جاتی اور ہر کوئی اپنے اپنے مقام مجمع کی جانب چل پڑتا، مگر آفرین ہے اُن ہمدردان پر  جو نُون قلم کے پاس پہنچ کر چلتی بس سے برآمد ہوتے تھے۔

چھٹی کے وقت نُون قلم بھی کیا جگہ تھی  کہ احمد  فراز کے مصداق 'مکیں اُدھر کے بھی جلوے اِدھر کے دیکھتے ہیں' اس مقام پر ہم نے ہر دور میں مخلوط و غیر مخلوط تعلقات کو بنتے ٹُوٹتے دیکھا۔ اسکول کی لڑکیاں کالج کے لڑکوں پر ہنس رہی ہیں تو کالج کے لڑکے آتے جاتوں پر آوازے کس رہے ہیں، کہیں  تحفے تحائف کا تبادلہ ہو رہا ہے تو کہیں  جملوں ، اشاروں یا فقط نظروں سے کام چلایا جا رہا ہے۔ بچے ہیں کہ اندھا دھند بھاگ رہے ہیں اور دوسروں سے ٹکراتے پھررہے ہیں ۔کوئی ٹولی  اگلے دن کی چھٹی کے منصوبے بنا رہی ہے تو کچھ گزرے دن کے قصّے سنا رہے ہیں کہ اچانک بخاری صاحب کی سیٹی اس سارے مجمع کو تتربتر کر دیتی ہے اور ہر کوئی اسکو صوتِ صُور سمجھ کر اپنی اپنی بسوں کی جانب دوڑتا ہے، اس پر بھی چند مچلتی روحوں کو تسکین چلتی بس میں سوار ہونے سے ہی ملتی تھی اور یوں واپسی کے سفر کا آغاز ہوتا۔

واسپی میں شور و تفریح کا عنصر غالب رہتا ہے خاص کر کہ جب اگلے دن تعطیل ہو۔اُردو/ انگریزی ناول پڑھے جا رہے ہیں۔ باتیں ہو رہی ہیں، پرچیوں پر یا کتابوں کے صفحات سے کھیل کھیلے جا رہے ہیں، مثلا بادشاہ، وزیریا کرکٹ وغیرہ، ایک دوسرے کو اپنی اپنی جماعت کی کاروائی سنائی جا رہی ہے،  پیاس لگتی ہے تو طلبہ سمیت اساتذہ آپس میں پانی کی بوتلیں  ٹٹولتے ہیں اور ایک ہی بوتل پوری بس کے مسافروں کی پیاس بجھاتی ہے ۔ کچھ کو یہ تجسس کہ اساتذہ آپس میں کیا باتیں کرتے ہیں اور چند کو یہ خطرہ کہ کوئی انکی باتیں نہ سن لے۔ نوجوان ہیں کہ اساتذہ کی تنبیہ کو سُنی ان سُنی کر بس کے دروازے میں ہی کھڑے ہیں ۔

 ہماری بس کے امیر ہردلعزیز صالح جتوئی تھے کہ جو بس میں نشستیں مختص کیا کرتے تھے اور شرارتی بچوں کو سزا دینے کی خاطر اپنے یا کسی اور استاد کے ساتھ بٹھا دیتے تھے کہ بیچارہ بچہ سونے میں ہی اپنا سفر گزار دیتا تھا۔ کبھی کبھار منت سماجت پر سزا معاف بھی ہو جاتی تھی اور کھلی چُھوٹ دے دی جاتی تھی۔ یہ اور اس جیسے کئی مناظر کم و بیش ہر دور میں ہر بس سے وابستہ رہے ہیں، ہم نےاپنا مشاہدہ اور تجربہ قارئین کی نذر کر دیا ہے کہ پڑھیں اور تبصروں سے نوازیں۔
جاری ہے  

Friday, September 10, 2010

تصویرِ ہمدرداں- دوڑپیچھے کی طرف اے گردشِ ایّام تُو

اس سال ہم نے صرف کالج میں ہی پڑھایا اور کیونکہ بیچ برس میں آسامی پُر کی تھی تو کام کا بوجھ بھی زیادہ نہیں تھا فقط محترمہ برجیس طاہرہ کے حصہ کا کام ہمیں دیا گیا تھا جو پہلے ہی ان کے صدرِ شعبہ طبیعات ہونے کی وجہ سے کم تھا۔ ہم سے پہلے ہی ہمدرد میں ہمارے افسانے پہنچ گئے تھے کہ آصف امتیاز والی جماعت میں ایک  طالبہ، رابعہ تسلیم انصاری کی ایک عدد بڑی ہمشیرہ  طلعت انصاری ،جامعہ کراچی کے شعبہ طبیعات میں ہم سے ایک سال پیچھے تھیں اور ہم انکی جماعت کی سالِ آخر کی تجربہ گاہ میں معاونت کرتے تھے۔ ان دونوں کی ایک اور ہمشیرہ خُرد، دلکشاانصاری ان دنوں ہمدرد میں ہی درجہ چہارم میں تھیں۔سولہ اگست سن دو ہزار چھ کو جب ہم نے ہمدرد کو خیرباد کہا تو اسی دن  سن اٹھانوے کی کمسن ترین بنتِ انصاری  درجہ دوازدہم میں پہلے دن کی پڑھائی کر رہی تھیں۔

 سن دو ہزاردو کےآغاز میں ہمارے برادرِ خُرد محمد شہبازاخترجو ہمدرد میں کمپیئوٹر پڑھاتے رہے،عمان چلے گئے وہاں انکی ملاقات ایک ہموطن سے ہوئی جن کا نام طارق تھا انکی اہلیہ طلعت انصاری نکلیں اور انکی صاحبزادی دانیہ ہماری بھتیجی رومیشہ سے کھیلا کرتی تھیں۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ  اس چھوٹی سی دنیا  میں ہمارا ہمدرد سے کیسا  انوکھا تعلق  رہا ہے کہ جو اگلی نسل تک منتقل ہوا۔ اس ادارے نے بفضلِ خدا ہمیں خاصے برخوردار قسم کے  طلبہ و طالبات کا لشکر بخشا کہ جو دنیا کے طول و عرض میں پھیلا ہو ہے۔

سائرہ عارف سال اول  میڈیکل میں پڑھا رہی تھیں جب ہم پہلی دفعہ اس جماعت میں گئے۔ ہم نے وہاں آٹھواں باب سادہ ہم آہنگ حرکت پڑھانا شروع کیا سائرہ بھی شوق میں وہاں بیٹھ گئیں، خیر ہم نے سمپل، ہارمونک اور موشن کو الگ الگ کر کے بیان کیا اور چند مثالیں پیش کیں۔ بعد میں سائرہ نے ہمارے اس  انداز کو خاصا سراہا۔

طبیعات ایک خشک مضمون سمجھا جاتا ہے اور اسکے پڑھانے والے بھی عام طور پر سنجیدہ اور سنکی جانے جاتے ہیں، ہمدرد میں شروع کے دور میں ہم سنجیدہ ہی رہا کرتے تھے یہاں تک کہ مسز گلزارہماری بابت  فرمایا کرتیں کہ یہ کبھی ہنستا بھی ہے۔' آئی ہیو نیور سین ہِم لافنگ، ہی ازٹُو سیریئس' اور ادھر ہم کمرہ اساتذہ میں لطائف سنایا کرتے تھے۔
  
ان دنوں ہمدرد میں شعبہ ریاضی میں  محترم طارق ظفر، محترم خالد صدیقی، محترم  امیر صاحبان ہوا کرتے تھے۔ طبیعات  کے اساتذہ کا  ہم پہلے ذکر کر چکے ، کیمیاء میں محترمہ صبا مسرور، محترمہ کشور شجاع اور محترمہ ریحانہ، حیاتیات میں مسز زیدی اور مس عطیہ، اردو میں محترمہ فرزانہ اسد، محترمہ افشاں یاسمین اور محترمہ ممتاز فاخرہ، انگریزی میں مسز قادری،مرحومہ مس ترانہ اور مس امبر منصور، اسلامیات میں محترم رئیس احمدشامل تھے، سندھی میں محترم  سلیم و صا لح برادران کی جوڑی تھی جبکہ مطالعہ پاکستان مس ثرّیا اور مسز شاہانہ اطہر پڑھاتی تھیں۔ مسز نوشابہ ان دنوں  سبکدوش ہوئیں تھیں اور انگریزی ہیں محترم حامد اختر آئے تھے، حامد صاحب استادوں کے استاد تھے اور اردو بہت عمدہ اور شائستہ بولتے تھے۔ دہلی کالج میں ہمارے انگریزی کے استاد حسن اکبر کمال ، حامد صاحب کے شاگرد رہ چکے تھے۔ایک شخصیت کے ذکر کے بغیر تصویرِ ہمدرداں نا مکمل رہے گی، وہ ہیں محترم الحاج سیّد اصغرعلی شاہ بخاری صاحب، ہمیں امید ہے کہ بہت سے طالبِعلموں کو انکا پورا نام معلوم نہیں ہوگا۔ یہ  ورزش  اور کھیل کودکرایا کرتے تھے اور صبح کی قرات، ترانہ اور دیگر ہم نصابی سرگرمیوں کے رُوح رواں تھے۔ ان پر ایک تفصیلی بلاگ لکھا جا سکتا ہے، قارئین کی فرمائش ہوئی تو سوچا جا سکتا ہے۔

 ان میں سے کافی خواتین و حضرات ہمدرد چھوڑ چکے ہیں  اور نئے چہروں نے انکی جگہ لے لی ہے، ہماری معلومات کے مطابق مذکورہ بالا شخصیات میں سے اب صرف  مس صبا، مسز زیدی، مس  فاخرہ، مسز اسد، رئیس احمد، سلیم جتوئی اور مس ثرّیا ہمدرد میں موجود ہیں اور باقی سب نوواردوران ہیں۔

ذیل میں ہم سن ننانوے اور دو ہزار میں ہمدرد سے انٹر کرنے والے شاگردوں کے نام مع انکے بہن بھائیوں کےدرج کر رہے ہیں، یہ تمام بھی بعد کے سالوں میں ہمدرد  سے ہی سند یافتہ ہوئے ، اس فہرست میں کسی غلطی کی نشاندہی قارئین کے ذمہ ہے کیونکہ ہماری یادداشت  سے چند نام مکمل یا نا مکمل طور پر معدوم ہوتے جاتے ہیں۔
آصف امتیاز خان اور سعدیہ امتیاز خان
محمدمعیز
 تابش علیم اور سمیعہ علیم
 معروف ہاشمی اور ماریہ ہاشمی، ایک ہی ساتھ میڈیکل کے سیکشن میں تھے
 شہریارعزیزاور  ندا عزیز
عدنان انور
 سبینہ انور مقّدم اور اسد مقّدم
 منیزہ مجید اور ثاقب کامران
 شائستہ احترام انکے بھائی کا نام ذہن سے  محو ہو گیاہے
 محمد عمر
 شمیم صدیقی
 محمد کاشف
 مرزا یوسف بیگ
 ہارون
 صبا خان
 طارق
 کنورسارم حسین اور درِشہوار
عروشہ سلیم
 مدیحہ نجیب انکے بھائی حمّاد نجیب اور بہنیں، حیّا نجیب، بینا نجیب اور کومل نجیب
 جویریہ بدّراور وقاص سلطان
فرح رفیق صدیقی
ناذیہ ادیب
ثناء شاہد
عروج مغل اور حرا مغل
خدیجہ
سویرا نواز اور عباد

بہت سے نام یہاں نہیں ہیں تو قارئین تبصروں کے دوران  یاد کرا سکتے ہیں۔
جاری ہے  

Wednesday, September 8, 2010

تصویرِ ہمدرداں - لو اب ہم بھی استاد ہو گئے





ہماری سالگرہ کا مہینہ ،شمسی سال کا گیارہواں مہینہ ہے اسی ماہ کے آغاز میں سن انیس سو اٹھانوے عیسوی کو کہ جب ہم شعبہ طبیعات، مادرِعلمی جامعہ کراچی میں عارضی طور پر پڑھا رہے تھے تو ایک دن ڈاکٹر برجیس نفیس نے ہمیں کہا کہ ہمدرد کالج میں ایک لیکچرار کی آسامی ہے، جا کر انٹرویو دو اوروہاں صرف انگریزی میں بات کرنا۔ ہم نےاپنی میڈم کی بات کو پلّے باندھ لیا اور  معلومات حاصل کر کے ہمدرد اسکول/ کالج کی بس نمبر 29 میں سفاری پارک سے عازمِ سفرِ بجانب ہمدردہوئے۔ اس بس سے ہمارا رشتہ آنے والے برسوں میں بھی جڑا ہی رہا اور ہم آخری دن بھی اسی کے ذریعہ ہمدرد گئے تھے۔
اُن دنوں ہم مختلف اداروں میں انٹرویو دیتے پھر رہے تھے جس میں ماہِ ستمبر میں غُلام اسحٰق خان انسٹیٹئوٹ قابلِ ذکر ہے کہ یہاں ہم الحمداللہ 40 امیدواران میں سے منتخب بھی کر لئے گئے تھے مگر ہمدرد کو اس پر ترجیح دی۔ خیر محترم سلیم جتوئی ، صالح جتوئی اور علی بہادر کاکا اسی بس میں ہمدرد جا یاکرتے تھے۔ ان سے پہلی ملاقات اسی سفر میں ہوئی، سلیم جتوئی نے ہمیں مسز گلزار کے حوالے کیا۔ میڈم گلزار نے چھوٹتے ہی محترم سجاد احمد کوبلا ڈالا اور ہمیں ان کو سونپ دیا۔ حکم ملا کہ تیاری کر لیں آپ کا درسِ زبانی کا مظاہرہ یعنی ڈیمو لیکچر ہو گا اور ساتھ ہی سیکنڈ ایئر کی طبیعات کی کتاب ہمیں تھما دی اور حرارت کے باب سے حرارتی پھیلاو کا موضوع پڑھنے کو کہا۔ ہمیں یاد ہے کہ ہم مسز روبینہ کے کمرے میں اس کتاب کے ساتھ اکیلے چھوڑ دیئے گئے۔ اب ہم دل ہی دل میں صورتِ حال سے محظوظ ہو رہے تھے کہ یہ کتاب ہمیں کم و بیش منہ زبانی یاد تھی،کیونکہ ہم سن پچانوے سے شہر کے مختلف کوچنگ سینٹرز میں باقاعدہ طبیعات اور ریاضی پڑھا رہے تھے۔ خیر سجاد صاحب کے حکم کے مطابق ہم نے ایک بار کتاب دیکھ ڈالی۔ کچھ دیر میں ہمیں سیکنڈ ایئر انجینیئرنگ  کے سیکشن میں لے جایا گیا۔ 25، 30 کا مجمع تھا جس میں گنتی کی طالبات اور باقی طلبہ تھے۔ ایک صاحب سفید شلوار قمیض میں ملبوس پچھلی نشست پر براجمان تھے، جن کی بابت بعد میں معلوم ہوا کہ یہ ہر دلعزیز محترم خالد صدیقی تھے۔ سجاد صاحب نے ہمیں لیکچر شروع کرنے کا کہا، اسی دوران میڈم بھی تشریف لے آئیں۔ اس جماعت میں سال اول کے پوزیشن ہولڈر آصف امتیاز خان بھی موجود تھے۔ ہم نے اللہ کا نام لے کر لیکچر کا آغاز کیا تو ہم پر سوال آصف امتیاز خان نے ہی داغا۔ ہم نے بورڈ سے انکی نشست پر جاکر سوال کا مفصّل جواب دیا، جب ہم جواب دے رہے تھے تو ہم نے میڈم کی ستائش بھری نظریں  تاڑ لی تھیں۔ قریبا پندرہ بیس منٹ میں ہی ہم فارغ ہوئے اور  موضوع مکمل کر دیا۔ آصف امتیاز خان نے ہمارے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے مسز گلزار کو ایک سطر لکھ کر دی  کہ "ہِی وِل ڈُو" یہ بات بھی اور بہت سی باتوں کی طرح ہمیں بعد میں پتہ چلی تھی۔
کم و بیش یہی کاروائی میڈیکل کے سیکشن میں بھی دوھرائی گئی، اسکے بعد ہمیں میڈم کے دفتر میں بلایا گیا اور اب میڈم کے ساتھ بالمشافہ گفتگو ہوئی، میڈم نے ہم سے فقط ایک بات پوچھی کہ زمانہ طالبِعلمی میں ہم کونسی زبان میں پڑھتے اور جوابات دیتے تھے۔ ہم تو پہلے سے سکھائے ہوئے تھے کہ اس کا جواب انگریزی کے سوا کچھ نہیں دینا۔ تو جھٹ کہا کہ ہم توہمیشہ انگریزی ہی میں پڑھتے اور جواب دیتے آئے ہیں۔ یہاں یہ بتاتے چلیں کہ یہ  ہماری زندگی کا دوسرا انٹرویو تھا جو ہم نے پورا انگریزی میں دیا ورنہ اس سے پہلے ہم نے اتنی انگریزی ایک ساتھ کم ہی بولی ہو گی۔ خیر میڈم ہمیں منتخب کر چکی تھیں مگر پوری طرح سے اعلان نہیں فرمایا تھا، بس ہمیں مشاہرہ کا اندازہ دینے لگیں۔ ہم ان سے رخصت ہوئے اور اگلے ہی دن میڈم برجیس کو جاکر تفصیل بتا دی، میڈم نے کہا کہ فکر مت کرو تم منتخب ہو چکے ہو۔
اب ہم ذرہ پسمنظر بیان کرتے چلیں کہ کیا معاملہ جاری تھا پسِ پردہ۔ ہمدرد کے اس دور کے طلبہ و طالبات اور اساتذہ کو شاید یاد ہوگا کہ اس وقت بلاک تھری کے شعبہ طبیعات میں تین اساتذہ تھے، سجاد صاحب، سائرہ عارف اور برجیس طاہرہ۔ ان میں سے موخرالذکر یعنی محترمہ برجیس صاحبہ نے ہمدرد چھوڑ دیا تھا اور بیچ برس میں ملازمت سے مستعفی ہوئیں تو ہمدرد میں یہ آسامی خالی ہوئی۔ اب سائرہ عارف جو جامعہ میں ہم سے دو سال پرانی تھیں اور میڈم برجیس کی رشتہ دار ہوتی ہیں نے اس کام کا بیڑا اٹھایا کہ کوئی جامعہ سے ہی آکر اس خلا کو پُر کرے، قصہ مختر یہ کہ ہمارے بعد بھی ایک دو ڈیمو لئے گئے مگر مالک نے ہمدرد کو ہماری ہی روزی کا ذریعہ بنانا تھا تو ہم گیارہ نومبر کو یہاں استاد ہو گئے۔
جاری ہے، اگلہ حصہ یہاں پڑھیں

Tuesday, September 7, 2010

تصویرِ ہمدرداں - تعارف


 ہم جامعہ کراچی سے طبیعات میں ڈگری حاصل کرنے کےبعد قریبا ایک سال اپنے شعبہ میں عارضی طور پر پڑھاتے رہے اور سال کے آخر میں ہمدرد پبلک اسکول و کالج میں لیکچرار ہو گئے۔ یہاں ہمارا قیام پونے آٹھ برس کا تھا، ہر سال لگ بھگ سو کے قریب طلبہ و طالبات کو پڑھاتے تھے اور مجموعی طور پر نہم، دہم، یازدہم اور دوازدہم کے تمام ہی طلبہ سے بخوبی واقف رہتے تھے یوں طلبہ و طالبات کی ایک طویل فوج سے روابط رہے۔ آج ماشاءاللہ ان میں سے بہت سے بال بچے دار ہو چکے ہیں اور پوری دنیا میں پھیل چکے ہیں۔

ہمدرد کا نام ذہن میں آتے ہی حکیم برادران کا خیال آتا ہے۔ حکیم محمد سعید المعروف شہید پاکستان کے ذکر کے بغیر اس ادارے کا تذکرہ نا مکمل رہے گا۔ ان کی بصارت و بصیرت پر قلم اٹھانا بجا طور پر سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ پرانی اقوام پیغمبروں کو قتل کردیا کرتی تھیں اور ہم نے اس روایت کو برقرار رکھتے ہوئے محسنِ وطن کو موت کی وادی میں پہنچا دیا۔ انکی شہادت کے دن ہمدرد میں شاید ہی کوئی بچہ ایسا ہو گا جس نے خود کو یتیم تصور نہ کیا ہو، ہماری بد قسمتی کہ ہم ان کی شہادت کے بعد ہمدرد میں شامل ہوئے۔

تصویرِ ہمدرداں میں ہم ان گزرے ماہ و سال  کی یاد داشتوں کو تازہ کریں گے اور یہ بلاگ ان تمام کرداروں کے نام کرتے ہیں جو ہمدرد سے کسی نہ کسی طور وابستہ ہیں چاہے وہ کینٹین میں اسلم کا کردار ہو یا سپر وائزر لقمان کا، مسز گلزار ہوں یا محترمہ سعدیہ راشد، اس ادارے کا اولین طالبِعلم ہو یا موجودہ یا آئندہ آنے والا۔ اور ظاہر ہے کہ ان سب کا تعلق براہِ راست حکیم محمد سعید سے جا ملتا ہے تو ان کے درجات کی بلندی 
کیلئے دعا کی درخواست کی جاتی ہے۔
اگلہ حصہ یہاں پڑھیں-

Monday, September 6, 2010

سڈنی-آمد سے واپسی تک، اور واپسی ہوتی ہے-16




 اگست کی تیس تاریخ کو  فراز خان اور اگلے ہی دن شہبازواڈیوالا اور احسن شیخ باقاعدہ سند یافتہ ہو گئے کیونکہ جامعہ میں انکی تقریبِ تقسیمِ اسناد تھی۔ ہم فراز خان کی تقریب میں تو نہ جا سکے مگر احسن اور شہباز کے ساتھ ضرور تھے۔ لگ بھگ آٹھ سو کا مجمع ہوگا جس میں طلبہ و طالبات سمیت  انکے اہلِ خانہ اور دوست احباب سبھی موجود تھے۔ قاضی فہد ، سیّد فراز علی اور عمران کی حمّیت میں ہم بھی وہیں موجود تھے۔چبوترے  یعنی اسٹیج پر  جامعہ کے صدر اور دیگر منتظمینِ کرام براجمان تھے۔نائب امیر جامعہ ایک خاتون تھیں جن کا کام اسناد کی تقسیم کا تھا۔ تقریب خاصی پروقار اور انگریزی طرز کی تھی، تمام طلبہ و طالبات اور جامعہ کے اکابرین نے مخصوص جبے اوڑھ رکھے تھے، ایک ایک کر کے سب کے ناموں کا اعلان ہوتا اور طالبِعلم اپنی باری پر جا کر سند وصول کرتے اور پھُندنے والی چپٹی سطح کی ٹوپی کو پکڑ کر ہلکا سا سر خم کرکے سلام کرتے تھے۔  تقریب کے دوران عمران اپنے کیمرے سے متحرک عکسبندی کرتے رہے اور قاضی ساکن۔ ایک چینی طالبہ نے کمال کیا کہ  پیروں میں اُونی طرز کے جوتے ڈال کر تشریف لے آئیں اور اسی حالت میں ہی سند وصول کی۔ میکڈونلڈز آسٹریلیا کے اول ترین ملازم اور مالک نے اپنے ذاتی تجربات پر روشنی ڈالی، وہ بھی ہماری ہی جامعہ کے پرانے سند یافتہ تھے۔ تقریب کے آخر میں پیانو پراختتامی دھُن بجائی گئی اور یوں یہ تقریب انجام کو پہنچی۔ اسکے بعد دونوں  نے جی بھر کے انداز اور مقام بدل بدل کر تصاویر بنوائیں۔

یہ واڈیوالا اور تابش کا سڈنی میں آخری دن تھا، سحر کے قریب تابش رخصت ہوئے اور اگلے دن واڈیوالا بھی شام میں کراچی کیلئے روانہ ہو گئے۔ احسن شیخ  بھی اپنا پاکستان کا ٹکٹ کٹا کر بیٹھے ہیں اور واپسی کے دن گن رہے ہیں۔ ان تیرہ ماہ میں سب نے پردیس سے بہت کچھ سیکھا اورساتھ ہی اصل مقصد بھی حاصل کیا، یہاں کا رہن سہن، لوگوں سے میل ملاقات، شہر سے آگاہی، گوروں کے کام کرنے کا انداز، ڈالر کمانا، سیر سپاٹے اور دیگر بےشمار امور ایسے ہیں جو یہاں آکر ہی سیکھے جا سکتے ہیں۔ ان تمام معاملات سے آپکی سوچ میں وسعت آتی ہے اور آپ واپس وطن جا کر نہایت خوش اسلوبی سے اپنے فرائض  انجام دے سکتے ہیں۔

اسی بات پر ہم  اس بلاگ کا خاتمہ کرتے ہیں کیونکہ احسن، فہد اور واڈیوالا سے اس بلاگ کا آغاز کیا گیا تھا اور اب انکی ایک ایک کرکے واپسی ہو گئی ہے۔ ان لوگوں کا یہاں آنے کا اصل مقصد پورا ہوا، ہم اللہ تعالٰی سے انکے بہتر اور روشن مستقبل کے دعا گو ہیں۔ ختم شُد

Sunday, September 5, 2010

سڈنی-آمد سے واپسی تک، دوست ہیں اپنے بھائی بھلکڑ، فراز خان-15

فراز خان ڈگری ملنے کے بعد

 فراز خان کا ذکر گذشتہ تحاریر میں آتا رہا اب ہم ان کا تفصیلی خاکہ بیان کرتے ہیں۔ این ای ڈی میں یاسر آفندی اور عاطف صدیقی کے ساتھ بی ای کیا اور ان ہی لوگوں کے ساتھ سڈنی تشریف لائے۔اولین قیام اپنے رشتہ داروں کے ہاں کیا جو کہ آسٹریلیائی پاسپورٹ رکھتے ہیں۔ تابش امان خان کے لنگوٹیئے ہیں، ہمارے یہاں انکا آنا جانا رہتا تھا، کیونکہ  سب  ہم جامعہ تھے۔ آہستہ آہستہ ہمارے ہاں ہی آن مقیم ہوئے، بلکہ ان کے اچھے چال چلن کو دیکھتے ہوئے ہم سمیت سب گھر والوں نے خود انکو  اپنے ساتھ رہنے کی دعوت دی۔

ان کی یاداشت کا یہ عالم ہے کہ انکے سامنے انکی کوئی چیز اٹھا لی جائے تو ان کو پتہ نہیں چلتا۔ ہمارے متعلق شروع سے ہی سب کو پتہ تھا کہ ہم پڑھاتے رہے ہیں۔ دس ماہ بعد اپنے بھائی اور خالہ زاد بہن کا تذکرہ کرتے ہوئے کہنے لگے کہ ان لوگوں کو بھی تو آپ نے پڑھایا ہو گا  کہ یہ لوگ ہمدرد میں ہی تھے، اس پر ہم نے انکے نام پوچھے اور نام سنتے ہی انکا پورا آگا پیچھا بیان کر دیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ موصوف ہم سے مل بھی چکے ہیں کہ یہ ہمدرد تشریف لائے تھے۔

میٹھا ان کی کمزوری ہے، سڈنی میں کسرپی کریم نامی ڈونٹس کا اسٹور  ان کی بدولت پنپ رہا ہے کیونکہ یہ اس کے ایک بڑے گاہک ہیں،اسقدر شوق سے ڈونٹس کھاتے ہیں کہ اگر انکا ڈوپ ٹیسٹ کرایا جائے تویقینی طور پر ڈونٹ پوزیٹئیو آئے گا۔ دوستوں نے انکی عرفیت بھی ڈونٹ کے نام پر رکھ دی ہے۔ سڈنی میں میٹھے کی کون کونسی  اشیاء حلال ہیں اور کہاں کہاں سے خریدی جا سکتی ہیں انھیں سب معلوم ہوتا ہے۔کسی پر جرمانا لگانا ہو تو، میٹھے کا ہی لگاتے ہیں، انکا مقولہ ہے کہ میٹھے پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جا سکتا اور یہ بھی کہ میٹھا ہو اور بہت ہو۔ احسن کو بھی اس معاملہ میں انھوں نے پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

سڈنی کے طول و عرض سے بخوبی واقف ہیں اور یہاں کی بسوں اور ریل میں خاصا سفر کر چکے ہیں، ہفتہ وار ٹکٹ خریدا کرتے تھے اور جب یہ ٹکٹ ختم نہ ہوتا تو دوسروں کو دان کر دیتے تھے۔ آجکل انکا سفر کم ہو گیا ہے، ایک ماسٹر جامعہ نیو ساوتھ ویلز سے کرنے کے بعد سیّد فراز علی کی جامعہ سی کیویو سے دوسرا ماسٹر فرما رہے ہیں۔

پابندی کے ساتھ صرف ضرورت پڑنے پر ضرور نہا لیتے ہیں۔ بال اور داڑھی بھی بناتے ہیں ، اگر کہیں نوکری کا انٹرویو یا  نئی ملازمت کا پہلا دن ہو تو، صاف ستھرا رہنے کا اہتمام روز کرتے ہیں مگر مجبوری یہ آن پڑتی ہے کہ جمعہ روز نہیں آتا۔ جس دن جامعہ میں انکا جلسہ تقسیمِ اسناد تھا سوٹ زیب تن کیا اور بن ٹھن کر ایک شان سے جامعہ تشریف لے گئے اس تیاری میں انکو کم و بیش ایک سے دو  گھنٹے لگانا پڑے۔

معاملات کا خاصا دھیان رکھتے ہیں اور تحقیق کے بعد ہی دینی مسائل پر رائے دیتے ہیں، انکے ساتھ رہتے ہوئے آپ کی دینی معلومات میں بھی اضافہ ہو گا۔ مال و دولت کو ہاتھ کا میل سمجھتے ہیں اور اکژ ہاتھ صاف رکھتے ہیں۔ ہمارے مطابق غالب نے اپنے اس مقطع میں ان ہی کا بیان پیش کیا ہے،

عشق نے غالب نکمّا کر دیا
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے  
جاری ہے 

Friday, September 3, 2010

سڈنی آمد سے واپسی تک، احسن، دُودُودُودُودُو-14

احسن شیخ شعبہ طبیعات جامعہ نیوساوتھ ویلز کے سبزہ زار میں

احسن شیخ  کا ذکر خیر کرنے کی خاطر یہ بلاگ لکھا جا رہا ہے۔ اس داستانِ سڈنی  کو بیان کرنے کیلئے ہمیں احسن نے ہی اکسایا تھا۔ خاصے محنتی آدمی ہیں امریکہ میں تین برس سے کچھ اوپر قیام کر چکے ہیں، نائین الیون کے متاثرین میں شامل ہیں اور وہاں سے وطن واپس لوٹ گئے پھر سڈنی کا قصدِ سفر کیا اور یہاں آن پہنچے۔ محمود وڑائچ کے ہاں فہد، شہباز اور اِنکا اولین قیام اِن ہی کی بدولت عمل میں آیا تھا۔

عمر کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ لڑکے انکو اپنی محفل میں بڑا اور بزرگ  سمجھتے ہیں۔ خاصے معقول  شخص ہیں اور صفائی پسند ہیں ، ویکیئوم کلینر پسندیدہ برقی آلہ ہے۔ مارکیٹ میں آنے والے ہر نئے ماڈل کے موبائل فون اور برقی ایجاد پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ہمارے قریبی ہمسائے ہیں کہ ہمارا کمرہ ایک ہی ہے تو اس وجہ سے ہماری معلومات میں آئی ٹی کے حوالے سے بھرپور اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ہالی وڈ کی فلموں کے بھی رسیا ہیں غرض کافی اپ ٹو ڈیٹ قسم کے بندے ہیں۔

سڈنی میں ابتکہ تیرہ ماہ کے قیام کے دوران تیرہ مختلف قسم کے کام یا نوکریاں کر چکے ہیں بلکہ کئے جا رہے ہیں۔ جن میں گریفتھ کا قصّہ اور گھوڑوں کے فارم کا تذکرہ قارئین کی نذر کیا جا چکا ہے۔ آج ان کی وطن واپسی میں ۲۵ دن رہتے ہیں اللہ جانے ان دنوں میں مزید کتنے اور کون کون سے کام انجام دے ڈالیں گے۔

صنف مخالف کو پرکھنے اور جانچنے کا انکا اپنا ہی معیار ہے، دہلی کالج کراچی میں جب ہم پڑھا کرتے تھے تو ہمیں طبیعات جناب میر آخوند صاحب پڑھاتے تھے، انکا تکیہ کلام تھا کہ 'تصور کی آنکھ سے دیکھیئے' اسوقت تو ہمیں میر صاحب کی بات سمجھ میں نہیں آتی تھی مگر احسن کی حسِ تصوراں کا مشاہدہ کر کے ہمیں اپنے استادِ محترم کا فرمان اب سمجھ میں آگیا ہے۔

کھانے پینے کے شوقین ہیں اور میٹھا انکی کمزوری ہے، نہ جانے کتنی اقسام کا میٹھا اب تک بنا چکے ہیں اور رزق کوضائع نہ کرنے کی خاطراکیلے خود ہی کھا بھی چکے ہیں۔ قصور انکا بھی خاص نہیں کیا کریں کہ سڈنی میں کسٹرڈ پاوڈر ہی دو نمبر ملتا ہے۔

ہر جگہ کام کرنے کی حامی بھر لیتے ہیں اور بعض اوقات اپنی جگہ کسی اور کو بھی یہ کہہ کر دھیاڑی لگوا دیتے ہیں کہ' کوئی مشکل کام نہیں ہے بس چھوٹے چھوٹے گملے اٹھانے ہیں'۔ اور جب اگلا بندہ کام پر جاتا ہے تو اسے مذکورہ گملوں کی جسامت اور وزن کا اندازہ ہوتا ہے۔

انسان دوست ہیں اورپردیسیوں کو خاص دوست رکھتے ہیں کیونکہ پردیسی رہ چکے ہیں۔ انکی حالت پرغالب کا یہ مصرع صادق آتا ہے کہ
ع  مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
جاری ہے