قارئین نےگذشتہ یادداشتوں کو اب تک جو پذیرائی بخشی ہے اس پر ہم انکے ممنون ہیں اور مزید لکھنے کی ہمت کر رہےہیں، چند ایک فرمائشیں بھی کی گئیں کہ کالج اور اسکول کی تقریبات الگ الگ بیان کی جائیں یا سال بہ سال ماضی کو قلمبند کیا جائے تو اس پر ہم یہ کہیں گے کہ ہم، ہمدرد کو بحیثیت اکائی مانتے ہیں لہٰذا کالج و اسکول دونوں کا تذکرہ ساتھ ساتھ آتا رہے گا اور رہی بات ہر سال کے حالات کو انفرادی طور پر بیان کرنے کی تو اب ذہن کے دریچے ماضی کے دالانوں پر اسقدر آسانی سے وا نہیں ہو پاتے۔ اس لئے جو ربط یا بے ربط یاد داشتیں ہیں پیشِ خدمت ہیں۔ اب موضوع کی جانب آتے ہیں۔
کسی بھی تعلیمی ادارے میں محض کُتب اورعملہ تدریس ہی منتقلی معلومات کا ذریعہ نہیں ہوتے بلکہ ارد گرد کا ماحول اور تفریحی یا تعلیمی سفر بھی طلبہ و طالبات کو براہِ راست مشاہدات و تجربات فراہم کرتے ہیں۔ان دوروں میں تربیت کا جو حصول ہوتا ہے وہ روایتی عملِ تدریس سے کہیں زیادہ کارگر و کارآمد ہوتا ہے کہ اسکی یادیں ہمیشہ طالبعلموں کے ذہنوں میں تازہ رہتی ہیں۔
ایسے سیاحتی، معلوماتی اور تفریحی دوروں کا آغاز مسزگلزار کے بلاک تھری میں آتے ہی ہو گیا تھا کہ جب طلبہ کو موئن جودڑو لے جایا گیا ، ہماری معلومات کے مطابق دودفعہ بذریعہ طیارہ یہ تعلیمی سفر عمل میں لائے گئے کیونکہ یہ ہم سے پہلے کے تھے۔ ہمارے پاس تصاویر کا جو ذخیرہ ہے وہ سن دو ہزار ایک سے ہے کہ جب موئن جودڑو والے سفر کے بعد ایسے دوروں کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ متذکرہ تعلیمی گشت کالج کے طلبہ کے ساتھ بھٹ شاہ اور ہالا کی جانب تھا۔ اسکے بعد ہر برس اسطرح کے سفروں کا اہتمام کیا جاتا رہا جو اسکول و کالج دونوں کے لئے ہوا کرتے تھے۔ کبھی چوکنڈی، ہالیجی ،مکلی اور شاہ جہاں مسجد ٹھٹہ تو کبھی غلام محمد بیراج کوٹری، سندھ عجائب خانہ حیدرآباد،بھٹ شاہ اور ہالا کا سفر کیا جاتا۔ ہم اساتذہ کو یہ سارے راستے منہ زبانی یاد ہو گئے تھے اور ہر برس ان ہی مقامات کو دیکھ کر ہم مختلف عمارات کی تاریخی اہمیت سے بھی واقف ہو گئے تھے، طلبہ وطالبات کیلئے یہ تفریح ہو اکرتی تھی اور ساتھ ہی ان کی معلومات میں اضافہ بھی ہوتا تھا، خاص طور پر وہ طلبہ جو کبھی کراچی سے باہر نہیں گئے تھے وہ ان دوروں میں خوب لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔
طلبہ وطالبات کیلئے ان سفروں کی افادیت و اہمیت اپنی جگہ مگر یہ بات بیان کرنا ضروری ہے کہ یہ تفریحی دورے مسز گلزار اور انکے اساتذہ کی ذاتی دلچسپی کے بغیر ناممکن تھے۔ طلبہ کو محض یہ پتہ چلتا تھاکہ انہیں چند سو روپے جمع کرانے ہیں مگر ان مسافرتوں کی منصوبہ بندی کسی دردِ سر سے کم نہیں، بخاری صاحب، سجاد احمد، سلیم جتوئی، طارق ظفر، حسن احمر صاحبان اور کبھی کبھار راقم السطور بھی بس کے اڈے پر جایا کرتے کہ بس والوں سے سفری معاملات طے کئے جائیں ۔ بسوں کے چناو میں اس بات کا خیال رکھنا پڑتا تھا کہ سفر آرام دہ رہے اورکسی کو کوئی شکایت نہ ہو۔ طلبہ سے جمع شدہ رقم اور تعدادِ افراد کے مطابق بسوں کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ بسوں کی بکنگ کے بعدنشستوں کی ترتیب طے کی جاتی تھی اور اساتذہ کرام کے ذمہ بس لگائی جاتی تھی کہ ایک امیر ہوتا تھا اور باقی سب اسکی پیروی کرتے تھے ۔ بسوں پر نمبر لگانا صالح جتوئی کے ذمہ ہوتا تھا۔ اور سفر کے دن صبح سویرے ہی ہمدرد مرکز پر سب جمع ہوتے اور ترتیب کے مطابق ہر کوئی اپنی اپنی مقررہ بس میں سوار ہوتا۔ اکثر ایسا ہوتا کہ مسز گلراز کے ساتھ میڈم سعدیہ راشد اور انکی کوئی مہمان خاتون ہماری ہمسفر رہتی تھیں۔ سفرکے آغاز کے ساتھ ہی شہر سے باہر نکلنے کے بعد طلبہ گانے،شور مچانے اور بسا اوقات ناچنے میں مشغول ہو جاتے جبکہ اساتذہ، مسز گلزار سمیت تاش کی بازی جماتے۔ جب طلبہ کی بس طالبات کی بس کے پاس سے گزرتی یا اسکے معکوس بھی ہوتا تو بسوں کے پردے ٹھیک ہونے لگتےاور چند ایک کو یہ پردے ناگوار بھی گزرتے۔
مقامِ مشاہدہ پر پہنچ کر وقت کا تعّین کرنا بھی ایسے دوروں کو کامیاب کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرتا تھا۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ بارہا مسز گلزار نے بالخصوص طالبات کو ڈانٹا کہ بس کو بیوٹی پارلر بنا رکھا ہے۔ ہوتا یوں تھا کہ لڑکیوں کی بس منزل پر پہنچ کر اپنے مسافروں کو اتارنے میں ناکام رہتی تھی ، ہاں ایسا ہو جایا کرتا لیکن اس وقت جب مسز گلزار کی دھاڑ سنائی دیتی۔ ایک دفعہ ایسا بھی ہوا کہ کسی اور ادارے کے منچلے لڑکوں نے ہماری بس کے پاس آکر ادھم مچانے کی کوشش بھی کی لیکن مسز گلزار اور اساتذہ کی معا ملہ فہمی کی وجہ سے کوئی بدمزگی نہ ہو پائی ورنہ ہمارے یہاں بہنوں کے بھائیوں کی کمی نہیں ہے۔
جو لوگ مکلی کے قبرستان جا چکے ہیں انہیں یاد ہوگا کہ مکلی کے داخلی راستے پر ہی ایک سپیرا بیٹھا رہتا ہےا ور ہر آتے جاتے کو ایک ہی کہانی سناتا اور سانپ دکھاتا ہے۔ اس شہر ِ خموشاں میں جو کہ صدیوں سے قائم ہے اسلامی تعمیرات کے منفرد نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں، ایسے ہی شاہکار چوکنڈی میں بھی موجود ہیں۔
بھٹ شاہ پر شاہ عبدالطیف بھٹائی کا مزار اور ریسٹ ہاوس سے متصل چھوٹا سا عجائب خانہ بھی قابلِ دید ہیں۔ حیدرآباد کا عجائب خانہ تو خیر معلومات سے پر ہے ہی، مگر مزہ غلام محمد بیراج پر سڑک پار کرنے کے دوران آتا تھاکہ جب طلبہ و طالبات کا لشکر اِس پار سے اُس پار جاتا یا واپس آتا۔ ہالیجی یا کینجھر پر چندایک تو مچل جاتے کہ ہمیں پانی میں اترنا ہے، بڑی مشکل سے انہیں کشتی کی سیر سے بہلانا پڑتاتھا۔مسجدِ شاہ جہاں ٹھٹہ بھی کیا خوب ہے کہ اس کے گنبد آپ پورے گن ہی نہیں پاتےاور اس میں طبیعات کی شاخ صوتیات کا عمل مشاہدہ کیا جا سکتا ہے جس سے آواز گنبد در گنبد صوتیاتی انعکاسی کروئی سطحوں پر سفر کرتی ہے۔
بھنھور کا تاریخی مقام وہاں موجود دیگر آثار کے ساتھ ساتھ منجنیق کی وجہ سے خاصی اہمیت رکھتا ہے، یہاں پر سمندری پانی سے نمک بھی حاصل کیا جاتا ہے، جس کے تالاب آثار کے قریب دیکھے جا سکتے ہیں۔
ہالا شہر سندھ کی ثقافت اور مقامی کاریگروں کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ جہاں اجرک کے ساتھ ساتھ ہنر مند ہاتھوں سے تراشیدہ لکڑی کا سامان اور ریوایتی ملبوسات کراچی والوں کی قوتِ خرید کے مطابق با آسانی دستیاب ہیں۔ ہالا کے بازار میں ایک لطیفہ دیکھنے کو ملا کہ وہاں ایک چاٹ فروش نے ریڑھی پر گیت کے بول لکھے تھے کہ
دُکھائے دل جو کسی کا وہ آدمی کیا ہے
کسی کے کام نہ آئے وہ زندگی کیا ہے
اور نیچےقاری کی معلومات میں اضافہ کی خاطر نور جہاں کا نام درج تھا
اس سے پیشتر کہ قارئین اس پوسٹ کو مطالعہ پاکستان یا معاشرتی علوم کا کوئی باب سمجھیں ہم دوبارہ ہمدرد کی جانب آتے ہیں۔ ان سفروں میں شرارتوں سے بھرپور کئی واقعات بھی ہوئے مثال کے طور پر دسمبر سن دو ہزار تین میں جماعت دہم والوں نے ایک کارنامہ انجام دیا کیا کینجھر پر ایک بس کی کھڑکی کا شیشہ توڑ ڈالا، اس پر میڈم کی عدالت میں سب لڑکوں کو سزا سنائی گئی اور پوری جماعت پر جربانہ ڈالا گیا، ہمیں معلوم ہے کہ الزام جس طالبِعلم پر لگا تھا وہ قصور وار نہیں تھا مگر جماعت کے ایکے کی وجہ سے اصل مجرم کو چھپا لیا گیا تھا۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ ہمیں اصل شرارت کرنے والے کا بھی پتہ ہے، اور ان دونوں کے نام ہمارے حافظہ میں آج بھی تازہ ہیں،ہم اراداتا انکے نام نہیں لے رہے مگر طلبہ کی یاددہانی کو اسی جماعت کے حافظ نعمان ظفر صدیقی کا ذکر کررہے ہیں کہ ہمیں یہ جتھا یاد ہے۔
اب کہنے کو یہ شرارت تھی اورچند طلبہ اس سے لطف اندوز بھی ہوئے ہونگے، مگر تمام ڈرائیور اور انکے ماتحت جو کہ کراچی تا خیبر سفر کرتے ہیں کے سامنے ہمدرد کا نام بدنام ہوا کہ ان سب نے اپنے ملنے والوں اور مسافروں تک کو یہ کہا ہوگا کہ ہمدرد کے لڑکے اتنے شرارتی تھے کہ نہ انہوں نے ادارے کے نام کا لحاظ رکھا اور نہ حکیم صاحب کی عزت کا۔
اسی طرح ایک بار چند لڑکے بس کی نشستوں کے نیچے چھپ گئےاور ان کو ڈھونڈنے میں تمام اساتذہ پریشان ہوئے کہ بالآخر ان کی دریافت پر بخاری صاحب کو میڈم سعدیہ راشد کے سامنے انہیں تھپڑوں سے نوازنا پڑا۔ سفر کے دوران تمام طلبہ و طالبات کی ایک طرح سے ذمہ داری ادارے پر ہوتی تھی اور کسی کے اِدھر اُدھر ہو جانے پر کیا صورتِ حال ہو سکتی تھی اس کا اندازہ ذی شعور بخوبی کر سکتے ہیں۔
ان اِکّا دُکّا ناخوشگوار واقعات کے علاوہ یہ تمام دورے نہایت خوشکن ثابت ہوتے، واپسی کا سفر بھی لطف اندوز کرتا۔ طلبہ ناچ گانا اور شور شرابا جاری رکھتے ایک بار چند لڑکوں نے میڈم گلزار کوفلم' دِل تو پاگل ہے' کا گانا بھولی سی صورت انتساب کیا۔
ہمدرد مرکز پہنچ کر تمام طالبعلم مجموعی طور پر سفر کی تھکن کے باوجود خوش دکھائی دیتے اور ہم اساتذہ آخری طالبِعلم کے رخصت ہونے کے بعد ہی مرکز سے جاتے۔
ہمیں امید ہے کہ اب بھی یہ مناظر کم و بیش ایسے ہی جاری و ساری ہیں کہ بقول شاعر
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا
جاری ہے