Friday, October 29, 2010

تصویرِ ہمدرداں- اٹینشن، اسٹینڈ ایٹ ایز

اس عنوان سے کافی چہروں پر مسکراہٹ آگئی ہو گی، ہمدرد کے درودیوار بھی یہ الفاظ روازانہ بیسیوں بار سُنا کرتے ہیں۔ ہم ماضی کی طرف پلٹے ہیں تو کچھ درج ذیل مناظر پردہ چشم پر نمودار ہوتے ہیں۔
صبح بسوں سے اترتے ہی طلبہ اپنی اپنی جائے مجمع یعنی اسمبلی ایریا کی جانب لپکا کرتے اور کچھ دل ہی دل میں دُعا کر رہے ہوتے کہ یا اللہ بس تاخیر سےاسکول پہنچائےتاکہ ورزش سے نجات مل سکے۔ مگر ہر دعا اسی دنیا میں یا فوری طور پر پوری نہیں ہوتی لہٰذا چار و نا چار بوجھل قدموں اور بھاری بستوں کے ساتھ گھنٹی بجتے ہی دست بدستہ اپنی اپنی قطاروں میں لگنا پڑتا۔اس پر جھگڑا یہ ہوتا کہ سب سے آگے کون کھڑا ہوگا، کیونکہ سب سے آگے کھڑا ہونے والا طالبِعلم ایک ایسا مجاھد ہوتا جسکا درمیانی فاصلہ مسز گلزار کے تھپڑوں سے کافی گھٹ جاتا تھا جو کہ شناخت پریڈ کے دوران پڑنے کا احتمال رہتا تھا۔
تلاوتِ کلامِ پاک اور قومی ترانے یا دُعائے سعید کے بعد یہ ورزشی نعرہ اٹینشن، اسٹینڈ ایٹ اِیز بلند ہوتا اور بخاری صاحب کی سیٹی اور فوجی آواز پورے اسمبلی ایریا کا احاطہ کرتی کہ گروہِ ہمدرداں اس آواز کو صوتِ صور سمجھتے اور میکانیکی انداز میں حکم کی بجا آوری پر مجبور ہو جاتے۔ ہم اساتذہ کی ذمہ داری ہوتی کہ ہم سب پر نظر رکھیں اور جانچ پڑتال کریں کہ کون ورزش میں ڈنڈی مار رہا ہے۔ اِدھر بخاری صاحب کی آواز ون،ٹُو، تھری،فور، فائیو، سِکس، سیون، ایٹ اور اٹینشن اسٹینڈ ایٹ ایز کا کاشن اور اُدھر اسا تذہ کا ڈر، طلبہ و طالبات اپنی حرکات و سکنات ٹھیک رکھنے کی کوشش کرتے، مگر جیسے ہی کسی قطار سے استاد دور ہوتے ورزش میں بے ایمانی شروع ہو جاتی۔
چند ایک ورزشی انداز کچھ پیچیدہ ہوتے تھے اور قطار میں لگے طلبہ کے مناسب  درمیانی فاصلہ نہ ہونے کے باعث عجیب سی صورتِ حال پیدا ہونے کا خدشہ رہتا تھا۔ طلبہ کی آپس کی تفریح کا اپنا انداز ہوتا تھا، کبھی کبھار ان کے دل کی آواز دبے لفظوں لبوں تک آتی اور ہمارے پردہ سماعت پر ٹکراتی مگر ہمیں بہرے پن کا تاثر دینا پڑتا۔ ابھی بھی ہم اُن دل کی آوازوں کو احاطہ تحریر میں لانے سے قاصر ہیں کہ ان میں چند ایسے مشکل الفاظ استعمال ہوتے تھے جو لانڈھی کورنگی کے کالے پیلے اسکولوں کے طلبہ کو ہی سمجھ آسکتے ہیں۔
 لڑکوں کی قطار میں الگ  طرح کی پھبتیاں جاری رہتیں اور دوسری جانب لڑکیوں کی قطاروں میں دوپٹوں کو سنبھالنے کے ساتھ ساتھ جملے بھی اچھالے جا رہے ہوتے ، احتیاط یہ کی جاتی کہ یہ جملے صرف اپنی قطار والوں کو ہی سنائی دیں۔لڑکوں اور لڑکیوں کی قطاریں جہاں ملتیں وہاں مِلا جُلا رجحان رہتا اور سرحدوں کے دونوں جانب  کبھی واہگہ بارڈر اور کبھی لائن آف کنٹرول کا سماں بندھ جاتا۔
ہیلدی مائنڈ اِن ہیلدی باڈی، دِس ایکسرسائز وِل اسٹرینگتھن یوئر آرمس، ڈُو دِس نَیک ایکسرسائزکیئر فُلی اِٹ اِزویری امپورٹنٹ، یہ اور اس سے ملتے جُلتے جملے سب کو یاد ہوں گے جو مسز گلزار ورزش کے دوران دہراتی رہتی تھیں۔ کیونکہ وہ خود خاصی چاق و چوبند تھیں اس وجہ سے کوئی بھی ورزش خود کر کے دکھا دیا کرتی تھیں اور طالبِعلموں کو ان سے مرعوب ہونا پڑتا تھا، ہمیں ان پر رشک آتا کہ وہ اتنی عمر رسیدہ ہونے پر بھی ورزش کر لیتیں اور ہمارے چند ایک نوجوان اپنے جسموں کو ٹھیک طور پر موڑنے کے قابل بھی نہ تھے۔
سب سے زیادہ سہولت میں مقرر رہا کرتے تھے کیونکہ انھیں ورزش نہیں کرنا پڑتی تھی اور ان کی بدولت باقی بھی سکون کا سانس لیتے کہ تقریر جتنی طویل ہوتی پہلا پریئڈ اتنا ہی چھوٹا ہو جاتا۔طلبہ کی یہ تمنا ہوتی کہ تقاریر روز ہوں تاکہ ایک تو انھیں ورزشی اوقات کم ہونے کا فائدہ ہو اور دوسرا پہلے پریئڈ میں کم پڑھائی کرنا پڑے۔
اس روز مرّہ کی ورزش کے ساتھ شناخت پریڈ بھی ہوا کرتی جس میں گذشتہ کسی شرارت کو ترتیب دینے والے ملزمان پیشِ عدالت ہوتے اور مسز گلزار کے تھپڑ انکی تواضع کرتے یا پھر بخاری صاحب کا کاشن برائے پُش اَپ انکی ریڑھ کی ہڈی کے مہروں کی تعداد انھیں گنواتا۔ کبھی ان کرداروں کو پورے گراونڈ کا چکر لگانے کا حکم بھی صادر فرمایا جاتا۔ اس کورٹ مارشل کے دوران چند ایک محظوظ ہوتے اور چند دل ہی دل میں بخاری صاحب کے گناہوں میں کمی کر رہے ہوتے جبکہ چند  سپوت مزید ایسے کارناموں کےمنصوبے سوچ رہے ہوتے، ان لوگوں کا ایمان ہوتا کہ عزت آنی جانی شے ہے، اگر اسمبلی میں سزا ملی تو کیا ہوا، سب کے سامنے ہیرو تو بنے۔
ان میں ایک آدھ غریب ایسا بھی ہوتاجو مفت میں مارا جاتا، اسکا قصور یہ ہوتا کہ وہ دوستوں کا ساتھ دیتا تھا اور زبان بند رکھتا تھا۔ البتہ اگر کوئی وعدہ معاف گواہ بنتا تو اس کی جان چھُٹ جاتی تھی۔
رمضان کے مبارک مہینہ کی جہاں دیگر بے شمار فضیلتیں اور برکات ہیں وہیں یہ مہینہ تمام طبلہ و طالبات کو بخاری صاحب کے احکاماتِ ورزش سے بھی نجات دلاتا تھا اور سب کی جان بخشی ہو جاتی تھی۔
مذاق اپنی جگہ مگر یہ ورزش اور صبح کی سرگرمی دن بھر طلبہ کو چاک وچابند رکھتی اور جو بس میں سوتے ہوئے آتے وہ بھی ورزش کے دوران بیدار رہتے تھے۔ اور ہمیں یقین ہے کہ ہمدرد چھوڑنے کے بعد تمام طلبہ وطالبات ہمدرد کی اسمبلی کو شدّت سے یاد کرتے ہیں۔ 
یادِ ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
جاری ہے

Thursday, October 28, 2010

تصویرِ ہمدرداں- مقررینِ ہمدرد، گذشتہ سے پیوستہ

زیرِ نظر سطور فارِحہ جمال کی تقریر کے متن کی ہیں جو کل یعنی 27اکتوبر کو ڈھاکہ سینکڈری اسکول میں کی گئی، اِسکا ذکر ہم نے اپنی گذشتہ تحریر میں کیا تھا۔ اس تقریری مقابلہ کا نتیجہ ہم دِل سے قبول کرتے ہیں  اور فارِحہ جمال کو اس میں شرکت پر شاباشی دیتے ہیں-گو کہ ہمدرد اس مقابلہ میں کوئی انعام حاصل نہ کرپایا مگر قارئین اس تقریر سے ہمدرد کے اساتذہ اور مقررین کے میعار کا بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں نیزیہ تقریر انعام کے قابل ہے یا نہیں اسکا فیصلہ ہم قارئین پر چھورتے ہیں۔

"پاکستان کی معاشی بدحالی کا سبب دہشت گردی
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
جنابِ صدر، ہماری یہ پا ک سر زمین جب دنیا کے نقشے پر پاکستان کے نام سے اُبھری تو آہستہ آہستہ ایک ننھے بچے کی مانند پروان چڑھتی گئی اور گزرتے ماہ و سال کے ساتھ ساتھ ہمارے ملک کے لوگوں اور معاشی ترقی میں اضافہ ہوتا گیا۔ کراچی سے لے کر خیبر تک اور کشمیر سےلے کر زاہدان تک ملک کے طول و عرض میں تمام قدرتی وسائل تک رسائی حاصل کی گئی اور انھیں وطن کی معاشی ترقی کی خاطر استعمال میں لایا گیا۔ یوں عام آدمی سے لے کر ملکی سطح پر معاشی استحکام کی فضا پیدا ہوئی۔
اباسین کا ذکر کروں یا چناب کا، راوی کا نام لوں یا جہلم کے پانیوں کا سب نے میرے اس ملک کے کھیتوں کو سیراب کیا اور چمن کے سیبوں سے لے کر ملتان کے آموں میں رس اور ذائقہ بھرا کہ دنیا کی منڈیوں میں یہ ہماری پہچان بنے۔
جنابِ والا یہی حال صنعتوں کا بھی تھا  سیالکوٹ کا فٹبال ہو یا فیصل آباد کا سوتی کپڑا، حیدرآباد کی چوڑیاں ہوں یا کراچی کے شان مصالحے ہماری  برآمدات کااہم حصہ رہے ہیں۔
معدنیات کی بات کروں تو سینڈک کا کرومائٹ اور کھیوڑا کا نمک بھی دنیا میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ قدرتی مناظر کا ذکر دُکھے دل کے ساتھ کروں گی کہ وادئ سوات  اب کسی اور ہی وجہ سے مشہور ہو کر رہ گئی ہے۔ کے ٹُو کو سر کرنے والے اور چترال کے سبزہ زاروں میں آنے والے سیّاح اب اپنے ممالک سے پاکستان کا رخ نہیں کرتے کہ کیا پتہ کب ،کسی خود کش حملہ آور کا شکار ہو جائیں، کسی دہشت گرد کے ہتھے چڑھ جائیں یا نیٹو کے ہیلی کاپٹر سے داغی گئی گولی کا نشانہ بن جائیں۔
جی ہاں صدرِ محترم اب ہم  امن و سکون سے محروم ہو چکے ہیں اور ہمارے بازاروں اور گلی کوچوں میں موت راج کرتی ہے۔ دہشت کے مارے ہم ایک دوسرے پر بھی اعتبار کرنے سے قاصر ہیں۔ ایک مزدور جب صبح گھر سے کام کی خاطر نکلتا ہے تو اس کے اہلِ خانہ اسکے زندہ لوٹ آنے کے دعا گو رہتے ہیں۔ اس جیسی صورتِ حال میں جب ایک عام آدمی حصولِ معاش کی تگ و دو کے ساتھ ساتھ اپنی جان اور مال کے تحفظ کی فکر میں بھی لگا رہے گا تو مجھے بتائیے کہ کیا معاشی طور پر معاشرہ مستحکم ہو سکے گا؟
حضورِ والا آپ کا جواب یقینا نفی میں ہوگا، تو بس اسی وہشت و دہشت کی بدولت ہمارا ملک پاکستان معاشی طور پر بدحال ہے اور بدحال تر ہوتا جا رہا ہے۔
دنیا بھر کے اخباروں میں اُلٹ پُلٹ کر
روزانہ ہی
ایک خبر چھپ جاتی ہے
کل بھی جب اخبار آئے گا
اُس میں بھی بس نام بدل جانے ہیں
مسخ شدہ لاشوں کے چہرے کس نے پہچانے ہیں
انیس ملک اپنے دو کماو بیٹوں کے ساتھ شیرشاہ کباڑی مارکیٹ میں دہشگردوں کی گولیوں کا شکار ہوا، ایک دن میں تیس تیس لاشے اُٹھے، اگلے دن پھر اسی شہر میں دس قتل ہوگئے، پشاور میں نمازی دہشتکردی کا شکار ہوئے تو کوئٹہ میں لسانیات کے نام پر لوگ قتل، ایسے میں کہاں کی معاشیات اور کہاں کی ترقی، ارے جب غربت کے بجائے غریب ہی ختم ہونے لگیں گے تو کارخانوں میں مشینیں اور سڑکوں پر پہیہ کون چلائے گا؟
جنوجی ایشیا کی ایک جائزہ کارتنظیم کے مطابق پاکستان میں سن دو ہزار تین سےا س ماہ کی سترہ  تک یومیہ ۱۰ تا ۱۲ افراد دہشتگردی کی وجہ سے لقمئہ اجل بنتے ہیں۔ صرف سن دو ہزار نو میں گیارہ ہزارسے زائد  اموات دہشتگردی کی وجہ سے ہوئیں۔
لاہور میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر حملہ نے ملک میں کھیلوں کی بدولت ہونے والی معاشی ترقی کے راستے بند کر دیئے ۔  دیگر شہروں  کی طرح  وفاقی دارالحکومت  بھی دہشتگردی سے نہیں بچ سکا اور  ایک بڑے ہوٹل میں موت کا رقص آگ وخون کی ہولی کی صورت میں کھیلا جاتا رہا۔
جنابِ والا مجھے یاد نہیں پڑتا کہ اس ماہ میں ،میں تمام دن اسکول جا پائی ہوں ۔ہر ہفتہ ہی کسی نا کسی وجہ سے تعلیمی ادارے بند ہوتے رہے ہیں۔ داتا دربار، لاہور،عبداللہ شاہ غازی، کراچی اور غلام فرید،پاکپٹن جیسے مزارات بھی اب خطرے کے مقامات بن گئے ہیں مِینا بازار اور شیرشاہ مارکیٹ تو  پھر کاروباری مقامات ہیں۔
تعلیمی ادارے، مدارس، مساجد، بازار، تفریحی مقامات، ڈاک خانے، محلے، گلی کوچے، بس، ریل گاڑیاں حتیٰ کہ پولیس اسٹیشن سب ہی دہشگردوں کے نشانے پر ہیں تو یہ بجا طورر پر کہا جا سکتا ہے کہ میرے ملک پاکستان کی معاشی بدحالی کاسبب دہشتگردی ہے۔
لوری کی رم جھم میں سونے والے بچے،
گولی کی آواز سے ڈر کر اٹھ جاتے تھے
لیکن اب تو لوری  کی رم جھم میں ڈر کر اُٹھ جاتے ہیں
گولی کی آواز پر ہنس کر سو جاتے ہیں
شکریہ "
جاری ہے

ایک غزل

زندگی حالتِ گمنامی میں جو بسر کرتے ہیں
قیدِ دوراں کی رہائی سےبسر کرتے ہیں
زینت محفل کی ہوجانا کچھ بڑی بات نہیں
جھونکے ہوا کے بھی شجر کو ثمر کرتے ہیں
طالبِ مسکراہٹ سے فقط عرض ہے اتنی
ہم،چشمِ نم سے حالِ دل نشر کرتے ہیں
بکھرنا ذات کا اپنی، قابلِ ماتم ہی سہی
اہلِ دل ہر غم پر، صبردرصبر کرتے ہیں
تکمیلِ حصولِ مقصد حاصلِ زندگی جانو
پختہ حوصلے ہی دیوار میں در کرتے ہیں
ہمنشیں چھوڑ دے گر ہاتھ، نہ دل ہاراپنا
تنہا ذات کو اپنی، رب کی نذر کرتے ہیں
نام اسکا نہ پکاریں گے سرِ عام کبھی
عہد نبھا نہ سکیں گے، پر کرتے ہیں
رنج و غم میر نے بھی دیوان کرڈالےکتنے
ہم طریقِ  میر کی دل سےقدر کرتے ہیں

Friday, October 22, 2010

تصویرِ ہمدرداں- مقررینِ ہمدرد

گو کہ اس بلاگ کا ابتدائیہ ہم 6اکتوبر کو 'تقریری مقابلے' کے عنوان سےپوسٹ کر چکے تھےجسے دو ہفتوں سے زائدہوچکے ہیں اور قارئین مکمل تحریر کے انتظار میں رہے، مگر بقول غالب ہوئی تاخیر تو  کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا۔ اور وہ یہ تھا کہ ہم نے اس تحریر کے لئے مواد جمع کرنے کی خاطر چند ایک طلبہ و طالبات اور مسز افشاں سے رابطہ کیا، محترمہ افشاں یاسمین نے ہمیں فوری جواب اور معلومات سے نواز دیا۔ ایک دو طلبہ نے بھی جواب دے دیا مگر ایک آدھ ہماری درخواست کو کلاس میں کیا گیا اعلان سمجھے جوہم رجسٹر یا جرنل جمع کرانےکیلئے کیا کرتے تھے اور انھوں نے بھی وہی سلوک دہرایا جو اسوقت  کیا کرتے تھے کہ جواب نہیں دیا۔ خیر یہ توہم نے ازراہِ مذاق ایک بات کہہ ڈالی، اصل موضوع کی طرف لوٹتے ہیں اور سلسلہ گذشتہ پوسٹ سے جوڑتے ہیں۔
جی ہاں ہمدرد میں جہاں نصاب  کی تکمیل اور روایتی تدریسی انداز اپنائے جاتے تھے وہیں ہم نصابی سرگرمیوں کو بھی یکساں اہمیت حاصل تھی۔ یہاں ہم یہ کہتے چلیں کہ ان سرگرمیوں کیلئے غیر نصابی سرگرمیوں کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے مگر مسز گلزار کے ساتھ ہم نے یہ طے کیا تھا کہ ایسی تمام تقریبات اور ہلچل کو'کو کوریکیئولر' یعنی ہم نصابی ہی کہا جائے گا۔ ان ہی سرگرمیوں میں سے ایک اہم تقریری مقابلہ بھی تھی، جو اسکول و کالج دونوں میں منعقد ہوتی تھی اور طلبہ و طالبات کو مائک پر سب کے سامنے فنِ خطابت کے جوہر دکھانے کا موقع دیا جاتا تھا۔
اسکول میں صبح اسمبلی کے دوران طلبہ و طالبات کو باری باری تقاریر کرنے کو کہا جاتا تھا اور یہ تقاریر اردو و انگریزی دونوں زبانوں میں کی جاتی تھیں۔ اردو و انگریزی کے اساتذہ ان تقاریر کو تیار کرایا کرتے تھے اورطلبہ انہیں حفظ کر کے ادا کر دیا کرتے۔  یہ تو روز مرّہ کی مقامی سرگرمیوں کا معمول تھا مگر ہمدرد کا نام شہر کے مختلف تعلیمی اداروں میں کیسے پہنچا اس کے پیچھے پوری تاریخ ہے۔
اوپر بیان کیا جا چکا کہ روزانہ طلبہ و طالبات کو مائک پر آکر اپنی جھجھک نکالنے کا موقع دیا جاتا تھا تو یہ بات بھی بتانا ضروری ہے کہ اس کام کا آغاز ہمدرد میں نچلی جماعتوں سے ہی کر دیا جاتا تھا یوں جب طلبہ بلاک تھری تک آتے تو انھیں اسقدر اعتماد ضرور ہوتا تھا کہ وہ مائک سے خوفزدہ نہیں ہوتے تھے۔  سن انیس سو اٹھانوے سے پہلے کے حالات تو ہم نے نہیں دیکھے مگر بعد میں ہم نے روزانہ یا ہفتہ وار ایسی تقاریر کی مشق اور مظاہرے ہر بلاک میں ملاحظہ کئے۔
ڈاکٹر دانش حسن زیدی ہمدرد کے ان اوّلین مقررین میں سے تھے جنھوں نے سن دوہزار میں حبیب پبلک اسکول میں ہمدرد اسکول کی  نمائندگی کی، اگلے ہی برس بحریہ کالج میں ہمدرد کالج کی جانب سے اوّل انعام حاصل کیا۔ یوں ہمدرد کی فنِ خطابت میں  فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا جو کم و بیش پوری دہائی پر محیط ہے۔   
غالبا سن  دو ہزار کی بات ہے کہ پہلامقامی  اردو تقریری مقابلہ کالج میں منعقد ہوا جس کا  اہتمام بلاک تھری کی اُوپری منزل کے نو تعمیر شدہ ہال میں کیا گیا تھا۔ ہمیں یاد پڑتا ہے کہ اس مقابلے کے منصفین میں مسز زیدی، مسز نگہت اور خاکسار بقلم خود شامل تھے۔  یہ مقابلہ  مسز افشاں کی اس محنت کا نتیجہ تھا جووہ عرصہ دراز سے فرما رہی تھیں۔ پوری تفصیل تو ذہن میں نہیں آرہی مگر اتنا ضرور یاد ہے کہ اس مباحثہ کا موضوع تھا 'وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ' اور اوّل ،پری میڈیکل کی طالبہ صبیحہ ارم خان قرار پائی تھیں یہ بھی  اب ماشاءاللہ ڈاکٹر ہو چکی ہیں۔ اس مقابلہ کے انعقاد سے متاثر ہو کر میڈم گلزار نے شہری سطح پر ہمدرد  کی جانب سے حکیم صاحب کے نام پر باقاعدہ تقریری مقابلے کے انعقاد کو سالانہ کیلنڈر میں شامل کر لیا یوں حکیم محمد سعید بین الکلیاتی اردو مباحثہ کا آغاز عمل میں آیا۔ اس مقصد کیلئے ایک کمیٹی بنائی گئی جس میں محترم رئیس الدین  اور محترمہ افشاں یاسمین  سرگرم اور اہم ترین ارکان تھے ساتھ ساتھ ہمیں بھی  انگلی کٹائے بِنا ہی شہیدوں یعنی اس کمیٹی میں شامل کر لیا گیا۔
مقررین  میں جو نام ہمارے حافظہ میں ہیں ان میں آصف امتیاز خان، تابش ہاشمی، مر تضٰی شبیر، محمد منیب طارق، مبّشر معین، شائق بشیر،فیصل کریم، عدنان ذاکر، فیضان بشیر، سیّد حسان علی، عثمان حسن خان، اطہر شریف،  صبا صابر خان، جویریہ عثمانی، کلثوم ارشد مغل،  طلال خان،اریبہ عارف، افزا ءصدیقی اور عائشہ خان شامل ہیں، اگر کوئی نام ذکر ہونے سے رہ جائے تو ہم معذرت خواہ ہیں اور درخواست کرتے ہیں کہ تبصروں میں ذکر کر دیا جائے۔ یہ ان لوگوں کے ناموں کی فہرست ہے جنھوں نے شہر کے مختلف تعلیمی اداروں میں ہمدرد کی نمائندگی کی اس میں اسکول و کالج دونوں شامل ہیں۔ ان کے علاوہ روزانہ کی تقاریر میں کم و بیش سبھی طلبہ و طالبات شرکت کیا کرتے تھے۔
یہ مقررین محض اردو میں ہی فنِ خطابت سے آگاہ نہ تھے بلکہ چند ایک تو انگریزی اور اردو دونوں زبانوںمیں اپنے جوہر دکھا چکے تھے۔انعامات اور مقابلوں کی  مکمل تفصیل تو ہمیں یاد نہیں مگر چیدہ چیدہ کا ذکر کرنا چاہیں گے۔ مثال کے طور پر محمد منیب طارق ساتویں جماعت سے ہی مقرر تھے اور ان کے دلائل ماشاءاللہ خود ان کی طرح وزنی ہوا کرتے تھے انھیں ہمدرد اسکول کے مقامی مقابلوں سے لے کر کل پاکستان تقریری مقابلہ جیتنے کا اعزاز حاصل ہے، ان کے ہمعصر مبشر معین اور صبا صابر تھے جو خود بھی ان مقابلوں کے فاتح تھے۔ غالبا پہلی ٹرافی منیب اور مبشر ہی ہمدرد لائے تھے۔  جویریہ عثمانی اور کلثوم ارشد کے انداز بھی بھرپور طورپر خطیبانہ تھے۔ گورنمنٹ ڈگری کالج ناظم آباد میں منعقدہ تقریری مقابلہ میں جویریہ عثمانی اور صبا صابر نے ٹرافی جیتی مقابلے کا موضوع تھا'شکایت ہے مجھے یارب خداوندانِ مکتب سے'۔فیصل کریم نے تو تقاریر میں اسقدر مہارت حاصل کی کہ آجکل وہ ٹی وی چینلز پر بھی تقاریر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ دیگر مقررین میں سے زیادہ تر کو ہمدرد میں منعقدہ  بین الکلیاتی مباحثہ میں بطور قائدین مدعو کیا جاتا تھا اور انکے علاوہ ایک ایک  حاضر طالبِعلم مقرر اعزازی طور موضوع کی موافقت اورمخالفت میں ہمدرد کی ٹیم سے  تقاریر کرتا۔
بین الکلیاتی اردو مباحثہ کا ذکر چل نکلا ہے تو بتاتے چلیں کہ اس کے پیچھے مہینوں کی محنت ہوا کرتی تھی، سب سے پہلے موضوع کا انتخاب کیا جاتا،مقابلے کے قواعد وضوابط مرتب کئے جاتے، پھر میزبان مقررین کی تقاریر کی تیاری کی جاتی، مصنفین کا انتخاب ہوتا اور انکے لئے دعوت نامے لکھے جاتے،تعلیمی اداروں کیلئے دعوت نامے تیار کئے جاتے  اور ہر ادارے تک خود پہنچاِئے جاتے، پھر انکے جواب کا انتظار کیا جاتا جو بہت سے اداروں سے آخری دم تک بھی نہ آتا تھا، پنڈال کی تیاری کی جاتی جو کہ جامعہ ہمدرد کا آڈیٹوریم ہوا کرتا تھا، تقاریر اور چند ایک بڑے شعراء کے کلام کو ترنم کے ساتھ ریہرسل کرایا جاتا، مباحثہ کے دن ہمدرد مرکز سے مقررین کو جامعہ ہمدرد لانے کے واسطے الگ بس چلائی جاتی، مہمانان کے طعام کا بندوبست کیا جاتا۔ یوں ایک طویل عرصہ کی ریاضت تقریری مقابلے کے دن رنگ لاتی اور تقریب کے اختتام کے بعد مسز گلزار کی شاباشی پر ہی سکون کا سانس لینے کو ملتا۔ مقررین طلبہ و طالبات کی محنت اپنی جگہ لیکن اس پورےمنظرنامے کو کامیاب بنانے میں تسلیم، ارشداور لقمان سے لے کر بخاری صاحب تک جُت جاتے تھے۔ہمدرد سے  مہمان مقررین کو بس سے لانے کی ذمہ داری صالح جتوئی کی ہوا کرتی تھی۔ مقررین کو جانچنے کیلئےایک جدول وضع کیا جاتا جس پر منصفین انھیں نشانات سے نوازتے تھے۔ اس کی ذمہ داری محترم رئیس صاحب کی ہوتی اور آخر میں حتمی نتائج کی ہماری گنتی پر ترتیب پاتے۔ طلبہ کی ایک پوری فوج رضاکاروں کے طور پر مرتب کی جاتی جو مہمانان مقررین، اساتذہ، منصفین، مہمانِ خصوصی اور میزبانوں کا خیال کرتی۔ انکی خدمات کے بغیر اس مقابلے کی کامیابی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ محترم سلیم جتوئی بھی ایک اہم فرض انجام دیتے اور وہ وقت کے مطابق گھنٹی بجانے کا تھا جسے بہت سے مقررین ناگوار گردانتے۔ مسز گلزار ابتدائی کلمات سے نوازتیں اور مہمانان کا شکریہ ادا کرتیں۔ آخر میں تقسیمِ انعامات کی تقریب ہوتی اور ٹرافی کے حقدار ادارے کو یادگاری گردشی ٹرافی محترمہ سعدیہ راشد کی موجودگی میں دی جاتی جسکے بعد ظہرانہ کا اہتمام ہوتا تھا۔انتظامی اورداخلی امور میں حسن احمر، طارق ظفراور فاروقی صاحبان پیش پیش رہتے تھے کہ ان کی بدولت شرارتی طلبہ بھی مباحثہ کے دوران دلچسپی سے تقاریر سنتے دکھائی دیتے تھے۔  
اس پوری کاروائی کی یادداشت تحریری صورت میں مرتب کی جاتی اور مسز افشاں اس یادداشت کو اگلے برس کی تقریب کی تیاری کیلئے اٹھا رکھتیں ۔ یوں یہ پورا عمل حتمی انجام کو پہنچتا۔ ہم اس تمام منظر کے عینی شاہد بھی رہ چکے ہیں اور کسی نہ کسی موڑ پر عملی طور پر اس میں حصہ بھی لے چکے ہیں تو بلا مبالغہ کہیں گے کہ اب ہمدرد ایسی تقریب سے محروم ہو گیا ہو گا، کیونکہ اردو تقریری مقابلہ کی روحِ رواں مسز افشاں اب ہمدرد میں نہیں رہیں۔
اوپر مختلف مقررینِ ہمدرد کا تذکرہ کیا جاچکا، اسی ذکر کو مزید آگے بڑھاتے ہیں۔ شائق بشیر بھی ہمدرد کے ایک کامیاب مقرر گزرے ہیں، ان سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق وہ ۲۰۰۳-۰۴ میں چار بار انعام یافتہ رہے،۲۰۰۳ میں بحریہ کالج این او آر ای ون میں اوّل، اگلے برس کامکس میں دوم، ناظم آباد برائے طلبہ میں چہارم اور سینٹ جوزف میں دوم انعامات ان کے حصہ میں آئے۔
اسی برس یعنی ۲۰۰۴ میں جہاں کالج کے طالبِعلم فنِ خطابت میں اپنے کمالات دکھا رہے تھے وہیں نئی پود بھی تیار ہو رہی تھی۔ نہم جماعت کے اسوقت کے طلبہ و طالبات  نے حبیب پبلک اسکول میں ٹرافی جیتی، مقررین تھے طلال خان اور اریبہ عارف اور موضوع تھا 'اٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے'اگلے برس حبیب پبلک اسکول میں ہی ہمدرد نے پھر ٹرافی جیتی، یہ کل پاکستان تقریری مقابلہ تھا جو اردو اور انگریزی دونوں زبانوں کی تقاریرپر مشتمل تھا، انگریزی میں اطہر شریف اور اردو میں اریبہ عارف نے میدان مارا ، اردو کے مقابلے کا موضوع تھا'گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی' ۔ سن دو ہزار چھ میں افزءصدیقی اور اریبہ عارف نے پھر حبیب پبلک میں شہری سطح پر فتح حاصل کی اور 'اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناوں' کے موضوع پر تقاریر کیں۔ عائشہ خان نےجامعہ ہمدرد میں انگریزی میں ان ہی دونوں میں اسکول کی جانب سے تقریر کی جو تمباکو نوشی کے خلاف تھی۔
اریبہ عارف نے ہمدرد کالج کے دو برسوں  میں بھی کراچی کے مختلف تعلیمی اداروں میں اپنی خطیبانہ صلاحیتوں کومنوایا اورکامکس، سرسید کالج، جامعہ سرسید اور ڈی ایچ اے گرلز میں ہمدرد کی نمائندگی کی۔ جس میں ڈی ایچ اے میں انھیں کوئی انعام نہیں ملا اور یہ خاصی حیرت کی بات ہے، شائد اسکی وجہ کوئی جانبدارانہ فیصلہ ہو ورنہ دیگر متذکرہ اداروں میں انھوں نے انعامات حاصل کئے۔
آجکل ڈھاکہ گروپ آف ایجوکیشن کے مالک اظفر رضوی صاحب کے زیرِ انتظام تقریری مقابلوں کا اہتمام کیا جا رہا ہے ان مقابلوں میں بھی ہماری معلومات کے مطابق ہمدرد کے طلبہ و طالبات حصہ لے رہے ہیں جسکی تفصیل بیان کرنے سے ہم قاصر ہیں کیونکہ ہم ہمدرد میں نہیں رہے بس اخبار سے آگاہی ملتی ہے۔
ہمدرد میں اردو تقاریر اور مباحثوں  کی ترقی اور ترویج میں یقینا مسز افشاں ،مس ممتاز فاخرہ اور مسز اسد کے نام لئے جا سکتے ہیں ۔انگریزی تقاریر کی تیاری میں اس زبان کے اساتذہ کی محنت اور دلچسپی شامل ہے جن میں مرحومہ ترانہ عثمانی سے لے کر مسز فوریہ خالد سب کا حصہ ہے۔مجموعی طور پر اردو تقاریر کا پلڑا بھاری رہا ہےاور ماضی کے مقررینِ ہمدرد آج معاشرہ میں علمی طور پر قدم رکھ چکے ہیں یا رکھنے والے ہیں یوں انکی یہ تربیت اور صلاحیت  زندگی کے ہر موڑ پر انھیں فائدہ پہنچائے گی اور وہ گفتار کے ساتھ ساتھ کردار کے غازی بھی بن سکیں گے۔

اس بلاگ کی تیاری میں ہمیں محمد منیب طارق، ڈاکٹر دانش حسن زیدی، شائق بشیر، اریبہ عارف اور مسز افشاں نےمعلومات مہیا کیں  سو ہم تفصیلات کی فراہمی پر ان سب کے تہہِ دل سے مشکور ہیں اوراس بلاگ میں کسی بھی قسم کی کمی یا کوتاہی اپنے ذمہ لیتے ہیں ۔


علی رضا کے مطابق دہم جماعت کی حاضر طالبہ فریحہ جمال ۲۷ اکتوبر کو ڈھاکہ سیکنڈری اسکول میں ایک فی البدیہہ تقریری مقابلے میں حصہ لے رہی ہیں جس میں پانچ میں سے کوئی ایک موضوع اسی وقت چُن کر اس پر تقریر کرنا ہوگی اور اُسی دن ہمدرد میں ششماہی امتحان بھی ہے، ہم ان کے اس مقابلے اور امتحانات میں کامیابی کیلئے دعا گو ہیں ۔
جاری ہے

Sunday, October 17, 2010

تصویرِ ہمدرداں- حکیم محمد سعید

ہم نے اس یادداشت کا آغاز ہمدرد میں گُزرے ایّام کا حال  کُریدنے سے شروع کیا تھا اور اس سلسلے کی پہلی تحریر میں ہی حکیم محمد سعید کا ذکر کیا تھا کیونکہ جس طرح کراچی، شہر ِقائد کے نام سے جانا جاتا ہے ویسے ہی ہمدرد پاکستان اور اس کے تمام ذیلی ادارے  بجا طور پر حکیم صاحب کے نام سے منسوب ہیں۔ اس ادارے کے بانی کے بارے میں کچھ لکھنا خاصا مشکل کام ہے، کہ انکے بارے میں ہمارا کچھ کہنا چھوٹا منہ اور بڑی بات ہوگی۔ ہم ان سے مل پائے اور نہ ہی انکی حیات میں ہمدرد سے  ہمارا کچھ تعلق رہا۔  یہ خلا  اپنی جگہ مگر ہم ان سے اس وقت سے ان دیکھی محبت اور عقیدت رکھتے ہیں جب ہم نے ہوش میں آکر پہلی بارہمدرد نونہال پڑھا۔اُنکی تحاریر اور جاگو جگاو پڑھ کر  ہم تک ان کا پیغام ضرور پہنچا اور اُنکے قلم کی سچائی نے ہمیں اُنکے دل تک پہنچایا۔  
آج اُنکی بارہویں برسی پر ہم  اُنکی تاریخِ پیدائش و شہادت کا ذکر کئے بغیر  اُنکی زندگی کے مقصد اور اسکے حصول کی لگن کا ذکر کرنا چاہیں گے ۔ معاشرہ میں بہتری لانے کیلئے فردِ واحد کا کردارکس قدر اہمیت کا حامل ہوتا ہے اُسکی منہ بولتی تصویر کا نام حکیم محمد سعید ہے۔
آج اگر ہم اپنے ارگرد نظر دوڑائیں  تو ایک نفسا نفسی کا عالم ہے اور ہر کوئی اپنا آپ بچانے اور خود کو معاشی دوڑ میں سبقت دلانے کی کوشش میں سرگرداں ہے۔ ایسے میں سب ہی  ہر طرح کے  مسائل کا ذکر کرتے دکھائی دیتے ہیں اور مجموعی بہتری کی جانب آنا کوئی پسند نہیں کرتا۔ حکیم محمدسعید کی لغت میں شکایت، ناکامی اور مایوسی کے الفاظ نہیں تھے۔ انھوں نے تن تنہا اسی معاشرہ میں ایک کمرے کے دواخانے سے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس ایک کمرے کےمطب نے جو شکل اختیار کی وہ آج سب کے سامنے ہے۔
جب کوئی اس مصرعہ کی تشریح بن جائے کہ
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
اور ایک وسیع بصارت و بصیرت اور درد مند دل رکھتا ہو، اس بات پر یقین رکھتا ہو کہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے، اس شعر کا علمی مظاہرہ کرتا ہو کہ
فیض گر چاہتا ہے فیض کے اسباب بنا
پل بنا، چاہ بنا، مسجد و محراب بنا
بنیادی صحت اور تعلیم کی اہمیت سے آگاہ ہو اور انکی ترقی و ترویج کیلئے کوشاں ہو، بچوں سے ویسی محبت و شفقت کرتا ہو کہ جیسی آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے کی، انسان کو انسان سمجھتا ہو تو فلک برسوں پھرنے کے بعد خاک کے پردے سے  وہ دیدہ ور انسان پیدا کرتا ہے جو حکیم محمد سعید کے نام سے پکارا جاتا ہے اور  ایسے ادارے تشکیل پاتے ہیں جنھیں دنیا   ہمدرد کے نام سے جانتی ہے۔
آج انکی برسی پر جہاں ہم انکے درجات کی بلندی کیلئے دعا گو ہیں وہیں پُر امید ہیں کہ جو چراغ حکیم محمد سعید نے جلایا تھا وہ بجھنے نہ پائے گااورہماری نئی نسل  اپنے اپنے مقامات اور حیثیتوں میں ان کے نقشِ قدم پر چلے گی۔ہمدرد سے  وابستہ ہر طالبعلم و فرد  اُنکی انسان دوستی کے عمل کو جاری رکھے گا اور جب تک یہ عمل جاری رہے گا قدرت ابنِ آدم زمین پر اُتارتی رہے گے چاہےیہ ابنِ  آدم اپنے بھائی  کا خون کرتا رہے- 
موت برحق ہے اور ہر نفس کو اسکا مزہ چکھنا ہے لیکن قاتل شائد یہ نہیں جانتا کہ ایک  حکیم محمد سعید کو موت کی نیند سُلانے سے اُنکا مشن اور اُنکے تراشیدہ ان گنت محمد سعید ختم نہیں ہونے والے۔ احمد فراز نے سچ کہا تھا
کہ رات جب کسی خورشید کو شہید کرے
تو صبح اک نیا سورج تراش لاتی ہے
ہم اپنے پیاروں کی  برسی اور سالگرہ  منانے کیلئے  چراغاں کرتے اور کیک کاٹتے ہیں مگر ہمارے نزدیک حکیم محمد سعید کی برسی یا سالگرہ منانے کا اصل طریقہ یہ ہے کہ ہم انکی طرح بیمار معاشرے  کے نبّاض بنیں اور اپنے ہم وطنوں کے زخموں پر مرہم رکھیں کہ اُنکی روح کواور بھی تسکین حاصل ہو اور ہمدرد اُنکی نجات کا ذریعہ بنے۔
اللہ اُنکی اور ہماری مغفرت کرے اور ہمیں جنت میں ان سے ملائے، آٰمین۔
جاری ہے 

Wednesday, October 6, 2010

تصویرِ ہمدرداں- تقریری مقابلے

جی ہاں، ہمدرد میں جہاں نصاب  کی تکمیل اور روایتی تدریسی  کے انداز اپنائے جاتے تھے وہیں ہم نصابی سرگرمیوں کو بھی یکساں اہمیت حاصل تھی۔ یہاں ہم یہ کہتے چلیں کہ ان سرگرمیوں کیلئے غیر نصابی سرگرمیوں کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے مگر مسز گلزار کے ساتھ ہم نے یہ طے کیا تھا کہ ایسی تمام تقریبات اور ہلچل کو'کو کوریکیئولر' یعنی ہم نصابی ہی کہا جائے گا۔ ان ہی سرگرمیوں میں سے ایک اہم تقریری مقابلہ بھی تھی، جو اسکول و کالج دونوں میں منعقد ہوتی تھی اور طلبہ و طالبات کو مائک پر سب کے سامنے فنِ خطابت کے جوہر دکھانے کا موقع دیا جاتا تھا۔ 
انتظار فرمائیے
مکمل تحریر جلد آرہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Monday, October 4, 2010

انڈا نامہ


امی آج پھر آپ نے شلجم بناڈالے، پتہ بھی ہے آپکو کہ مجھے ان سے چڑ ہے'- 'او ہو بھئی سبزی بھی کھانی' 
   چاہیئے، چلوکوئی بات نہیں ہے انڈا بنا دُونگی تمہیں میں'۔اسطرح کے یا ملتے جلتے جملے کم و بیش ہر گھر میں سننے کو ملتے ہیں اور نجات دہندہ انڈا ہی ہوتا ہے۔ انڈے کا اصل مرغی ہے اور انڈے مرغی کی بحث ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے کہ جو ازّل سے جاری ہے، اس بات سے  ذکرِ انڈا اور اس کی اہمیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

فطری اور سائنسی اعتبار سے انڈا پرندوں، مچھلی اور جل تھلی جانوروں، گھونگے، تمام خزندے یعنی حشرات اور رینگنے والے جانوروں کی مادہ دیتی ہیں ، مگر عرف عام میں انڈے سے مراد مرغی کا انڈا ہی لیا جاتا ہے تاوقتیکہ واضح نہ کردیا جائے۔ انڈے میں دوسیّال ایک ساتھ پائے جاتے ہیں جنھیں ان کے رنگوں کی وجہ سےزردی اور سفیدی کہا جاتا ہے۔
مرغی کا انڈا  غذائی طور پر اپنے اندر تمام اجزاء رکھتا ہے جس میں پچھتر فیصد پانی کے ساتھ توانائی، وٹامن، لحمیات، نشاستہ وغیرہ سبھی شامل ہیں۔اسے میٹھے اور نمکین ہر طرح کے کھانوں میں استعمال کیا جاتا ہےا ور انفرادی طور پر بھی مختلف انداز سے بنایا اور کھایا جاتا ہے۔ اُبال لیں یا تل لیں، خاگینہ بنا لیں یا مرغ کے ساتھ سالن کے طور پر پکا لیں غرض کسی بھی روپ اور ذائقہ میں انڈا اپنی مثال آپ ہے اور انڈا ہی رہتا ہے۔ بچے کھانا کھانے سے کترائیں یا بڑے اُکتا جائیں دونوں صورتوں میں انڈا خدمت کو حاضر ہے۔
انڈے کی یہ سائنسی اور غذائی  خصوصیات اپنی جگہ مگر اس کی سماجی اور معاشرتی اہمیت بھی ہے کھانے کی میز کے ساتھ ساتھ انڈا روز مرّہ کی گفتگو کا حصہ ہے، اردو میں اسکے معنی صفر کے لئے جاتے ہیں اور بیضوی شکل کے بیان کے لئے بھی  انڈا ہی استعمال ہوتا ہے کیونکہ بیضہ عربی میں انڈے کا ہی مترادف ہے۔  انگریزی میں بھی اس شکل پر 'او' موجود ہے، گو کہ یونانی زبان میں یہ تھِیٹا بن جاتا ہے، مگر یہ کسی نہ کسی طور ریاضی، اردو، انگریزی اور دیگر زبانوں میں پایا ضرور جاتا ہے۔
پڑھائی سے دور بھاگنے والے طلبہ و طالبات ہوں یا آزاد میدوارانِ الیکشن، رشوت خور افسران ہوں یا جواری، انڈے سےسب ہی محبت رکھتے ہیں کہ کچھ کو یہ نصیب ہو جاتا ہے اورچند اسکی تمنا میں آہیں بھرا کرتے  ہیں۔ جواریوں اور رشوت خوروں کو یہ کسی بھی ہندے  کے دائیں جانب ہی پسند آتا ہے۔ ہندسوں سے کھیلنے والے اس سے ڈرتے بھی ہیں کہ انڈے سے حاصلِ ضرب خود انڈا اور تقسیم نا قابلِ بیان یعنی لا متناہی ہو جاتی ہے۔
انڈوں کا کھانے اور گفتگو کے علاوہ ایک استعمال جلسوں یا تقریری مقابلوں میں بھی  کیا جاتا ہے، کہ جب سامعین کے مزاج کے برخلاف کوئی بھی بات ہوتی ہے تو مقرر یا لیڈر کی تواضح انڈے سے کی جاتی ہے اور اس کے ساتھ ٹماٹر بھی شامل ہو جاتے ہیں ۔
انڈوں میں چند انڈے گندے بھی ہوتے ہیں  اور ان گندے انڈوں سے ہی اچھے اور صاف انڈوں کی پہچان ہوتی ہے، کہتے ہیں کہ صاف انڈا پانی میں ڈوب جاتا ہے مگر گندہ انڈا نہیں ڈوبتا، چاہے پانی زیادہ ہو یا چُلّو بھر۔
انڈوں کو مصنوعی یا قدرتی طور پر سینے سے ان میں سے چوزے نکل آتے ہیں ، چوزے چوں چوں ضرور کرتے ہیں اور انڈے سے برآمد ہوتے ہی  چلنا شروع ہو جاتے ہیں کہ بقول شاعر
واہ واہ مرغی کے بچے واہ واہ
آج ہی انڈے سے نکلے، آج ہی چلنے لگے
انڈوں کا کاروبار کر کے آپ شیخ چِلّی بھی بن سکتے ہیں گو کہ آخر میں آپ کو ان انڈوں سے ہاتھ دھونا پڑ سکتے ہیں۔ آپ  انڈوں  کا لحاظ کریں یا نہ کریں مگر انھیں  آپ کے جذبات سے کوئی غرض نہیں۔ آخر میں آغا سعید کا ایک نمکین قطعہ یاد آرہا ہے کہ
رکھی تھی میری کاپی میز پر بس ٹیسٹ والے دن
مہینے بھر تک سب اسٹودنٹس پر غصّہ کیا سر نے
پھر اسکے بعد یہ قصہ عجیب معلوم ہوتا ہے
مجھے مرغا بنایا اور انڈا دےدیا سر نے 

Saturday, October 2, 2010

تصویرِہمدرداں - پارٹیاں شارٹیاں

گو کہ اردو کے لحاظ سےاس تحریر کی سُرخی غلط ہے مگر اِس موضوع کا خیال ذہن میں آتے ہی ایسا ہی جوش و ولولہ ہمدرد کےطلبہ وطالبات کے چہروں پر دیکھنے کو ملتا تھا کہ جب ان کی تفریح وطبع کیلئے کسی ایسی تقریب کا اعلان کیا جاتا تھا جس میں وہ پوری طرح شرکت کر سکیں۔ انگریزی کا یہ لفظ پارٹی اپنے اندر معنوی اعتبار سے خاصی وسعت رکھتا ہے  شاید یہی وجہ ہے کہ پارٹی کے دن ہمدرد میں ایسے چہرے بھی دیکھنا نصیب ہو جاتے جو عام دنوں میں بڑی مستقل مزاجی کے ساتھ غیر حاضر رہا کرتے تھے۔
عموما یہ پارٹیاں، اہلِ زبان سے معذرت کے ساتھ ہم پارٹی کو  اردو کا لفظ سمجھتے ہوئےاسےہر طرح سے استعمال کر رہے ہیں،عید ملن یا گیٹ ٹُو گیدر کے نام پر ہوتی تھیں اور ان میں  طالبِعلموں کے وہ جواہر کُھل کر سامنے آتے تھے جن کا اِدراک ہمیں پہلے نہیں ہوتا تھا، کوئی فنِ خطابت کے جوہر دکھاتا اور مائک و اسٹیج پر راج کرتا تو کوئی اداکاری کے نمونے پیش کرتا، کسی کو ناچنے میں کمال حاصل تھا تو کسی کی آواز تان سین کو مات کرتی تھی۔ کوئی نقّال تو کوئی قوّال، غرض یہ کہ تمام طلبہ وطالبات اسٹیج پر یا پسِ پردہ اپنا اپنا حصہ ڈالتے نظر آتے۔
ان تقاریب کا انعقاد ہر ادارے میں ہوتا ہے لیکن ہمدرد میں ان تقاریب کی بات ہی نرالی تھی کیونکہ ان میں کوئی اور شرکت نہیں کرسکتا تھا گو کہ اس بات پر بہت سے گذشتہ طلبہ کو اعتراض بھی ہوتا تھا کہ مسز گلزار انہیں ہمدرد کیوں نہیں آنے دیتی تھیں، مگر دیکھا جائے تویہ بالکل برحق ہے کہ کسی بھی بیرونی عنصر سے ایسی تقاریب کا ماحول خراب ہونے کا اندیشہ ہے کیونکہ گذشتہ طلبہ کے ساتھ انکے چند دوست احباب بھی بِن بُلائے تشریف لے آتے ہیں اور رنگ میں بھنگ ڈالتے ہیں۔ البتہ ہم فارغ التحصیل طلبہ کے لئے الگ سے کسی پارٹی،  بصورت ظہرانہ یا عشائیہ کی تائید کرتے ہیں جو ادارے کی جانب سے منعقد کی جائے۔
یہ پارٹیاں اسکول و کالج دونوں کے طلبہ کیلئے ہوتی تھیں اور کسی بھی قسم کی پارٹی کے اعلان کے ساتھ ہی بلاک تھری میں ایک ہلچل شروع ہو جاتی تھی کہ طلبہ سمیت اساتذہ بھی اس کی لپیٹ میں آئے بغیر نہ رہ سکتے تھے۔  چندہ جمع کرنا، خوردونوش کے سامان کا اندازہ اور  انتظام کرنا، شامیانے اور قنّاتوں کا بندوبست کرنا  وغیرہ،غرض ایک پوری شادی کی تقریب کی تیاری  کا منظر اعلانِ پارٹی کے دنوں میں دیکھنے کو ملتا۔ پارٹی کے پروگرامز کی مشق بھی اس تیاری کا ایک اہم عنصر تھی جس میں بالخصوص خواتین اساتذہ کی خدمات لی جاتی تھیں جن میں کالج اور اسکول سے بالترتیب مس افشاں یاسمین اور مرحومہ ترانہ عثمانی پیش پیش ہوا کرتی تھیں۔
ریہرسل کے نام پر فری پریئڈ بھی ایک تفریح سے کم نہ تھی اور طلبہ وطالبات اس میں فیس بُک وغیرہ سے ہٹ کر بھی آپس میں منسلک ہونے کا بہانہ تلاش کر لیتے تھے۔ ہماری قوّتِ مشاہدہ پرچند  قارئین کو اعتراض ہو سکتا ہےاور چند ایک یہ بھی سوچ سکتے ہیں کہ راقم السطور شاید اپنی جوانی یاد کرتے ہیں اور آہیں بھرتے ہیں کہ اِن کے زمانہ طالبعلمی  میں یہ سب کیوں نہیں تھا  تو ہم کہتے چلیں کہ کچھ بھی سوچنا اُنکا حق ہے  مگر ہم جو مشاہدہ کرتے ہیں بیان کر دیتے ہیں اس پر کسی کو ناگوارِ خاطر گزرتا ہے تو ہم معذرت خواہ ہیں۔
یہ تو وہ سب تھا کہ جو ہمدرد میں ہو رہا ہوتا تھا مگر طلبہ اور خاص طور پر طالبات کے گھروں پر بھی ایک طوفان بپا ہوتا  اور والدین سے فرمائش کی جا رہی ہوتی کہ نئی اور منفرد پوشاک درکار ہے۔ یہ کپڑے عید پر پہنے تھے وہ فلاں کی شادی میں، یہ پوشاک نئی ہے مگر پارٹی کے لحاظ سے مناسب نہیں ہے، کوئی مہندی میں تو نہیں جانا کہ یہ لباس پہنیں۔ یہ اور اسطرح کے  کئی اور  بیانات کم و بیش تمام طلبہ و طالبات کے گھروں میں گونجتے رہتے۔
خدا خدا کرکے پارٹی کا دن آتا اور ایک دن پہلے سے سجے پنڈال میں سب جمع ہوتے۔تقریب کا آغاز کیا جاتا اور تمام پروگرام ترتیب وار پیش کئے جاتے، جن میں مزاحیہ خاکے، اسٹیج شو، گانے، پیروڈی اور ڈانس سبھی کچھ شامل ہوتا۔
 ہماری یادداشت کے مطابق کامرس کے ایک  طالبِعلم انیس نے غالبا سن دوہزار تین میں شوخ سبزرنگ کے لباس میں زنانہ اندا ز میں انتہائی مہارت کے ساتھ رقص  پیش کیا تھا کہ سب ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گئے تھے، کمال کی بات یہ تھی کہ ہرجان انجان انیس کو لڑکی ہی سمجھ رہا تھا۔ اسی طرح چند ایک نام گائیکی کے حوالے سے بھی ذہن میں آرہے ہیں جن میں ایک طالبہ مریم مسعود  کی آواز نہایت سُریلی تھی،  یہ سن دوہزار دو میں انٹر سے فارغ ہوئی تھیں اور اب ایک عدد دو سالہ بیٹی کی اماں ہیں۔انکے علاوہ ایک طالبہ مہوش فریال  کو مسز گلزار نے ایک  پارٹی میں ہمدرد کی لتّا کا لقب دیا تھا۔سن دوہزارپانچ میں اپنے دور کی آخری پارٹی میں عقّیل فاروق اور مسزفرزانہ  اسد کے ساتھ بہترین آواز کے لئے ہم نے منصبی کے فرائض انجام دیئے اور اس مقابلہ میں سال اوّل پری انجینئرنگ کی عظیمہ خان فاتح قرار پائیں۔ اس مقابلہ میں علی  نے ہمیش ریشمیا  کا گانا 'عاشق بنایا ناک میں گایا اور مقابلہ کے اعلان کے بعد ہم سے بحث کی کہ انھیں فاتح قرار کیوں نہیں دیا گیا اب ہم انہیں کیا بتاتے کہ مقابلہ خوبصورت آواز کا تھا کہ جو گلے سے ہی برآمد ہوئی ہو۔
جہاں طلبہ ناچ گانے کا اہتما م کرتے وہیں طالبات بھی ڈانڈیاکی صورت میں اپنے شوق پورے کرتی تھیں اور اس کی ریہرسل خاصی لگن سے کیا کرتیں کہ پارٹی کے روز اُن کی کارکردگی  میں کوئی کمی نہ رہے۔ ایک گروپ نے توغیر مخلوط پارٹی کے دوران محبتیں فلم کے ایک  گانے پر اور ایک اور گروپ نے شرارہ شرارہ پر اپنے اپنے ادوار  میں اِس آتشِ شوق کو بجھایا۔ یہ والی غیر مخلوط پارٹیاں اسکول کے طلبہ و طالبات کے لئے منعقد ہوئی تھیں کالج والے اس سہولت سے مستثنٰی تھے۔
ان پارٹیوں کے دوران اور بعد میں چند افراد ناراض بھی ہو جاتے جس کی وجہ تقریب کے دوران بیان کردہ کوئی جملہ یا شعر ہوتا جو انہیں ناگوار گذرتا، مگر ہم یہ جانتے ہیں کہ طلبہ کا مقصد قطعی کسی کو ذاتی تنقید کا نشانہ بنانا یا کسی کی دلشکنی کرنا ہرگز نہیں ہوتا تھا۔ان ہی رویّوں سے بچنے کی خاطر مسز گلزار نے اساتذہ کو ٹائٹل دینے پر پابندی لگا دی تھی۔
پارٹیوں میں کھانے کا اہتمام بھی خوب ہوتا۔ عام طور پر بریانی اور مشروبات کا دور چلتا تھا، مگر ایک سال کباب پراٹھوں کا انتظام بھی کیا گیا جو خاصہ کامیاب رہا۔
کہا جاتا ہے کہ کیمرے کی آنکھ سے کوئی نہیں بچ سکتا اور اس بات کا عملی مشاہدہ ہم نے بارہا ان پارٹیوں کے دوران کیا بھی۔ ان مشاہدات کی تفصیل کے لئے الگ سے ایک بلاگ لکھنا پڑے گا کہ کِس نے کِس کو کِس زاویہ عدسہ سے کِس رنگ ڈھنگ سےکب کب دیکھا کہ بقول شاعر
یہ کِن نظروں سے تُو نے آج دیکھا
کہ تیرا دیکھنا، دیکھا نہ جائے
جاری ہے