آج سے 133 برس قبل شہرِصنعتِ سامانِ کھیل، سیالکوٹ میں ایک ایسی شخصیت نے آنکھ کھولی جسے اپنی دور بیں نگاہوں سے برِصغیر کے مسلمانوں کو ایک خواب منتقل کرنا تھاکہ جس خواب کی تعبیر ملکِ خداداد کی صورت سن انیس سو سینتالیس میں ہمیں ملی۔ ہم بات کر رہے ہیں حضرتِ علامہ محمد اقبال کی جو بجا طور پر ایک فلسفی، مُفّکر، شاعراور وسیع قلب ونظررکھنے والے انسان تھے۔
اُن کے حالاتِ زندگی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں لہذا اُنکی زندگی پر بحث کی بجائےآج انکی سالگرہ کے موقع پر اُنکو خراج تحسین پیش کرنے کی خاطر ہم اُنکی غزلیات پر بات کریں گے جو اُنکی نظموں کے برعکس کچھ پس منظر میں چلی جاتی ہیں۔ شکوہ اور جوابِ شکوہ بلاشبہ معرکۃالآراء نظمیں ٹھہریں اور انکا مقابلہ فنی اور معنوی اعتبار سے کسی بھی شاعر کے کلام سے کیا جا سکتا ہے ، بچوں کی دعا اور ہمدردی بھی زبانِ زدِ خاص و عام ہیں مگر غزلیاتِ اقبال بھی اپنے اندر اسقدر گہرائی و گیرائی رکھتی ہیں کہ قاری اگر شاعر کے نام سے ناواقف ہو توانھیں غالب یا اُن جیسے کسی بلند خیال شاعر کے تخیل کا نتیجہ سمجھے گا۔
ہمارے بیان میں صداقت کا اندازہ ذیل میں درج چند اشعار سے کیا جاسکتا ہے۔
ہو دید کا جو شوق تو آنکھوں کو بند کر
ہے دیکھنا یہی کہ نہ دیکھا کرے کوئی
اس شعر میں بیک وقت درد اور غالب کا رنگ جھلکتا دکھائی دے رہا ہے۔
جس طرح میر نے رنج وغم جمع کر کے دیوان کئے تھے، اقبال بھی ان کے ہمنوا نظر آتے ہیں، فرماتے ہیں کہ
مرے اشعار اے اقبال کیوں پیارے نہ ہوں مجھے
مرے ٹوٹے ہوئے دل کے یہ درد انگیز نالے ہیں
ہستی اور عدم کی تکرار کا حسین امتزاج اس شعر میں ملتا ہےاور ساتھ ہی سہل ممتنع کی عکاسی بھی ہوتی ہے
کوئی اب تک نہ یہ سمجھا کہ انساں
کہاں جاتا ہے،آتا ہے کہاں سے
غالب خود کو طُور پر لے جانے کی ضد کرتے تھے، اقبال نے اسی بات کو نہایت خوبصورتی سے کچھ یوں بیان کرڈالا
کھنچے خودبخودجانبِ طُور موسٰی
کشش تیری اےشوقِ دیدار کیا تھی
میر نے ہستی کو حباب کہا تو اقبال نے اسے شرر سے مشابہت دی ،کہتے ہیں
آیا ہے تُو جہاں میں مثالِ شرار دیکھ
دَم دے نہ جائے ہستیِ ناپائدار دیکھ
واعظ ہر شاعر کے نشانے پر رہتا ہے اور ہر شاعر اس کی درگت بناتا دکھائی دیتا ہے، یہاں بھی اقبال کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔
اُمیدِحور نے سب کچھ سِکھا رکھا ہےواعظ کو
یہ حضرت دیکھنے میں سیدھے سادے بھولےبھالے ہیں
بیانِ ہجر و وصال میں بھی اقبال نے اندازِ لطافت اپنائے رکھا اور کچھ اس طور ان دونوں ادوار کو وقت سے ناپا ہے کہ طبیعات کی روح سے ہم نظریہء اضافیت کی تشریح اس شعر میں پاتے ہیں
مہینے وصل کے گھڑیوں کی صورت اڑتے جاتے ہیں
مگر گھڑیاں جُدائی کی گرزتی ہیں مہینوں میں
کسی نے اقبال سے پوچھا تھا کہ عشق کی انتہا کیا ہے توفرمایا کہ عشق کی کوئی انتہا نہیں، سائل بولا کہ آپ تو عشق کی انتہا کا تقاضا کرتے ہیں، فرمایا کہ جناب پورا شعر ملاحظہ فرمائیں،
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
اللہ پر یقین رکھنا اور ایمان لانا بھی کوئی اقبال سے سیکھے کہ خالی دامن رکھنے کےباوجود بھی اسکی رحمت سے مایوس نظر نہیں آتے، فرماتے ہیں
کوئی یہ پُوچھے کہ واعظ کا کیا بگڑتا ہے
جو بےعمل پہ بھی رحمت وہ بےنیازکرے
عظمتِ آدم اور ملائک پر اسکی برتری کا ثبوت جہاں درد اور غالب کے ہاں ملتا ہے کہ دامن نچوڑنے پر فرشتے وضو کرتے ہیں اور گستاخی فرشتہ شانِ آدم میں ناپسندیدہ گردانی جاتی ہے وہیں اقبال لب کشائی کرتے ہیں
ہے مری ذلّت ہی کچھ میری شرافت کی دلیل
جس کی غفلت کو مَلک روتے ہیں وہ غافل میں ہوں
حضرت رابعہ بصری کے حولے سے ایک حکایت بیان کی جاتی ہے کہ وہ ایک دن جنت اور دوزخ کواس نیت سے ختم کرنے چلیں کہ لوگ جزا اور سزا کی وجہ سے اللہ کی عبادت نہ کریں بلکہ رب کو رب ہونے کی بدولت پُوجیں۔ اقبال اسی فلسفہ کو ایک شعر میں سموتے ہیں
سوداگری نہیں، یہ عبادت خداکی ہے
اے بے خبرجزا کی تمنّا بھی چھوڑ دے
اس شعر کا مضمون اپنی مثال آپ ہے کہ
تُو بچا بچا کے نہ رکھ اسے، ترا آئنہ ہےوہ آئنہ
کہ شکستہ ہو تو عزیر تر ہے نگاہِ آئنہ ساز میں
ہم نے صرف بانگِ درا سے چنداشعار منتخب کئے ہیں جو اقبال کے ابتدائی دور کی غزلیات پر محیط ہیں۔ اقبال پر ابتک بہت کچھ لکھا جا چکا ہےاور اقبالیات ایک علیحدہ مضمون کی حیثیت رکھتا ہے، ہماری یہ ننھی سی کاوش اقبال سے محبت کا ایک حقیر سا نذرانہ ہے جو ہم انکے نام کرتے ہوئے قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں کہ شائد کسی اقبال پسند کے دل میں ہماری بات اتر جائے۔
ڈھونڈتا پھرتا ہوں اےاقبال اپنے آپ کو
آپ ہی گویا مسافر آپ ہی منزل ہوں میں