Wednesday, December 22, 2010

بچوں کی تقاریر

اپنے بچوں کو اُنکے اسکول کی طرف سے دی گئی تقاریر کی تیاری کیلئے اس بلاگ میں بالترتیب صاحبزادے محمدعلی اورصاحبزادی وجیہہ فاطمہ کی تقاریر کا متن دیا جارہا ہے۔ قارئین بھی اپنے اردگرد کسی بچے کو ان موضوعات پر تقاریر تیار کروانے میں ان سے مدد لے سکتے ہیں۔
نوٹ: یہ تقاریر اُنکےاساتذہ کی تخلیق ہیں جو کے-جی اور دوم درجوں کیلئے لکھی گئی ہیں ،ہم محض انھیں یہاں پیش کر رہے ہیں۔  

علی کی تقریر
محترمہ پرنسپل صاحبہ، معزز اساتذہ کرام اور میرے پیارے ساتھیو
اسلام علیکم
مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ، زبان، منہ اور جسم کے تمام اعضاء لاالہ کا ورد کرتے ہوں، جس کے دل، سینے اور جگر میں اللہ کا عشق جاگتا ہو۔
ہمارے تمام اعضاء اللہ تعالٰی کے مالک ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔ اچھا مسلمان وہی ہے جو اپنے رب کو اپنے اندر بسا لیتا ہے۔ جب اذان کی آواز سنائی دے تو مسجد کی طرف دوڑتا ہے، رمضان کے مہینے میں اُس ایک رب کیلئے بھوکا پیاسا رہتا ہے جو دنیا جہان کا مالک ہے۔
میں نے تیری آنکھوں میں پڑھا ہے اللہ ہی اللہ
سب بھول گیا ہوں  یاد ہےبس اللہ ہی اللہ
شکریہ

وجیہہ کی تقریر
محترمہ پرنسپل صاحبہ، قابل اساتذہ کرام اور میرے پیارے ساتھیو
اسلام علیکم
آج جس موضوع پر میں آپ کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہ رہی ہوں وہ ہے صفائی۔
میرے عزیز ساتھیو، ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہمارے لئےبہترین نمونہ ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناصرف خودصاف ستھرے رہتےتھے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ صفائی نصف ایمان ہے۔ اس کا یہ مطلب  ہے ساتھیوکہ اگر ہم صفائی کا خیال نہ رکھیں تو ہمارا آدھا ایمان ایسے ہی ضائع ہوجائےگا۔
میرے عزیز ساتھیو،صفائی سے مراد صرف جسمانی صفائی نہیں بلکہ اردگردکے ماحول کوصاف رکھنابھی ہماری ذمہ داری ہے۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنا چاہوں گی کہ قدرت نے انسان کی طبیعت میں نفاست اور صفائی رکھی ہے، اس لئے سب کو وہی لوگ اچھے لگتے ہیں جو صاف ستھرے ہوں۔
آخر میں اپنی تقریر کا اختتام اس شعر پر کرنا چاہوں گی
صفائی وپاکی ہے مومن کے ایمان کا حصہ
جو خیال نہیں رکھتےوہ اہلِ ایمان نہیں ہوتے
شکریہ

Sunday, December 19, 2010

انوکھا ساتھی

وہ جب سے اِس فوجی ہسپتال میں داخل ہوا تھا باہر کی دنیا سےکٹ کر رہ گیا تھا۔ اسکا وجود خود اس کے اختیار میں نہ تھا اور دو بستر کے  اس چھوٹے سے کمرے میں قیدتھا کہ جہاں نرس اسکی تیمارداری کرتی اور دوا وغیرہ پلاتی تھی۔وارڈ بوائے دو ساتھیوں کی مدد سے ہر دوسرے دن اسکے بستر کی چادر بدلتے تھے اور ڈاکٹر ہر چھ گھنٹوں کے بعد اسکا معائنعہ کرتے اور دوا تجویز کرتے۔ اسکے دستہ کے جوان بھی اسکی عیادت کو آتے تھے۔ بظاہرسب معمول کے مطابق تھا مگر امن مشن کے اس فوجی ہسپتال میں کوئی اپنا اسکا پُرسانِ حال نہ تھا کیونکہ وہ اپنے گھر اور وطن سے دُور دیارِ غیر میں خدمات انجام دے رہا تھا۔ فرائض کی ادائگی کے دوران اسے اسقدر گہری چوٹ آئی تھی کہ اسکا پوراجسم مفلوج ہو گیا تھا اور وہ فقط اپنی گردن ہلاسکتا اوربات چیت کرسکتا تھاگویااُسکا ذہن مکمل طور پر ٹھیک تھا اورجسم اپاہج۔

باہر کی دنیا سے اسکا تعلق اس کمرے میں ایک ہی کھڑکی کی بدولت تھا جو دوسرے بستر کی جانب تھی اور اس سے آنے والی ہوا اور پرندوں کی چہچہاہٹ سے اسے زندگی کا کسی حد تک اندازہ ہوتا تھا۔ زندگی کہ جو کبھی اس نے بھی گزاری تھی اس کسمپرسی کی حالت سے بہت بہتر تھی۔ اب تو وہ محض اس زندگی کا تصور ہی کر سکتا تھا اوراپنی جسمانی حالت کی وجہ سے  کافی مایوس ہو چکا تھا۔ طرح طرح کے وسوسے اسے تمام وقت گھیرے رہتے کہ کبھی وہ اپنے پیاروں سے مل بھی سکے گا یا انکے دِیدار کے بِنا ہی اسے اس دنیا سے جانا ہوگا، اسکی ریڑھ کی ہڈی کا آپریشن کیا گیا تھا اور ڈاکٹر اسے تسلیاں تو دیتے کہ وہ ٹھیک ہو جائے گا مگر اسے یہ ساری تسلیاں اور دلاسے جھوٹے لگتے تھے۔ وہ اپنے اندر جینے کی اُمنگ کو ہی مار بیٹھا تھا۔
اسکے یہاں آنے کے  چند دنوں کے بعد اسکے کمرے میں ایک اور مریض کو لایا گیا یہ بھی فوجی تھا جو کہ اسی کی طرح غیر مقامی تھا اور اسکا ہم وطن بھی نہ تھا۔ اس نئے مریض کو دوسرے بستر پر جگہ ملنے سےاسے  ایک غمگسارمیسر آگیا۔اس نئے مریض کی دائیں ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی جس پر پلستر چڑھا تھا اور یوں وہ چل پھر نہ سکتا تھا، نیا مریض کافی خوش مزاج تھا اور بہت اچھی اچھی باتیں کرتا تھا۔ دونوں کی جلد ہی دوستی ہو گئی۔ نیا مریض اسے روزانہ نت نئے قصے سناتا اور اسکا جی بہلاتا تھا۔ اس کی کھڑکی سے باہر کی دنیا کو دیکھنے کی حسرت کو بھی اس نئے مریض نے پورا کردیا تھا  کیونکہ نیا مریض اسے باہر کا منظر کسی کرکٹ کے کھیل کے رواں تبصرے کی طرح سناتا تھا " سامنے والے پارک میں مجھے بچے کھیلتے دکھائی دے رہے ہیں، مجھے انکی آوازیں تو نہیں آرہی ہیں مگر انکے چہروں کی چمک اور لبوں کی مسکراہٹ صاف دکھائی دے رہی ہے۔اِدھر ایک جوڑا بیٹھا آسکریم کھا رہا ہے اور اُدھر ایک ماں اپنے ننھے سے بچے کو گیند سے کھیلنا سکھا رہی ہے"
یہ اور ایسے کئی مناظر اس میں آہستہ آہستہ جینےکی  امنگ کو بیدار کرتے اور اِس نئے مریض کی باتیں اسکے ذہن پر خوشگوار اثر ڈالتیں۔یوں وقت گزرتا رہا اور اس کی حالت میں بہتری آتی گئی، اب وہ اپنی قوتِ ارادی کو کام میں لانے لگا تھا اور کسی قدر ہاتھ اور پاوں ہلا جلا سکتا تھا، مگر کمر کو نہیں موڑ سکتا تھا اور نہ ہی بستر سے اُٹھ سکتا تھا۔ ڈاکٹر پُر اُمید اور خوش تھے کہ وہ تیزی سے بہتری کی جانب جا رہا تھا۔ اسکا ساتھی نیا مریض بھی چند دنوں میں اپنے وطن بھیجا جانے والا تھا کیونکہ اسکے  ہم وطن فوجیوں کے دستے کو انکی حکومت نے واپس بُلا لیا تھا۔ ایک صبح جب وہ بیدار ہوا تو نئے مریض کو ساکت پایا، کمرے میں  نرس  اور وارڈ بوائے موجود تھے جنھوں نے اسکے منہ پر چادر ڈال دی ۔ اِس نے نرس سے دریافت کیا کہ اسکے ساتھی کو کیا ہوا تھا،نرس نے اسے بتایا کہ اچانک حرکتِ قلب کے رکنے سے اس نئے مریض کی موت واقع ہو گئی تھی، یہ خبر اسکے لئے ناقابلِ یقین تھی کہ ابھی رات ہی تو دونوں باتیں کرتے رہے تھے اور اب صبح اچانک ایسا ہو گیا تھا۔
اسکا کمرہ پھر سےخالی ہو گیا اوروہ دوبارہ تنہا ہو گیا تھا، مگر اب اسکی جسمانی حالت مزید بہتر ہو چکی تھی اور وہ اپنا اوپری جسم تکیے لگا کر اُٹھانے کے قابل تھا اور ہسپتال کے آہنی پلنگ کی ٹیک کا سہارا لے سکتا تھا۔ اسکی درخواست پر اسے کھڑکی کے ساتھ والے بستر پر منتقل کردیا گیا، بستر پر آنے کے بعد اس نے جیسے ہی کھڑکی سے باہر کا منظر دیکھا تو اسے  وہاں کوئی پارک دِکھا نہ کھیلتے بچے، وہاں تو محض گھنے درختوں کا جنگل تھا  جس سے پرندوں کی چہچہاہٹ آتی تھی۔اس نے نرس سے کہا کہ اسکا ساتھی تو اسے کھڑکی سے باہر کا منظر بتایا کرتا تھا نرس اسے حیرت سے تکنے لگی اور بولی "اوّل تو یہاں کوئی پارک نہیں ہے دوسرا یہ کہ تمہارا ساتھی مریض اپنی بینائی کھو چکا تھا، جنگی حادثے میں ایک گولہ لگنے سے اسکی آنکھوں کی بینائی جاتی رہی اور اونچائی سے گرنے کی وجہ سے وہ اپنی ٹانگ تُڑوا بیٹھا تھا"۔  ختم شُد
(ماخوذ)

Saturday, December 18, 2010

چاول خوروں کے نام

چاول کو متروک لغت میں چانول بھی کہا جاتا تھا، مگر اب اسے 'ن' کے بغیر ہی ادا کیا جاتا ہے۔ تاریخ دانوں کے مطابق اسکی کاشت کا آغار ہندوستان یا چین میں ہوا۔ اسکا  نباتاتی نام اورِیزا سَتِیواہےاور یہ اس پودے کا بیج ہوتا ہے۔ اسے اردو میں دھان بھی کہتے ہیں۔ غذائی اعتبار سے اِس میں اَسی فیصد نشاستہ، گیارہ فیصد پانی، سات فیصد لحمیات،ایک فیصد غذائی ریشہ اور بقیہ دیگر عناصر اور مرکبات شامل ہیں۔ اس تفصیل کے بیان کرنے  کا مقصد قارئین کو کوئی  نباتاتی سبق پڑھانا نہیں ہےبلکہ چاول کی اہمیت اور چاول خوروں کی اس سے محبت بیان کرنا ہے یہ غذائی حقائق تو محض تمہید کے طور پرتحریر کر دیئے گئے ہیں۔
پاکستان چاول کی کاشت اور صارفین کے اعتبار سےدنیا کے بارہ بڑے  ممالک میں شامل ہے۔لگتا ہے کہ ملکہ فرانس نے اپنی قوم کو چاول کھانے کا مشورہ دیا تھا کہ جسے بعد میں تاریخ دانوں نے کیک اور برگر سے بدل ڈالا۔ چاول خوشی اور غم دونوں طرح کی تقاریب میں یکساں مقبول ہے، پڑوس میں میّت ہو یا خاندان میں شادی، بچے کا عقیقہ ہو یا حج کی دعوت، کسی کی نسبت ٹھہری ہو یا کسی کے نکاح کی تقریب ہو دسترخوان، چاول کے بنا نامکمل ہے۔
اقسامِ طعام میں بھی اسکا کوئی ثانی نہیں ہے، میٹھااورنمکین دونوں طرح سے بنایا جا سکتا ہے۔ زردہ، کھیر، فِرنی،پلاو، بریانی، متنجن کچھ بھی بنا لیں اور مزے سے کھائیں۔گڑ والے چاول بھی اگر سادہ دہی کے ساتھ کھائے جائیں تو عجب لطف دلاتے ہیں۔
گُزرے وقتوں میں جب کسی کے پاس اچانک دولت آتی تھی تو وہ نَو دولتیابھی میٹھے چاولوں کی ضیافت دیا کرتا تھا، مگرآجکل تو ٹی وی کی بدولت ماہرینِ باورچی خانہ، جنھیں اردو میں خانساماں اور انگریزی میں شیف کہا جاتا ہےدیگر اقسام کے طعام کے ساتھ ساتھ چاول پر خاص طور پر ہاتھ صاف کرتے ہیں اور ایسا کوئی نہ کوئی پکوان ضرور ایجاد فرماتے ہیں جس کا ذائقہ بعد میں ناظرین کے گھر والوں کو بھگتنا پڑتا ہے اور کسی غلطی کی وجہ سے  چاولوں کا ضیاع الگ ہوتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ جب مغلیہ سلطنت  دہلیزِ زوال پر تھی اسوقت بھی مغلوں کے دسترخوانوں پردیگر پکوانوں کے علاوہ  بیسیوں طرح کے پکوان محض چاول کے ہی ہوتے تھے۔ گویا چاول حکومتوں کو زوال پذیری کی جانب دھکیلنے کا ایک سبب بھی ہیں۔
ہمارے ہاں سندھ میں گرمیوں میں ہم نے اپنے سندھی بھائیوں کو سندھڑی آم کے ساتھ بھی سادہ چاول کھاتے دیکھا ہے، اور ماضی کے مشرقی پاکستان کے باسی کس قدر چاول  پسند ہیں اس سے سب ہی بخوبی واقف ہیں کہ ہمارے یہ بنگالی بھائی مچھلی کے ساتھ چاول کھاتے ہیں۔
چند گھروں میں ظہرانہ ،دال اور چاول کےبغیر نا مکمل ہے اور چند افراد جن میں ہمارےکچھ دوست بھی شامل ہیں اسقدر چاول پسند اور خورے ہیں کہ ان کے ساتھ رہنے والے مہینے کی تاریخوں کا حساب بھی  چاول سے لگاتے ہیں کہ آج اٹھارہ روز سے گھر میں چاول بن رہے ہیں تو ضرور مہینہ کی بھی اٹھارہ تاریخ ہی ہو گی۔
شروع میں ہم نے یہ بتا دیا تھا کہ چاول میں نرا نشاستہ بھرا پڑا ہے تو اگر آپ چاول خورے ہیں تو پھر دُبلے ہونے کا خیال ذہن سے نکال دیں اور چاول کھائے چلے جائیں۔ ہم نےسُنا ہے کہ پُرانا چاول زیادہ لذیزہوتا ہے مگر ہمارے گھر میں چاول بچتا ہی کب ہے کہ پرانا ہو اور لذیز ہو سکےاور گوداموں سے تو ویسے بھی برآمد ہوکر کہیں سے کہیں پہنچ جاتا ہے سو ہم اس خیال سے روزانہ چاول نہیں کھاتے کہ کہیں مستقل قسم کے چاول خوروں کی دلشکنی نہ ہو۔ اُمید ہے کہ اس تحریر سےچاول خوروں کے جذبات مجروح نہیں ہوں گے۔

Wednesday, December 8, 2010

سن 1432ھ کےآغازپر

تمام عالمِ اسلام کو سال ہجری سن چودہ سو بتیس کی آمد مبارک ہو۔ اس نئے قمری برس میں اللہ تعا لٰی سے ہماری دعا ہے کہ تمام عالمِ اسلام کو اخوت ،امن اور سلامتی کے جذبات سے مالا مال کرے اور ہمیں اپنی گمشدہ میراث حاصل کرنے کی توفیق عطا کرے کہ جس کو گنوانے کی وجہ سے ہم ثرّیا سے زمین پر دےمارے گئے ہیں۔

سالِ نو کا آغازمحرم الحرام سے ہوتا ہے جبکہ اختتام ذوالحجہ پر۔ ان دونوں مہینوں میں کئی قدریں مشترک ہیں، دونوں ماہِ حرام ہیں اورایک ساتھ ملےہوئے ہیں، ذیل میں ان مہینوں کا ایک تقابل پیش کیا جارہا ہے۔
سال کا آخری مہینہ بھی قربانی،پہلا بھی قربانی
وہ بھی ماہ کی دس تاریخ کو، یہ بھی ماہ کی دس تاریخ کو
وہ بھی نبی کا لعل ،یہ بھی نبی کا لعل
اُنکی یادبھی مناتے ہیں، اِنکی یاد بھی بُھولا نہیں سکتے
 وہ ذبیح ِعظیم، یہ شہیدِعظیم
اُنھوں نے خواب نبھایا، اِنھوں نے وعدہء طفلی نبھایا
وہ صبر کی ابتدا، یہ صبر کی انتہا
وہ کعبہ کے بنانے والے، یہ کعبہ کو بچانے والے

حضرتِ اسمعیل علیہ اسلام کی فرمانبرداری کو کس خوبصورتی سے اقبال نے بیان کیا ہے کہ  
یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسمعیل (علیہ اسلام) کو آدابِ فرزندی

 آخر میں حضرت امام حُسین کو ہم ان الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں
ہر ابتداسے پہلے اور ہر انتہا کے بعد
ذاتِ نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) بلند ہے ذاتِ خدا کے بعد
 دنیامیں احترام کے قابل ہیں جتنے لوگ
میں سبکو مانتا ہوں مگر مصطفٰی(صلی اللہ علیہ وسلم) کے بعد
قتلِ حُسین (رضی اللہ تعالٰی عنہ) اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

Sunday, December 5, 2010

اپنے پانچ سالہ بیٹے کے نام

ہوسکتا ہے کہ قارئین کو یہ بلاگ بچگانہ لگے،مگر وطن سے دُور رہ کر اس خط کے ذریعہ اپنے پانچ سالہ بیٹے کو کچھ سمجھانےکی کوشش کی ہے۔

پیارے بیٹے محمد علی
اسلام علیکم
آج میں آپ کو ایک خط لکھ رہا ہوں جو آپ خود سے پڑھنا، اگر کوئی لفظ آپ سے نہ پڑھا جا سکے تو وجیہہ یا امی آپ کی مدد کریں گی۔ آپ روزانہ اسکول جاتے ہو اچھا سا پڑھتے ہو تو مجھے بہت خوشی ہوتی ہے کہ علی ایک نیک بچہ ہے اور سب اس سے پیار کرتے ہیں۔
اب میں  آپ کو ایک بات بتاتا ہوں کہ سڈنی میں جب ہم کچرا جمع کرتے ہیں توکاغذ، پلاسٹک، کانچ اور دوسرا کچرا الگ الگ رکھتے ہیں۔ یہاں پر کچرے کے بڑے بڑے ڈرم ہوتے ہیں جو لال اور پیلے رنگ کے ہوتے ہیں۔ لال رنگ کے ڈرم میں کوئی سابھی کچرا ڈال سکتے ہیں جس میں پھلوں کے چھلکے اور تھیلیاں وغیرہ ہوتی ہیں۔ پیلے رنگ والے ڈرم میں کاغذاور پلاسٹک وغیرہ ڈالتے ہیں کیونکہ یہ چیزیں دوبارہ فیکٹری میں استعمال کے قابل بنائی جا سکتی ہیں۔
سب لوگ اپنے گھر کا کچرا اس طرح کے ڈرموں میں ہی ڈالتے ہیں اور ہر پیر کو کچرے والا ٹرک ان ڈرموں کو خالی کرتا ہے۔ اس ٹرک کے اندر لوہے کے دو بڑے بڑے بازو لگے ہوتے ہیں اور ایک موٹر کی مدد سے یہ ٹرک خود ہی کچرے کا ڈرم اٹھا کر خالی کرتا ہے اور خالی ڈرم کو پھر سے محلے کے لوگ بھرتے ہیں۔ اس طرح یہ ٹرک ہر ہفتہ آتا ہے اور کچرا جمع کرتا ہے۔
ہم سب کو اپنا اپنا کچرا خود جمع کرنے کی عادت ہوگی تو ہم اپنا گھر اور محلہ صاف ستھرا رکھ سکیں گے اور ہمارے رہنے اورکھیلنےکودنے کی جگہ اچھی لگے گی۔ آپ بھی ٹافی، چپس اور کھانےپینے کی چیزوں کے کاغذ اور تھیلیاں خود سے کچرے کے ڈبے میں ڈالا کریں۔
اگلے خط میں مزید باتیں ہوں گی۔
اللہ حافظ

Thursday, December 2, 2010

شاعری کا جواب شاعری سے

ہماری ایک پرانی شاگردہ ماہ رُخ انصرخان جوکہ اب میڈیکل کی طالبہ ہیں، شاعری سے خاصا شغف رکھتی ہیں اور اکثر کچھ نہ کچھ کہا کرتی ہیں۔درج ذیل شاعری بھی انہی کی ہے اور اسکے بعد ہم نے اس کا جواب لکھنے کی جسارت کی ہے۔ ماہ رُخ نے اپنی اس کاوش کا عنوان 'شکوہ' رکھا ہے تو ہم نے 'جوابِ شکوہ' پیش کیا ہے۔
ہم دونوں استاد وشاگردہ شاعری کے قواعد سے نابلد ہیں پر اپنی سی جیسی تیسی کوشش کی ہے،قارئین سے گزارش ہے کہ ہماری شاعری کو برداشت کریں اور ماہ رُخ کی حوصلہ افزائی فرمائیں۔شکریہ

شِکوہ
دلِ حساس کو دیا زخم پھر اک اور نرالا
رہا نہ کوئی سہارا نہ ہی پوچھنے والا
مضطرب ہے یہ دل کسی زندان میں
اے خدا بڑے سنگدل ہیں لوگ ترے جہان میں
 گزر رہی تھی زیست پرسکون، اپنی رفتار سے
نہ تھی کوئی فکر، نہ ہی شِکوہ گردشِ دوراں سے
گیا وہ چین وسکوں کسی کی بدمست نگاہ میں
اے خدا بڑے سنگدل ہیں لوگ ترے جہان میں
 گزر جاوں جو حدِغم سےتو رونے نہیں دیتا
عجیب شخص ہے جو راحت کے دو پل بھی جینے نہیں دیتا
چاہوں جو دُوری، تو الجھ جاتی ہوں یادوں کے حصار میں
اے خدا بڑے سنگدل ہیں لوگ ترے جہان میں
 چاہا جو سنبھلنا تو سہارا نہیں دیا
طوفانِ حوادث میں کوئی کنارا نہیں دیا
بجھ گئیں سب مشعلیں راہِ دشوار میں
اے خدا بڑے سنگدل ہیں لوگ ترے جہان میں
 تڑپتا رہا یہ دل،کوئی ہمدرد نہ پایا
شبِ غم ہوئی طویل، مژدہءآفتاب نہ پایا
تھی آنکھ پُرنم اور لب خاموش گوشائے تنہائی میں
اے خدا بڑے سنگدل ہیں لوگ ترے جہان میں
 وہ جورہا تھا دُور رحم ووفا کےسبھی تقاضےتوڑ کے
مری چاہتوں کوکیا فراموش تمام وعدے توڑ کے
ہُواقتل تمناوں کا اسکے عہدِجنون میں
اے خدا بڑے سنگدل ہیں لوگ ترے جہان میں
 ایک ادھوری سی حکایت زیرِلب باقی ہے
وحشتوں کے اس سفر کا مداوا بھی باقی ہے
'ماہی' کچھ نقش خلش بن کر بسا کرتے ہیں دِلوں میں
اے خدا بڑے سنگدل ہیں لوگ ترے جہان میں

جوابِ شکوہ
 دلِ حساس کو ہر دم تری یاد نے سنبھالا
ترا احساس ہے سدا دل میں بسنے والا
رہتاہوں میں ہر پل ترے دھیان میں
اے خدا بڑے سنگدل سہی لوگ ترے جہان میں
گزر رہی ہے زیست پرسکون، اپنی رفتار سے
غم جاں گرچہ ہے،نہیں شِکوہ لیل ونہار سے
مری قسمت، ہوئی مژگاں وہ نگاہ ایک آن میں
اے خدا بڑے سنگدل سہی لوگ ترے جہان میں
خیال ترا مجھے کہیں کھونے نہیں دیتا
ہو جلوت کہ خلوت کسی کا ہونے نہیں دیتا
رکھتا ہے ہردم ساتھ مجھے لامکان میں
اے خدا بڑے سنگدل سہی لوگ ترے جہان میں
چاہا اگربھٹکنا بھی تو ٹھکانا مجھے ملا
طوفانِ حوادث میں کنارا مجھے ملا
ترے وجودکی لَو ہےمرےجذبہ ایمان میں
اے خدا بڑے سنگدل سہی لوگ ترے جہان میں
ترےسواجہاں میں کوئی ہمدرد نہ پایا
تاریکیءشبِ غم کو خیالِ یار نےچمکایا
آنکھوںسے تُواُتراہےدل میں، دل سے پھرجان میں
اے خدا بڑے سنگدل سہی لوگ ترے جہان میں
گوآگیاہوں دوراپنوں کووطن میں چھوڑکے
ممکن نہیں یہ فاصلہ جُڑےدلوں کو توڑدے
مرا یقین ہے کامل اسی آس اسی گمان میں
اے خدا بڑے سنگدل سہی لوگ ترے جہان میں
زیست کے جام میں ابھی مئےباقی ہے
وحشتوں کےسفر میں ساتھ اپنے ساقی ہے
محرومیوں کوسجا رکھتے ہیں ہم طاقِ نسیان میں
اے خدا بڑے سنگدل سہی لوگ ترے جہان میں