Thursday, September 29, 2011

کوالالمپور میں تین پہر، دوسرا اور آخری ٹکڑا

یہ ٹیکسی ڈرائیورصاحب دراصل چینی تھے اور نام ولیئم تھا، ہم نے ان سے پیٹروناس ٹاور اور مسجد سلطان صلاح الدین عبدالعزیز دیکھنے کی خصوصی فرمائش کی۔ انھوں نے موخر الذکر پر معذرت کر لی کہ وہ ہمارے راستے سے قدرے ہٹ کر تھی مگر شہر دکھانے کا وعدہ کیا۔
ملائیشیا بھی ہماری طرح فرنگی آقا رکھتا ہے اور اس کا یومِ آزادی ۳۱اگست کومنایا جاتا ہے اس وجہ سے شہر بھر میں ہمیں وہاں کے قومی پرچموں کی بہار دکھائی دی۔ ہم نے ریل کےہیڈ کوارٹر سے اپنی آورہ گردی کا آغاز کیا اور ٹیکسی میں چڑھتے اترتے اور تصاویر کھینچتے گئے۔ ٹیکسی ہمارے ہاں کی طرح کی عام گاڑی نہ تھی بلکہ چھ نشستوں پر مشتمل تھی۔
ہم نے ٹیکسی ڈرائیور سے خاصی دوستی کر لی تھی اور انھیں فرمائش کی کہ کہیں دیسی قسم کا ناشتہ کروا دیں وہ ہمیں اندرون شہر لے گئے اور کراچی کی برنس روڈ سے ملتی جلتی جگہ پر جاکر ٹیکسی روکی۔ یہاں مسلم ناموں کے کافی چھپڑ ہوٹل تھے ہم ایک ہوٹل میں گھسے تو یوں لگا کہ ایمپریس مارکیٹ کراچی سے ملحق کسی چائے کا ہوٹل ہو۔ 'استاد' یعنی ہوٹل والے سے انگریزی میں بات کی اور پوچھا کہ ناشتہ میں کیا ہے تو انھوں نے جواب دیا کہ پراٹھہ وِد پلس، ہم نے پوچھا وچ ون تو گویا ہوئے کہ مونگ، اندھا کیا چاہے دو آنکھیں سو ہم نے فوری طور پر دو پراٹھوں کا آرڈر دے ڈالا کیونکہ دال تو مفت تھی ساتھ ہی اپنے لئے آم کا رس اور ذیشان کے لئے پیپسی بھی منگوائی۔ ناشتہ کرکے یوں لگا کہ ہم کافی حد تک پاکستان پہنچ چکے ہیں۔ہوٹل کی آب و ہوا بھی خاصی دیسی دیسی سی تھی۔ ناشتے سے فارغ ہو کر بھر آوارگی کا سلسلہ شروع کیا اور پیٹروناس ٹاور، کوالالمپور ٹاور، شہر کا قدرتی ماحول کا چڑیا گھر، قدیم و جدید عمارات اور سڑکیں دیکھ ڈالیں۔ کہیں ہمیں یہ شہر کراچی جیسا دکھتا تو کہیں سڈنی کی طرز کا غرض یہ کہ یہ بستی بستے بستے بسی ہوگی لیکن اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ یہ مشرق و مغرب  کا حسین امتزاج نظر آیا۔ اسکی وجہ یہاں کے لوگ تھے جن میں خواتین بالخصوص یا تو سر ڈھکے دکھائی دیں جو ان کے مسلمان ہونے کی نشانی تھی تو کہیں  سر وں سے رِدا کے ساتھ ساتھ کافی کچھ کم تھا۔
کیونکہ صبح کا وقت تھا تو ہر عمر، رنگ و نسل کے لوگ دکھائی دئیے، جن میں اسکول جانے والے طلبہ و طالبات سے لے کر دیہاڑیدار طبقہ سبھی شامل تھے۔مختصر یہ کہ شہر واسی پوری طرح بیدار ہوکر دن کا آغاز کر چکے تھے۔
پیٹروناس ٹاور پر تصاویر لیتے ہوئے ہمیں وہاں کے چوکیدار نے سیٹی سے نوازا کیونکہ ہم جذباتی ہو کر ایک اونچے چبوترے پر چڑھ گئے تھے جس پر چڑھنا منع تھا۔
حسبِ معاہدہ ہم نے ولیئم سے ۹ بجے کے لگ بھگ ہوائی اڈہ چلنے کو کہا۔ انھوں نے ٹیکسی بڑی شاہراہ پر لے لی۔ مقامی زبان کا ایک لفظ ہم اس دوران رومن انداز میں سڑکوں کے ناموں سے سیکھ چکے تھے اور وہ تھا 'جلن' جسکے انگریزی ہجے جے اے ایل اے این تھے اور اسکے معنی سڑک یا شاہراہ کے ہیں۔ اب جناب یہ ہوائی اڈہ تھا کہ مسلسل چالیس منٹ ہائی وے کی حدِ رفتار پر چلنے کے باوجود آکر ہی نہیں دے رہا تھا۔ ہم نے ٹیکسی کے میٹر پر نظر ڈالی جو ولیئم نے شاید ہمیں جتانے یا اپنے اندازے کے لئے چلا دیا تھا تو پتہ چلا کہ انھوں نے ہمیں ایئرپورٹ کا جو کرایہ الگ سے بتایا تھا وہ بالکل ٹھیک بتلایا تھا۔ خدا خدا کر کے پچاس منٹ کے بعد ہم ہوٹل کی پارکنگ میں تھے اور ہمیں اندازہ ہو گیا تھا کہ ہم شہر کا پورا چکر لگا آئے تھے کیونکہ ریل سے جاتے ہوئے ہم شمالی سمت میں گئے تھے اور واپسی پر سڑک جنوب سے آرہی تھی۔ ہم نے ولیئم کو پورا کرایہ مع کچھ بخشش کے ادا کیا اس پر انھوں نے ہمارا نہایت احسان مندی سے شکریہ ادا کیا۔
ہم نے ہوٹل کو خیر باد کہا اور ہوائی اڈہ پیدل ہی چل پڑے ،کیونکہ ہم نے اب تک کوئی خریداری نہ کی تھی تو وہاں کی مارکیٹ دیکھنے کا ارادہ کیا، ویسے بھی پرواز میں اڑھائی گھنٹے رہتے تھے۔ ابتدائی حصے میں کچھ بھاو اور اشیاء کے معیار کا اندارہ کیا اور پھر ویزا کاونٹر کی جانب چل پڑے وہاں سے خودکار ریل لی اوربین الاقوامی آمد و روانگی کے دروازوں کی جانب جا پہنچے۔ یہاں بھی بازار خاصا پھیلا ہوا ہے جسے ہم علی الصبح بند دیکھ چکے تھے۔ یہاں کچھ خریداری کی اور برگر کنگ کا مشہور برگر پیک کروا لیا۔ اس دوران ذیشان ہم سے بچھڑ چکے تھے اور ہم بھی آوارہ گردی میں گھڑی دیکھنا بھول گئے۔ برگر کنگ نے نکلے تو پتہ چلا کہ بارہ بج چکے ہیں، بھاگم بھاگ جہاز کی سرنگ کی جانب پہنچے اور جہاز میں داخل ہوئےتوذیشان کو نشست پر پایا، اپنا سامان ترتیب دیا تو انھوں نے بتایا کہ ہمارے ناموں کا اعلان دو بار کیا جا چکا تھا اور وہ یہ سوچ کر جہاز پہ چلے آئے کہ ہم ان سے پہلے اعلان سن کر پہنچ چکے ہوں گے۔
خیر ہمارے جیسے اور بھی دو صاحبان تھے جن کے نام پکارے جاتے رہے اور بالآخر ساڑھے بارہ بجے مسافران کی گنتی پوری ہوئی، مگر جہاز نے اڑان ایک بجے کے قریب بھری اور ہم فضا سے شہر کا مشاہدہ کرنے سے قاصر رہے کیونکہ ہم بیچ کی چارنشستوں والی ترتیب پر براجمان تھے۔ ہاں اتنا ضرور دیکھا کہ ہمارے ایک پاکستانی بھائی نے ہوائی میزبان کے نہایت مہذبانہ انداز میں ٹوکنے کے باوجود بھی موبائل پر بات کرنا بند نہ کی یہانتکہ وہ بیچاری اس امید پر چل دیں کہ جہاز کے فضا میں بلند ہونے پروہ حضرت باز آ جائیں گے، مگر آفرین ہے ان صاحب پر کہ وہ اس وقت تک موبائل پر بات کرتے رہے جب تک کہ ایک خاص بلندی پر موبائل کا زمینی رابطہ ختم نہ ہو گیا۔
ختم شُد 

Wednesday, September 21, 2011

کوالالمپور میں تین پہر، پہلا ٹکڑا

امسال رمضان کے آخری عشرہ میں ہم وطن کے لئے عازمِ سفر ہوئے تو ہوائی سفر کی پیشگی ٹکٹ حاصل کرلی۔ گذشتہ دو برسوں سے ہم سڈنی میں ہی مقیم تھے اور یہیں اس بلاگ کی بنیاد بھی رکھی تھی۔ اب کی بار ہمارا یہاں سے واپس جانا ایسا ہی تھا  کہ جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے یعنی کہ دو سال کے وقفہ کے بعد وطنِ عزیز میں زندگی کے معمولات وہیں سے اختیار کرنا تھے یہاں موقوف ہوئے تھے۔ اس لئے ہماری خوشی اس قیدی جیسی تھی جو طویل قید کے بعد اپنوں سے ملنے والا ہوتا ہے۔ اس واپسی کے سفر میں ہم نے کیونکہ ملائیشیا کی ہوائی جہاز کی کمپنی یعنی ملائیشیئن ایئرلائن کا ٹکٹ خریدا تھا اس وجہ سے ہمارا مختصر قیام دارالحکومت کوالالمپور میں تھا۔ہمارے دوست فراز احمد خان کی بدولت ہمیں اس مختصر قیام کے لئے ہوٹل پین پیسیفک میں ہوائی کمپنی کی جانب سے  کمرہ مل گیا تھا کیونکہ انھوں نے ٹریول ایجنٹ سے سفارش کی تھی۔
ہمارا جہاز جب کوالالمپور کے ہوائی اڈہ پر اترا تو صبح کے چار بجا چاہتے تھے، فضا سے شہر خاصا جدید دکھائی دیا، مگر کیونکہ ابھی صبح کا سپیدہ نمودار نہیں ہوا تھا اس وجہ سے ہم شہر کے طول و عرض کا بخوبی اندازہ نہ کر سکے۔ہوائی اڈے پر اترنے کے بعد ایک خودکار ریل کے ذریعے بین الاقوامی آمد کے خروج پہ پہنچے، یہاں  پروانہ راہداری یعنی ٹرانزٹ ویزا لگوایا، خاتون افسر نے چار دنوں کا ویزا جاری کردیا۔ اسی دوران ذیشان راشد ہم سے آن ملے، یہ سڈنی والی پرواز میں بھی ہمارے ہمسفر تھے مگر ہماری ملاقات ان سے نہ ہو سکی تھی۔موصوف کراچی سے ہی تعلق رکھتے ہیں، ہمارے ایک عدد شاگردیحیی شعیب  کے افسر ہوا کرتے ہیں اور ان کے ساتھ میلبورن میں ایک ہی گھر میں رہائش پذیر ہیں۔ ان سے ہماری ملاقات ہمارے میلبورن کے دورہ جولائی میں ہوئی تھی۔ ان کی صورت میں ہمیں کوالالمپور میں عارضی قیام  کا ایک ساتھی میسر آ گیا۔ہم  دونوں کا قیام مندرجہ بالا ہوٹل میں ہی تھا تو ویزا لگوانے کے بعد ہوٹل کی چھوٹی گاڑی میں بیٹھ کر ہوٹل پہنچے جو ہوائی اڈہ کے ساتھ ہی تھا۔ ذیشان کا کمرہ پانچویں اور ہمارا آٹھویں منزل پر تھا۔ کمرہ کیا تھا گویا ایک جوڑے کے لئے آسائشوں سے بھر پور مسکن تھا کہ جسکا غسل خانہ بھی کراچی کی منی بسوں سے زیادہ کشادہ معلوم ہوتا تھا۔ کمرہ میں دو عدد پلنگ مشرقی دیوار کے ساتھ لگائے گئے تھے بیچ میں ایک میز تھی جس پر لیمپ دونوں پلنگوں کے لئے دیئے گئے تھے، کمرہ کا داخلی دروازہ جنوبی سمت تھا اور شمال میں ایک شیشے کی کھڑی دیوار کا کام دیتی تھی۔ اسکے ساتھ دو آرام کرسیاں اور ایک گول میز رکھی تھی  مغربی دیوار کے ساتھ کھڑکی کی جانب لکھائی کی میز مع کرسی تھی اور اسکے ساتھ سامسنگ کا اسمارٹ ٹی وی ایک میز پر رکھا تھا جس کے نیچے پورا نعمت خانہ موجود تھا، اس میں چائے کافی کا سامان مگ اور برقی کیتلی رکھی تھی۔ دروازے کے دائیں جانب الماری مع سیف اور کپڑوں کے لٹکانے کے اہتمام کے ساتھ موجود تھی جس میں جوتے رکھنے کی جگہ اور استری سب کچھ دیئے گئے تھے۔
ہم نے کمرہ میں آتے ہی غسل کیا اور تازہ دم ہوگئے، چائے بنا کر پی جسکا مزہ الگ ہی لگا، سفر میں ہونے کی وجہ سے ہم نے غالب کے بقول روزہ بہلانا شروع کردیا تھا۔ ٹی وی دیکھا اور فجر کی اذان سنی نماز ادا کی جسکے لئے روم سروس سے جائے نماز بھی منگوائی۔ انٹرنیٹ استعمال کیا اور قریبا چھ بجے کے بعد نیچے اترے اور ذیشان کے ساتھ ہوائی اڈہ سے چلنے والی ایکسپریس ٹرین کے اسٹیشن کی جانب چل پڑے۔ اس ریل کا پتہ ہمیں سڈنی میں محترم محمد سمیع نے دیا تھا کہ جو کوالالمپور میں ایک وقت گزار چکے ہیں۔ اس دوران ہم نے کرنسی بھی بدلوا لی اور  ریل کے ٹکٹ خریدے۔ یہ ایکسپریس  ٹرین بنا رکے مرکزِ شہر  کا فاصلہ محض اٹھائیس منٹ میں طے کرتی ہے  اور ہر پندرہ منٹ بعد دونوں جانب چلتی ہے۔ریل کے بارے میں پتہ نہ چل سکا کہ خودکار ہے یا نہیں مگر اتنا ضرور پتہ چلا کہ آسٹریلیا کی ریل کو اس ایشیائی ملک کی ریل نے مات دے دی تھی، نہ صرف یہ کہ رفتار اور اندرونی ساخت جدید تھی بلکہ اس میں فور جی وائی فائی سروس مہیا کی گئی تھی اور پوری ریل میں بوگیوں کی الگ ہیئت معلوم نہ ہوتی تھی، ساتھ ہی اس میں ٹی وی اسکرینز آویزاں تھیں۔
جب ہم مرکزِ شہر کے اسٹیشن پر اترے تو سات بج چکے تھے اور سورج نمودار ہوچکا تھا۔ ہمارا ارادہ تھا کہ ہم دو گھنٹوں میں شہر میں آوارہ گردی کرکے ہوائی اڈے چلے جائیں گےاور کچھ وقت وہاں کے بازار میں گزاریں گے کیونکہ ہمیں کوالالمپور سے کراچی کا بورڈنگ پاس پہلے ہی مل چکا تھا لہذا چیک ان کا مرحلہ درپیش نہ تھا۔
اسٹیشن پر ایک بہت بڑا ٹیکسی اسٹینڈ تھا جس پر مختلف کمپنیوں کی ٹیکسیاں موجود تھیں ۔ ہمیں غیر ملکی دیکھ کر ٹیکسی والے ہاتھوں ہاتھ لینے لگے، مگر ہم نے کاونٹرسے کرایہ کی بابت معلومات حاصل کیں اور ساتھ ہی اپنا ارادہ بھی بتلا دیا کہ ہماری کی رضا تھی۔ وہاں موجود صاحب نے ہمیں مشورہ دیا کہ ہم کسی ٹیکسی والے سے کرایہ طے کرلیں اور آوارہ گردی کا شوق پورا کرلیں۔ ہم نے ان کے مشورہ پر عمل کرتے ہوئے ایک پکی عمر کے ٹیکسی ڈرائیور سے بات کی جو کہ ہماری گفتگو سن رہا تھا اور ان دونوں نے مقامی زبان میں بات بھی کر لی تھی۔ خیر ہم نے ان سے کرایہ طے کیا اور ہوائی اڈے کا بھی بتا دیا، تھوڑا بہت بھاو تاو کرنے کے بعد ہم نے اپنے سفر کا آغاز کیا۔
جاری ہے

Wednesday, August 31, 2011

سر مُنڈاتے ہی

مسلسل دو برس دیارِغیر میں گزارنے کے بعد جب بندہ وطن آتا ہے تو وطن کےلوگوں سے لے کر آب وگیا تک سب خوبصورت و حسین لگتے ہیں مگر آہستہ آہستہ حقیقت کھلنے لگتی ہے اور یہ ادراک ہوتا ہے کہ'خوب تھا کہ جو دیکھا، جو سنا افسانہ تھا'۔ قصہ کچھ یوں ہوا کہ چند دن پہلے ہم ایک قدرے نئی انٹرنیٹ سروس پروائیڈر کے ہتھے چڑھ گئے اور قریب کی ایک دوکان سے وائی فاوئی ڈیوائیس  خرید لی۔ بتایا گیا کہ دو گھنٹوں میں انٹرینیٹ سروس شروع ہو جائے گی اور ہم آن لائن ہوسکیں گےمگر صاحب پورے تیس گھنٹوں اور سات عدد موبائل کالز کہ جو اس کمپنی کو کی گئی تھیں کے بعد یہ عقدہ کھلا کہ جو  ڈیوائیس ہمیں وائی فائی کے نام پر بیچی گئی تھی وہ در حقیقت ایک ڈیسک ٹاپ ڈیوائیس تھی اور دکاندار نے ہمیں کراچی کی زبان میں چونا لگایا تھا۔ ایک تو رمضان، دوسرے ہمارا مسلمان ہونا اور تیسرے پاکستانی اور وہ بھی ایسا پاکستانی کہ جو ابھی ابھی گوروں کے دیس سے دو برس بعد لوٹا ہو ہم پر ایک ایک کر کے اس طرح منکشف ہوئے جیسے پڑوسی ملک کے چینلز پر چلنے والے ڈراموں کے دوران صوتی اثرات اور موسیقی کی ترتیب۔ غصہ شاید نہایت چھوٹا لفظ ہے جو ہماری دلی کیفیات کی ترجمانی کر سکے۔ وہ ڈیوائیس دوکاندار کو شکریہ کے ساتھ واپس کی اور الگے دن  اسی کمپنی کے ایک سیل سینٹر جا نکلے کہ ہمیں بھی ضد ہو چلی تھی کہ اسی کمپنی کا نیٹ استعمال کرنا ہے وہاں جاکر اپنی دکھ بھری ببتا سنائی کہ ہم دودھ کے جلے ہیں مگر چھاچھ پینا چاہتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ پھونک مارنے کی نوبت نہیں آئے گی، ہماری داستان سن کےوہاں موجود حسینہ قدرے شرمندہ ہوئیں اور ہمیں دلاسہ دیا کہ وہ یہ نوبت نہیں آنے دیں گی، مگر اساتذہ نے سچ کہا ہے کہ حسینوں کے وعدوں کا اعتبار نہیں کرنا چاہیئے۔ ہم ان سے مطلوبہ ڈیوائیس اور ان کی بات پر ایمان بھی لے آئے مگر انٹرنیٹ سروس کے چالو ہونے کے لیئے ہمیں آٹھ گھنٹے انتظار کرنا پڑا اور وہ بھی دو عدد مابائل کی کالز کے خرچہ پر تب کہیں جاکر ہم اس قابل ہوئے کہ یہ سطور آپ تک پہنچا سکیں۔
اب آپ ہی بتائیے کہ کیا اس پورے واقع میں شامل افراد کے اس طرح کے 'حسنِ سلوک' کے ذمہ دار ہمارے ملک کے سیاستدان ہیں یا ہم بحیثیت قوم ہی وعدہ خلافی، دھوکا دہی اور غلط بیانی میں مبتلا ہو چکے ہیں اور یہ زحمت بھی گوارا نہیں کرتے کہ خود کو سدھار لیں یا کم از کم اپنے کئے پر شرمندہ ہی ہو جائیں۔  

Friday, July 1, 2011

آسٹریلیا کا پہلا سفرِ ہوائی

بہت سے ایسے کام جو ابتک آسٹریلیا میں انجام دینے سے رہ گئے تھے ان میں ایک ہوائی سفر بھی شامل تھا۔ سو مالی سال کے روزِ اول کو یعنی آج یہ کام بھی کر ڈالا۔ مقصد پر بعد میں روشنی ڈالیں گے فی الوقت صرف حالاتِ سفر پیشِ خدمت ہیں۔
ہمارے دوست سید فراز علی سے بلاگ کے قارئین بخوبی واقف ہیں ان کی جہاں اور بہت سی بیان کردہ اور ناقابلِ بیان خصوصیات ہیں وہیں ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہ سامان سفر باندھنے جسے انگریزی میں پیکنگ کہتے ہیں میں بھی خاصے ماہر ہیں۔ سو ہم نے انھیں اپنے سفرِ میلبورن کے لئے سامان باندھنے  کی پیشگی فرمائش کر رکھی تھی۔ انھوں نے بخوشی اس کی ہامی بھری اور ہمارا بیگ تیار کرایا، کپڑوں کو اس طرح خوبصورتی سے تہہ کیا کہ انھیں نکالنے اور رکھنے میں بھی آسانی رہے اور بیگ کی گنجائش میں بھی فرق نہ پڑے۔ اس مرحلہ سے نمٹنے کے بعد اگلا معاملہ تھا ایئرپورٹ روانگی۔ سو ایسے مواقع پر عزیزم محمد عمران اور انکی ہنڈا اکارڈ کام آتی ہے کہ دفتر جاتے ہوئے وہ ہمیں ایئرپورٹ چھوڑتے گئے۔ جب ہم  سڈنی کے ڈومیسٹک ٹرمینل نمبر دو میں داخل ہوئے تو صبح آٹھ بجکر بائیس منٹ ہو رہے تھے اورورجن نامی آسٹریلیائی ہوائی کمپنی کا یہ ٹرمینل مسافروں سے پُر تھا۔ شکر ہے کہ ہم نے اپنا بورڈنگ پاس آن لائن ہی چھاپ یعنی پرنٹ کرلیا تھا لہٰذا سامان جمع کرانے والی قطار میں لگ گئے اور چکر کھاتی اس قطار میں تماشائے اہلِ کرم دیکھتے رہے۔
اس ملکی اور بین الاقوامی ہوائی کمپنی سے روزانہ ہزارہا لوگ سفر کرتے ہیں اور اسکی وجہ یہ ہے کہ ملک کے طول و عرض میں جہاز کا سفر ریل کے مقابلے میں سستا پڑتا ہے۔ اور کبھی کبھار تو سیل کے چکر میں آپ کو ایک جانب کے کرایہ پر آنے جانے کایعنی ریٹرن ٹکٹ  بھی مل جاتا ہے۔
ہم اپنی باری کے آنے پر ایک حسینہ کے سامنے کاوئنڑپر جا کھڑے ہوئے اور اپنا بورڈنگ اور جامعہ کا شناخت نامہ نکال کر پیش کیا، اس حسینہ نے سفری بیگ کا وزن کر کے اور ایک پیشہ ورانہ مسکراہٹ کے ساتھ ہمیں اس کی رسید تھما ئی اور ہمیں لاونج میں جانے کا عندیہ  دیا۔ آگے بڑھے تو جینز کی بیلٹ اتارنا پڑی اور لیپ ٹاپ کو بیگ سے نکال کر ٹوکری میں رکھنے کا حکم ملا۔ خیر یہ مرحلہ بھی طے ہوا۔ جب ہم مطلوبہ گیٹ پر پہنچے تو اسوقت نو بجکر پانچ منٹ ہوئے تھے اور دیوار پر لگی سکرین سے پتہ چلا کہ ہماری سوا نو بجے والی پرواز اب ساڑھے نو بجے روانہ ہوگی، اس پر ایک عجیب سی خوشی محسوس ہوئی کہ چلو کہیں تو گورے بھی ہمارے جیسے نکلے۔
کیونکہ پرواز میں ابھی وقت تھا تو ہم نےگوروں کے ہوائی اڈے کے بازار میں مٹر گشت  کیا- لاری اڈے اور ہوائی اڈے کے مناظر کم وبیش ایک جیسے ہی ہوتے ہیں، لاری اڈے پر آپ کو بسوں کے کنڈکٹر اپنی جانب کھینچتے ہیں تو ہوائی اڈے پر یہی کام حسینوں کی قد آور تصاویر سے لیا جاتا ہے کہ جو ہوائی جہاز کے ساتھ مسکراتی دکھائی دیتی ہیں۔ لاری اڈے پر ایک اڈا منیجر قابض ہوتا ہے تو ہوائی اڈے پر ایئر ٹریفک کنٹرولر، غرض دونوں کی اصل ایک ہی ہے اور انسان محض ایک مسافر کی حیثیت رکھتا ہے کہ لاری ہو یا جہاز اس نے سوار ہو کر اپنی منزل پر اتر ہی جانا ہےچاہے سفر طویل ہو یا قلیل، اصل منزل تو سب کی ایک ہی  مقرر کردہ ہے اور یہ سب وقتی اور عارضی پڑاو ہیں ۔
واپس آکر قطار میں لگے تو ابھی بھی اعلان ہوا کہ جہاز کے لئے داخلی دروازے پانچ منٹ بعد کھلیں گے۔اس پر بھی نشستوں کی ترتیب کے لحاظ سے جہاز کی پچھلی نشستوں پر براجمان ہونے والے مسافران کی باری پہلے آئی اور بچوں، ضعیف اور بزنس کلاس کے مسافر پہلے جہاز کی جانب روانہ کئے گئے۔ اس پر ہمیں بے اختیار ہنسی آئی کہ بزنس کلاس والے ضعیف اور بچوں کے زمرہ میں آتے ہیں۔
ہماری نشست کا قطار نمبر دس تھا اور ترتیب ایف تھی اور یہ کھڑکی والی نشست تھی۔ یہ جہازکل ایک سو اسی نشستوں پر مشتمل تھا اور اپنے نام کے لحاظ سے ہوائی بس تھا کہ بقول شاعر
ع پاوں پھیلاوں تو دیوار میں سر لگتا ہے
جہاز میں گھستے ہی 'کیسی' نامی ہوائی میزبان حسینہ نے ہمارا استقبال کیا اور بورڈنگ پاس دیکھ کرمحض  ایک ہلکی سی مسکان پیش کی۔ اس سے بہتر تو ہمارے ملک کی ہوائی میزبان ہوتی ہیں کہ جو مسافران کی تمام ترایسی حرکات ،کہ جنہیں  معقول  قطعی نہیں کہا جاسکتا ،کے انکی نشست پر چھوڑ کر آتی ہیں۔ خیر اس میں اس کیسی کا کوئی خاص قصور نہیں تھا کہ نشستوں کے درمیان اتنی ہی جگہ تھی  جتنی اندرون ملتان کے پرانے محلے کی گلیوں کی چوڑائی۔ ہم جب اپنی نشست کی قطار پر پہنچے تو دیکھا کہ سہ نشستی ترتیب کے درمیان والی نشست پر ایک پکی عمر کی مشرقِ بعید کے کسی ملک کی خاتون براجمان تھیں جو ہمارے ایکسکیوزمی کرنے پر اٹھ کھڑی ہوئیں اور ہمارے لئے ہماری نشست کا راستہ کھول دیا۔ہم اپنی نشست پر جا ٹکے اور ابھی سیدے ہی ہوئے تھے کہ اعلان ہوا کہ جہاز کے داخلی دروازے بند ہوا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد جہاز نے رن وے پر چلنا شروع کیا اور فضائی میزبان سفر کے دوارن کی احتیاطی ہدایات دینے لگیں کہ جن کا اردو ترجمہ ہمیں وطن میں سفر کر کر کے منہ زبانی یاد ہو چکا ہے، یہاں بھی گورے نے ہماری نقل کر رکھی ہے کہ ہماری اردو کے مطابق ہی پوری ہدایات انگریزی میں دیتاہے ۔  
جہاز نے اڑان بھری اور سڈنی سے یوں اڑنے کا ہمارا پہلا تجربہ شروع ہوا۔ سڈنی کا ہوائی اڈا بہت سے بین الاقوامی ہوائی اڈوں کی طرح سمندر کے کنارے ہے یا بالکل سمندر پر ہی ہےکہ اگر جہاز کے پر بروقت نہ  مڑیں  تو آپ کا ہوائی جہاز بحری جہاز میں تبدیل ہو سکتا ہے۔خیر جہاز کی اڑان میں ہم گورے سے مرعوب ہونے والے ہرگز نہیں ہیں کیونکہ دنیا جانتی ہے کہ ہمارے وطن کے ہواباز دنیا کے مانے ہوئے ہوا بازوں میں شمار ہوتے ہیں۔
سفر کے دوران جہاز کی بلندی چونتیس ہزار فٹ تھی ،یہاں بھی ہماری ایئر بلیو اس ورجن بلیو کو مات دے گئی کیونکہ ہم وطن میں اپنے آخری ہوائی سفر سن ود ہزار نومیں ملتان سے کراچی چھتیس ہزار فٹ کی بلندی پر اڑتے ہوئے آئے تھے۔اصل تماشہ تو تب شروع ہوا جب کھانے کی ٹرالی لائی گئی اور فضائی میزبانوں نے مسافروں کو قیمتا اشیائے خورد ونوش پیش کیں۔ غالب تو مئے بھی قرض کی پی لیا کرتے تھے اور آج ہمیں پانی بھی خرید کر پینا پڑا اور وہ بھی اتنا کہ سمجھ نہ آئی کہ کلی کریں یا حلق سے معدے میں اتاریں۔ ہمارے برابر والی خاتون نے عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈبے والا فروٹوپہلے سے ہی ساتھ  لیا ہوا تھا اور ان کے ساتھ والے صاحب اپنے لئے پھلوں کی سلادلائے تھے جس سے اس بات کا اندازہ ہوا کہ یہ لوگ مقامی ہوائی سفر کے عادی تھے۔ ہمیں اس بات کا علم تو تھا کہ یہاں کے ہوائی جہازوں میں ایسا ہوتا ہے کیونکہ کرایہ ہی اتنا کم رکھا جاتا ہے تو کھانا پینا مہیا نہیں کیا جاتا مگر ہم اپنے سرکاری مزاج کو کہاں لے جاتے کہ بیٹھے بٹھائے کھانا کھانے کی عادت جاتے جاتے جاتی ہے۔
ہماری ہمسفر خاتون نے اپنے چہرے پر اس قدر قلعی کر رکھی تھی کہ عمر شریف کے بیان کردہ خواتین کےمیک اپ پر مشتمل لطا ئف کی جیتی جاگتی تصویر دکھائی دے رہی تھیں اور ہماری ایک نظر ان پر اٹھی تو دوبارہ اٹھنے کی ہمت نہ کر پائی کہ ہم جہاز میں ابکائی کرتے کیا  اچھے لگتے۔
جہاز کے باہر کے مناظر میں بادل اور ہرے پہاڑ غالب تھے جن میں کہیں کہیں برفیلی چوٹیاں بھی شامل تھیں اور چند ایک مقامات پر جھیلیں بھی دکھائی دیں۔
فضائی میزبان سفید نصف آستین والی قمیض اور خاکی پاجامہ یعنی پینٹ میں ملبوس تھیں اور ایک کو چھوڑ کر سب بھورے بالوں والی تھی جن کے جُوڑے  کچھ کچھ افقی سمت میں بنے ہوئے تھے۔ان کا کام کچھ زیادہ نہ تھا کیونکہ کھانے کی ٹرالی سے تو غالبا آدھے سے بھی کم مسافر مستفید ہوئے تھے۔البتہ انہیں دیکھ کرتمام  مرد مسافران نے اپنا دامن آگے سے پھٹنے کی خواہش کااظہار ضرور کیا ہوگا کہ بقول استاد مشتاق احمد یوسفی  "ہم سب کے دامن پیچھے سے پھٹے ہوئے ہیں اور آگے سے پھٹنے کی امید میں جی رہے ہیں"۔
جہاز گو کہ تاخیر سے روانہ ہوا تھا لیکن میلبورن کم و بیش ٹھیک وقت پر اترا۔ ہوائی کمپنی بیشک ورجن تھی مگر فضائی میزبانوں کے بارے میں کچھ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا۔

Sunday, April 24, 2011

ٹور ڈی سڈنی

ہمارے بلاگ کے مستقل قارئین اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ہم سِڈنی کے قیام کے دوران کے حالات قلمبند کرتے چلے آئے ہیں گو کہ یہ سلسلہ کافی عرصہ سے موقوف تھا لیکن آج گزشتہ دن کا حال پیش کرنا چاہ رہے ہیں۔
معاملہ کچھ یوں ہوا کہ ذیشان انصاری اور زبیر اخلاق جو کہ نوواردان ہیں اور ہماری ہی جامعہ میں زیرِ تعلیم ہیں سے ہماری رفاقت ہے اور ان دونوں صاحبان  کے ساتھ  ایسٹر کی چھٹی پر ہم نے سِڈنی کی آوارہ گردی کی ٹھانی۔ طے یہ پایا کہ فجر پڑھتے ہی نکل کھڑے ہوں گے۔ ایک دن کابس، فیری اور ریل کا ٹکٹ ہم پہلے ہی خرید چکے تھے کیونکہ میرِ کارواں ہم ہی مقرر کئے گئے تھے۔ فجر پڑھنے کے فورا بعد ہم نے انڈوں اور پنیر کے سینڈوچ بنائے اور بیگ میں کچھ خشک سامان ڈال بس  اسٹاپ پر پہنچ گئے۔ بارش کی پیشنگوئی سحری کے وقت دیکھ چکے تھے لہذا تینوں کے پاس چھتریاں موجود تھیں۔ بس میں سوار ہو کر شہر پہنچے۔ یہاں سٹی کی اصطلاح 'صدر' کے معنی میں استعمال کی جاتی ہے۔سٹی سے ایک اور بس لینا تھی جو ہمیں ڈیڑھ گھنٹے بعد پام نامی ساحل پر اُتارتی۔ جب ہم سٹی کے اسٹاپ پر جو کہ مرکزی 'سینٹرل' ریل اسٹیشن کے قریب  ہے پر موجود تھے تو بارش شروع ہو چکی تھی ۔ خیر پام بیچ کی بس میں سوار ہوئے اور ہاربر برج پار کرتے ہوئے شمالی سِڈنی میں داخل ہوگئے۔ شمالی سڈنی کے مشرق میں سمندر ساتھ ساتھ چلتا ہےا ور ہوتے ہوتے یہ قطعہ اراضی مغرب سے بھی سمندر کو چھونے لگتا ہے اور یوں ایک کھاڑی سی وجود میں آجاتی ہے۔ یہاں پر پہاڑیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ وطن والوں کو ہم اس طرح سمجھائیں گے کی آپ سڑک کے راستے اگر اسلام آباد سے مری کا سفر شروع کریں تو جو مناظر دیکھنے کو ملیں گے کم و بیش ویسے ہی نظارے ہمیں بس کے سفر کے دوران دیکھنے کو ملے۔ فرق صرف اتنا تھا کی ہمارے ساتھ کھائیاں نہیں بلکہ سمندر تھا اور ہم پہاڑ پر بچھی سڑک سے مشرق میں اسے دیکھ رہے تھے۔ گو کہ اس سے پہلے ہم صاف ستھرے اور جدید شہر سے گزر کر یہاں تک آئے تھے مگر اب قدرتی مناظر انسانی کاریگری اور جدّت پر غالب آتے جا رہے تھے۔
ساحل سے پہلے مقامات پر کشتی رانی کے لئے بنائی گئی چھوٹی بڑی کئی گودیاں دکھائی دیں جن پر لوگ اپنی ذاتی کشتیاں بھی لا سکتے ہیں، ایسی ہی ایک بڑی گودی پام بیچ سے کچھ پہلے بھی تھی جس پر لوگوں کی خاصی بھیڑ دکھائی دی، خیر ہمارا منصوبہ تو ساحل تک جانے کا تھا کہ جو بس کے آخری اسٹاپ پر تھا لہذا ہم بس سے اترنے والے آخری مسافر تھے۔ بارش وقفہ وقفہ سے ہو رہی تھی اور موسم سرد تھا۔ ساحل پر اکّا دکّا لوگ نظر آئے کیونکہ گورا اپنا رنگ کالا کرنے سمندر پر آتا تو ہے مگر دھوپ میں، یہ ہم دیسی ہی تھے جو ایسے موسم میں ساحل دیکھنے کی چاہ میں یہاں تک چلے آئے تھے۔ ہم میں سے زبیر کراچی میں نہیں رہتے تو انکا سمندر کو دیکھ کر وہ حال ہوا جیسے ایک کراچی والے کا کسی پہاڑی گلیشیئر کو دیکھ کر ہوتا ہے۔ سو وہ جوتے نکال ، برستے مینہ میں چھاتا لئے ساگر نمشکار کےلئے چل پڑے اور ہم ذیشان کے ساتھ انہیں جاتا دیکھ کر مسکرانے لگے۔
انکے واپس آنے پر ہم نے سینڈوچ کھائے اور پیدل ہی کشتیوں والی گودی کی جانب چل پڑے۔راستے میں تصاویر اتارتے رہے اور صاف ستھری ہوا اپنے پھیپڑوں میں بھرتے سڑک کے کنارے رکتے چلتے پام بیچ کے کشتیوں والے پڑاو پر آکر رکے۔ یہاں بس اسٹاپ تھا اور بس آیا ہی چاہتی تھی سو ہم نے موقع کا فائدہ اٹھایا اور ایک کھوکے سے کافی پی، یہ کھوکے کا لفظ ہم نے کافی کے معیار کی وجہ سے استعمال کیا ہے۔
کافی ختم ہونے تک بس آچکی تھی تو ہم پھر سے حالتِ سفر میں آگئے اور منز ل تھی ورنگا مال جو کہ برُوک ویل نامی علاقہ میں ہے، یہاں سے ہمیں مینلی بیچ کی بس بدلنا تھی سو ارادہ کیا کہ اس مال کو بھی دیکھ لیا جائے۔ مال کافی بڑا تھا۔ ہم نے وقت کی کمی کے باعث محض ایک ہی اسٹور دیکھا اور واپس سب اسٹاپ آکر مینلی کے لئے روانہ ہوئے۔ مینلی اس مال سے زیادہ دور نہ تھا ۔ جب ہم مینلی کی گودی پر اترے تو بارہ بج رہے تھے۔ وہیں پر نینڈوز ہے جس پر ظہرانے کی ہماری پہلے سے نیّت تھی، نینڈوز کا تذکرہ ہم پہلے بھی کر چکے ہیں  اور یہاں مقیم قریبا تمام ہی دیسی اس کے ذائقہ کے معترف ہیں سو ڈٹ کر مرغ اڑایااور مینلی کے ساحل کی راہ لی، راستہ میں کلفٹن کے ساحل کی طرز پر بازار ہے جس میں روایتی اشیاء سیاحوں کو اپنی جانب راغب کرتی ہیں اور  وہ اپنے بٹوے میں موجود ڈالز سے اپنی پسندیدگی کو بدل لیتے ہیں۔
ساحل پر خاصی رونق تھی اور بارش کافی پہلے ہی رک چکی تھی لہذا لوگ اپنے اپنے انداز میں محظوظ ہو رہے تھے، ایک ضعیف بابا جی کہ جو خود لاٹھی کے سہارے چل رہے تھے، ہاتھ میں کاغذی لفافے میں ملفوف بوتل لئے ہمارے قریب ایک بینچ پر تشریف فرما ہونے لگے اور ہماری نظریں اپنی بوتل کی جانب اٹھتے دیکھ کر گویا ہوئے کہ اس میں جوس ہے اور ہمیں بے اختیار چچا غالب یاد آ گئے کہ
گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر ومینا مرے آگے
 مینلی کی گودی تک واپس آکر فیری میں سوار ہوئے اور اس کے کھلے حصے میں ایک بینچ پر قبضہ جما لیا کہ کھلے سمندر کا نظارہ آسانی سے کیا جا سکے اور یار لوگ دل کھول کر تصاویر اتار سکیں۔ فیری کا سفر بہت اچھا رہا خاص طور پر جب آپ ہاربر برج اور اوپیرا ہاوس کے بیچ سے گزرتے ہیں تو کیمرے خوب کلک کرتے ہیں اور ہر کوئی ان عظیم تخلیقات کے ساتھ تصویر کھنچوانا پسند کرتا ہے۔ اس مرکزی گودی کو'سرکولر کی' کہا جاتا ہےیہ ایک بہت بڑا سیاحتی مقام ہے اور بس، ریل اور فیری ہر طرح کی سواری یہاں سے سِڈنی کے طول وعرض کو جاتی اور آتی ہے۔ اوپیرا ہاوس بھی یہیں ہے ہم اوپیرا کے قریب سے دیدار کے لئے ہی یہاں آئے تھے۔ مگر اوپیرا سے پہلے ہماری توجہ ایک شعبدہ باز نے اپنی جانب مبذول کروالی۔ یہ حضرت ایک بائیسکل پر سوار تھے ۔ بائیسکل پر سوار ہوناکچھ عجب نہیں مگر اگر یہ بائیسکل ایک کھمبے پر دھری ہو اور وہ کھمبہ پانچ دھاتی تاروں کے ساتھ تنا ہو کہ جنھیں پانچ افراد نےایک دائرہ میں پکڑ رکھا ہواور اس بائیسکل پر سوار شخص ایک ہاتھ میں خنجر کہ جسکی نوک پر ایک سیب پیوست ہو اور دوسرے ہاتھ میں ایک مشعل لئے ہو تو آپ خودبخود اس مجمع میں شامل ہو جاتے ہیں جو یہ تماشہ دیکھ رہا ہوتا ہے اور یہی ہمارے ساتھ بھی ہوا۔ان صاحب نے ابتدائی تقریر کے بعد بائیسکل پر کھڑے ہوکر سیب، جلتی مشعل اور نوکیلے و لمبے خنجر کے ساتھ شعبدہ بازی کی اور تینوں کو ایک ساتھ اچھالتے ہوئے ایک دائرہ میں پکڑتے چھوڑتے سیب چبایا بھی اور گھومایا بھی۔ کچھ لمحوں کے بعد یہ تماشہ خوش اسلوبی سے انجام دینے کے بعد لوگوں سے ڈالز اور داد طلب کئے۔
اوپیرا ہاوس کسی تعارف کا محتاج نہیں، یہ نا صرف اپنی آب و تاب اور تعمیراتی طلسم کی بدولت منفرد مقام رکھتا ہے بلکہ ثقافتی، تفریحی ، معلوماتی اور سیاحتی تمام حیثیتوں میں سڈنی کے حسن میں اضافہ کرتا ہے۔ یہاں ہر وقت ہی لوگ موجود ہوتے ہیں جو مختلف زاویوں سے اسے پرکھتے، منظر کشی کرتے اور مشاہدہ کرنے آتے ہیں۔ گو کہ یہاں قریبا ہر رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے افراد آیا کرتے ہیں مگر ہم اپنے جیسے دیسیوں کو دور سے ہی پہچان لیتے ہیں کہ دیسی چاہے ودیسی لباس میں ہی کیوں نہ ہو چھپائے نہ چھپے ۔
اوپیرا سے اگلا پڑاو تھا دنیا کا ایک مشہور ساحل جسے بونڈائی کہا جاتا ہے۔ جن لوگوں نے پامیلا انڈرسن کا پروگرام بے واچ دیکھا ہے وہ اتنا سمجھ لیں کہ بونڈائی پر ایسے مناظر عام طور پر دکھائی دیا ہی کرتے ہیں۔ لیکن آج یہاں پامیلا اینڈرسن تھی اور نہ ہی بے واچ جیسے مناظر کہ سورج بھی چھٹی پر تھا اور ہم بفضلِ تعالٰی گناہِ بے لذّت سے بچ گئے تھے۔
بونڈائی آنے کےلئے ہمیں ریل سے ٹاون ہال کے اسٹیشن سے اگلی ریل لینا تھی سو ہم جیسے ہی ٹاون ہال پر اتر کر بونڈائی جنکشن کی ریل کےلئے برقی سیڑھیوں سے مطوبہ پلیٹ فارم پر پہنچے توریل تیار کھڑی تھی، ہم آگے تھے تو ہم سوار ہو گئے جبکہ ذیشان اور زبیر پیچھے رہ گئے اور اس دوران ریل کے خودکار دروازے بند ہو گئے۔ خیر یہ دونوں بھی پیچھے آنے والی ریل سے بونڈائی جنکشن آ پہنچے کہ اسٹیشن پر تمام ریلوں کی معلومات دی جاتی ہےا ور ہم نے فون پر ان کو تسلی دے دی تھی۔ بونڈائی جنکشن سے بس لے کر آپ بونڈائی کے ساحل پر آتے ہیں۔ سو ہم بھی بونڈائی کے ساحل پر پہنچے اور کچھ چہل قدمی کی، تصاویر کھینچی جاتی رہیں اور بعد از مغرب ہم واپس بونڈائی جنکشن آئے۔ بونڈائی جنکشن دراصل ایسا مقام ہے جہاں بس اور ریل دونوں دستیاب ہیں اور ساتھ ہی ایک شاندار شاپنگ مال بنام ویسٹ فیلڈ موجود ہے۔ ویسٹ فیلڈ ایک آسٹریلیائی کمپنی ہے اور نیوزی لیند، برطانیہ اور امریکہ میں اپنے شاپنگ مال رکھتی ہے۔ ہم نے یہاں بھی ونڈو شاپنگ کی کیونکہ زیادہ تر اسٹور بند ہو چکے تھے۔
ویسٹ فیلڈ سے باہر نکل کر ہمارا مشرق مغرب گھوم گیا، اور ہم ریل کے اسٹیشن کی کھوج میں کچھ پریشان سے ہو گئے بالآخرایک راہگیر نے ہمیں درست سمت بتلائی اور ہم زمین دوزاسٹیشن اترے۔ یہاں سے سینٹرل پہنچے اور طے یہ پایا کہ دیسی کھانا کھایا جائے۔انزیک پریڈ سے متصل ایک سڑک کلیولینڈا سٹریٹ ہے جس پر لال قلعہ نامی ایک ریسٹورینٹ ہے کہ جسے ہم انڈین سمجھتے آئے تھے وہ درحقیقت پاکستانی نکلا۔ یہاں پر ہم نے چکن تکہ مصالحہ، دال مکھنی اور پالک پنیر تازہ تازہ نانوں کے ساتھ تناول کیا اور پاکستانی کھانے کا لطف اٹھایا۔ عشائیہ کے بعد گھر کی راہ لی، یوں ہماری سڈنی کی یاترا اختتام پذیز ہوئی۔

جھلکیاں:
زیبرکو تصاویر کھنچواتے ہوئے اس بات کا خیال تھا کہ ارد گرد کے لوگ بھی تصویر میں دکھائی دیں۔
ذیشان کو ہر قدم پر تصویر بنوانے کا شوق تھا کہ وہ پوری سیر یادگار بنانا چاہتے تھے۔
ان لوگوں نے دوسو سے زائد تصاویراتاریں۔
لال قلعہ میں خاصی تعداد میں گورے بھی کھانا کھاتے دکھائی دیئے۔
لال قلعہ میں ہم نے کوئی تصویر نہیں بنائی۔
الحمد الاللہ پوری سیر میں کوئی نماز قضا نہ ہوئی ۔ ظہر اوپیرا میں اورعصر ومغرب بونڈائی پر ذیشان کی امامت میں ادا کی۔

Wednesday, March 23, 2011

نئے زمانے کا ذکر ہے


نئے زمانے کا ذکر ہے کہ دُور دیس میں چند بڑے بچے رہتے تھے، وہ سب کام اپنی مرضی سے کرتے، جب دل چاہتا سوتے، جب دل چاہتا اٹھ جاتے ، کھانے پینے میں بھی انکا یہی حال تھا۔ آپس میں اس قدر پیار کرتے تھا کہ قطار بنا کر بنا ٹوکن کے ایک ہی غسل خانہ باری باری استعمال کرتے، سونے کے کمروں میں بھی یہی حال رہتا کہ دو گدوں پر تین بڑے بچے چوڑائی کی جانب سوتے تھے۔ وہ دوپہر میں ناشتہ کرتےکیوں کہ انکی صبح اپنے وقت کے لحاظ سے ہوتی تھی۔ مگر رات کا کھانا سب ملکررات میں ہی کھا لیتے تھے۔
ان سب کے شوق بھی عجب طرح کے تھےایک کو بلا وجہ لکھنے کا شوق تھا توایک کو بولنے کا، کوئی کارٹون دیکھتا تو کوئی محلے کے بڑے بچوں کے ساتھ دُور والے گراونڈ میں کھیلنے چلا جاتا،کسی کو فجر کی نماز اول وقت میں پڑھنے کی جلدی تو کوئی عشاء آخری وقت میں پڑھتا۔ کسی کو مرغی سے دشمنی کہ دنیا بھر کی ساری مرغیاں اکیلے نے ہی ختم کرنے کا ارادہ کر رکھا ہو تو کوئی چاول کے کھیت اُجاڑنا چاہتا تھا۔کوئی مچھلی سے دور بھاگتا کہ کھاتا ہی نہیں تھا تو کوئی دودھ سے محبت رکھتا تھا۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس قدر پھیکا کھانا کھاتے تھے کی رات کے کھانے کے بعد کبھی بھی میٹھا کھانے کی ضرورت پیش نہ آتی۔
ان بڑے بچوں کی یادداشت بہت اچھی بھی تھی، مثلا ان میں سے کوئی بھی کھانا کھانا نہیں بھولتا تھا ،ایک دوسرے کی اچھائیاں بیان کرنا نہیں بھولتا تھا، کھانے میں مرچ ہلکی رکھنا نہیں بھولتا تھا اور اپنی کھانا پکانے کی باری نہیں بھولتا تھا۔ مگر پھر بھی انسان ہونے کے ناطے بھولتے بھی تھے جیسے ناشتہ کرکے پلیٹ دھونا، میز صاف کر کے ٹشو پھینکنا ، چائے پی کے کپ سرہانے سے اٹھانا وغیرہ وغیرہ۔
ان کے گھر میں سب سے اہم جگہ بارورچی خانہ تھی جس میں وہ تمام چیزیں سنبھال کر رکھتے تھے یہاں تک کہ خالی ڈبے، کیچپ کی بوتلیں، دودھ کی خالی بوتلیں، سگریٹ کی خالی ڈبیہ، کیک یا آئسکریم کے پیک،کولڈ ڈرنک کے کین، چائے کی پتی جو چائے نکالنےکے بعد کیتلی میں بچی رہتی ، پھلوں کے چھلکے جن میں کیلا خاص طور پر شامل ہے، کئی دنوں کا جمع شدہ کچرا جسے کالی تھیلی میں گرہ لگا کر اس سوچ سے محفوظ کر لیا جاتا کہ 'کوئی' پھینک دے گا۔


نوٹ:یہ کہانی سچ مت سمجھی جائے اور تصاویرکیمرہ ٹِرک بھی ہو سکتی ہیں، اس کہانی کے کردار فرضی طور پر حقیقی اور حقیقی طور پر فرضی ہو سکتے ہیں لہذا مشابہت پر کوئی بری شکلیں بناتا ہے تو کہانی پڑھنے والے کو شکایت درج کرا سکتا ہے، اس پر اسی طرح عمل کیا جائے گا جیسے الیکشن کمیشن میں ضمانت ضبط ہونے والے امیدوار کے ساتھ کیا جاتا ہے۔

Sunday, March 6, 2011

بلاگ لکھنے کا ایک سال


پچھلے برس کچھ یہی دن تھے کہ ہم نے احوالِ موسمِ سڈنی قارئین کی نذر کیا تھا اور یوں اس بلاگ کی ابتدا ہوئی۔ چچا غالب تو تخلیق کو غیب سے آمد بتاتے ہیں اور ہم ان کی اس بات سے متفق بھی ہیں کہ غالب سے کون اختلاف کرسکتا ہے،اس بات کا بخوبی تجربہ ہمیں گذشتہ اکھتّر تحاریر لکھنے کے دوران بارہا ہوا کہ کبھی بس کے سفر کے دوران کبھی رات سونے سےپہلے اور کبھی کبھارنماز میں بھی مضامین کی آمد ہوتی رہی، سو ہم نے ان کو غیب سے ہی آمد جانا اور نوائے سروش پر کان دھرے کی بورڈ چلاتے رہے۔
جی ہاں ایک برس اور ۷۱ پوٹس، ۴۶۹ تبصرے اور کئی پسندیدگی کے کلکس،پچھلے برس جون سے لے کر تا حال ساڑھے دس ہزار سے زائد وزٹس یہ وہ اعداد و شمار ہیں کہ جو ہمارا حوصلہ بڑھاتے رہے اور ہم گاہے بگاہے کچھ نہ کچھ لکھا کیا۔ایک برس کچھ اتنا لمبا عرصہ نہیں اور نہ ہی ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم لکھاوٹ کی ابجد سے بھی واقف ہیں مگر اتنا ضرور ہے کہ اس بلاگ پر ہم اپنے دل کی بھڑاس جی بھر کر نکال لیتے ہیں۔ ہم نے اپنے بلاگ پر سڈنی میں قیام کے حالات کے ساتھ ساتھ، ہمدرد میں بحیثیت استاد کے گزارے یادگار ایّام کا  احوال بھی قلمبند کیا، اس کے علاوہ دیگر موضوعات پر بھی طبع آزمائی کی۔ انگریزی کے دلدادہ قارئین ہمارے انگریزی کے مضامین یہاں پڑھ سکتے ہیں۔
الحمداللہ ،ہم شکر گزارہیں ان تمام احباب و قارئین کے جنھوں نے ہمارے بلاگ کو رونق بخشی، اپنے تبصروں سے نوازا اور ہماری حوصلہ افزائی فرمائی۔ ان تمام کے ساتھ سب سے زیادہ ہم ان خاموش قارئین کی اپنے بلاگ پر آمدکا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے ہمارے بلاگ پر کبھی کوئی تبصرہ نہ فرمایا اوراپنی اور ہماری عزّت رکھ لی ۔ میٹرک، انٹر میں انگریزی کی نظموں میں 'انو نیمس' نامی شاعر کی نظمیں پڑھا کرتے تھے یہ شاعر ہمارے بلاگ پر بھی بارہا تبصرے فرماتے رہے اور ہم نے التجا بھی کی کہ برائے خدا گمنامی اختیار نہ کریں اور تبصرہ کے ساتھ اپنا نام بھی تحریر فرمائیں، اس کے باوجود بھی ہم یہ سمجھتے ہیں کہ تبصرہ نہ کرنے سے کم سے کم یہ صورتِ حال بہترہے۔
بلاگ لکھنے کے اس ایک برس کے دوران ہمیں اردو کے دیگر کئی بلاگ پڑھنے کا بھی اتفاق ہوااور یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے۔ اردو بلاگ انٹرنیٹ پر جس طرح پنپ رہا ہے اس نے ہمیں اس فکر سے آزاد کر ڈالا ہے کہ ہمارے بچوں کو مستقبل میں کمپیئوٹر پراردو دکھائی بھی دے گی یا نہیں۔ زبان سے رشتہ ہمیں اپنی شناخت کو برقرار رکھنے میں مدد دیتا ہے کیونکہ ہم بھی آتش کے بقول زبانِ غیر سے شرح آرزو کے قائل نہیں ہیں لہذا اس عمل میں شرکت کو کارِ خیر گردانتے ہیں اور قارئین سے مزید کرم فرمائی کے منتظر ہیں۔

Sunday, February 13, 2011

کیا منائیں کیا چھوڑیں


اب کے برس تو عجب مشکل آن پڑی ہے کہ کس کوراضی کریں اور کس کو ناراض۔ ایک طرف چھوٹی بڑی عید کے ساتھ تیسری عید ہے اور دوسری جانب ایک بین الاقوامی تہوار، مذہب سے روگردانی کریں یا انتہا پسندی کا ثبوت دیں۔موسم بہار کا استقبال کریں یا بچوں کے اسکول کی دو ماہ کی فیس کا انتظام کریں کہ اس بار موسم سرما کی تعطیلات کی فیس فروری اور مارچ کی فیس کے ساتھ جانی ہے۔اگربیگم کوویلنٹائن کا تحفہ نہیں دیتے تو وہ ناراض اور اگرمذہبی رسومات پوری نہیں کرتے تو محبانِ دین سے کفر کے فتاوی کیلیئے تیار رہنا پڑتا ہے-جشنِ بہاراں نہیں مناتے تو بدذوقی کا طعنہ ملتا ہے اور اسکول کی فیس کی عدم ادائگی کی صورت میں بیگم اور اولاد دونوں کے سامنے جوابدہ ہونا پڑتا ہے۔
اب یہ تو زیادتی ہی ہوگی نا کہ ہم ان ایّام کو گنوا دیں سال میں ایک ہی تو موقع آتا ہے اپنی محبت دکھانے کا،چاہے وہ وطن سے ہو، ماں باپ سے، محبوبہ سے یا اپنے دین سے۔ کس قدر آسانی کی بات ہے کہ یہ ایّام مختص کر دیئے گئے ہیں اور ان کے نام رکھ چھوڑے ہیں کہ آج فلاں دن منایا جائے گا، کل وہ تہوار تھا اور آج یہ ہے، وطنِ عزیز کی آزادی منا لیں کہ آج چودہ اگست ٹھہری، جھنڈا لگایا اور ترانہ پڑھ کے فارغ۔باقی سال کے تین سو چونسٹھ دنوں میں وطن کی بچیوں سے ہی پیار جتاتے رہے ایک دن وطن کےلئے بہت ہے۔
اسکولوں میں تو دن منا منا کر بچوں کا یہ حال ہو جاتا ہے کہ وہ بیچارے یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ سال کے تمام دن رُوٹھے رہتے ہیں لہٰذا ان کا منا لینا ضروری ہے۔کبھی لال لباس اور کبھی سبز ،کسی دن ایک بچی کو پری بنا دیا جاتا ہے تو کبھی سنڈریلا۔
حُب یا محبت کے تقاضے ہوتے ہیں اور اگر دعوی عشق کا ہو تو پھر معشوق ہی دکھائی دیتا ہے اپنا آپ نہیں رہتا، صرف ایک دن منا لینے سے نہ تو ہم سچے عاشق بن سکتے ہیں اور نہ ہی دین و دنیا بہتر کر سکتے ہیں البتہ جن کی رسومات اختیار کرتے ہیں ہمارا حشر ضرور ان کے ساتھ ہوگا۔ محض تقلید اور وہ بھی اندھی ہمیں قطعی معتبر نہیں کر سکتی جب تک کہ ہم اپنے عمل کی اصل وجہ یا رسم کی صحیح حیثیت سے واقف نہ ہوں۔ ہمیں کسی کی پسند نا پسند پر تو کچھ کہنے کا حق نہیں لیکن ہمارے جیسوں کا حال دلآور فگار کے اس شعر میں سمٹا ہوا ہےکہ
یہ مانا کہ میں پورا مسلماں تو نہیں ہوں
رشتہ اپنے دین سے تو جوڑ سکتا ہوں
حج، روزہ، نماز ،زکوۃ کچھ نہ سہی
شبِ برات اک پٹاخہ تو پھوڑ سکتا ہوں

Tuesday, January 18, 2011

تصویرِ ہمدرداں- ہمدرد کے نام ایک نظم

گو کہ یہ نظم ہمدرد کے نام کی گئی ہے، لیکن ہم سمجھتے ہیں اسے پڑھ کر ہر قاری اپنی اسکول کی زندگی کو ضرور یاد کرے گا۔اگر آپ کو یہ کاوش پسند آئے توہمارے حق میں دعا کیجیئے گا اوراگر پسند نہ آئے تو اس پر پیشگی معذرت۔

اسکول ہمدرد کا تھا خوابِ سعید، ہوگیا حق کی راہ میں جو شہید

سجا گیا نخل اک صحرا میں وہ، آبِ حیاتِ علم دیتا ہے جو
چمن ہے یہ نونہالوں کا، علم سے محبت کرنے والوں کا
طلبہ یہاں جیسےہی  آتے ہیں، پرسکون  ماحول میں خود کو پاتے ہیں
درجہ اول میں آمد کے ساتھ، ہوتا ہے نئے دوستوں کا ساتھ
ملتی ہے اساتذہ کی شفقت بھی، اور ساتھیوں کی الفت بھی
روز سبق نیا اور کام نئے، بہت کچھ نیا سیکھنے کو ملے
کھیل کُود بھی ماردھاڑ بھی، ہر لڑائی کے بعدٹیچر کی جھاڑ بھی
یوں جاتے ہیں پانچ برس گزر، گماں ہوتا ہے پانچ دِنوں کا مگر
عمر پہنچتی ہے پہلی دھائی میں، دل لگانا پڑتا ہےپھر پڑھائی میں
بلاک ون سے ٹو میں آتے ہی، اولے پڑتے ہیں سر منڈاتے ہی
تین برس یہ مشقت سےبھرے ، جن میں تفریح بھی کرنے کو ملے
بیت جاتے ہیں پلک جھپکتے ہی، درجہ ہشتم کو پاس کرتے ہی
آٹھ درجوں کا یہ سفرِ حسیں، ایسا لڑکپن اور کہیں نہیں
وقت کا دھارا رخ بدلتا ہے، سیکھنے کو بہت کچھ ملتا ہے
کھیل کود، آرٹ،امورِ خانہ داری، سب سیکھ جاتے ہیں یہ باری باری
ووڈ ورک کے کارخانے میں، چیز نکمی نہیں کوئی زمانے میں
ٹیبلو، قرات، اسٹیج اور تقریریں، آتی ہیں تصور میں یہ تصویریں
آخری دو برسوں کا ہے کیا کہنا ، بلاک تھری میں کاش ہو سدا رہنا
یہاں کی ہربات ہی نرالی ہے، شیطانوں کی یہاں گوشمالی ہے
اسمبلی ایریا  میں قطار بناتے ہی، پکڑے جاتے ہیں ڈنڈی مارتے ہی
کلاس روم میں  تشریف لاتے ہیں،  حاضری اولا ہم لگاتے ہیں
لیبز بھی ہیں یہاں کرنے کو، موقع چاہیئے اٹھکھلیناں کرنے کو
لیب کوٹ جب بھول جاتے ہیں، جرمانہ بھرتے ہیں سزا پاتے ہیں
جرنل نامکمل ہو یا چیک نہ ہو، پانچ نمبروں کی رہتی ہے فکر تو
نیچر واک کہ یا ہو فیلڈ ٹرپ، ہوتا نہیں کوئی ان دِنوں  سلپ
فوڈ میلہ اور فٹبال ٹورنامنٹ، کرتے ہیں سبھی کمٹ منٹ
میڈم کے ہاتھوں اگر کھنچائی ہو، میرے اللہ تیری دہائی ہو
والدین بھی اسکول آتے ہیں،  کارنامے بچوں کے سُن کے جاتے ہیں
اساتذہ سے کرتے ہیں ملاقاتیں، گھر جاکے سناتے ہیں پھر باتیں
سِک بے کا قصہ بھی کیا کہوں، بہتر ہے کہ میں چپ ہی رہوں
اعلان پارٹی کا اسمبلی میں ہوتا ہے، دل میں پھر کچھ کچھ ہوتا ہے
تیاری خاکوں کی یا ہو کپڑوں کی، آس ہوتی ہے پوری صدیوں کی
رنگ برنگ پوشاکوں سے سجتے ہیں، پارٹی میں خوب پھر چمکتے ہیں
اعلان ہوتا ہےپھر  سالانہ کا، خوف جاگتا ہےاک انجانہ سا
یہ کیا،  دس برس بیت گئے؟، ہر کوئی خود سے یہ سوال کرے
یہ تو وقت بہت تیز گزرا، ابھی کل تو میرا پہلا دن تھا
گزرے برسوں پر نظر ڈالتے ہیں، بہت کچھ پاس اپنے پاتے ہیں
اس بینچ پہ ہم نے مل کے کھا یا تھا ،  یہاں سچ میں بڑا مزہ آیا تھا
اُس دن تم لنچ نہیں لائے تھے، سینڈوچ تم نے میرے کھائے تھے
کینٹین میں قطار کب بنائی تھی، دھینگا مشتی میں چیز گرائی تھی
ایک بار ٹیچر نے سرزنش کی تھی، بعد میں ہم نے ہش ہش کی تھی
نون قلم پہ ہوا تھا جب پھڈا، تھا یہ ہمارامستقل اڈّا
بس میں چلتی دوڑ کر بیٹھے تھے، اگلے دن پکڑ لئے گئے تھے
یہ مناظر جب یاد آئیں گے، وقت کو کیسے ہم پلٹائیں گے
کردار سازی کا عمل یہ تھا گو یا، بیچ جو حکیم صاحب نے تھا بویا
گر  کتاب یہ سب سکھا پاتی ، اسکول کی ضرورت ہی کیا رہ جاتی
جو بھی یہاں سے پڑھ کے جاتا ہے، ہمدرد کے گُن سدا وہ گاتا ہے
علم اور آگہی کے جو یاں دیپ جلے، ان سے جامعات کو نئی پود ملے
طلبہ یہاں کے جہاں بھی جاتے ہیں، سدا ہمدردیئن ہی کہلاتے ہیں
شان اونچی رہے ہمدرد کی سدا، ہے رب سے میری بس یہی دعا
حکیم سعید کی بھی مغفرت ہو، سعدیہ بی بی پہ رب کی رحمت ہو
بانی کی اپنے یاد دلاتا ہے، ہمدردکوکون بھول پاتا ہے

Sunday, January 9, 2011

حکیم صاحب کے بعد کیا ہوگا؟

آج حکیم صاحب کی سالگرہ پر اُنکی یہ تقریر سنتے ہوئے ایک عجب دلی کیفیت پیدا ہوئی جسے الفاظ میں نہیں ڈھالا جا سکتا۔ قارئین کی خدمت میں انکی تقریرکی یوٹیئوب ویڈیو دی جا رہی ہے، خود سنیں اور دیکھیں کہ وہ ایک عملی انسان تھے محض مسئلہ بیان نہیں کرتے تھے بلکہ اسکا حل بھی پیش کرتے تھے اور سب سے بڑی بات یہ کہ مثبت سوچ کے حامل تھے۔ اللہ تعالٰی انکے درجات بلند فرمائے اور ہمیں انکے صدقہ جاریہ میں شرکت کی توفیق دے، آٰمین 

Thursday, January 6, 2011

میں ایک پیچ ہوں

سائنسی اعتبار سے میراشجرہ بیلن اورسطح مائل سے ملتا ہے، یوں سمجھ لیں کہ میرا جنم ایک سطح مائل کو ایک بیلن پر لپیٹنے سے ہوا۔ سطح مائل کی لپیٹ کی وجہ سے میری شکل تخلیق ہوئی اور میری خوبصورت چوڑیاں وجود میں آئیں۔ میرے حسن کااندازہ انہی چوڑیوں سے ہوتا ہے اگر میری یہ دھاری دار چوڑی ٹوٹی ہوئی ہو یا یکساں درمیانی فاصلہ نہ رکھتی ہو تو میں کسی کام کا نہیں رہتا۔میری چوڑیوں کا یہ یکساں درمیانی فاصلہ عمودی طور پر ایک مکمل گردش پر جو فاصلہ طے کرتا ہے اسے انگریزی میں پِچ کہا جاتا ہے۔
میری بہت سی اقسام اور استعمالات ہیں۔ میرا ساتھی نٹ کہلاتا ہے جسکے ساتھ مِل کر تو میری پکڑ میں خاصا اضافہ ہو جاتا ہے۔ مجھے بہت سی جگہوں پراستعمال کیا جاتا ہے، گاڑی کے پہیے کو اس سے منسلک کرنا ہو یا گاڑی کو اٹھانا،دو پُرزوں کو جوڑنا ہویا کسی بھی میکانیکی مشین مثلا لیتھ وغیرہ، کو اسکی عملی حالت میں لانا ہو ہر جگہ مجھ سے ہی مدد حاصل کی جاتی ہے۔
مجھے کسی چھید میں کَسنے کیلئے پیچ کَس کی ضرورت پڑتی ہے جسکا منہ میرے سر کے لحاظ سے ہونا چاہئیے ورنہ مجھے کسَنا ممکن نہیں ہوتا۔ ایک ننھی سی کلائی کی گھڑی سے لے کر ایک عظیم الجثہ آہنی پُل یا بحری جہاز کی تخلیق میرے وجود کے بغیر ناممکن ہے۔موٹر مکینک کی دوکان پر بھی میری موجودگی اسکی روزی کمانے کا باعث ہوتی ہےجہاں مالک یا استاد کی آواز پر 'چھوٹے' یعنی شاگرد پانا اور رینچ لاکر استاد کو دیتے ہیں اور استاد موٹر کے کَل پُرزوں کو کسَتا ہے اور یوںمیری اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے اور میں پھولے نہیں سماتا۔
کسی بچے کے کھلونے میں بھی میری وجہ سے حرکت آتی ہے۔ اگر میں یا میرا کوئی بھائی بند ڈھیلا پڑ جائے تو بچے کے چہرے کی ہنسی ہوا ہو جاتی  ہے اور اسے اس بات کی فکر پڑ جاتی ہے کہ میں  جلد سے جلد کس دیا جاوں۔
گو کہ میں انسانی جسم میں کوئی عمل دخل نہیں رکھتا مگر پھر بھی کہا جاتا ہے کہ میں کسی کے دماغ سے گِر گیا ہوں۔ میرے یہ فوائد اورا ہمیت اپنی جگہ مگر مجھے ایک بات کا افسوس رہے گا کہ کاش میں انسانوں کے دلوں کو جوڑ سکتا یا کم از کم دو پڑوسیوں کے درمیان ہی محبت کی چادر سے انھیں منسلک کر دیتا کہ اسطرح انسان کو دوسرے انسان کا احساس رہتا۔ 

Saturday, January 1, 2011

تصویرِ ہمدرداں- ہمدرد کے نام

پیارے ساتھیومیں ہوں فارِحہ جمال اور میں ہوں احمد راجپوت

دوستو, ہمدرد ہم سب کیلئے ایک دوسرا گھر رہا ہے، یہاں گزرنے والے لمحات ہم سب کیلئے نہایت قیمتی اور خوُشکن ہیں۔اگر میں اپنا تجربہ بیان کروں تومیرے لئے سب سے فتح کُن لمحہ وہ تھا کہ جب ہمدرد کو ایک ساتھ دو دوٹرافیز کی صورت میں انعامات سے نوازا گیا۔ حماد،عائشہ، حفصہ میں تم لوگوں کے دمکتے چہرے کبھی نہیں بھُلا سکتی کہ جب فاتحین کا اعلان کیا گیا اور تم لوگوں کی کیفیت تھی کہ واہ یہ تو ہمارا انعام ہے۔جیت ہماری ہے۔ میری اب تک کی زندگی کا بطور انسان اور ہمدرد کی طالبہ کے یہ خوبصورت ترین لمحہ تھا۔
صبح سویرے جلد اٹھنے پر اور اسکول جانے کے شوق کے باوجود بھی یہ کہنا "امی ایک منٹ اور"بس میں سفر کرنا اور خواہش کرنا "یار، انکل آج لیٹ پہنچیں تو ہم ایکسرسائز سے بچ جائیں"۔کلاس کے دوران کوئی بیوقوفانہ لطیفہ سنانا یا بات کرنا اورسب کو ہنسنے پر مجبور کرنا باوجود اسکے کہ سخت ترین استاد کلاس میں ہوں۔بینچ پر بیٹھ کر والی بال کا میچ دیکھنا اور دعا کرنا کہ میچ چھُٹی تک ختم نہ ہو۔
یہ وہ لمحات ہیں جن کو ہم اپنی آئندہ زندگی میں نہاِت شدّت سےیاد کرنے والے ہیں۔آج جبکہ ہم اِس وقت میں موجود ہیں تو ہم اسے اہمیت نہیں دیتے مگر کل جب یہ لمحات ہمارا ماضی ہوں گے تو ہماری زندگیوں کی نہایت ہی خوشگواراور میٹھی یادیں ہونگی اورہم جب تک زندہ رہیں گے یہ یادیں ہمارے ساتھ ہونگی۔
ہمارے کھلنڈرے پن کی عمر کا سنہرا دور اب رخصت ہوا چاہتا ہے۔ میرے ہمدرد کے تمام طالبِ علم ساتھیوں نے بھی یہاں یقینا  مسرورکُن وقت گزارا ہے۔ ذرا ماضی کے دریچے وا کرتے ہیں کہ جب ہم بچے تھے،پیارے سے چہروں والے، چمکتے اور دمکتے سرخ گالوں والے کہ جیسے کسی سلطنت کے خوبصورت شہزادے اور شہزادیاں، اس جگہ وارد ہوئے کہ جو ہمارا دوسرا گھر ٹھہرا۔ اور اب ہم ہمدرد میں اپنےتعلیمی دور کا آخری بسر گزار رہے ہیں  ایسا لگتا ہے کہ ہم نے محض پلک جھپکی ہو مگر درحقیقت دس برس بیت چکے ہیں۔
میرے ذہن میں ہمدرد کی یادیں اَنمِٹ  سیاہی سے لکھی گئی ہیں۔

فارِحہ نے اپنی یادیں آپ سے بانٹیں اب میں اپنی یادیں آپ کو سنانا چاہوں گا جن کی اپنی الگ اہمیت ہے۔ میں کھیل کے حوالے سے اپنی فتوحات کو نہیں بھُلا سکتا جن میں ہار کا ڈر اور جیت کی لگن دونوں شامل رہے تاکہ ہم مسز گلزار کے لبوں پر مسکراہٹ بکھیر سکیں۔
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ اس برس ہمدرد نے انٹر اسکول والی بال کا مقابلہ جیتا ہے۔ آئیے میں آپ کو کھیل کے میدان کا منظر سناتا ہوں، کہ جب ہمارے ہاتھوں سے فتح نکلتی محسوس ہو رہی تھی ، وہاں دیگر کھلاڑی بھی موجود تھے اوروہ بھی سر ظفر کا چہرہ نہیں بھُلا سکتے جنھوں سے سرخ آنکھوں سے کہا تھا " میں کچھ نہیں بولوں گا" اور اسکے بعد ہم نے اپنی پوری جان لگا ڈالی کہ  پانسہ پلٹ گیا اور فتح ہماری تھی، وہ لمحہ شادمانی بھرا تھا۔
فارِحہ اور میں یہاں یقینا ہمدرد کے اساتذہ کا ذکر کئے بغیر نہیں رہ سکتے جو اتنے برس ہمارے ساتھ تھے، جنھوں نے اپنی پوری محنت سے ہماری  شخصیت میں ایمانداری بھری اور ہماری کردار سازی مثبت انداز میں کی۔ ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ آپ ہمارے اساتذہ رہے اور ہم اس پرآپ سب کو سلام پیش کرتے ہیں۔
ہمدر کی تعریف مسز گلزار کے بغیر نامکمل ہے، ہمدرد آج کامیابی کے جس مقام پر ہے محض آپکی انتھک محنت اور پُرستائش قیادت کی بدولت ہے۔ہماری شرارتوں پر سر بخاری کی پابندیاں اور پکڑ دھکڑ چاہے کتنی ہی سخت اوراساتذہ کی دی گئی سزائیں کتنی ہی تکلیف دہ تھیں مگر  ہم اِن لمحات کو بہت زیادہ یاد کریں گے  ساتھ ہی یہ بھی کہ شرارت کر چُکنے کے بعد سر ظفر پر تکیہ کرنا کہ وہ ضرور ہمیں بچا لیں گے۔
تصور کریں کہ اگلے چند برسوں بعد ہم کسی جامعہ کی کلاس میں ہوں گے، ہم میں سے چند کسی دفتر میں اور کچھ بال بچے دار ہو چکے ہوں گے تو یقینا یہ تمام یادیں ہماری لبوں پر مسکان لے آئیں گی۔ پیشہ ورانہ طور پر ہم ڈاکڑ، انجینئر یا استاد کچھ بھی بن جائیں ہم ہمیشہ ہمدردیئن ہی رہیں گے۔ہم یہ سب یاد کریں گے کہ ہمدردیئن ، ہمدرد کو بھُلا نہیں سکتا۔
جاتے جاتے ایک شعر ہمدرد کے نام،
جدائی پر ہی قائم ہے نظامِ زندگانی بھی
جداہوتاہےساحل سےگلے مِل مِل کےپانی بھی  

یہ تقریر حالیہ ہونے والی ایک پارٹی میں متذکرہ طلبہ نے کرنا تھی مگر وقت کی کمی کے باعث پیش نہ کی جا سکی۔ انگریزی کی اس تقریر کا اصل متن اس رابطہ پر پڑھا جا سکتا ہے۔ ہم نے ہمدرد کی یاد میں اسکا اردو ترجمہ کرنے کی جسارت کی ہے، ان دونوں بچوں کو ہم نے نہیں پڑھایا مگر انکے بڑے برادران ہمارے دور میں ہمدرد میں پڑھا کرتے تھے۔ ان لوگوں کی اپنے تعلیمی ادارے سے محبت کا یہ معصوم انداز ہمارے دل کو چھُو گیا ۔ اُمید ہے کہ قارئین بھی اس لمس کو محسوس کر پائیں گے۔