Tuesday, January 18, 2011

تصویرِ ہمدرداں- ہمدرد کے نام ایک نظم

گو کہ یہ نظم ہمدرد کے نام کی گئی ہے، لیکن ہم سمجھتے ہیں اسے پڑھ کر ہر قاری اپنی اسکول کی زندگی کو ضرور یاد کرے گا۔اگر آپ کو یہ کاوش پسند آئے توہمارے حق میں دعا کیجیئے گا اوراگر پسند نہ آئے تو اس پر پیشگی معذرت۔

اسکول ہمدرد کا تھا خوابِ سعید، ہوگیا حق کی راہ میں جو شہید

سجا گیا نخل اک صحرا میں وہ، آبِ حیاتِ علم دیتا ہے جو
چمن ہے یہ نونہالوں کا، علم سے محبت کرنے والوں کا
طلبہ یہاں جیسےہی  آتے ہیں، پرسکون  ماحول میں خود کو پاتے ہیں
درجہ اول میں آمد کے ساتھ، ہوتا ہے نئے دوستوں کا ساتھ
ملتی ہے اساتذہ کی شفقت بھی، اور ساتھیوں کی الفت بھی
روز سبق نیا اور کام نئے، بہت کچھ نیا سیکھنے کو ملے
کھیل کُود بھی ماردھاڑ بھی، ہر لڑائی کے بعدٹیچر کی جھاڑ بھی
یوں جاتے ہیں پانچ برس گزر، گماں ہوتا ہے پانچ دِنوں کا مگر
عمر پہنچتی ہے پہلی دھائی میں، دل لگانا پڑتا ہےپھر پڑھائی میں
بلاک ون سے ٹو میں آتے ہی، اولے پڑتے ہیں سر منڈاتے ہی
تین برس یہ مشقت سےبھرے ، جن میں تفریح بھی کرنے کو ملے
بیت جاتے ہیں پلک جھپکتے ہی، درجہ ہشتم کو پاس کرتے ہی
آٹھ درجوں کا یہ سفرِ حسیں، ایسا لڑکپن اور کہیں نہیں
وقت کا دھارا رخ بدلتا ہے، سیکھنے کو بہت کچھ ملتا ہے
کھیل کود، آرٹ،امورِ خانہ داری، سب سیکھ جاتے ہیں یہ باری باری
ووڈ ورک کے کارخانے میں، چیز نکمی نہیں کوئی زمانے میں
ٹیبلو، قرات، اسٹیج اور تقریریں، آتی ہیں تصور میں یہ تصویریں
آخری دو برسوں کا ہے کیا کہنا ، بلاک تھری میں کاش ہو سدا رہنا
یہاں کی ہربات ہی نرالی ہے، شیطانوں کی یہاں گوشمالی ہے
اسمبلی ایریا  میں قطار بناتے ہی، پکڑے جاتے ہیں ڈنڈی مارتے ہی
کلاس روم میں  تشریف لاتے ہیں،  حاضری اولا ہم لگاتے ہیں
لیبز بھی ہیں یہاں کرنے کو، موقع چاہیئے اٹھکھلیناں کرنے کو
لیب کوٹ جب بھول جاتے ہیں، جرمانہ بھرتے ہیں سزا پاتے ہیں
جرنل نامکمل ہو یا چیک نہ ہو، پانچ نمبروں کی رہتی ہے فکر تو
نیچر واک کہ یا ہو فیلڈ ٹرپ، ہوتا نہیں کوئی ان دِنوں  سلپ
فوڈ میلہ اور فٹبال ٹورنامنٹ، کرتے ہیں سبھی کمٹ منٹ
میڈم کے ہاتھوں اگر کھنچائی ہو، میرے اللہ تیری دہائی ہو
والدین بھی اسکول آتے ہیں،  کارنامے بچوں کے سُن کے جاتے ہیں
اساتذہ سے کرتے ہیں ملاقاتیں، گھر جاکے سناتے ہیں پھر باتیں
سِک بے کا قصہ بھی کیا کہوں، بہتر ہے کہ میں چپ ہی رہوں
اعلان پارٹی کا اسمبلی میں ہوتا ہے، دل میں پھر کچھ کچھ ہوتا ہے
تیاری خاکوں کی یا ہو کپڑوں کی، آس ہوتی ہے پوری صدیوں کی
رنگ برنگ پوشاکوں سے سجتے ہیں، پارٹی میں خوب پھر چمکتے ہیں
اعلان ہوتا ہےپھر  سالانہ کا، خوف جاگتا ہےاک انجانہ سا
یہ کیا،  دس برس بیت گئے؟، ہر کوئی خود سے یہ سوال کرے
یہ تو وقت بہت تیز گزرا، ابھی کل تو میرا پہلا دن تھا
گزرے برسوں پر نظر ڈالتے ہیں، بہت کچھ پاس اپنے پاتے ہیں
اس بینچ پہ ہم نے مل کے کھا یا تھا ،  یہاں سچ میں بڑا مزہ آیا تھا
اُس دن تم لنچ نہیں لائے تھے، سینڈوچ تم نے میرے کھائے تھے
کینٹین میں قطار کب بنائی تھی، دھینگا مشتی میں چیز گرائی تھی
ایک بار ٹیچر نے سرزنش کی تھی، بعد میں ہم نے ہش ہش کی تھی
نون قلم پہ ہوا تھا جب پھڈا، تھا یہ ہمارامستقل اڈّا
بس میں چلتی دوڑ کر بیٹھے تھے، اگلے دن پکڑ لئے گئے تھے
یہ مناظر جب یاد آئیں گے، وقت کو کیسے ہم پلٹائیں گے
کردار سازی کا عمل یہ تھا گو یا، بیچ جو حکیم صاحب نے تھا بویا
گر  کتاب یہ سب سکھا پاتی ، اسکول کی ضرورت ہی کیا رہ جاتی
جو بھی یہاں سے پڑھ کے جاتا ہے، ہمدرد کے گُن سدا وہ گاتا ہے
علم اور آگہی کے جو یاں دیپ جلے، ان سے جامعات کو نئی پود ملے
طلبہ یہاں کے جہاں بھی جاتے ہیں، سدا ہمدردیئن ہی کہلاتے ہیں
شان اونچی رہے ہمدرد کی سدا، ہے رب سے میری بس یہی دعا
حکیم سعید کی بھی مغفرت ہو، سعدیہ بی بی پہ رب کی رحمت ہو
بانی کی اپنے یاد دلاتا ہے، ہمدردکوکون بھول پاتا ہے

Sunday, January 9, 2011

حکیم صاحب کے بعد کیا ہوگا؟

آج حکیم صاحب کی سالگرہ پر اُنکی یہ تقریر سنتے ہوئے ایک عجب دلی کیفیت پیدا ہوئی جسے الفاظ میں نہیں ڈھالا جا سکتا۔ قارئین کی خدمت میں انکی تقریرکی یوٹیئوب ویڈیو دی جا رہی ہے، خود سنیں اور دیکھیں کہ وہ ایک عملی انسان تھے محض مسئلہ بیان نہیں کرتے تھے بلکہ اسکا حل بھی پیش کرتے تھے اور سب سے بڑی بات یہ کہ مثبت سوچ کے حامل تھے۔ اللہ تعالٰی انکے درجات بلند فرمائے اور ہمیں انکے صدقہ جاریہ میں شرکت کی توفیق دے، آٰمین 

Thursday, January 6, 2011

میں ایک پیچ ہوں

سائنسی اعتبار سے میراشجرہ بیلن اورسطح مائل سے ملتا ہے، یوں سمجھ لیں کہ میرا جنم ایک سطح مائل کو ایک بیلن پر لپیٹنے سے ہوا۔ سطح مائل کی لپیٹ کی وجہ سے میری شکل تخلیق ہوئی اور میری خوبصورت چوڑیاں وجود میں آئیں۔ میرے حسن کااندازہ انہی چوڑیوں سے ہوتا ہے اگر میری یہ دھاری دار چوڑی ٹوٹی ہوئی ہو یا یکساں درمیانی فاصلہ نہ رکھتی ہو تو میں کسی کام کا نہیں رہتا۔میری چوڑیوں کا یہ یکساں درمیانی فاصلہ عمودی طور پر ایک مکمل گردش پر جو فاصلہ طے کرتا ہے اسے انگریزی میں پِچ کہا جاتا ہے۔
میری بہت سی اقسام اور استعمالات ہیں۔ میرا ساتھی نٹ کہلاتا ہے جسکے ساتھ مِل کر تو میری پکڑ میں خاصا اضافہ ہو جاتا ہے۔ مجھے بہت سی جگہوں پراستعمال کیا جاتا ہے، گاڑی کے پہیے کو اس سے منسلک کرنا ہو یا گاڑی کو اٹھانا،دو پُرزوں کو جوڑنا ہویا کسی بھی میکانیکی مشین مثلا لیتھ وغیرہ، کو اسکی عملی حالت میں لانا ہو ہر جگہ مجھ سے ہی مدد حاصل کی جاتی ہے۔
مجھے کسی چھید میں کَسنے کیلئے پیچ کَس کی ضرورت پڑتی ہے جسکا منہ میرے سر کے لحاظ سے ہونا چاہئیے ورنہ مجھے کسَنا ممکن نہیں ہوتا۔ ایک ننھی سی کلائی کی گھڑی سے لے کر ایک عظیم الجثہ آہنی پُل یا بحری جہاز کی تخلیق میرے وجود کے بغیر ناممکن ہے۔موٹر مکینک کی دوکان پر بھی میری موجودگی اسکی روزی کمانے کا باعث ہوتی ہےجہاں مالک یا استاد کی آواز پر 'چھوٹے' یعنی شاگرد پانا اور رینچ لاکر استاد کو دیتے ہیں اور استاد موٹر کے کَل پُرزوں کو کسَتا ہے اور یوںمیری اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے اور میں پھولے نہیں سماتا۔
کسی بچے کے کھلونے میں بھی میری وجہ سے حرکت آتی ہے۔ اگر میں یا میرا کوئی بھائی بند ڈھیلا پڑ جائے تو بچے کے چہرے کی ہنسی ہوا ہو جاتی  ہے اور اسے اس بات کی فکر پڑ جاتی ہے کہ میں  جلد سے جلد کس دیا جاوں۔
گو کہ میں انسانی جسم میں کوئی عمل دخل نہیں رکھتا مگر پھر بھی کہا جاتا ہے کہ میں کسی کے دماغ سے گِر گیا ہوں۔ میرے یہ فوائد اورا ہمیت اپنی جگہ مگر مجھے ایک بات کا افسوس رہے گا کہ کاش میں انسانوں کے دلوں کو جوڑ سکتا یا کم از کم دو پڑوسیوں کے درمیان ہی محبت کی چادر سے انھیں منسلک کر دیتا کہ اسطرح انسان کو دوسرے انسان کا احساس رہتا۔ 

Saturday, January 1, 2011

تصویرِ ہمدرداں- ہمدرد کے نام

پیارے ساتھیومیں ہوں فارِحہ جمال اور میں ہوں احمد راجپوت

دوستو, ہمدرد ہم سب کیلئے ایک دوسرا گھر رہا ہے، یہاں گزرنے والے لمحات ہم سب کیلئے نہایت قیمتی اور خوُشکن ہیں۔اگر میں اپنا تجربہ بیان کروں تومیرے لئے سب سے فتح کُن لمحہ وہ تھا کہ جب ہمدرد کو ایک ساتھ دو دوٹرافیز کی صورت میں انعامات سے نوازا گیا۔ حماد،عائشہ، حفصہ میں تم لوگوں کے دمکتے چہرے کبھی نہیں بھُلا سکتی کہ جب فاتحین کا اعلان کیا گیا اور تم لوگوں کی کیفیت تھی کہ واہ یہ تو ہمارا انعام ہے۔جیت ہماری ہے۔ میری اب تک کی زندگی کا بطور انسان اور ہمدرد کی طالبہ کے یہ خوبصورت ترین لمحہ تھا۔
صبح سویرے جلد اٹھنے پر اور اسکول جانے کے شوق کے باوجود بھی یہ کہنا "امی ایک منٹ اور"بس میں سفر کرنا اور خواہش کرنا "یار، انکل آج لیٹ پہنچیں تو ہم ایکسرسائز سے بچ جائیں"۔کلاس کے دوران کوئی بیوقوفانہ لطیفہ سنانا یا بات کرنا اورسب کو ہنسنے پر مجبور کرنا باوجود اسکے کہ سخت ترین استاد کلاس میں ہوں۔بینچ پر بیٹھ کر والی بال کا میچ دیکھنا اور دعا کرنا کہ میچ چھُٹی تک ختم نہ ہو۔
یہ وہ لمحات ہیں جن کو ہم اپنی آئندہ زندگی میں نہاِت شدّت سےیاد کرنے والے ہیں۔آج جبکہ ہم اِس وقت میں موجود ہیں تو ہم اسے اہمیت نہیں دیتے مگر کل جب یہ لمحات ہمارا ماضی ہوں گے تو ہماری زندگیوں کی نہایت ہی خوشگواراور میٹھی یادیں ہونگی اورہم جب تک زندہ رہیں گے یہ یادیں ہمارے ساتھ ہونگی۔
ہمارے کھلنڈرے پن کی عمر کا سنہرا دور اب رخصت ہوا چاہتا ہے۔ میرے ہمدرد کے تمام طالبِ علم ساتھیوں نے بھی یہاں یقینا  مسرورکُن وقت گزارا ہے۔ ذرا ماضی کے دریچے وا کرتے ہیں کہ جب ہم بچے تھے،پیارے سے چہروں والے، چمکتے اور دمکتے سرخ گالوں والے کہ جیسے کسی سلطنت کے خوبصورت شہزادے اور شہزادیاں، اس جگہ وارد ہوئے کہ جو ہمارا دوسرا گھر ٹھہرا۔ اور اب ہم ہمدرد میں اپنےتعلیمی دور کا آخری بسر گزار رہے ہیں  ایسا لگتا ہے کہ ہم نے محض پلک جھپکی ہو مگر درحقیقت دس برس بیت چکے ہیں۔
میرے ذہن میں ہمدرد کی یادیں اَنمِٹ  سیاہی سے لکھی گئی ہیں۔

فارِحہ نے اپنی یادیں آپ سے بانٹیں اب میں اپنی یادیں آپ کو سنانا چاہوں گا جن کی اپنی الگ اہمیت ہے۔ میں کھیل کے حوالے سے اپنی فتوحات کو نہیں بھُلا سکتا جن میں ہار کا ڈر اور جیت کی لگن دونوں شامل رہے تاکہ ہم مسز گلزار کے لبوں پر مسکراہٹ بکھیر سکیں۔
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ اس برس ہمدرد نے انٹر اسکول والی بال کا مقابلہ جیتا ہے۔ آئیے میں آپ کو کھیل کے میدان کا منظر سناتا ہوں، کہ جب ہمارے ہاتھوں سے فتح نکلتی محسوس ہو رہی تھی ، وہاں دیگر کھلاڑی بھی موجود تھے اوروہ بھی سر ظفر کا چہرہ نہیں بھُلا سکتے جنھوں سے سرخ آنکھوں سے کہا تھا " میں کچھ نہیں بولوں گا" اور اسکے بعد ہم نے اپنی پوری جان لگا ڈالی کہ  پانسہ پلٹ گیا اور فتح ہماری تھی، وہ لمحہ شادمانی بھرا تھا۔
فارِحہ اور میں یہاں یقینا ہمدرد کے اساتذہ کا ذکر کئے بغیر نہیں رہ سکتے جو اتنے برس ہمارے ساتھ تھے، جنھوں نے اپنی پوری محنت سے ہماری  شخصیت میں ایمانداری بھری اور ہماری کردار سازی مثبت انداز میں کی۔ ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ آپ ہمارے اساتذہ رہے اور ہم اس پرآپ سب کو سلام پیش کرتے ہیں۔
ہمدر کی تعریف مسز گلزار کے بغیر نامکمل ہے، ہمدرد آج کامیابی کے جس مقام پر ہے محض آپکی انتھک محنت اور پُرستائش قیادت کی بدولت ہے۔ہماری شرارتوں پر سر بخاری کی پابندیاں اور پکڑ دھکڑ چاہے کتنی ہی سخت اوراساتذہ کی دی گئی سزائیں کتنی ہی تکلیف دہ تھیں مگر  ہم اِن لمحات کو بہت زیادہ یاد کریں گے  ساتھ ہی یہ بھی کہ شرارت کر چُکنے کے بعد سر ظفر پر تکیہ کرنا کہ وہ ضرور ہمیں بچا لیں گے۔
تصور کریں کہ اگلے چند برسوں بعد ہم کسی جامعہ کی کلاس میں ہوں گے، ہم میں سے چند کسی دفتر میں اور کچھ بال بچے دار ہو چکے ہوں گے تو یقینا یہ تمام یادیں ہماری لبوں پر مسکان لے آئیں گی۔ پیشہ ورانہ طور پر ہم ڈاکڑ، انجینئر یا استاد کچھ بھی بن جائیں ہم ہمیشہ ہمدردیئن ہی رہیں گے۔ہم یہ سب یاد کریں گے کہ ہمدردیئن ، ہمدرد کو بھُلا نہیں سکتا۔
جاتے جاتے ایک شعر ہمدرد کے نام،
جدائی پر ہی قائم ہے نظامِ زندگانی بھی
جداہوتاہےساحل سےگلے مِل مِل کےپانی بھی  

یہ تقریر حالیہ ہونے والی ایک پارٹی میں متذکرہ طلبہ نے کرنا تھی مگر وقت کی کمی کے باعث پیش نہ کی جا سکی۔ انگریزی کی اس تقریر کا اصل متن اس رابطہ پر پڑھا جا سکتا ہے۔ ہم نے ہمدرد کی یاد میں اسکا اردو ترجمہ کرنے کی جسارت کی ہے، ان دونوں بچوں کو ہم نے نہیں پڑھایا مگر انکے بڑے برادران ہمارے دور میں ہمدرد میں پڑھا کرتے تھے۔ ان لوگوں کی اپنے تعلیمی ادارے سے محبت کا یہ معصوم انداز ہمارے دل کو چھُو گیا ۔ اُمید ہے کہ قارئین بھی اس لمس کو محسوس کر پائیں گے۔