گو کہ یہ نظم ہمدرد کے نام کی گئی ہے، لیکن ہم سمجھتے ہیں اسے پڑھ کر ہر قاری اپنی اسکول کی زندگی کو ضرور یاد کرے گا۔اگر آپ کو یہ کاوش پسند آئے توہمارے حق میں دعا کیجیئے گا اوراگر پسند نہ آئے تو اس پر پیشگی معذرت۔
اسکول ہمدرد کا تھا خوابِ سعید، ہوگیا حق کی راہ میں جو شہید
سجا گیا نخل اک صحرا میں وہ، آبِ حیاتِ علم دیتا ہے جو
چمن ہے یہ نونہالوں کا، علم سے محبت کرنے والوں کا
طلبہ یہاں جیسےہی آتے ہیں، پرسکون ماحول میں خود کو پاتے ہیں
درجہ اول میں آمد کے ساتھ، ہوتا ہے نئے دوستوں کا ساتھ
ملتی ہے اساتذہ کی شفقت بھی، اور ساتھیوں کی الفت بھی
روز سبق نیا اور کام نئے، بہت کچھ نیا سیکھنے کو ملے
کھیل کُود بھی ماردھاڑ بھی، ہر لڑائی کے بعدٹیچر کی جھاڑ بھی
یوں جاتے ہیں پانچ برس گزر، گماں ہوتا ہے پانچ دِنوں کا مگر
عمر پہنچتی ہے پہلی دھائی میں، دل لگانا پڑتا ہےپھر پڑھائی میں
بلاک ون سے ٹو میں آتے ہی، اولے پڑتے ہیں سر منڈاتے ہی
تین برس یہ مشقت سےبھرے ، جن میں تفریح بھی کرنے کو ملے
بیت جاتے ہیں پلک جھپکتے ہی، درجہ ہشتم کو پاس کرتے ہی
آٹھ درجوں کا یہ سفرِ حسیں، ایسا لڑکپن اور کہیں نہیں
وقت کا دھارا رخ بدلتا ہے، سیکھنے کو بہت کچھ ملتا ہے
کھیل کود، آرٹ،امورِ خانہ داری، سب سیکھ جاتے ہیں یہ باری باری
ووڈ ورک کے کارخانے میں، چیز نکمی نہیں کوئی زمانے میں
ٹیبلو، قرات، اسٹیج اور تقریریں، آتی ہیں تصور میں یہ تصویریں
آخری دو برسوں کا ہے کیا کہنا ، بلاک تھری میں کاش ہو سدا رہنا
یہاں کی ہربات ہی نرالی ہے، شیطانوں کی یہاں گوشمالی ہے
اسمبلی ایریا میں قطار بناتے ہی، پکڑے جاتے ہیں ڈنڈی مارتے ہی
کلاس روم میں تشریف لاتے ہیں، حاضری اولا ہم لگاتے ہیں
لیبز بھی ہیں یہاں کرنے کو، موقع چاہیئے اٹھکھلیناں کرنے کو
لیب کوٹ جب بھول جاتے ہیں، جرمانہ بھرتے ہیں سزا پاتے ہیں
جرنل نامکمل ہو یا چیک نہ ہو، پانچ نمبروں کی رہتی ہے فکر تو
نیچر واک کہ یا ہو فیلڈ ٹرپ، ہوتا نہیں کوئی ان دِنوں سلپ
فوڈ میلہ اور فٹبال ٹورنامنٹ، کرتے ہیں سبھی کمٹ منٹ
میڈم کے ہاتھوں اگر کھنچائی ہو، میرے اللہ تیری دہائی ہو
والدین بھی اسکول آتے ہیں، کارنامے بچوں کے سُن کے جاتے ہیں
اساتذہ سے کرتے ہیں ملاقاتیں، گھر جاکے سناتے ہیں پھر باتیں
سِک بے کا قصہ بھی کیا کہوں، بہتر ہے کہ میں چپ ہی رہوں
اعلان پارٹی کا اسمبلی میں ہوتا ہے، دل میں پھر کچھ کچھ ہوتا ہے
تیاری خاکوں کی یا ہو کپڑوں کی، آس ہوتی ہے پوری صدیوں کی
رنگ برنگ پوشاکوں سے سجتے ہیں، پارٹی میں خوب پھر چمکتے ہیں
اعلان ہوتا ہےپھر سالانہ کا، خوف جاگتا ہےاک انجانہ سا
یہ کیا، دس برس بیت گئے؟، ہر کوئی خود سے یہ سوال کرے
یہ تو وقت بہت تیز گزرا، ابھی کل تو میرا پہلا دن تھا
گزرے برسوں پر نظر ڈالتے ہیں، بہت کچھ پاس اپنے پاتے ہیں
اس بینچ پہ ہم نے مل کے کھا یا تھا ، یہاں سچ میں بڑا مزہ آیا تھا
اُس دن تم لنچ نہیں لائے تھے، سینڈوچ تم نے میرے کھائے تھے
کینٹین میں قطار کب بنائی تھی، دھینگا مشتی میں چیز گرائی تھی
ایک بار ٹیچر نے سرزنش کی تھی، بعد میں ہم نے ہش ہش کی تھی
نون قلم پہ ہوا تھا جب پھڈا، تھا یہ ہمارامستقل اڈّا
بس میں چلتی دوڑ کر بیٹھے تھے، اگلے دن پکڑ لئے گئے تھے
یہ مناظر جب یاد آئیں گے، وقت کو کیسے ہم پلٹائیں گے
کردار سازی کا عمل یہ تھا گو یا، بیچ جو حکیم صاحب نے تھا بویا
گر کتاب یہ سب سکھا پاتی ، اسکول کی ضرورت ہی کیا رہ جاتی
جو بھی یہاں سے پڑھ کے جاتا ہے، ہمدرد کے گُن سدا وہ گاتا ہے
علم اور آگہی کے جو یاں دیپ جلے، ان سے جامعات کو نئی پود ملے
طلبہ یہاں کے جہاں بھی جاتے ہیں، سدا ہمدردیئن ہی کہلاتے ہیں
شان اونچی رہے ہمدرد کی سدا، ہے رب سے میری بس یہی دعا
حکیم سعید کی بھی مغفرت ہو، سعدیہ بی بی پہ رب کی رحمت ہو
بانی کی اپنے یاد دلاتا ہے، ہمدردکوکون بھول پاتا ہے