Sunday, February 13, 2011

کیا منائیں کیا چھوڑیں


اب کے برس تو عجب مشکل آن پڑی ہے کہ کس کوراضی کریں اور کس کو ناراض۔ ایک طرف چھوٹی بڑی عید کے ساتھ تیسری عید ہے اور دوسری جانب ایک بین الاقوامی تہوار، مذہب سے روگردانی کریں یا انتہا پسندی کا ثبوت دیں۔موسم بہار کا استقبال کریں یا بچوں کے اسکول کی دو ماہ کی فیس کا انتظام کریں کہ اس بار موسم سرما کی تعطیلات کی فیس فروری اور مارچ کی فیس کے ساتھ جانی ہے۔اگربیگم کوویلنٹائن کا تحفہ نہیں دیتے تو وہ ناراض اور اگرمذہبی رسومات پوری نہیں کرتے تو محبانِ دین سے کفر کے فتاوی کیلیئے تیار رہنا پڑتا ہے-جشنِ بہاراں نہیں مناتے تو بدذوقی کا طعنہ ملتا ہے اور اسکول کی فیس کی عدم ادائگی کی صورت میں بیگم اور اولاد دونوں کے سامنے جوابدہ ہونا پڑتا ہے۔
اب یہ تو زیادتی ہی ہوگی نا کہ ہم ان ایّام کو گنوا دیں سال میں ایک ہی تو موقع آتا ہے اپنی محبت دکھانے کا،چاہے وہ وطن سے ہو، ماں باپ سے، محبوبہ سے یا اپنے دین سے۔ کس قدر آسانی کی بات ہے کہ یہ ایّام مختص کر دیئے گئے ہیں اور ان کے نام رکھ چھوڑے ہیں کہ آج فلاں دن منایا جائے گا، کل وہ تہوار تھا اور آج یہ ہے، وطنِ عزیز کی آزادی منا لیں کہ آج چودہ اگست ٹھہری، جھنڈا لگایا اور ترانہ پڑھ کے فارغ۔باقی سال کے تین سو چونسٹھ دنوں میں وطن کی بچیوں سے ہی پیار جتاتے رہے ایک دن وطن کےلئے بہت ہے۔
اسکولوں میں تو دن منا منا کر بچوں کا یہ حال ہو جاتا ہے کہ وہ بیچارے یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ سال کے تمام دن رُوٹھے رہتے ہیں لہٰذا ان کا منا لینا ضروری ہے۔کبھی لال لباس اور کبھی سبز ،کسی دن ایک بچی کو پری بنا دیا جاتا ہے تو کبھی سنڈریلا۔
حُب یا محبت کے تقاضے ہوتے ہیں اور اگر دعوی عشق کا ہو تو پھر معشوق ہی دکھائی دیتا ہے اپنا آپ نہیں رہتا، صرف ایک دن منا لینے سے نہ تو ہم سچے عاشق بن سکتے ہیں اور نہ ہی دین و دنیا بہتر کر سکتے ہیں البتہ جن کی رسومات اختیار کرتے ہیں ہمارا حشر ضرور ان کے ساتھ ہوگا۔ محض تقلید اور وہ بھی اندھی ہمیں قطعی معتبر نہیں کر سکتی جب تک کہ ہم اپنے عمل کی اصل وجہ یا رسم کی صحیح حیثیت سے واقف نہ ہوں۔ ہمیں کسی کی پسند نا پسند پر تو کچھ کہنے کا حق نہیں لیکن ہمارے جیسوں کا حال دلآور فگار کے اس شعر میں سمٹا ہوا ہےکہ
یہ مانا کہ میں پورا مسلماں تو نہیں ہوں
رشتہ اپنے دین سے تو جوڑ سکتا ہوں
حج، روزہ، نماز ،زکوۃ کچھ نہ سہی
شبِ برات اک پٹاخہ تو پھوڑ سکتا ہوں