Wednesday, March 23, 2011

نئے زمانے کا ذکر ہے


نئے زمانے کا ذکر ہے کہ دُور دیس میں چند بڑے بچے رہتے تھے، وہ سب کام اپنی مرضی سے کرتے، جب دل چاہتا سوتے، جب دل چاہتا اٹھ جاتے ، کھانے پینے میں بھی انکا یہی حال تھا۔ آپس میں اس قدر پیار کرتے تھا کہ قطار بنا کر بنا ٹوکن کے ایک ہی غسل خانہ باری باری استعمال کرتے، سونے کے کمروں میں بھی یہی حال رہتا کہ دو گدوں پر تین بڑے بچے چوڑائی کی جانب سوتے تھے۔ وہ دوپہر میں ناشتہ کرتےکیوں کہ انکی صبح اپنے وقت کے لحاظ سے ہوتی تھی۔ مگر رات کا کھانا سب ملکررات میں ہی کھا لیتے تھے۔
ان سب کے شوق بھی عجب طرح کے تھےایک کو بلا وجہ لکھنے کا شوق تھا توایک کو بولنے کا، کوئی کارٹون دیکھتا تو کوئی محلے کے بڑے بچوں کے ساتھ دُور والے گراونڈ میں کھیلنے چلا جاتا،کسی کو فجر کی نماز اول وقت میں پڑھنے کی جلدی تو کوئی عشاء آخری وقت میں پڑھتا۔ کسی کو مرغی سے دشمنی کہ دنیا بھر کی ساری مرغیاں اکیلے نے ہی ختم کرنے کا ارادہ کر رکھا ہو تو کوئی چاول کے کھیت اُجاڑنا چاہتا تھا۔کوئی مچھلی سے دور بھاگتا کہ کھاتا ہی نہیں تھا تو کوئی دودھ سے محبت رکھتا تھا۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس قدر پھیکا کھانا کھاتے تھے کی رات کے کھانے کے بعد کبھی بھی میٹھا کھانے کی ضرورت پیش نہ آتی۔
ان بڑے بچوں کی یادداشت بہت اچھی بھی تھی، مثلا ان میں سے کوئی بھی کھانا کھانا نہیں بھولتا تھا ،ایک دوسرے کی اچھائیاں بیان کرنا نہیں بھولتا تھا، کھانے میں مرچ ہلکی رکھنا نہیں بھولتا تھا اور اپنی کھانا پکانے کی باری نہیں بھولتا تھا۔ مگر پھر بھی انسان ہونے کے ناطے بھولتے بھی تھے جیسے ناشتہ کرکے پلیٹ دھونا، میز صاف کر کے ٹشو پھینکنا ، چائے پی کے کپ سرہانے سے اٹھانا وغیرہ وغیرہ۔
ان کے گھر میں سب سے اہم جگہ بارورچی خانہ تھی جس میں وہ تمام چیزیں سنبھال کر رکھتے تھے یہاں تک کہ خالی ڈبے، کیچپ کی بوتلیں، دودھ کی خالی بوتلیں، سگریٹ کی خالی ڈبیہ، کیک یا آئسکریم کے پیک،کولڈ ڈرنک کے کین، چائے کی پتی جو چائے نکالنےکے بعد کیتلی میں بچی رہتی ، پھلوں کے چھلکے جن میں کیلا خاص طور پر شامل ہے، کئی دنوں کا جمع شدہ کچرا جسے کالی تھیلی میں گرہ لگا کر اس سوچ سے محفوظ کر لیا جاتا کہ 'کوئی' پھینک دے گا۔


نوٹ:یہ کہانی سچ مت سمجھی جائے اور تصاویرکیمرہ ٹِرک بھی ہو سکتی ہیں، اس کہانی کے کردار فرضی طور پر حقیقی اور حقیقی طور پر فرضی ہو سکتے ہیں لہذا مشابہت پر کوئی بری شکلیں بناتا ہے تو کہانی پڑھنے والے کو شکایت درج کرا سکتا ہے، اس پر اسی طرح عمل کیا جائے گا جیسے الیکشن کمیشن میں ضمانت ضبط ہونے والے امیدوار کے ساتھ کیا جاتا ہے۔

Sunday, March 6, 2011

بلاگ لکھنے کا ایک سال


پچھلے برس کچھ یہی دن تھے کہ ہم نے احوالِ موسمِ سڈنی قارئین کی نذر کیا تھا اور یوں اس بلاگ کی ابتدا ہوئی۔ چچا غالب تو تخلیق کو غیب سے آمد بتاتے ہیں اور ہم ان کی اس بات سے متفق بھی ہیں کہ غالب سے کون اختلاف کرسکتا ہے،اس بات کا بخوبی تجربہ ہمیں گذشتہ اکھتّر تحاریر لکھنے کے دوران بارہا ہوا کہ کبھی بس کے سفر کے دوران کبھی رات سونے سےپہلے اور کبھی کبھارنماز میں بھی مضامین کی آمد ہوتی رہی، سو ہم نے ان کو غیب سے ہی آمد جانا اور نوائے سروش پر کان دھرے کی بورڈ چلاتے رہے۔
جی ہاں ایک برس اور ۷۱ پوٹس، ۴۶۹ تبصرے اور کئی پسندیدگی کے کلکس،پچھلے برس جون سے لے کر تا حال ساڑھے دس ہزار سے زائد وزٹس یہ وہ اعداد و شمار ہیں کہ جو ہمارا حوصلہ بڑھاتے رہے اور ہم گاہے بگاہے کچھ نہ کچھ لکھا کیا۔ایک برس کچھ اتنا لمبا عرصہ نہیں اور نہ ہی ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم لکھاوٹ کی ابجد سے بھی واقف ہیں مگر اتنا ضرور ہے کہ اس بلاگ پر ہم اپنے دل کی بھڑاس جی بھر کر نکال لیتے ہیں۔ ہم نے اپنے بلاگ پر سڈنی میں قیام کے حالات کے ساتھ ساتھ، ہمدرد میں بحیثیت استاد کے گزارے یادگار ایّام کا  احوال بھی قلمبند کیا، اس کے علاوہ دیگر موضوعات پر بھی طبع آزمائی کی۔ انگریزی کے دلدادہ قارئین ہمارے انگریزی کے مضامین یہاں پڑھ سکتے ہیں۔
الحمداللہ ،ہم شکر گزارہیں ان تمام احباب و قارئین کے جنھوں نے ہمارے بلاگ کو رونق بخشی، اپنے تبصروں سے نوازا اور ہماری حوصلہ افزائی فرمائی۔ ان تمام کے ساتھ سب سے زیادہ ہم ان خاموش قارئین کی اپنے بلاگ پر آمدکا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے ہمارے بلاگ پر کبھی کوئی تبصرہ نہ فرمایا اوراپنی اور ہماری عزّت رکھ لی ۔ میٹرک، انٹر میں انگریزی کی نظموں میں 'انو نیمس' نامی شاعر کی نظمیں پڑھا کرتے تھے یہ شاعر ہمارے بلاگ پر بھی بارہا تبصرے فرماتے رہے اور ہم نے التجا بھی کی کہ برائے خدا گمنامی اختیار نہ کریں اور تبصرہ کے ساتھ اپنا نام بھی تحریر فرمائیں، اس کے باوجود بھی ہم یہ سمجھتے ہیں کہ تبصرہ نہ کرنے سے کم سے کم یہ صورتِ حال بہترہے۔
بلاگ لکھنے کے اس ایک برس کے دوران ہمیں اردو کے دیگر کئی بلاگ پڑھنے کا بھی اتفاق ہوااور یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے۔ اردو بلاگ انٹرنیٹ پر جس طرح پنپ رہا ہے اس نے ہمیں اس فکر سے آزاد کر ڈالا ہے کہ ہمارے بچوں کو مستقبل میں کمپیئوٹر پراردو دکھائی بھی دے گی یا نہیں۔ زبان سے رشتہ ہمیں اپنی شناخت کو برقرار رکھنے میں مدد دیتا ہے کیونکہ ہم بھی آتش کے بقول زبانِ غیر سے شرح آرزو کے قائل نہیں ہیں لہذا اس عمل میں شرکت کو کارِ خیر گردانتے ہیں اور قارئین سے مزید کرم فرمائی کے منتظر ہیں۔