ہمارے بلاگ کے مستقل قارئین اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ہم سِڈنی کے قیام کے دوران کے حالات قلمبند کرتے چلے آئے ہیں گو کہ یہ سلسلہ کافی عرصہ سے موقوف تھا لیکن آج گزشتہ دن کا حال پیش کرنا چاہ رہے ہیں۔
معاملہ کچھ یوں ہوا کہ ذیشان انصاری اور زبیر اخلاق جو کہ نوواردان ہیں اور ہماری ہی جامعہ میں زیرِ تعلیم ہیں سے ہماری رفاقت ہے اور ان دونوں صاحبان کے ساتھ ایسٹر کی چھٹی پر ہم نے سِڈنی کی آوارہ گردی کی ٹھانی۔ طے یہ پایا کہ فجر پڑھتے ہی نکل کھڑے ہوں گے۔ ایک دن کابس، فیری اور ریل کا ٹکٹ ہم پہلے ہی خرید چکے تھے کیونکہ میرِ کارواں ہم ہی مقرر کئے گئے تھے۔ فجر پڑھنے کے فورا بعد ہم نے انڈوں اور پنیر کے سینڈوچ بنائے اور بیگ میں کچھ خشک سامان ڈال بس اسٹاپ پر پہنچ گئے۔ بارش کی پیشنگوئی سحری کے وقت دیکھ چکے تھے لہذا تینوں کے پاس چھتریاں موجود تھیں۔ بس میں سوار ہو کر شہر پہنچے۔ یہاں سٹی کی اصطلاح 'صدر' کے معنی میں استعمال کی جاتی ہے۔سٹی سے ایک اور بس لینا تھی جو ہمیں ڈیڑھ گھنٹے بعد پام نامی ساحل پر اُتارتی۔ جب ہم سٹی کے اسٹاپ پر جو کہ مرکزی 'سینٹرل' ریل اسٹیشن کے قریب ہے پر موجود تھے تو بارش شروع ہو چکی تھی ۔ خیر پام بیچ کی بس میں سوار ہوئے اور ہاربر برج پار کرتے ہوئے شمالی سِڈنی میں داخل ہوگئے۔ شمالی سڈنی کے مشرق میں سمندر ساتھ ساتھ چلتا ہےا ور ہوتے ہوتے یہ قطعہ اراضی مغرب سے بھی سمندر کو چھونے لگتا ہے اور یوں ایک کھاڑی سی وجود میں آجاتی ہے۔ یہاں پر پہاڑیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ وطن والوں کو ہم اس طرح سمجھائیں گے کی آپ سڑک کے راستے اگر اسلام آباد سے مری کا سفر شروع کریں تو جو مناظر دیکھنے کو ملیں گے کم و بیش ویسے ہی نظارے ہمیں بس کے سفر کے دوران دیکھنے کو ملے۔ فرق صرف اتنا تھا کی ہمارے ساتھ کھائیاں نہیں بلکہ سمندر تھا اور ہم پہاڑ پر بچھی سڑک سے مشرق میں اسے دیکھ رہے تھے۔ گو کہ اس سے پہلے ہم صاف ستھرے اور جدید شہر سے گزر کر یہاں تک آئے تھے مگر اب قدرتی مناظر انسانی کاریگری اور جدّت پر غالب آتے جا رہے تھے۔
ساحل سے پہلے مقامات پر کشتی رانی کے لئے بنائی گئی چھوٹی بڑی کئی گودیاں دکھائی دیں جن پر لوگ اپنی ذاتی کشتیاں بھی لا سکتے ہیں، ایسی ہی ایک بڑی گودی پام بیچ سے کچھ پہلے بھی تھی جس پر لوگوں کی خاصی بھیڑ دکھائی دی، خیر ہمارا منصوبہ تو ساحل تک جانے کا تھا کہ جو بس کے آخری اسٹاپ پر تھا لہذا ہم بس سے اترنے والے آخری مسافر تھے۔ بارش وقفہ وقفہ سے ہو رہی تھی اور موسم سرد تھا۔ ساحل پر اکّا دکّا لوگ نظر آئے کیونکہ گورا اپنا رنگ کالا کرنے سمندر پر آتا تو ہے مگر دھوپ میں، یہ ہم دیسی ہی تھے جو ایسے موسم میں ساحل دیکھنے کی چاہ میں یہاں تک چلے آئے تھے۔ ہم میں سے زبیر کراچی میں نہیں رہتے تو انکا سمندر کو دیکھ کر وہ حال ہوا جیسے ایک کراچی والے کا کسی پہاڑی گلیشیئر کو دیکھ کر ہوتا ہے۔ سو وہ جوتے نکال ، برستے مینہ میں چھاتا لئے ساگر نمشکار کےلئے چل پڑے اور ہم ذیشان کے ساتھ انہیں جاتا دیکھ کر مسکرانے لگے۔
انکے واپس آنے پر ہم نے سینڈوچ کھائے اور پیدل ہی کشتیوں والی گودی کی جانب چل پڑے۔راستے میں تصاویر اتارتے رہے اور صاف ستھری ہوا اپنے پھیپڑوں میں بھرتے سڑک کے کنارے رکتے چلتے پام بیچ کے کشتیوں والے پڑاو پر آکر رکے۔ یہاں بس اسٹاپ تھا اور بس آیا ہی چاہتی تھی سو ہم نے موقع کا فائدہ اٹھایا اور ایک کھوکے سے کافی پی، یہ کھوکے کا لفظ ہم نے کافی کے معیار کی وجہ سے استعمال کیا ہے۔
کافی ختم ہونے تک بس آچکی تھی تو ہم پھر سے حالتِ سفر میں آگئے اور منز ل تھی ورنگا مال جو کہ برُوک ویل نامی علاقہ میں ہے، یہاں سے ہمیں مینلی بیچ کی بس بدلنا تھی سو ارادہ کیا کہ اس مال کو بھی دیکھ لیا جائے۔ مال کافی بڑا تھا۔ ہم نے وقت کی کمی کے باعث محض ایک ہی اسٹور دیکھا اور واپس سب اسٹاپ آکر مینلی کے لئے روانہ ہوئے۔ مینلی اس مال سے زیادہ دور نہ تھا ۔ جب ہم مینلی کی گودی پر اترے تو بارہ بج رہے تھے۔ وہیں پر نینڈوز ہے جس پر ظہرانے کی ہماری پہلے سے نیّت تھی، نینڈوز کا تذکرہ ہم پہلے بھی کر چکے ہیں اور یہاں مقیم قریبا تمام ہی دیسی اس کے ذائقہ کے معترف ہیں سو ڈٹ کر مرغ اڑایااور مینلی کے ساحل کی راہ لی، راستہ میں کلفٹن کے ساحل کی طرز پر بازار ہے جس میں روایتی اشیاء سیاحوں کو اپنی جانب راغب کرتی ہیں اور وہ اپنے بٹوے میں موجود ڈالز سے اپنی پسندیدگی کو بدل لیتے ہیں۔
ساحل پر خاصی رونق تھی اور بارش کافی پہلے ہی رک چکی تھی لہذا لوگ اپنے اپنے انداز میں محظوظ ہو رہے تھے، ایک ضعیف بابا جی کہ جو خود لاٹھی کے سہارے چل رہے تھے، ہاتھ میں کاغذی لفافے میں ملفوف بوتل لئے ہمارے قریب ایک بینچ پر تشریف فرما ہونے لگے اور ہماری نظریں اپنی بوتل کی جانب اٹھتے دیکھ کر گویا ہوئے کہ اس میں جوس ہے اور ہمیں بے اختیار چچا غالب یاد آ گئے کہ
گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر ومینا مرے آگے
مینلی کی گودی تک واپس آکر فیری میں سوار ہوئے اور اس کے کھلے حصے میں ایک بینچ پر قبضہ جما لیا کہ کھلے سمندر کا نظارہ آسانی سے کیا جا سکے اور یار لوگ دل کھول کر تصاویر اتار سکیں۔ فیری کا سفر بہت اچھا رہا خاص طور پر جب آپ ہاربر برج اور اوپیرا ہاوس کے بیچ سے گزرتے ہیں تو کیمرے خوب کلک کرتے ہیں اور ہر کوئی ان عظیم تخلیقات کے ساتھ تصویر کھنچوانا پسند کرتا ہے۔ اس مرکزی گودی کو'سرکولر کی' کہا جاتا ہےیہ ایک بہت بڑا سیاحتی مقام ہے اور بس، ریل اور فیری ہر طرح کی سواری یہاں سے سِڈنی کے طول وعرض کو جاتی اور آتی ہے۔ اوپیرا ہاوس بھی یہیں ہے ہم اوپیرا کے قریب سے دیدار کے لئے ہی یہاں آئے تھے۔ مگر اوپیرا سے پہلے ہماری توجہ ایک شعبدہ باز نے اپنی جانب مبذول کروالی۔ یہ حضرت ایک بائیسکل پر سوار تھے ۔ بائیسکل پر سوار ہوناکچھ عجب نہیں مگر اگر یہ بائیسکل ایک کھمبے پر دھری ہو اور وہ کھمبہ پانچ دھاتی تاروں کے ساتھ تنا ہو کہ جنھیں پانچ افراد نےایک دائرہ میں پکڑ رکھا ہواور اس بائیسکل پر سوار شخص ایک ہاتھ میں خنجر کہ جسکی نوک پر ایک سیب پیوست ہو اور دوسرے ہاتھ میں ایک مشعل لئے ہو تو آپ خودبخود اس مجمع میں شامل ہو جاتے ہیں جو یہ تماشہ دیکھ رہا ہوتا ہے اور یہی ہمارے ساتھ بھی ہوا۔ان صاحب نے ابتدائی تقریر کے بعد بائیسکل پر کھڑے ہوکر سیب، جلتی مشعل اور نوکیلے و لمبے خنجر کے ساتھ شعبدہ بازی کی اور تینوں کو ایک ساتھ اچھالتے ہوئے ایک دائرہ میں پکڑتے چھوڑتے سیب چبایا بھی اور گھومایا بھی۔ کچھ لمحوں کے بعد یہ تماشہ خوش اسلوبی سے انجام دینے کے بعد لوگوں سے ڈالز اور داد طلب کئے۔
مینلی کی گودی تک واپس آکر فیری میں سوار ہوئے اور اس کے کھلے حصے میں ایک بینچ پر قبضہ جما لیا کہ کھلے سمندر کا نظارہ آسانی سے کیا جا سکے اور یار لوگ دل کھول کر تصاویر اتار سکیں۔ فیری کا سفر بہت اچھا رہا خاص طور پر جب آپ ہاربر برج اور اوپیرا ہاوس کے بیچ سے گزرتے ہیں تو کیمرے خوب کلک کرتے ہیں اور ہر کوئی ان عظیم تخلیقات کے ساتھ تصویر کھنچوانا پسند کرتا ہے۔ اس مرکزی گودی کو'سرکولر کی' کہا جاتا ہےیہ ایک بہت بڑا سیاحتی مقام ہے اور بس، ریل اور فیری ہر طرح کی سواری یہاں سے سِڈنی کے طول وعرض کو جاتی اور آتی ہے۔ اوپیرا ہاوس بھی یہیں ہے ہم اوپیرا کے قریب سے دیدار کے لئے ہی یہاں آئے تھے۔ مگر اوپیرا سے پہلے ہماری توجہ ایک شعبدہ باز نے اپنی جانب مبذول کروالی۔ یہ حضرت ایک بائیسکل پر سوار تھے ۔ بائیسکل پر سوار ہوناکچھ عجب نہیں مگر اگر یہ بائیسکل ایک کھمبے پر دھری ہو اور وہ کھمبہ پانچ دھاتی تاروں کے ساتھ تنا ہو کہ جنھیں پانچ افراد نےایک دائرہ میں پکڑ رکھا ہواور اس بائیسکل پر سوار شخص ایک ہاتھ میں خنجر کہ جسکی نوک پر ایک سیب پیوست ہو اور دوسرے ہاتھ میں ایک مشعل لئے ہو تو آپ خودبخود اس مجمع میں شامل ہو جاتے ہیں جو یہ تماشہ دیکھ رہا ہوتا ہے اور یہی ہمارے ساتھ بھی ہوا۔ان صاحب نے ابتدائی تقریر کے بعد بائیسکل پر کھڑے ہوکر سیب، جلتی مشعل اور نوکیلے و لمبے خنجر کے ساتھ شعبدہ بازی کی اور تینوں کو ایک ساتھ اچھالتے ہوئے ایک دائرہ میں پکڑتے چھوڑتے سیب چبایا بھی اور گھومایا بھی۔ کچھ لمحوں کے بعد یہ تماشہ خوش اسلوبی سے انجام دینے کے بعد لوگوں سے ڈالز اور داد طلب کئے۔
اوپیرا ہاوس کسی تعارف کا محتاج نہیں، یہ نا صرف اپنی آب و تاب اور تعمیراتی طلسم کی بدولت منفرد مقام رکھتا ہے بلکہ ثقافتی، تفریحی ، معلوماتی اور سیاحتی تمام حیثیتوں میں سڈنی کے حسن میں اضافہ کرتا ہے۔ یہاں ہر وقت ہی لوگ موجود ہوتے ہیں جو مختلف زاویوں سے اسے پرکھتے، منظر کشی کرتے اور مشاہدہ کرنے آتے ہیں۔ گو کہ یہاں قریبا ہر رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے افراد آیا کرتے ہیں مگر ہم اپنے جیسے دیسیوں کو دور سے ہی پہچان لیتے ہیں کہ دیسی چاہے ودیسی لباس میں ہی کیوں نہ ہو چھپائے نہ چھپے ۔
اوپیرا سے اگلا پڑاو تھا دنیا کا ایک مشہور ساحل جسے بونڈائی کہا جاتا ہے۔ جن لوگوں نے پامیلا انڈرسن کا پروگرام بے واچ دیکھا ہے وہ اتنا سمجھ لیں کہ بونڈائی پر ایسے مناظر عام طور پر دکھائی دیا ہی کرتے ہیں۔ لیکن آج یہاں پامیلا اینڈرسن تھی اور نہ ہی بے واچ جیسے مناظر کہ سورج بھی چھٹی پر تھا اور ہم بفضلِ تعالٰی گناہِ بے لذّت سے بچ گئے تھے۔
بونڈائی آنے کےلئے ہمیں ریل سے ٹاون ہال کے اسٹیشن سے اگلی ریل لینا تھی سو ہم جیسے ہی ٹاون ہال پر اتر کر بونڈائی جنکشن کی ریل کےلئے برقی سیڑھیوں سے مطوبہ پلیٹ فارم پر پہنچے توریل تیار کھڑی تھی، ہم آگے تھے تو ہم سوار ہو گئے جبکہ ذیشان اور زبیر پیچھے رہ گئے اور اس دوران ریل کے خودکار دروازے بند ہو گئے۔ خیر یہ دونوں بھی پیچھے آنے والی ریل سے بونڈائی جنکشن آ پہنچے کہ اسٹیشن پر تمام ریلوں کی معلومات دی جاتی ہےا ور ہم نے فون پر ان کو تسلی دے دی تھی۔ بونڈائی جنکشن سے بس لے کر آپ بونڈائی کے ساحل پر آتے ہیں۔ سو ہم بھی بونڈائی کے ساحل پر پہنچے اور کچھ چہل قدمی کی، تصاویر کھینچی جاتی رہیں اور بعد از مغرب ہم واپس بونڈائی جنکشن آئے۔ بونڈائی جنکشن دراصل ایسا مقام ہے جہاں بس اور ریل دونوں دستیاب ہیں اور ساتھ ہی ایک شاندار شاپنگ مال بنام ویسٹ فیلڈ موجود ہے۔ ویسٹ فیلڈ ایک آسٹریلیائی کمپنی ہے اور نیوزی لیند، برطانیہ اور امریکہ میں اپنے شاپنگ مال رکھتی ہے۔ ہم نے یہاں بھی ونڈو شاپنگ کی کیونکہ زیادہ تر اسٹور بند ہو چکے تھے۔
ویسٹ فیلڈ سے باہر نکل کر ہمارا مشرق مغرب گھوم گیا، اور ہم ریل کے اسٹیشن کی کھوج میں کچھ پریشان سے ہو گئے بالآخرایک راہگیر نے ہمیں درست سمت بتلائی اور ہم زمین دوزاسٹیشن اترے۔ یہاں سے سینٹرل پہنچے اور طے یہ پایا کہ دیسی کھانا کھایا جائے۔انزیک پریڈ سے متصل ایک سڑک کلیولینڈا سٹریٹ ہے جس پر لال قلعہ نامی ایک ریسٹورینٹ ہے کہ جسے ہم انڈین سمجھتے آئے تھے وہ درحقیقت پاکستانی نکلا۔ یہاں پر ہم نے چکن تکہ مصالحہ، دال مکھنی اور پالک پنیر تازہ تازہ نانوں کے ساتھ تناول کیا اور پاکستانی کھانے کا لطف اٹھایا۔ عشائیہ کے بعد گھر کی راہ لی، یوں ہماری سڈنی کی یاترا اختتام پذیز ہوئی۔
جھلکیاں:
زیبرکو تصاویر کھنچواتے ہوئے اس بات کا خیال تھا کہ ارد گرد کے لوگ بھی تصویر میں دکھائی دیں۔
ذیشان کو ہر قدم پر تصویر بنوانے کا شوق تھا کہ وہ پوری سیر یادگار بنانا چاہتے تھے۔
ان لوگوں نے دوسو سے زائد تصاویراتاریں۔
لال قلعہ میں خاصی تعداد میں گورے بھی کھانا کھاتے دکھائی دیئے۔
لال قلعہ میں ہم نے کوئی تصویر نہیں بنائی۔
الحمد الاللہ پوری سیر میں کوئی نماز قضا نہ ہوئی ۔ ظہر اوپیرا میں اورعصر ومغرب بونڈائی پر ذیشان کی امامت میں ادا کی۔