بہت سے ایسے کام جو ابتک آسٹریلیا میں انجام دینے سے رہ گئے تھے ان میں ایک ہوائی سفر بھی شامل تھا۔ سو مالی سال کے روزِ اول کو یعنی آج یہ کام بھی کر ڈالا۔ مقصد پر بعد میں روشنی ڈالیں گے فی الوقت صرف حالاتِ سفر پیشِ خدمت ہیں۔
ہمارے دوست سید فراز علی سے بلاگ کے قارئین بخوبی واقف ہیں ان کی جہاں اور بہت سی بیان کردہ اور ناقابلِ بیان خصوصیات ہیں وہیں ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہ سامان سفر باندھنے جسے انگریزی میں پیکنگ کہتے ہیں میں بھی خاصے ماہر ہیں۔ سو ہم نے انھیں اپنے سفرِ میلبورن کے لئے سامان باندھنے کی پیشگی فرمائش کر رکھی تھی۔ انھوں نے بخوشی اس کی ہامی بھری اور ہمارا بیگ تیار کرایا، کپڑوں کو اس طرح خوبصورتی سے تہہ کیا کہ انھیں نکالنے اور رکھنے میں بھی آسانی رہے اور بیگ کی گنجائش میں بھی فرق نہ پڑے۔ اس مرحلہ سے نمٹنے کے بعد اگلا معاملہ تھا ایئرپورٹ روانگی۔ سو ایسے مواقع پر عزیزم محمد عمران اور انکی ہنڈا اکارڈ کام آتی ہے کہ دفتر جاتے ہوئے وہ ہمیں ایئرپورٹ چھوڑتے گئے۔ جب ہم سڈنی کے ڈومیسٹک ٹرمینل نمبر دو میں داخل ہوئے تو صبح آٹھ بجکر بائیس منٹ ہو رہے تھے اورورجن نامی آسٹریلیائی ہوائی کمپنی کا یہ ٹرمینل مسافروں سے پُر تھا۔ شکر ہے کہ ہم نے اپنا بورڈنگ پاس آن لائن ہی چھاپ یعنی پرنٹ کرلیا تھا لہٰذا سامان جمع کرانے والی قطار میں لگ گئے اور چکر کھاتی اس قطار میں تماشائے اہلِ کرم دیکھتے رہے۔
اس ملکی اور بین الاقوامی ہوائی کمپنی سے روزانہ ہزارہا لوگ سفر کرتے ہیں اور اسکی وجہ یہ ہے کہ ملک کے طول و عرض میں جہاز کا سفر ریل کے مقابلے میں سستا پڑتا ہے۔ اور کبھی کبھار تو سیل کے چکر میں آپ کو ایک جانب کے کرایہ پر آنے جانے کایعنی ریٹرن ٹکٹ بھی مل جاتا ہے۔
ہم اپنی باری کے آنے پر ایک حسینہ کے سامنے کاوئنڑپر جا کھڑے ہوئے اور اپنا بورڈنگ اور جامعہ کا شناخت نامہ نکال کر پیش کیا، اس حسینہ نے سفری بیگ کا وزن کر کے اور ایک پیشہ ورانہ مسکراہٹ کے ساتھ ہمیں اس کی رسید تھما ئی اور ہمیں لاونج میں جانے کا عندیہ دیا۔ آگے بڑھے تو جینز کی بیلٹ اتارنا پڑی اور لیپ ٹاپ کو بیگ سے نکال کر ٹوکری میں رکھنے کا حکم ملا۔ خیر یہ مرحلہ بھی طے ہوا۔ جب ہم مطلوبہ گیٹ پر پہنچے تو اسوقت نو بجکر پانچ منٹ ہوئے تھے اور دیوار پر لگی سکرین سے پتہ چلا کہ ہماری سوا نو بجے والی پرواز اب ساڑھے نو بجے روانہ ہوگی، اس پر ایک عجیب سی خوشی محسوس ہوئی کہ چلو کہیں تو گورے بھی ہمارے جیسے نکلے۔
کیونکہ پرواز میں ابھی وقت تھا تو ہم نےگوروں کے ہوائی اڈے کے بازار میں مٹر گشت کیا- لاری اڈے اور ہوائی اڈے کے مناظر کم وبیش ایک جیسے ہی ہوتے ہیں، لاری اڈے پر آپ کو بسوں کے کنڈکٹر اپنی جانب کھینچتے ہیں تو ہوائی اڈے پر یہی کام حسینوں کی قد آور تصاویر سے لیا جاتا ہے کہ جو ہوائی جہاز کے ساتھ مسکراتی دکھائی دیتی ہیں۔ لاری اڈے پر ایک اڈا منیجر قابض ہوتا ہے تو ہوائی اڈے پر ایئر ٹریفک کنٹرولر، غرض دونوں کی اصل ایک ہی ہے اور انسان محض ایک مسافر کی حیثیت رکھتا ہے کہ لاری ہو یا جہاز اس نے سوار ہو کر اپنی منزل پر اتر ہی جانا ہےچاہے سفر طویل ہو یا قلیل، اصل منزل تو سب کی ایک ہی مقرر کردہ ہے اور یہ سب وقتی اور عارضی پڑاو ہیں ۔
واپس آکر قطار میں لگے تو ابھی بھی اعلان ہوا کہ جہاز کے لئے داخلی دروازے پانچ منٹ بعد کھلیں گے۔اس پر بھی نشستوں کی ترتیب کے لحاظ سے جہاز کی پچھلی نشستوں پر براجمان ہونے والے مسافران کی باری پہلے آئی اور بچوں، ضعیف اور بزنس کلاس کے مسافر پہلے جہاز کی جانب روانہ کئے گئے۔ اس پر ہمیں بے اختیار ہنسی آئی کہ بزنس کلاس والے ضعیف اور بچوں کے زمرہ میں آتے ہیں۔
ہماری نشست کا قطار نمبر دس تھا اور ترتیب ایف تھی اور یہ کھڑکی والی نشست تھی۔ یہ جہازکل ایک سو اسی نشستوں پر مشتمل تھا اور اپنے نام کے لحاظ سے ہوائی بس تھا کہ بقول شاعر
ع پاوں پھیلاوں تو دیوار میں سر لگتا ہے
جہاز میں گھستے ہی 'کیسی' نامی ہوائی میزبان حسینہ نے ہمارا استقبال کیا اور بورڈنگ پاس دیکھ کرمحض ایک ہلکی سی مسکان پیش کی۔ اس سے بہتر تو ہمارے ملک کی ہوائی میزبان ہوتی ہیں کہ جو مسافران کی تمام ترایسی حرکات ،کہ جنہیں معقول قطعی نہیں کہا جاسکتا ،کے انکی نشست پر چھوڑ کر آتی ہیں۔ خیر اس میں اس کیسی کا کوئی خاص قصور نہیں تھا کہ نشستوں کے درمیان اتنی ہی جگہ تھی جتنی اندرون ملتان کے پرانے محلے کی گلیوں کی چوڑائی۔ ہم جب اپنی نشست کی قطار پر پہنچے تو دیکھا کہ سہ نشستی ترتیب کے درمیان والی نشست پر ایک پکی عمر کی مشرقِ بعید کے کسی ملک کی خاتون براجمان تھیں جو ہمارے ایکسکیوزمی کرنے پر اٹھ کھڑی ہوئیں اور ہمارے لئے ہماری نشست کا راستہ کھول دیا۔ہم اپنی نشست پر جا ٹکے اور ابھی سیدے ہی ہوئے تھے کہ اعلان ہوا کہ جہاز کے داخلی دروازے بند ہوا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد جہاز نے رن وے پر چلنا شروع کیا اور فضائی میزبان سفر کے دوارن کی احتیاطی ہدایات دینے لگیں کہ جن کا اردو ترجمہ ہمیں وطن میں سفر کر کر کے منہ زبانی یاد ہو چکا ہے، یہاں بھی گورے نے ہماری نقل کر رکھی ہے کہ ہماری اردو کے مطابق ہی پوری ہدایات انگریزی میں دیتاہے ۔
جہاز نے اڑان بھری اور سڈنی سے یوں اڑنے کا ہمارا پہلا تجربہ شروع ہوا۔ سڈنی کا ہوائی اڈا بہت سے بین الاقوامی ہوائی اڈوں کی طرح سمندر کے کنارے ہے یا بالکل سمندر پر ہی ہےکہ اگر جہاز کے پر بروقت نہ مڑیں تو آپ کا ہوائی جہاز بحری جہاز میں تبدیل ہو سکتا ہے۔خیر جہاز کی اڑان میں ہم گورے سے مرعوب ہونے والے ہرگز نہیں ہیں کیونکہ دنیا جانتی ہے کہ ہمارے وطن کے ہواباز دنیا کے مانے ہوئے ہوا بازوں میں شمار ہوتے ہیں۔
سفر کے دوران جہاز کی بلندی چونتیس ہزار فٹ تھی ،یہاں بھی ہماری ایئر بلیو اس ورجن بلیو کو مات دے گئی کیونکہ ہم وطن میں اپنے آخری ہوائی سفر سن ود ہزار نومیں ملتان سے کراچی چھتیس ہزار فٹ کی بلندی پر اڑتے ہوئے آئے تھے۔اصل تماشہ تو تب شروع ہوا جب کھانے کی ٹرالی لائی گئی اور فضائی میزبانوں نے مسافروں کو قیمتا اشیائے خورد ونوش پیش کیں۔ غالب تو مئے بھی قرض کی پی لیا کرتے تھے اور آج ہمیں پانی بھی خرید کر پینا پڑا اور وہ بھی اتنا کہ سمجھ نہ آئی کہ کلی کریں یا حلق سے معدے میں اتاریں۔ ہمارے برابر والی خاتون نے عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈبے والا فروٹوپہلے سے ہی ساتھ لیا ہوا تھا اور ان کے ساتھ والے صاحب اپنے لئے پھلوں کی سلادلائے تھے جس سے اس بات کا اندازہ ہوا کہ یہ لوگ مقامی ہوائی سفر کے عادی تھے۔ ہمیں اس بات کا علم تو تھا کہ یہاں کے ہوائی جہازوں میں ایسا ہوتا ہے کیونکہ کرایہ ہی اتنا کم رکھا جاتا ہے تو کھانا پینا مہیا نہیں کیا جاتا مگر ہم اپنے سرکاری مزاج کو کہاں لے جاتے کہ بیٹھے بٹھائے کھانا کھانے کی عادت جاتے جاتے جاتی ہے۔
ہماری ہمسفر خاتون نے اپنے چہرے پر اس قدر قلعی کر رکھی تھی کہ عمر شریف کے بیان کردہ خواتین کےمیک اپ پر مشتمل لطا ئف کی جیتی جاگتی تصویر دکھائی دے رہی تھیں اور ہماری ایک نظر ان پر اٹھی تو دوبارہ اٹھنے کی ہمت نہ کر پائی کہ ہم جہاز میں ابکائی کرتے کیا اچھے لگتے۔
جہاز کے باہر کے مناظر میں بادل اور ہرے پہاڑ غالب تھے جن میں کہیں کہیں برفیلی چوٹیاں بھی شامل تھیں اور چند ایک مقامات پر جھیلیں بھی دکھائی دیں۔
فضائی میزبان سفید نصف آستین والی قمیض اور خاکی پاجامہ یعنی پینٹ میں ملبوس تھیں اور ایک کو چھوڑ کر سب بھورے بالوں والی تھی جن کے جُوڑے کچھ کچھ افقی سمت میں بنے ہوئے تھے۔ان کا کام کچھ زیادہ نہ تھا کیونکہ کھانے کی ٹرالی سے تو غالبا آدھے سے بھی کم مسافر مستفید ہوئے تھے۔البتہ انہیں دیکھ کرتمام مرد مسافران نے اپنا دامن آگے سے پھٹنے کی خواہش کااظہار ضرور کیا ہوگا کہ بقول استاد مشتاق احمد یوسفی "ہم سب کے دامن پیچھے سے پھٹے ہوئے ہیں اور آگے سے پھٹنے کی امید میں جی رہے ہیں"۔
جہاز گو کہ تاخیر سے روانہ ہوا تھا لیکن میلبورن کم و بیش ٹھیک وقت پر اترا۔ ہوائی کمپنی بیشک ورجن تھی مگر فضائی میزبانوں کے بارے میں کچھ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا۔