مسلسل دو برس دیارِغیر میں گزارنے کے بعد جب بندہ وطن آتا ہے تو وطن کےلوگوں سے لے کر آب وگیا تک سب خوبصورت و حسین لگتے ہیں مگر آہستہ آہستہ حقیقت کھلنے لگتی ہے اور یہ ادراک ہوتا ہے کہ'خوب تھا کہ جو دیکھا، جو سنا افسانہ تھا'۔ قصہ کچھ یوں ہوا کہ چند دن پہلے ہم ایک قدرے نئی انٹرنیٹ سروس پروائیڈر کے ہتھے چڑھ گئے اور قریب کی ایک دوکان سے وائی فاوئی ڈیوائیس خرید لی۔ بتایا گیا کہ دو گھنٹوں میں انٹرینیٹ سروس شروع ہو جائے گی اور ہم آن لائن ہوسکیں گےمگر صاحب پورے تیس گھنٹوں اور سات عدد موبائل کالز کہ جو اس کمپنی کو کی گئی تھیں کے بعد یہ عقدہ کھلا کہ جو ڈیوائیس ہمیں وائی فائی کے نام پر بیچی گئی تھی وہ در حقیقت ایک ڈیسک ٹاپ ڈیوائیس تھی اور دکاندار نے ہمیں کراچی کی زبان میں چونا لگایا تھا۔ ایک تو رمضان، دوسرے ہمارا مسلمان ہونا اور تیسرے پاکستانی اور وہ بھی ایسا پاکستانی کہ جو ابھی ابھی گوروں کے دیس سے دو برس بعد لوٹا ہو ہم پر ایک ایک کر کے اس طرح منکشف ہوئے جیسے پڑوسی ملک کے چینلز پر چلنے والے ڈراموں کے دوران صوتی اثرات اور موسیقی کی ترتیب۔ غصہ شاید نہایت چھوٹا لفظ ہے جو ہماری دلی کیفیات کی ترجمانی کر سکے۔ وہ ڈیوائیس دوکاندار کو شکریہ کے ساتھ واپس کی اور الگے دن اسی کمپنی کے ایک سیل سینٹر جا نکلے کہ ہمیں بھی ضد ہو چلی تھی کہ اسی کمپنی کا نیٹ استعمال کرنا ہے وہاں جاکر اپنی دکھ بھری ببتا سنائی کہ ہم دودھ کے جلے ہیں مگر چھاچھ پینا چاہتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ پھونک مارنے کی نوبت نہیں آئے گی، ہماری داستان سن کےوہاں موجود حسینہ قدرے شرمندہ ہوئیں اور ہمیں دلاسہ دیا کہ وہ یہ نوبت نہیں آنے دیں گی، مگر اساتذہ نے سچ کہا ہے کہ حسینوں کے وعدوں کا اعتبار نہیں کرنا چاہیئے۔ ہم ان سے مطلوبہ ڈیوائیس اور ان کی بات پر ایمان بھی لے آئے مگر انٹرنیٹ سروس کے چالو ہونے کے لیئے ہمیں آٹھ گھنٹے انتظار کرنا پڑا اور وہ بھی دو عدد مابائل کی کالز کے خرچہ پر تب کہیں جاکر ہم اس قابل ہوئے کہ یہ سطور آپ تک پہنچا سکیں۔
اب آپ ہی بتائیے کہ کیا اس پورے واقع میں شامل افراد کے اس طرح کے 'حسنِ سلوک' کے ذمہ دار ہمارے ملک کے سیاستدان ہیں یا ہم بحیثیت قوم ہی وعدہ خلافی، دھوکا دہی اور غلط بیانی میں مبتلا ہو چکے ہیں اور یہ زحمت بھی گوارا نہیں کرتے کہ خود کو سدھار لیں یا کم از کم اپنے کئے پر شرمندہ ہی ہو جائیں۔