Thursday, September 29, 2011

کوالالمپور میں تین پہر، دوسرا اور آخری ٹکڑا

یہ ٹیکسی ڈرائیورصاحب دراصل چینی تھے اور نام ولیئم تھا، ہم نے ان سے پیٹروناس ٹاور اور مسجد سلطان صلاح الدین عبدالعزیز دیکھنے کی خصوصی فرمائش کی۔ انھوں نے موخر الذکر پر معذرت کر لی کہ وہ ہمارے راستے سے قدرے ہٹ کر تھی مگر شہر دکھانے کا وعدہ کیا۔
ملائیشیا بھی ہماری طرح فرنگی آقا رکھتا ہے اور اس کا یومِ آزادی ۳۱اگست کومنایا جاتا ہے اس وجہ سے شہر بھر میں ہمیں وہاں کے قومی پرچموں کی بہار دکھائی دی۔ ہم نے ریل کےہیڈ کوارٹر سے اپنی آورہ گردی کا آغاز کیا اور ٹیکسی میں چڑھتے اترتے اور تصاویر کھینچتے گئے۔ ٹیکسی ہمارے ہاں کی طرح کی عام گاڑی نہ تھی بلکہ چھ نشستوں پر مشتمل تھی۔
ہم نے ٹیکسی ڈرائیور سے خاصی دوستی کر لی تھی اور انھیں فرمائش کی کہ کہیں دیسی قسم کا ناشتہ کروا دیں وہ ہمیں اندرون شہر لے گئے اور کراچی کی برنس روڈ سے ملتی جلتی جگہ پر جاکر ٹیکسی روکی۔ یہاں مسلم ناموں کے کافی چھپڑ ہوٹل تھے ہم ایک ہوٹل میں گھسے تو یوں لگا کہ ایمپریس مارکیٹ کراچی سے ملحق کسی چائے کا ہوٹل ہو۔ 'استاد' یعنی ہوٹل والے سے انگریزی میں بات کی اور پوچھا کہ ناشتہ میں کیا ہے تو انھوں نے جواب دیا کہ پراٹھہ وِد پلس، ہم نے پوچھا وچ ون تو گویا ہوئے کہ مونگ، اندھا کیا چاہے دو آنکھیں سو ہم نے فوری طور پر دو پراٹھوں کا آرڈر دے ڈالا کیونکہ دال تو مفت تھی ساتھ ہی اپنے لئے آم کا رس اور ذیشان کے لئے پیپسی بھی منگوائی۔ ناشتہ کرکے یوں لگا کہ ہم کافی حد تک پاکستان پہنچ چکے ہیں۔ہوٹل کی آب و ہوا بھی خاصی دیسی دیسی سی تھی۔ ناشتے سے فارغ ہو کر بھر آوارگی کا سلسلہ شروع کیا اور پیٹروناس ٹاور، کوالالمپور ٹاور، شہر کا قدرتی ماحول کا چڑیا گھر، قدیم و جدید عمارات اور سڑکیں دیکھ ڈالیں۔ کہیں ہمیں یہ شہر کراچی جیسا دکھتا تو کہیں سڈنی کی طرز کا غرض یہ کہ یہ بستی بستے بستے بسی ہوگی لیکن اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ یہ مشرق و مغرب  کا حسین امتزاج نظر آیا۔ اسکی وجہ یہاں کے لوگ تھے جن میں خواتین بالخصوص یا تو سر ڈھکے دکھائی دیں جو ان کے مسلمان ہونے کی نشانی تھی تو کہیں  سر وں سے رِدا کے ساتھ ساتھ کافی کچھ کم تھا۔
کیونکہ صبح کا وقت تھا تو ہر عمر، رنگ و نسل کے لوگ دکھائی دئیے، جن میں اسکول جانے والے طلبہ و طالبات سے لے کر دیہاڑیدار طبقہ سبھی شامل تھے۔مختصر یہ کہ شہر واسی پوری طرح بیدار ہوکر دن کا آغاز کر چکے تھے۔
پیٹروناس ٹاور پر تصاویر لیتے ہوئے ہمیں وہاں کے چوکیدار نے سیٹی سے نوازا کیونکہ ہم جذباتی ہو کر ایک اونچے چبوترے پر چڑھ گئے تھے جس پر چڑھنا منع تھا۔
حسبِ معاہدہ ہم نے ولیئم سے ۹ بجے کے لگ بھگ ہوائی اڈہ چلنے کو کہا۔ انھوں نے ٹیکسی بڑی شاہراہ پر لے لی۔ مقامی زبان کا ایک لفظ ہم اس دوران رومن انداز میں سڑکوں کے ناموں سے سیکھ چکے تھے اور وہ تھا 'جلن' جسکے انگریزی ہجے جے اے ایل اے این تھے اور اسکے معنی سڑک یا شاہراہ کے ہیں۔ اب جناب یہ ہوائی اڈہ تھا کہ مسلسل چالیس منٹ ہائی وے کی حدِ رفتار پر چلنے کے باوجود آکر ہی نہیں دے رہا تھا۔ ہم نے ٹیکسی کے میٹر پر نظر ڈالی جو ولیئم نے شاید ہمیں جتانے یا اپنے اندازے کے لئے چلا دیا تھا تو پتہ چلا کہ انھوں نے ہمیں ایئرپورٹ کا جو کرایہ الگ سے بتایا تھا وہ بالکل ٹھیک بتلایا تھا۔ خدا خدا کر کے پچاس منٹ کے بعد ہم ہوٹل کی پارکنگ میں تھے اور ہمیں اندازہ ہو گیا تھا کہ ہم شہر کا پورا چکر لگا آئے تھے کیونکہ ریل سے جاتے ہوئے ہم شمالی سمت میں گئے تھے اور واپسی پر سڑک جنوب سے آرہی تھی۔ ہم نے ولیئم کو پورا کرایہ مع کچھ بخشش کے ادا کیا اس پر انھوں نے ہمارا نہایت احسان مندی سے شکریہ ادا کیا۔
ہم نے ہوٹل کو خیر باد کہا اور ہوائی اڈہ پیدل ہی چل پڑے ،کیونکہ ہم نے اب تک کوئی خریداری نہ کی تھی تو وہاں کی مارکیٹ دیکھنے کا ارادہ کیا، ویسے بھی پرواز میں اڑھائی گھنٹے رہتے تھے۔ ابتدائی حصے میں کچھ بھاو اور اشیاء کے معیار کا اندارہ کیا اور پھر ویزا کاونٹر کی جانب چل پڑے وہاں سے خودکار ریل لی اوربین الاقوامی آمد و روانگی کے دروازوں کی جانب جا پہنچے۔ یہاں بھی بازار خاصا پھیلا ہوا ہے جسے ہم علی الصبح بند دیکھ چکے تھے۔ یہاں کچھ خریداری کی اور برگر کنگ کا مشہور برگر پیک کروا لیا۔ اس دوران ذیشان ہم سے بچھڑ چکے تھے اور ہم بھی آوارہ گردی میں گھڑی دیکھنا بھول گئے۔ برگر کنگ نے نکلے تو پتہ چلا کہ بارہ بج چکے ہیں، بھاگم بھاگ جہاز کی سرنگ کی جانب پہنچے اور جہاز میں داخل ہوئےتوذیشان کو نشست پر پایا، اپنا سامان ترتیب دیا تو انھوں نے بتایا کہ ہمارے ناموں کا اعلان دو بار کیا جا چکا تھا اور وہ یہ سوچ کر جہاز پہ چلے آئے کہ ہم ان سے پہلے اعلان سن کر پہنچ چکے ہوں گے۔
خیر ہمارے جیسے اور بھی دو صاحبان تھے جن کے نام پکارے جاتے رہے اور بالآخر ساڑھے بارہ بجے مسافران کی گنتی پوری ہوئی، مگر جہاز نے اڑان ایک بجے کے قریب بھری اور ہم فضا سے شہر کا مشاہدہ کرنے سے قاصر رہے کیونکہ ہم بیچ کی چارنشستوں والی ترتیب پر براجمان تھے۔ ہاں اتنا ضرور دیکھا کہ ہمارے ایک پاکستانی بھائی نے ہوائی میزبان کے نہایت مہذبانہ انداز میں ٹوکنے کے باوجود بھی موبائل پر بات کرنا بند نہ کی یہانتکہ وہ بیچاری اس امید پر چل دیں کہ جہاز کے فضا میں بلند ہونے پروہ حضرت باز آ جائیں گے، مگر آفرین ہے ان صاحب پر کہ وہ اس وقت تک موبائل پر بات کرتے رہے جب تک کہ ایک خاص بلندی پر موبائل کا زمینی رابطہ ختم نہ ہو گیا۔
ختم شُد 

Wednesday, September 21, 2011

کوالالمپور میں تین پہر، پہلا ٹکڑا

امسال رمضان کے آخری عشرہ میں ہم وطن کے لئے عازمِ سفر ہوئے تو ہوائی سفر کی پیشگی ٹکٹ حاصل کرلی۔ گذشتہ دو برسوں سے ہم سڈنی میں ہی مقیم تھے اور یہیں اس بلاگ کی بنیاد بھی رکھی تھی۔ اب کی بار ہمارا یہاں سے واپس جانا ایسا ہی تھا  کہ جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے یعنی کہ دو سال کے وقفہ کے بعد وطنِ عزیز میں زندگی کے معمولات وہیں سے اختیار کرنا تھے یہاں موقوف ہوئے تھے۔ اس لئے ہماری خوشی اس قیدی جیسی تھی جو طویل قید کے بعد اپنوں سے ملنے والا ہوتا ہے۔ اس واپسی کے سفر میں ہم نے کیونکہ ملائیشیا کی ہوائی جہاز کی کمپنی یعنی ملائیشیئن ایئرلائن کا ٹکٹ خریدا تھا اس وجہ سے ہمارا مختصر قیام دارالحکومت کوالالمپور میں تھا۔ہمارے دوست فراز احمد خان کی بدولت ہمیں اس مختصر قیام کے لئے ہوٹل پین پیسیفک میں ہوائی کمپنی کی جانب سے  کمرہ مل گیا تھا کیونکہ انھوں نے ٹریول ایجنٹ سے سفارش کی تھی۔
ہمارا جہاز جب کوالالمپور کے ہوائی اڈہ پر اترا تو صبح کے چار بجا چاہتے تھے، فضا سے شہر خاصا جدید دکھائی دیا، مگر کیونکہ ابھی صبح کا سپیدہ نمودار نہیں ہوا تھا اس وجہ سے ہم شہر کے طول و عرض کا بخوبی اندازہ نہ کر سکے۔ہوائی اڈے پر اترنے کے بعد ایک خودکار ریل کے ذریعے بین الاقوامی آمد کے خروج پہ پہنچے، یہاں  پروانہ راہداری یعنی ٹرانزٹ ویزا لگوایا، خاتون افسر نے چار دنوں کا ویزا جاری کردیا۔ اسی دوران ذیشان راشد ہم سے آن ملے، یہ سڈنی والی پرواز میں بھی ہمارے ہمسفر تھے مگر ہماری ملاقات ان سے نہ ہو سکی تھی۔موصوف کراچی سے ہی تعلق رکھتے ہیں، ہمارے ایک عدد شاگردیحیی شعیب  کے افسر ہوا کرتے ہیں اور ان کے ساتھ میلبورن میں ایک ہی گھر میں رہائش پذیر ہیں۔ ان سے ہماری ملاقات ہمارے میلبورن کے دورہ جولائی میں ہوئی تھی۔ ان کی صورت میں ہمیں کوالالمپور میں عارضی قیام  کا ایک ساتھی میسر آ گیا۔ہم  دونوں کا قیام مندرجہ بالا ہوٹل میں ہی تھا تو ویزا لگوانے کے بعد ہوٹل کی چھوٹی گاڑی میں بیٹھ کر ہوٹل پہنچے جو ہوائی اڈہ کے ساتھ ہی تھا۔ ذیشان کا کمرہ پانچویں اور ہمارا آٹھویں منزل پر تھا۔ کمرہ کیا تھا گویا ایک جوڑے کے لئے آسائشوں سے بھر پور مسکن تھا کہ جسکا غسل خانہ بھی کراچی کی منی بسوں سے زیادہ کشادہ معلوم ہوتا تھا۔ کمرہ میں دو عدد پلنگ مشرقی دیوار کے ساتھ لگائے گئے تھے بیچ میں ایک میز تھی جس پر لیمپ دونوں پلنگوں کے لئے دیئے گئے تھے، کمرہ کا داخلی دروازہ جنوبی سمت تھا اور شمال میں ایک شیشے کی کھڑی دیوار کا کام دیتی تھی۔ اسکے ساتھ دو آرام کرسیاں اور ایک گول میز رکھی تھی  مغربی دیوار کے ساتھ کھڑکی کی جانب لکھائی کی میز مع کرسی تھی اور اسکے ساتھ سامسنگ کا اسمارٹ ٹی وی ایک میز پر رکھا تھا جس کے نیچے پورا نعمت خانہ موجود تھا، اس میں چائے کافی کا سامان مگ اور برقی کیتلی رکھی تھی۔ دروازے کے دائیں جانب الماری مع سیف اور کپڑوں کے لٹکانے کے اہتمام کے ساتھ موجود تھی جس میں جوتے رکھنے کی جگہ اور استری سب کچھ دیئے گئے تھے۔
ہم نے کمرہ میں آتے ہی غسل کیا اور تازہ دم ہوگئے، چائے بنا کر پی جسکا مزہ الگ ہی لگا، سفر میں ہونے کی وجہ سے ہم نے غالب کے بقول روزہ بہلانا شروع کردیا تھا۔ ٹی وی دیکھا اور فجر کی اذان سنی نماز ادا کی جسکے لئے روم سروس سے جائے نماز بھی منگوائی۔ انٹرنیٹ استعمال کیا اور قریبا چھ بجے کے بعد نیچے اترے اور ذیشان کے ساتھ ہوائی اڈہ سے چلنے والی ایکسپریس ٹرین کے اسٹیشن کی جانب چل پڑے۔ اس ریل کا پتہ ہمیں سڈنی میں محترم محمد سمیع نے دیا تھا کہ جو کوالالمپور میں ایک وقت گزار چکے ہیں۔ اس دوران ہم نے کرنسی بھی بدلوا لی اور  ریل کے ٹکٹ خریدے۔ یہ ایکسپریس  ٹرین بنا رکے مرکزِ شہر  کا فاصلہ محض اٹھائیس منٹ میں طے کرتی ہے  اور ہر پندرہ منٹ بعد دونوں جانب چلتی ہے۔ریل کے بارے میں پتہ نہ چل سکا کہ خودکار ہے یا نہیں مگر اتنا ضرور پتہ چلا کہ آسٹریلیا کی ریل کو اس ایشیائی ملک کی ریل نے مات دے دی تھی، نہ صرف یہ کہ رفتار اور اندرونی ساخت جدید تھی بلکہ اس میں فور جی وائی فائی سروس مہیا کی گئی تھی اور پوری ریل میں بوگیوں کی الگ ہیئت معلوم نہ ہوتی تھی، ساتھ ہی اس میں ٹی وی اسکرینز آویزاں تھیں۔
جب ہم مرکزِ شہر کے اسٹیشن پر اترے تو سات بج چکے تھے اور سورج نمودار ہوچکا تھا۔ ہمارا ارادہ تھا کہ ہم دو گھنٹوں میں شہر میں آوارہ گردی کرکے ہوائی اڈے چلے جائیں گےاور کچھ وقت وہاں کے بازار میں گزاریں گے کیونکہ ہمیں کوالالمپور سے کراچی کا بورڈنگ پاس پہلے ہی مل چکا تھا لہذا چیک ان کا مرحلہ درپیش نہ تھا۔
اسٹیشن پر ایک بہت بڑا ٹیکسی اسٹینڈ تھا جس پر مختلف کمپنیوں کی ٹیکسیاں موجود تھیں ۔ ہمیں غیر ملکی دیکھ کر ٹیکسی والے ہاتھوں ہاتھ لینے لگے، مگر ہم نے کاونٹرسے کرایہ کی بابت معلومات حاصل کیں اور ساتھ ہی اپنا ارادہ بھی بتلا دیا کہ ہماری کی رضا تھی۔ وہاں موجود صاحب نے ہمیں مشورہ دیا کہ ہم کسی ٹیکسی والے سے کرایہ طے کرلیں اور آوارہ گردی کا شوق پورا کرلیں۔ ہم نے ان کے مشورہ پر عمل کرتے ہوئے ایک پکی عمر کے ٹیکسی ڈرائیور سے بات کی جو کہ ہماری گفتگو سن رہا تھا اور ان دونوں نے مقامی زبان میں بات بھی کر لی تھی۔ خیر ہم نے ان سے کرایہ طے کیا اور ہوائی اڈے کا بھی بتا دیا، تھوڑا بہت بھاو تاو کرنے کے بعد ہم نے اپنے سفر کا آغاز کیا۔
جاری ہے