اتنے میں افطار کا وقت ہوا چاہتا تھا لہٰذا ہم نے استادِ محترم کے گھر کی راہ لی اور مغرب کے قریب وہاں پہنچ گئے۔اپنے ساتھ لائی ہوئی کھجوروں سے روزہ افطار کیا اور استادِ محترم کو بھی افطار کرایا۔ عصرو مغرب ادا کی، جائےنماز ہم ساتھ ساتھ لے گئے تھے ، ایک کٹر عیسائی کی خوابگاہ میں اللہ تعالٰی کے حضور سجدہ ریز ہوئے۔
ذیشان نے اب تک گوروں کے گھروں کو فلموں میں ہی دیکھا تھا مگر آج اصل میں گورے کا گھر دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ اس دوران خاتونِ خانہ کھانے کی میز سجا چکی تھیں۔ عمران اور ہمیں انگریزی کھانے کا بخوبی اندازہ و تجربہ تھا مگر ذیشان کی لئے یہ پہلا تجربہ تھا۔ اب کھانے کی تفصیل کچھ یوں تھی کہ ابلی ہوئی سبزیاں ، انڈے کی گریبی جس میں شوربہ ندارد تھا، ابلے چاول مع زیرہ کے، اور ابلی ہوئی سبز موسمی پھلیاں۔ میٹھے میں کسٹرڈتھا جو کہ ایک خاص قسم کے انگریزی طعام کے ساتھ کھانے کا حکم ملا، اس میں ابلے ہوئے جو، باجرا اور دیگر اجناس کے مرکب جس میں سیبوں کا مربہ بنا شکرکے شامل تھا۔ کھانے کے دوران عمران اور ہم مسلسل ذیشان کو تکے جارہے تھے کہ انھیں چٹ پٹا کھانا کھانے کی عادت تھی اور یہ کھانا مصالحہ کے بغیر تھا ۔ استادِ محترم اور استانی جی نے یقینا اپنی جانب سے بہترین کھانے کا انتظام کیا تھا مگر ہماری دیسی زبانیں اس ذائقہ کو کیا جانیں۔ ذیشان پر جو گزری وہ کم وبیش وہی کیفیت تھی کہ جسکا تجربہ ہم اپنے پہلے دورہ میں کر چکے تھے۔
کھانے کے دوران استانی جی کینیڈا کے قصّے سناتی رہیں اور ہمیں گرم مشروب بھی پیش کیا یہاں تک کہ استاد جی کو گفتگو میں مخل ہونا پڑا۔ ان کے گرجا گھر جانے کا وقت ہو چلا تھا تو وہ استانی جی کو انکے قصوں پرکن اکھیوں سے روکنے لگے۔ استانی جی نے سلسلہ کلام موقوف کیا اور ہمیں جانے کی اجازت دی۔
ہم استاد جی کی رہنمائی میں عمران کی گاڑی کے ذریعے گرجا گھر جاپہنچے۔یہ گرجا گھر روایتی چرچ نہیں تھا بلکہ اسے ایک قدرے جدید طرز کا اجتماعتی مرکز کہا جاسکتا ہے۔ اسکا نام ۶۴۵چرچ تھا کیونکہ یہ شام کے پونے سات بجے اجتماع اور درسِ بائبل کا آغاز کرتا تھا۔اس چرچ میں تمام عمر کے مقلدین آتے تھے ۔ ان کے درسی اوقات مختلف تھے مگر پونے سات بجے والی محفل سب کے لئے ہوتی تھی۔ ہمارے استادِ محترم اس چرچ کے ایک سر گرم مبلغ تھے۔
جب ہم وہاں پہنچے تو درس کا آغاز ہوا ہی چاہتا تھا۔ اس میں بائبل کے ایک باب کی تعلیم دی گئی جو حضرت داود علیہ سلام سے متعلق تھا۔ تمام حاضرین کے لئے بائبل کی جلدیں نشستوں کے سامنے رکھی تھی۔ استادِ محترم نے ہمیں متذکرہ باب نکال کر دیا۔ عمران اور ہم نے ایک کہانی کی صورت وہ باب پڑھنا شروع کیا، ویسے بھی انکے مبلغ وہ سطور پڑھ ہی رہے تھے، ہم فقط اپنی نظریں کتاب پر ڈالتے رہے۔ ذیشان نے تو بائبل کو ہاتھ لگانا بھی گناہ سمجھا اور محض سننے پر اکتفا کیا۔ درس کے دوران اس باب کی تشریح کی گئی اور اسکا پس منظر و پیش منظر بیان کیا گیا، ساتھ ہی گیتوں کی صورت حضرت عیسٰی علیہ سلام کی تعریف بیان کی گئی۔ چرچ سے متعلق ہمارا تصور کافی مختلف تھا۔ ہم نے تو فلموں میں بڑےبڑے گرجا گھر دیکھے ہیں مگر یہ گرجا الگ ہی انداز کا تھا۔
درس کے بعد حاضرین کے لئے عشائیے کا بندوبست بھی تھا، جس سے ہم مستفید نہ ہوئے اور استادِمحترم کو انکے گھر پہنچا کر اپنے گھر کی راہ لی ،یوں ہماری گرجا گھر دیکھنے کی حسرت تمام ہوئی۔
ختم شُد