Sunday, February 26, 2012

ایک اور دن استادِ محترم کے ساتھ، دوسرا اور آخری ٹکڑا

اتنے میں افطار کا وقت ہوا چاہتا تھا لہٰذا ہم نے استادِ محترم کے گھر کی راہ لی اور مغرب کے قریب وہاں پہنچ گئے۔اپنے ساتھ لائی ہوئی کھجوروں سے روزہ افطار کیا اور استادِ محترم کو بھی افطار کرایا۔ عصرو مغرب ادا کی، جائےنماز ہم ساتھ ساتھ لے گئے تھے ، ایک کٹر عیسائی کی خوابگاہ میں اللہ تعالٰی کے حضور سجدہ ریز ہوئے۔
ذیشان نے اب تک گوروں کے گھروں کو فلموں میں ہی دیکھا تھا مگر آج اصل میں گورے کا گھر دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ اس دوران خاتونِ خانہ کھانے کی میز سجا چکی تھیں۔ عمران اور ہمیں انگریزی کھانے کا بخوبی اندازہ و تجربہ تھا مگر ذیشان کی لئے یہ پہلا تجربہ تھا۔ اب کھانے کی تفصیل کچھ یوں تھی کہ ابلی ہوئی سبزیاں ، انڈے کی گریبی جس میں شوربہ ندارد تھا، ابلے چاول مع زیرہ کے، اور ابلی ہوئی سبز موسمی پھلیاں۔ میٹھے میں کسٹرڈتھا جو کہ ایک خاص قسم کے انگریزی طعام کے ساتھ کھانے کا حکم ملا، اس میں ابلے ہوئے  جو، باجرا اور دیگر اجناس کے مرکب جس میں سیبوں کا مربہ بنا شکرکے شامل تھا۔ کھانے کے دوران عمران اور ہم مسلسل ذیشان کو تکے جارہے تھے کہ انھیں چٹ پٹا کھانا کھانے کی عادت تھی اور یہ کھانا مصالحہ کے بغیر تھا ۔ استادِ محترم اور استانی جی نے یقینا اپنی جانب سے بہترین کھانے کا انتظام کیا تھا مگر ہماری دیسی زبانیں اس ذائقہ کو کیا جانیں۔ ذیشان پر جو گزری وہ کم وبیش وہی کیفیت تھی کہ جسکا تجربہ ہم اپنے پہلے دورہ میں کر چکے تھے۔
کھانے کے دوران استانی جی کینیڈا کے قصّے سناتی رہیں اور ہمیں گرم مشروب بھی پیش کیا یہاں تک کہ استاد جی کو گفتگو میں مخل ہونا پڑا۔ ان کے گرجا گھر جانے کا وقت ہو چلا تھا تو وہ  استانی جی کو انکے قصوں پرکن اکھیوں سے روکنے لگے۔ استانی جی نے سلسلہ کلام موقوف کیا اور ہمیں جانے کی اجازت دی۔
ہم استاد جی کی رہنمائی میں عمران کی گاڑی کے ذریعے گرجا گھر جاپہنچے۔یہ گرجا گھر روایتی چرچ نہیں تھا بلکہ اسے ایک قدرے جدید طرز کا اجتماعتی مرکز کہا جاسکتا ہے۔ اسکا نام ۶۴۵چرچ تھا کیونکہ یہ شام کے پونے سات بجے  اجتماع اور درسِ بائبل کا آغاز کرتا تھا۔اس چرچ میں تمام عمر کے مقلدین آتے تھے ۔ ان کے درسی اوقات مختلف تھے مگر پونے سات بجے والی محفل سب کے لئے ہوتی تھی۔ ہمارے استادِ محترم اس چرچ کے ایک سر گرم مبلغ تھے۔
جب ہم وہاں پہنچے تو درس کا آغاز ہوا ہی چاہتا تھا۔ اس میں بائبل کے ایک باب کی تعلیم دی گئی جو حضرت داود علیہ سلام سے متعلق تھا۔ تمام حاضرین کے لئے بائبل کی جلدیں نشستوں کے سامنے رکھی تھی۔ استادِ محترم نے ہمیں متذکرہ باب نکال کر دیا۔ عمران اور ہم نے ایک کہانی کی صورت وہ باب پڑھنا شروع کیا، ویسے بھی انکے مبلغ وہ سطور پڑھ ہی رہے تھے، ہم فقط اپنی نظریں کتاب پر ڈالتے رہے۔ ذیشان نے تو بائبل کو ہاتھ لگانا بھی گناہ سمجھا اور محض سننے پر اکتفا کیا۔ درس کے دوران اس باب کی تشریح کی گئی اور اسکا پس منظر و پیش منظر بیان کیا گیا، ساتھ ہی گیتوں کی صورت حضرت عیسٰی علیہ سلام کی تعریف بیان کی گئی۔ چرچ سے متعلق ہمارا تصور کافی مختلف تھا۔ ہم نے تو فلموں میں بڑےبڑے گرجا گھر دیکھے ہیں مگر یہ گرجا الگ ہی انداز کا تھا۔
 درس کے بعد حاضرین کے لئے عشائیے کا بندوبست بھی تھا، جس سے ہم مستفید نہ ہوئے اور استادِمحترم کو انکے گھر پہنچا کر اپنے گھر کی راہ لی ،یوں ہماری گرجا گھر دیکھنے کی حسرت تمام ہوئی۔
ختم شُد

Saturday, February 25, 2012

ایک اور دن استادِ محترم کے ساتھ، پہلا ٹکڑا

جون سن ۲۰۱۰ ء میں ہمیں ہمارے استادِ محترم نے اپنے گھر آنے کی دعوت دی تھی اب کی بار جبکہہمارے سڈنی سے وطن واپسی میں چند دن باقی تھے کہ ہمارے استاد محترم نے ہماری ایک پرانی فرمائش ہمیں یاد دلائی جس میں ہم نے انھیں گرجا گھر لے جانے کا کہا تھا۔ ہم نے فوری طور پر ہامی بھر لی اور اپنے ساتھ محمد عمران اور ذیشان وسیم کو بھی تیار کرلیا۔ اتوار کو ہم ان کے ہاں عمران کی ٹویوٹا میں دوپہر کے دوبجے کے قریب پہنچے۔ استادِ محترم اور استانی صاحبہ پہلے سےہمارے منتظر تھے۔ اللہ بھلا کرے سڈنی کے موسم کا کہ صبح تک خاصا گرم تھا مگر اب بارش کی پیشنگوئی تھی اور ہم چھتریاں ساتھ نہیں لائے تھے۔ استادِ محترم نے ہمیں چھاتے دیئے اور ہم عمران کی گاڑی میں سمندر کی جانب نکل پڑے۔
ہمارے استادِ محترم نے ہمیں سڈنی آتے ہی چند ایک ساحلوں پر جانے کا کہا تھا جو کہ شہر کے شمال میں تھے، ہمارا شمالی سڈنی کم ہی جانا ہوتا تھا لہٰذا اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ ہمیں متذکرہ ساحلوں کی طرف لے چلے – ان میں 'ووئے ووئے'، 'ویسٹ ہیڈ'اور 'لونگ ریف' نامی مناظر گاہیں اہم ہیں کہ جہاں سے سمندر کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ دراصل یہ تمام مقامات پہاڑی ہیں اور سمندر کھاڑیاں بناتا ہوا ان میں گھس آیا ہے۔
ہمارا پہلا پڑاو ویسٹ ہیڈ نامی چھوٹی سی پہاڑی تھی، اسلام آباد کے دامن کوہ سے مماثلت رکھتی اس چڑھائی پر جانے کیلئے جب ہم شہر سے باہر رواں دواں تھے تو راستے کی طوالت کا اندازہ ہوتے ہی عمران نے کسی مشکل سے بچنے کی خاطر گاڑی میں پیٹرول بھروا لیا۔ ویسٹ ہیڈ ایک تشریف فرما شیر جیسے نقشہ سے ملتے جلتے چھوٹے سے پہاڑی جزیرے کے بالکل ساتھ ہے ۔ گورا بھی کمال کا ہے کہ اپنی چھوٹی اور غیر اہم جگہ کو بھی اسقدر خوبصورت اور اہم  بنا دیتا ہے کہ سیاح اسے دیکھنے کھنچے چلے آتے ہیں یعنی یہ نالہ کو بھی نغمہ میں بدل دیتے ہیں -بقول غالب
ع نغمہ ہو جاتا ہے واں گر نالہ میرا جائے ہے
 یہاں سے مشرقی سمت کا نظر اٹھائی تو سامنے پام بیچ تھا اور بیچ میں سمندر۔وہیں ذرا جنوبی سمت میں کشتیوں کی گودی تھی کہ جہاں ہم نے اپنے ایک گذشتہ سفر میں ذیشان اور زبیر کے ساتھ کھوکھے سے کافی پی تھی۔
یہاں کا نظارہ کرنے کے بعد ہم اگلی منزل کی طرف روانہ ہوئے، مگر اُترائی اُترتےہوئے طوفانی بارش کا سامنا کرنا پڑا اور ایسی زبردست ژالہ باری ہوئی کہ الا مان الحفیظ ۔ اولے تھے کہ گاڑی کی ونڈ اسکرین پر تڑاک تڑاک برسے جارہے تھے اور مینہ ایسا کہ سامنے کا منظر بھی دیکھنا محال تھا، عمران بظاہر تو سکون سے گاڑی چلا رہے تھے مگر اندر سے ڈر بھی رہے تھے کہ کہیں ونڈ اسکرین پر کوئی خراش نہ آجائے۔ خیر خدا خدا کرکے ہم اس طوفان سے باہرنکل آئے۔ اب ہمارا رُخ لانگ ریف  یعنی لمبی اور گہری کھاڑی کی جانب تھا جسکے لئے ہم  نے جنوب مشرق میں سفر کیا اور وہاں جا پہنچے۔ یہ ایک خوبصورت مقام تھا جو کہ ایک عدد گولف کورس رکھتا تھا، گولف کورس کے ساتھ ساتھ ایک پیدل گزرگاہ تھی جو کہ ایک چھوٹی سی پہاڑی پر ختم ہوتی تھی ۔ ساتھ ہی سمندر تھا گویا یہ مقام بھی ایک قدرتی پہاڑی کھاڑی تھی اور یہاں ہمیں  اپنے بچپن کے کھیل کی نظم 'ہرا سمندر' کے مصداق حقیقی معنوں میں ہرا سمندر نظر آیا۔یہاں بھی ہم نے منظر کشی کی اور سرد موسم کا لطف اٹھایا۔ پانی میں عجیب سی کشش ہوتی ہے اور سمندر تو ویسے بھی اپنے اندر گہرائی و گیرائی رکھتا ہے لہذا سمندر کا نظارہ کرنا دلچسپی سےخالی نہیں ہے۔
جاری ہے

Sunday, February 19, 2012

ولیمہ فہد الٰہی کا

سب سے پہلے تو قارئین سے معذرت کہ ہم کافی عرصہ بلاگ نہ لکھ سکے، تازہ ترین بلاگ پیشِ خدمت ہے۔

کہا جاتا ہے کہ جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں اور زمین پر ملتے ہیں، ایسی ہی ایک خوش نصیب جوڑی کے ولیمہ میں شرکت کا شرف ہمیں گذشتہ ماہ حاصل ہوا۔ ہمارے سڈنی کے ساتھی حافظ فہد الٰہی اپنی دلہنیا لے آئے کہ جن کی آمد پر ان کا استقبال ترے مست مست دو نین کے گیت پر کیا گیا۔ جی ہاں، جب یہ جوڑی پنڈال میں داخل ہوئی تو گیت کے یہ بول بجائے گئے اور نوبیہاتاجوڑا پوری تمکنت کے ساتھ چلتا ہوا اسٹیج پر پہنچا۔ راہداری کے دونوں جانب قالین سے منسلک صوفوں کی نشستیں لگائی گئی تھیں جن کے پیچھے دونوں اطراف میں گول میزوں کے گرد کرسیوں پر براجمان مہمانان کی نظریں مست مست نین اور ان نینوں کے جملہ حقوق کے محافظ کو بغور تکے جارہی تھیں۔ آخر کو یہ فہد الٰہی کا ولیمہ تھا تو وہ سب کی نگاہوں کا مرکز بنے ہوئے تھے۔
ہمارے سڈنی کے ساتھیوں میں سے محترم شہباز واڈیوالا بطورِ خاص دوبئی سے کراچی پہنچے تھے کہ ان کے یار کی شادی تھی۔ عثمان حسن اور عمّار انیس کے ساتھ ساتھ ہم بھی وہیں موجود تھے اور ایک میز پر بیٹھے مصروفِ گفتگو تھے۔ گو کہ گفتگو کا مرکز نیا شادی شدہ جوڑا اور ولیمہ کی تقریب تھی مگر انزیکی ہونے کی وجہ سے سڈنی کے حالات پر بھی روشنی ڈالی جا رہی تھی۔ دیگر دوستوں کا بھی ذکر چل نکلا اور سب کے 
حال احوال کاجائزہ لیا گیا۔

دلہن نے ہلکے گلابی رنگ کا عروسی لباس مع زیورات کے زیب تن کیا ہوا تھا اور دولہا میاں روایتی سوٹ میں ملبوس تھے ان کی ٹائی دولہن کے لباس سے میل کھا رہی تھی۔ غالب نے تو بیوی کو پیر کی بیڑی کہا تھا، مگر فہد بھائی کے تو گلے میں یہ بیڑی پڑی تھی۔ گو کہ گلے میں پھندا پڑا کرتا ہے، مگر یہ خوشی خوشی پہنا گیا پھندا تھا۔ ماشاءاللہ سے یہ جوڑی کمال کی لگ رہی تھی۔
شادی اور ولیمہ کی تقریبات میں مہمانان کو سب سے زیادہ مرغوب و مطلوب تقریب کی ضیافت ہوتی ہے تو یہ دعوت ولیمہ ہماری اب تک کی شرکت کردہ تمام دعوتوں پر سبقت لے گئی۔ انگریزی کے ایک مقولہ "یو آسک فار اِٹ وی ہیو اِٹ" کے مصداق دال، سبزی  سے لے کرمرغی، مچھلی اورسادہ پانی سے لے کر کافی اور آئس کریم تک سب کچھ وافر مقدار میں موجود تھا۔ عام طور پر ایسی دعوتوں میں مہمانان کھانے کے ساتھ وہی سلوک کرتے ہیں جو چنگیز خان نے بغداد والوں کے ساتھ کیا تھا مگر یہاں افراتفریح دیکھنے میں نہ آئی اور سب نے سیر ہو کر کھانے سے انصاف کیا۔
کھانے کے دوران ہمارے دوست  شیخ محمد احسن کے والدِ محترم سے بھی ملاقات ہوئی اور ہم نے اپنا تعارف بلاگ کے لکھاری کی حیثیت سے کرایا کیونکہ وہ ہمارے بلاگ کے مستقل قاری ہیں۔ وہ بہت محبت سے ملے اور  ہمیں ایسے لگا کہ ہم احسن کے مستقبل سے مل رہے ہیں۔
دولہا میاں بطورِ خاص ہم سے ملنے تشریف لائے اور کھانے کے متعلق استفسار فرمایا کہ ہم سب نے سیر ہو کر کھایا یا نہیں گویا انھوں نے اپنے میزبان اور دلّی والے ہونے کا حق ادا کردیا۔
کھانے کے بعد ہم اسٹیج پر جا پہنچے اور فہد الٰہی سے جانے کی اجازت چاہی۔ وہ ہمیں رخصت کرنے نیچے اترے تو شہباز نے انکی ملاقات اپنے گھر والوں اور ایک خاص مہمان سے بھی کرائی۔
ہم سب وہاں سے رخصت ہوئے اور عثمان کی گاڑی میں عمّار کے ساتھ  براجمان ہوکر گھر کی راہ لی۔