سان مارکو میں ایک جگہ ہمیں مصری طرز کے مجسمے بھی
دکھائی دیئے،ہم اس پر حیرت زدہ ہوئے کہ یہ مصری احرام کے مجسمے یہاں کیا کر رہے
ہیں، بہت بعد میں پتہ چلاکہ یہ مصر سے چوری کر کے یہاں لائے گئے تھے۔
یہاں پر بیت الخلا پر بھی اطالویوں نے ٹکٹ لگا رکھا
ہے اور بنا ٹکٹ کے کوئی کونہ کھدرا بھی نہیں ہے۔
شام ہونے سے پہلے ہی ہم واپس سانتا لُوسیا پہنچے اور
ریل کا انتظار کیا جسکا وقت ۶ بجکر ۱۸ منٹ تھا۔ قریبا ۹ بجے ہم اپنے ہوسٹل کے کمرے
میں داخل ہو رہے تھے۔
اس کے بعد دو ہفتوں تک ہم ورکشاپ میں مصروف رہے اور
پڑھائی کرتے رہے۔ بیچ میں ایک ہفتہ کو روم جانے کا ارادہ کیا مگر پتہ چلا کہ ریل
کے ٹکٹ دستیاب نہیں ہے لہذا ہم روم آنے جانے کا پیشگی ٹکٹ بک کرائے بغیر چین سے نہ
بیٹھے، اب ہمیں جمعہ کا انتظار تھا۔ اس دن ورکشاپ کا آخری روز تھا اور سوموار سے
دو روزہ سیمینار شروع ہونا تھا اس وجہ سے جلدی فراغت ہو گئی۔ ہماری ریل کا وقت رات
۹ بجکر ۵۳ منٹ تھا ہم اس حسا ب سے اسٹیشن پہنچ گئے اور مقررہ ریل میں بک کی گئی
نشست پر قبضہ جمالیا۔ ریل کے رات بھر کےسفر میں ہر اسٹیشن پر نہ رکنا اس کے لئے
ہتک کی بات تھی لہذا اس نے روم تک شاید ہی کوئی اسٹیشن اپنے قیام سے محروم کیا
ہوگا۔جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم ایک گھنٹہ تاخیر سے روم پہنچے۔
روم کا مرکزی ریلوے اسٹیشن مقامی زبان میں روما
ترمینی کہلاتا ہےاور کسی بھی جدید ریلوے اسٹیشن سے کم نہیں ہے، ہم نے آسٹریلیا میں
بڑے بڑے اسٹیشنز دیکھے ہیں مگر یہ ترمینی ان سے بھی بازی لے گیا گو کہ یہاں پلیٹ
فارم سڈنی کے مقابلے میں کم ہیں مگر یہاں کا ماحول اور شاپنگ مال اسے ایک ریلوے
اسٹیشن سے زیادہ ایک ہوئی اڈے کے طور ہر پیش کرتے ہیں۔اسٹیشن سے باہر آتے ہی
میکڈونلڈز میں کافی پی اور اب ہمیں کنزفورڈ کا میکڈونلڈز یاد آیا کہ جو ہماری قیام
گاہ سے متصل تھا اور ہم وہاں اکثر کافی پیا کرتے تھے، روم کے میکڈونلڈز کی کافی
میں سڈنی میکڈونلڈز کی کافی کا مزہ قطعی طور پر نہ تھا۔
ناشتہ کرنے کےبعدہم نےاسٹیشن پرموجوداخباراسٹینڈسےدن بھر کابس اورریل کا ٹکٹ خریدا جس کاتجربہ ہمیں سڈنی کےقیام کےدوران بخوبی ہوچکاتھا،اوراسٹیشن سے نکلنےوالی ایک بس میں جاسوارہوئے۔
جاری ہے