Saturday, May 12, 2012

سفرِ اطالیہ، چوتھا ٹکڑا


سان مارکو میں ایک جگہ ہمیں مصری طرز کے مجسمے بھی دکھائی دیئے،ہم اس پر حیرت زدہ ہوئے کہ یہ مصری احرام کے مجسمے یہاں کیا کر رہے ہیں، بہت بعد میں پتہ چلاکہ یہ مصر سے چوری کر کے یہاں لائے گئے تھے۔
یہاں پر بیت الخلا پر بھی اطالویوں نے ٹکٹ لگا رکھا ہے اور بنا ٹکٹ کے کوئی کونہ کھدرا بھی نہیں ہے۔
شام ہونے سے پہلے ہی ہم واپس سانتا لُوسیا پہنچے اور ریل کا انتظار کیا جسکا وقت ۶ بجکر ۱۸ منٹ تھا۔ قریبا ۹ بجے ہم اپنے ہوسٹل کے کمرے میں داخل ہو رہے تھے۔
اس کے بعد دو ہفتوں تک ہم ورکشاپ میں مصروف رہے اور پڑھائی کرتے رہے۔ بیچ میں ایک ہفتہ کو روم جانے کا ارادہ کیا مگر پتہ چلا کہ ریل کے ٹکٹ دستیاب نہیں ہے لہذا ہم روم آنے جانے کا پیشگی ٹکٹ بک کرائے بغیر چین سے نہ بیٹھے، اب ہمیں جمعہ کا انتظار تھا۔ اس دن ورکشاپ کا آخری روز تھا اور سوموار سے دو روزہ سیمینار شروع ہونا تھا اس وجہ سے جلدی فراغت ہو گئی۔ ہماری ریل کا وقت رات ۹ بجکر ۵۳ منٹ تھا ہم اس حسا ب سے اسٹیشن پہنچ گئے اور مقررہ ریل میں بک کی گئی نشست پر قبضہ جمالیا۔ ریل کے رات بھر کےسفر میں ہر اسٹیشن پر نہ رکنا اس کے لئے ہتک کی بات تھی لہذا اس نے روم تک شاید ہی کوئی اسٹیشن اپنے قیام سے محروم کیا ہوگا۔جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم ایک گھنٹہ تاخیر سے روم پہنچے۔
روم کا مرکزی ریلوے اسٹیشن مقامی زبان میں روما ترمینی کہلاتا ہےاور کسی بھی جدید ریلوے اسٹیشن سے کم نہیں ہے، ہم نے آسٹریلیا میں بڑے بڑے اسٹیشنز دیکھے ہیں مگر یہ ترمینی ان سے بھی بازی لے گیا گو کہ یہاں پلیٹ فارم سڈنی کے مقابلے میں کم ہیں مگر یہاں کا ماحول اور شاپنگ مال اسے ایک ریلوے اسٹیشن سے زیادہ ایک ہوئی اڈے کے طور ہر پیش کرتے ہیں۔اسٹیشن سے باہر آتے ہی میکڈونلڈز میں کافی پی اور اب ہمیں کنزفورڈ کا میکڈونلڈز یاد آیا کہ جو ہماری قیام گاہ سے متصل تھا اور ہم وہاں اکثر کافی پیا کرتے تھے، روم کے میکڈونلڈز کی کافی میں سڈنی میکڈونلڈز کی کافی کا مزہ قطعی طور پر نہ تھا۔
ناشتہ کرنے کےبعدہم نےاسٹیشن پرموجوداخباراسٹینڈسےدن بھر کابس اورریل کا ٹکٹ خریدا جس کاتجربہ ہمیں سڈنی کےقیام کےدوران بخوبی ہوچکاتھا،اوراسٹیشن سے نکلنےوالی ایک بس میں جاسوارہوئے۔ 
جاری ہے

Friday, May 4, 2012

سفرِ اطالیہ، تیسرا ٹکڑا


ریل جانے کا وقت گیارہ بجکر چوالیس منٹ تھا۔ یہ چوالیس منٹ قابلِ ہضم معلوم نہیں ہوتے، مگر جناب ٹرین ٹھیک وقت پر ہی روانہ ہوئی۔ سفر کے دوران یورپ کا روایتی سبزہ دیکھنے کو ملا۔ پہاڑ، میدان، وادیاں سب سبزے کی چادر اوڑھے تھیں۔ ریل مختلف اسٹیشنز پر رکتی چلتی وینس کے زمینی اسٹیشن پہنچی، اسے اطالوی زبان میں وینیزیامسترے کہا جاتا ہے۔یہ ایک جنکشن اسٹیشن ہے جہاں سے اطالیہ کے طول و عرض میں جانے کے لئے ریل دستیاب ہے، یوں سمجھ لیں کہ تریئستے سے آپ اطالیہ کے کسی بھی شہر جانا چاہیں گے تو آپ کو یہاں سے ہو کر گزرنا پڑے گا۔
اگلا اور آخری اسٹیشن وینیزیاسانتا لُوسیا تھا اور یہی درحقیقت دریاوں کا شہر ہے۔ یہاں تک پہنچے کے لیے آپ کو ایک طویل پُل پر سے آناا پڑتا ہے چاہے آپ گاڑی میں ہوں یا ریل میں۔اسٹیشن سے باہر نکلتے ہی ہمارے آگے دریا تھا۔ اس وقت ہلکی بارش ہو رہی تھی اور دیسی برادران چھتریاں بیچ رہے تھے۔ ہم نے بھی ایک دیسی سے بھاو تاو کرنے کے بعد چھتری خرید لی اور آبی بس کا ٹکٹ خریدنے قطار میں جا کھڑے ہوئے۔یہاں آپ دن بھر کا یا بارہ گھنٹوں کا ٹکٹ خرید سکتے ہیں جو ان گنت مرتبہ سفر کرنے کے لئے کارآمد ہے۔ہم آبی بس میں سوار ہوئے اور مخلتف مقامات پر اترتے رہے۔ کچھ چہل قدمی کرتے اور پھر بڑی کشتی میں سوار ہو جاتے۔ بارش تھی کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی مگر ہمارا شوقِ سیاحت اس بارش کی وجہ سے بھی ٹھنڈا نہ ہوا۔
وینس کا آنکھوں دیکھا حال لفظوں میں بیان کرنا آسان نہیں ہے۔ یہ شہر پانی میں ہے اور پانی شہر میں ہے۔ مکانات کی ایک ترتیب ہے جو مرکزی آبی گزر گاہ کے دونوں جانب ہے اور چھوٹی چھوٹی گلیاں بھی پانی والی ہیں۔ گھر پرانے ہیں مگر اب ان میں جدیدیت آرہی ہے کیونکہ یہ سیاحت کا ایک بہت بڑامرکز ہیں۔ ان میں سے سامنے والے مکانات کو زیادہ تر ہوٹلوں میں بدل دیا گیا ہے اور لوگ یہاں مختلف دورانیوں کے لئے قیام کرتے ہیں۔دریا کے دونوں جانب نچلی منزلوں پر طعام کا انتظام ہے جس میں خاص حیثیت پیزا کی ہے جو یہاں کی جانی پہچانی خوراک ہے۔ اگر آپ دریاسے تھوڑا ہٹ کر اندر کی جانب جائیں تو ملتان کے پرانے محلوں جیسی گلیاں ملیں گی، جن میں گھریلو دستکاری کے خوبصورت نمونے فروخت کے لئے دستیاب ہیں۔ یہاں کی سب سے بڑی پیداواربلّور ہےجسے رنگنے کے بعد مختلف اشیاء بنائی جاتی ہیں اور پھر فروخت کیا جاتا ہے۔ گھروں میں بھی ان اشیاء کی دکانیں بنائی گئی ہیں۔
یہ تو ونیس کا ایک پہلو ہوا دوسرا رخ یہ ہے کہ یہاں موجود قریبا تمام عمارتوں پر چھوٹے بڑے مجسمے بنائے گئے ہیں۔ گرجا گھروں میں تو بطورِ خاص اہتمام کیا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ سلام اور حضرت مریم علیہ سلام کے مجسمے مذہبی عقیدت مندی کے ساتھ تراشیدہ موجود ہیں۔ ہم نے یہاں اچھی خاصی آوارہ گردی کی اور جان بوجھ کر انجانے راستوں پر چلتے رہے، تصاویر کھینچیں اور جب بھوک کا احساس ہوا تو کچھ کھانے کا ارادہ کیا۔ مرکزی بازار میں ہم اشیائے خورد ونوش کی قیمتیں تاڑ چکے تھے لہذا ہم نے اپنے آپ کووہاں کچھ کھانے سے روکے رکھا۔ گلیوں میں گھومتے ہوئے اسوقت ہماری خوشی کی انتہا نہ رہی جب ہم نے ایک جگہ حلال لکھا پایا۔ یہ ایک اُردنی کی دکان تھی اور اطالوی بڑی رونی سے بول رہاتھا۔ ہم نے انگریزی میں لب کشائی کی تو ہم سے انگریزی میں بات کرنے لگا۔ ہم نے اس سے پیزا کا ایک بڑا ٹکڑا خریدا  جو اس نے گرم کرنے کے بعد اس پر مرچوں والی چٹنی یعنی ساس ڈال کر دی۔ ہم نے اس کا شکریہ ادا کیا اور رقم کی ادائیگی کے بعد سلام کیا جسکا اس نے ٹھیٹ عربی انداز میں جوب دیا۔ ہم نے پیزا لیا اور باہر آکر گیلے موسم میں اس سے اپنے شکم کو سیر کیا۔
اس کے بعد ہم پھر سے آبی بس میں سوار ہو کر مرکزی مقام سان مارکو پہنچے۔ یہ رومی سلطنت کا پرانا مرکز رہا ہوگا۔ یہاں پر عمارتوں کی ایک طویل قطار تھی جس میں گرجا گھر، عجائب گھر، گھنٹہ گھراور بازار شامل ہیں جو کہ مغلوں کی بارہ دری یا بادشاہی مسجد کے دریچوں جیسی مشابہت اور طوالت رکھتے ہے۔
یہا ں پر لوگوں کا ایک جم غفیر تھا کہ آس پاس والوں سے بچ کے گزرنا پڑتا تھا اور کے باوجود بھی جب پیار کیا تو ڈرنا کیا کے مصداق بہت سے مناظر دیکھنے کو ملے جو احاطہ تحریر میں نہیں لائے جا سکتے۔
یہاں منظر کشی کے لئے پورا دن بھی ناکافی ہے، ہم نے جہاں تک ہو سکا تصاویر لیں اور واپسی کی کشتی میں سوار ہوئے کیونکہ تریئستے کا ریل کا سفر دو گھنٹوں کا تھا 
اور ہم رات میں سفر نہیں کرنا چاہتے تھے۔ 
جاری ہے