Friday, November 9, 2012

اقبال اور بچوں کی نظمیں

علامہ محمداقبال کے یومِ ولادت پر ہم انھیں خراجِ تحسین پیش کرنے کی خاطر انکی بچوں کے کہی گئی نظموں کا ذکر کریں گے اس سے پہلے ہم انکی غزلیات پر بات کر چکے ہیں۔ ان کی یہ نظمیں اتنی سادہ اور پر اثر ہیں کہ ایک بار پڑھنےپر خودبخود یاد ہو جاتی ہیں۔ ' بچے کی دعا' ہو یا 'ایک مکڑا اور مکھی'، 'ہمدردی ' ہو یا 'ایک پہاڑ اور گلہری'، سب کی سب نظمیں شاعری کے اعتبار سے شاہکار ہیں۔ ' ترانہ ہندی' گو کہ اس وقت کے ہندوستان کے لئے لکھا گیا تھا، مگر آج بھی وہاں کے اسکولز میں پڑھا جاتا ہے۔
ان تمام نظموں میں کوئی نہ کوئی پیغام ضرور دیا گیا ہے۔ بچے کی دعا میں ایک بچے کی تمنا بیان کی گئی ہے جو علم کا متلاشی ہے اورنیک راہ پر چلنے کا خواہشمند ہے۔ ہمدردی میں ان لوگوں کو اچھا کہا گیا ہے جو دوسروں کے کام آتے ہیں۔ ایک پہاڑ اور گلہری میں بتایا گیا ہے کہ اللہ نےکسی بھی چیز کو بے کار پیدا نہیں کیا۔خوشامندپسندوں کا انجام ایک مکڑا اور مکھی میں نہایت خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔'ترانہ ملی' کا مصرع 'مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا'ایک جملہ میں امتِ مسلمہ کی جغرافیائی قید سے آزادی کو ظاہر کرتا ہے۔
یوں تو چھوٹی  ہے ذات بکری کی
دل کو لگتی ہے بات بکری کی
یہ شعر انتہائی سادگی اور بے ساختگی کے ساتھ اپنے معنی بیان کر جا تا جو کہ ایک گائے اور بکری سے لیا گیا ہے۔بچوں کی کہی گئی نظموں میں تراجم بھی شامل ہیں جو دیگر زبانوں سے کئے گئے ہیں لیکن یہ تراجم اتنے شاندار ہیں کہ ان پر اصل کا گمان ہوتا ہے۔
کیونکہ ہم پردیسی رہے تو پرندے کی فریاد کو محسوس کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے دل کی آواز بھی جانا، اس میں نہایت دردمندی کے ساتھ قیدی پرندے کی دوہائی کو اشعار کے قالب میں ڈھالا گیا ہے۔
ماں کا خواب اپنے وفات شدہ بچے سے متعلق ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ مرنے والوں کے ساتھ مرا نہیں جا سکتا اور کسی بھی غم پرصبر کرنا مومن کا شیوہ ہے۔
انکے علاوہ اقبال کی نظمیں 'دعا'،'خطاب بہ جوانانِ اسلام'، ایک پرندہ اور جگنو' اور 'بزمِ انجم' بھی بچوں کے لئے کہی گئی ہیں۔
اس بلاگ کا اختتام ہم انکے مصرع پر کریں گے۔
ع اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے