Saturday, May 11, 2013

ہم نے ووٹ ڈالا


 جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہم نے پہلے عام انتخابات سن پچاسی میں دیکھے، اتنا یاد ہے کہ وہ غیر جماعتی انتخابات تھے اور جونیجو مرحوم کی حکومت بنی تھی، نئی روشنی اسکول انکے دور کا ہی کارنامہ تھا۔ اس کے بعد کے سیاسی حالات قارئین  ہم سے بہتر جانتے ہونگے یا وکی وغیرہ پر دیکھ سکتے ہیں۔ ہمارے دور میں مطالعہ پاکستان کی کتابوں میں بھی یہ تمام تاریخ درج ہوا کرتی تھی۔
خیر بات کرتے ہیں موجودہ انتخابات کی،ہم نے میڈیا پر قریبا تمام سیاسی پارٹیز کے اشتہارات چلتے دیکھے اور چیدہ چیدہ سیاست دانوں کی تقاریر بھی سنیں۔ گزشتہ ہفتہ کے دوران ہم نے مذہبی جماعتوں کی ریلیز بھی اپنے محلہ میں دیکھیں۔ اس کے علاوہ شہر بھر میں سیاسی پارٹیز کے جھنڈے، بینرز، پمفلٹس اور ہینڈ بلز وغیرہ بھی دیکھے۔ ہنسی اس وقت آئی جب علیحدگی پسند پارٹیز کہ جو قیامِ پاکستان کو ہی نہیں مانتیں، اسی ملک کے قانون اور الیکشن کمیشن کے وضع کئے گئے نظام کے تحت ووٹ مانگتی نظر آئیں اور غصہ اس وقت آیا جب اللہ ورسول کے ناموں والے پمفلٹس سڑک پر اڑتے دیکھے۔ خیر یہ تو اللہ اور رسول کا معاملہ ہے جس کا حساب اللہ خود کرنے پر قادر ہے مگر ہم جیسے بندے کا خون اس وقت بھی کھولتا ہے جب ہم کسی بھی پارٹی کا پوسٹر کسی کے گھر کی دیوار پر لگے دیکھتے ہیں۔ چلیں یہ بھی قبول، مگر اسکول کی دیواروں اور دروازوں کو بھی سیاسی پرٹیز کے کارکنان رنگ برنگ پوسٹرز سے بھرنے سے باز نہیں آتے۔
اسی پسمنظر میں چند دن پہلے ہم نے اپنے تازہ کلام میں ووٹ کا ہوائی جہاز بنا کر اڑا دیا تھا
نامِ خدا پرچوں پر لکھ کر اُڑاتے ہیں
اسلحہ بھی سرِ عام لہراتے ہیں
ووٹ مانگتے ہیں اپنا حق سمجھ کر
عوام کو مسلسل بیوقوف بناتے ہیں
ہو شیر کہ بلا، تیر کہ سائیکل ہو
عوام کو چرخی پکڑا کر پتنگ اُڑاتے ہیں
ہاتھ میں ترازو خود خیمہ میں مقیم
لوڈ شیدنگ کے دور میں لالٹین جلاتے ہیں
دیکھ حال اپنے سیاست دونوں کا امین
ہم بھی ووٹ کا جہاز بنا کر اڑاتے ہیں

مگر پھر خیال آیا کہ ہمارا نام ووٹرز کی فہرست میں ہے اور ہمارے لئے ووٹ بھی چھاپا گیا ہو گا۔ ہم پر ملکی خزانے کے پینسٹھ روپے خرچ کئے گئے ہیں اور ایک طویل المدت مرحلہ سے گزر کر ملک انتخابی عمل کی جانب رواں دواں ہے تو ہمیں بھی اس عمل کا حصہ بننا چائیے۔ گو کہ ہم اقبال کے پیروکار بھی ہیں مگر پھر بھی بندوں کو گننے کے عمل میں شریک ہو گئے۔
ہمارے حلقہ میں پولنگ اسٹیشن خیر سے گیارہ بجے تک کُھلا ہی نہ تھا۔ ہم بھی آرام سے گھر پر رہے اور ٹی وی دیکھا کئے۔ سہ پہر کے بعد اطمینان سے پولنگ اسٹیشن پہنچے ۔ باہر شامیانہ لگا تھا جہاں الیکشن کمیشن  کی فہرستیں لئے پولنگ ایجنٹ موجود تھے۔ ہم نے پہلے ہی الیکشن کمیشن سے اپنا نمبر شمار اور پولنگ اسٹیشن معلوم کر رکھا تھا، صرف فہرست میں ترتیب معلوم کرنا تھی۔ اس عمل کے بعد ہم قطار میں جا لگے۔ ووٹرز کا جذبہ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ اٹھارہ سال سے زیادہ کی عمر کے بہت سے ووٹرز قطار میں لگے تھے، ہماری خوشی اور حیرت کی اس وقت کوئی انتہا نہ رہی جب  ہم نے  ایک ضعیف اماں جی کو وہیل چیئر پر ووٹ ڈالنے کے لئے آتے دیکھا۔ گزشتہ پانچ سال کے دوران ہم پاکستانیوں نے جو حالات برداشت کئے ہیں اس کے بعد یہ جذبہ اور لگن ہمیں بھی ہمت دلا گئی اور امید ہو چلی کہ خدا اس قوم کی حالت بدلنا چاہتا ہے جبھی قوم اپنی حالت بدلنے کی خاطر گھروں سے نکلی ہے۔
اللہ بھلا کرے پولیس اور رینجرز والوں کا کہ انھوں نے ہمارے محلہ کے ووٹرز کو ایک ساتھ اندر جانے دیا کیونکہ ہمارے محلے کا بوتھ الگ تھا۔ اندر جاکر بھی ہمیں قطار میں لگنا پڑا مگر یہ باہر دھوپ میں کھڑے ہونے سے بہتر تھا۔ سرکاری اسکول وہ بھی سندھی میڈیم، مگر نو تعمیر شدہ ہونے سے بھوت بنگلہ معلوم نہیں ہو رہا تھا۔ اندر کا ماحول قدرے بہتر تھا۔
ہمارے اہلِ محلہ وہاں موجود تھے اور ہم ان کے درمیان اپنائیت محسوس کر رہے تھے۔ کمرہ میں پہنچے تو ترتیب وار پہلے اپنا انگوٹھا فہرست پر لگایا، اسکے بعد صوبائی اور قومی اسمبلییز کے ووٹ حاصل کئے، اس دوران  ایک بیلٹ بکس بھر چکا تھا تو پولنگ کے عملہ نے دوسرا بکس سب کے سامنے سِیل کیا اور اسکے پلاسٹک کے بند پر لگے نمبر بھی مختلف پارٹیز کے پولنگ ایجنٹس کو لکھوائے۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے شفاف پولنگ ہوتے دیکھی۔ اپنے ووٹس پر نو خانوں والی مہر لگائی اور انھیں تہہ لگا کر کے متعلقہ بکسوں میں ڈال دیا۔ اس عمل کے بعد ہم خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگے اور گھر کو روانہ ہو گئے۔
اب نتیجہ کچھ بھی نکلے ہم نے اپنی ذمہ داری پوری کردی آگے اللہ مالک ہےکیونکہ بقول شاعر
یہ معاملے ہیں نازک جو تری رضا ہو تُو کر 

Sunday, May 5, 2013

نیاگرا کے دیس میں، چھَٹا اور آخری ٹکڑا


اگلی صبح ہم الوداعی دورے پر ایلکس کے ساتھ کمپنی پہنچے اور کاغذی کاورائی وغیرہ مکمل کی، ہمیں اسناد سے نوازا گیاکہ ہم نے مقررہ مشق مکمل کر لی تھی۔ ظہرانہ اختتامِ ہفتہ کے باعث کمپنی میں ہی تھا، جہاں عہدہ سے بالاتر ہو کر سب ایک ساتھ کھانا کھاتے ہیں، ہم نے سبزی والا اڑایا اور ساتھ میں ندیم کے گھر کا کوفتوں کا سالن تھا۔ ایلکس کو ندیم نے کوفتوں کی  پیشکش کی تو وہ پوچھنے لگا کہ یہ کیا ہے، ہم نے کہا کہ اس کی شُد انگریزی تو ہم نہیں بتا سکتے کیونکہ انگریز کیا جانے کوفتے کا سواد، مگر میٹ بال کہے دیتے ہیں۔  اس نے چھری کانٹے کی مدد سے کوفتے کا دل چاک کیا اور اسے اپنی غذائی نالی سے معدہ میں اتار کیا، اب مرچ مصالحہ کی وجہ سے ایلکس کو لگ پتہ گیا کہ کوفتہ کسے کہتے ہیں، حالانکہ کوفتے تیکھے نہ تھے مگر ایلکس کے لئے مرچیلے ثابت ہوئے، مگر اس نے بھی ہمت نہ ہاری اور پیپسی کے گھونٹ کے ساتھ کوفتہ نگل لئے۔
ظہرانے کے بعد ایلکس ہمیں خریداری کرانے لے گیا اور ہم دونوں کو چاکلیٹ تحفتادیں، ہم پاکستان سے جاتے ہوئے کینیڈیائی میزبانوں کے لئے دستکاری کے چند چھوٹے موٹے نمونے لے گئے تھے، لہٰذا ایلکس نے ہمیں کینیڈا کی چاکلیٹس سے نوازا۔
شام میں ایلکس نے ہمیں اونٹاریو کے سائنسی مرکز پر چھوڑا۔ جہاں سے ہم مسز شبنم کے گھر جانا چاہتے تھے مگر ہمارے پاس ان کا فون نمبر تھا اور نہ ہی گھر کا صحیح پتہ، کیونکہ ہماری ڈائری ہوٹل میں پڑی تھی، سو ہم سائنسی مرکز میں قید ہو کر رہ گئے، اللہ کا شکر ہے کہ ندیم کے پاس انکے ایک ٹورنٹو میں مقیم رشتہ دار کا فون نمبر تھا، انھیں فون ہر صورتِ حال سے آگاہ کیا تو انھوں نے ندیم کو تسلی دی اور آنے کا وعدہ کیا، انکا وعدہ قریبا سات بجے وفا ہوا۔
کاشف ایک دراز قد شخصیت کے حامل تھے اور بات چیت نہایت شستہ کرتے تھے، کینیڈا کے قوانین اور سماجی اصولوں سے بخوبی آگاہ تھے ، کیونکہ یہاں ایک طویل عرصہ سے تارکِ وطن کی حیثیت سے رہ رہے تھے۔وہ ہمیں اپنی امریکن وویجر جو کہ ہشت نشستی تھی میں اسکاربرو کے ایک حلال چینی ریسٹورانٹ میں جسکا نام لکی ریسٹورانٹ تھا، میں لے گئے۔
ریسٹورانٹ لوگوں سے  پُر تھا، ہمیں ایک چار افراد والی میز پر جگہ ملی اور ہم تین کرسیوں پر قابض ہو گئے، ہمارے برابر والی میز خاصی طویل تھی جو دراصل دو میزوں کو جوڑ کر بنائی گئی تھی، اس پر نو عدد دوشیزائیں جو کہ جونی کی دہلیز پر قدم رکھ چکی تھیں تشریف فرما تھیں اور بنا کسی توقف کے چٹر پٹر انگریزی بگھار رہی تھیں، ان میں سے کسی ایک کی سالگرہ تھی جسے انگریزی میں سیلیبریٹ کیا جا رہا تھا۔
ایک میز چھوڑ کر دو افراد کی میز پر دو پولیس والے وردی میں نظر آئے، وہ دونوں کھانا کھا رہے تھے، ہم نے ازراہِ مذاق کاشف سے پوچھا کہ کیا یہ پولیس والے کھانے کا بل ادا کریں گے تو کاشف نے کہا کہ بالکل ادا کریں گے۔ ہم نے کہا یہ کیا بات ہوئی یہاں کی پولیس سے زیادہ طاقتور تو ہمارے ہاں کی پولیس ہے کہ کھانا کھا کر بل بھی میٹھے کے طورپر ڈکار جاتی ہے اور کوئی مائی کا لال ان سے کھانے کے پیسے نہیں وصول سکتا۔
ہم رویتی چینی کھانوں سے لطف اندوز ہوئے اور پیٹ بھر کے کھایا، آخر میں امریکی موسمی اور شکر پارے جیسی ایک مٹھائی پیش کی گئی جس کے ساتھ، چینی انداز کے لفافہ میں انگریزی میں ایک جملہ اور لکی نمبر درج تھا جیسا ہمارے ہاں طوطے کی فال کا تماشہ ہوتا ہے۔
کھانے سے فارغ ہوکر کاشف نے ہمیں ہوٹل چھوڑا اور اگلی صبح آنے کا وعدہ کیا۔ ہم نے عشاء پڑھی اور انٹرنیٹ پر کچھ وقت صرف کرنے کے بعد سو گئے۔
اگلا دن فراغت کا تھا، لہذا سکون سے ناشتہ کیا ، ہلکی بارش اور کچھ کچھ برف باری وقفہ وقفہ سے آنکھ مچولی کھیل رہے تھے۔ نو بجے کاشف آن پہنچے اور ہمیں اسکاربرو کے مرکزِ شہر لے گئے،وہاں ہم نے بچوں کے لئے کچھ خریداری کی اور سونی کا ایک کیمرہ بھی خرید ڈالا جو ہنوز ہمارے پاس ہے۔
یہاں پر ہمیں حقیقتا آٹے دال کا بھاو پتہ چلا اور ڈالر میں قیمتوں سے یہ آگاہی ہمیں سڈنی میں اشیاء کے داموں پر حیران ہونے سے بچاتی رہی۔ ہم دیسیوں کا المیہ یہ ہے کہ ہم دیگر کرنسی کو روپوں سے ضرب کر کے سوچتے ہیں جو کہ کسی حد تک صحیح ہو سکتا ہے کہ ہم کماتے روپوں میں ہیں، مگر آپ کی جیب میں ڈالر ہوں اور آپ ڈالر میں ہی سوچ رہے ہوں تو پھر آپ کو کوئی چیز مہنگی نہیں لگتی۔ ایک اور بات قوتِ خرید کی بھی ہے۔پردیس میں  اگر ایک شخص دس ڈالر فی گھنٹہ بھی کماتا ہے تو وہ اکیلا مناسب گزر بسر کر سکتا ہےکیونکہ کم سے کم اجرت کے تحت ہی اشیاِئے خُرد و نوش کی قیمتیں مقرر کی جاتی ہیں، جبکہ ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے۔ اس وجہ سے ایک تو طبقاتی فرق جنم لیتا ہے اور دوسرا اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں اور عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو جاتی ہیں۔
اسکاربروکے جدید شاپنگ مال سے نکل کر ہم دیسی بازار آگئے جہاں سے کاشف اپنے گھر کا راشن وغیرہ لیا کرتے تھے، یہاں پر وطن کی بہت سی اشیاء ڈالرز میں بکتی دیکھیں۔یہاں پر بھی احسان دانش کے مصرع کے مصداق ہمیں بندہ مزدور کے اوقات تلخ ہی نظر آئے کیونکہ گوشت کے ایک کھوکے پر کہ جو ایک بڑے اسٹور میں ہی تھا، ہمیں ایک غیر قانونی دیسی تارکِ وطن ملا، کاشف کے بقول وہ شخص کم سے کم سرکاری مزدوری سے بھی کم میں وہاں کام کرنے پر مجبور تھا، دیسی مالک نے اس پر احسان کیا ہوا تھا کہ کام دے رکھا تھا ورنہ سرکار اسے جیل میں ڈال دیتی، کیونکہ کسی جرم میں ملوث نہ تھا اس وجہ سے حکومت نے صرفِ نظر کیا ہوا تھا کہ اپنی روزی تو کما رہا تھا، ورنہ سرکار کو اسے روٹی دینا پڑتی۔ ایسے مناظر ہم نے اطالیہ میں بھی دیسیوں کے ساتھ دیکھے تھے۔
راشن لے چکنے کے بعد کاشف ہمیں ایک افغانی نان بائی کے ہاں لے گئے، وہاں ہر طرح کے روایتی تازہ اور پیکٹ والے افغانی نان دستیاب تھے، ساتھ ہی افغانی قہوہ مفت تھا۔ مفت کی شراب تو اچھے اچھے نہیں چھوڑتے سو ہم نے مفت کا افغانی قہوہ کاغذی پیمانوں میں بھر لیا اور اس کے کش لگاتے پھرے، باہر ہلکی ہلکی برف باری ہو رہی تھی اور ہمارے ہاتھوں میں قہوہ کے کاغذی پیمانے تھے، ہم نے اسی کو ساغر و مینا جانا اور غالب کی طرح روزِ ابر میں پینے لگے، جیسے ہی ہمارا پیمانہ ختم ہوا ہم نے کاغذی جام قریب موجود کچر کے ڈرم میں ڈال دیا۔ ندیم ابھی قہوے کی چسکیاں لے رہے تھے، اسی انداز میں وہ گاڑی تک پہنچے، ہم نے انھیں سرزنش کردی تھی کہ اچھے بچوں کی طرح اس کاغذی جام کو کوڑَ کے ڈرم میں ڈالنا کیونکہ یہ کراچی نہیں ہے کہ چلتی گاڑی سے پان کی پیک تھوک دی یا کوئی خالی تھیلی اُڑا دی، مگر انھوں نے ہماری بات کو بھی خالی تھیلی کی طرح اُڑا دیا اور خالی پیمانہ وہیں برف پر پھینک دیا۔ دور سے ایک ضعیف خاتون نے انکی یہ حرکت دیکھ لی اور وہیں سے انگریزی میں انھیں للکارا کہ تیری یہ جرات کہ ہمارے ملک کو گندا کرتا ہے، کاشف نے موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئےفورا اس کاغذ کے ساغر کو کوڑے کا ڈرم دکھایا اور اماں جی سے معافی چاہی کہ یہ بچہ نادانی میں ایسی حرکت کر بیٹھا ورنہ اسکا ارادہ ڈَسٹ بِن استعمال کرنے کا ہی تھا۔ اب ہم نے ندیم کو گھورا  تو انھوں نے ہمیں معصوم نظروں میں جواب دیا کہ ہمیں کیا پتہ تھا کہ یہ اماں ہمیں دیکھ لیں گی۔
اس کے بعد کاشف نے ہمیں ایک اسٹور پر چھوڑا اور ندیم سمیت خود اپنے گھر کی راہ لی۔ ہم دراصل معراج فاطمی کے مہمان ہونے جا رہے تھے اور طے شُدہ ترتیب کے مطابق انکے منتظر تھے۔انھوں نے دس منٹ کے اندر اندر ہمیں وہاں سے لیا اور اپنے گھر جا پہنچایا۔ٹھیٹ بہاری لہجے میں اردو بولتے ہیں اور ایک کثیر ملکی باشندوں پر مشتمل خاندان کے سربراہ ہے، کیونکہ انکی اہلیہ پاکستانی ہیں تو صاحبزادی قطری، خود پڑوسی ملک کے ہیں تو صاحبزادے کینیڈیائی۔
ہم نے پورا دن انکےساتھ گزارا، ظہرانہ اور عشائیہ بھی ساتھ کیا۔ مسز شبنم نےخاصا اہتمام کر رکھا تھا۔ ان لوگوں کے ساتھ گپ شپ رہی اور کراچی میں انکے میکے والوں کے لئے انکی تصاویر کھینچیں۔ معراج بھائی نے اپنے گھر میں تاج محل کی تصویر لگا رکھی تھی، ہم نے اس پر انھیں ساحر لدھیانوی کی تاج محل یاد دلائی تو اس پر وہ بھول پن سے کہنے لگے کہ بھئی بہت برا ہے وہ، تاج کے بارے میں ایسا کہا ہے۔
معراج بھائی اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ ہیں شپنگ کرانے لے گئے، مسز شبنم نے بچوں کے لئے خریداری میں ہماری معاونت کی اس کے بعد ہم نے کینیڈا کے مشہور کافی ہاوس 'ٹم ہارٹن' سے ذائقہ دار کافی پی۔  معراج بھائی نے ہمیں دارالسلام نامی مسجد دکھائی جوتھورن ہِل نامی علاقہ میں واقع ہے، یہاں مسلمان اکثریت میں بستے ہیں، اسی کی وجہ سے اس علاقہ کو ازراہِ مذاق اسلامی جمہوریہ تھورن ہل کہا جاتا ہے۔اسی علاقہ میں پاکستانی مصنوعات کا ایک بہت بڑا اسٹور بھی ہے جہاں حلال گوشت، مٹھائیاں اور دیگر اشیائے خورد و نوش دستیاب ہیں۔
رات پونے دس بجے کے قریب معراج بھائی نے ہمیں اونٹاریو سائنسی مرکز  پر کاشف کے حولے کیا، جن کے ساتھ ندیم پہلے سے موجود تھے ۔ ہم دونوں کو کاشف نے ہوٹل چھوڑا اور خود رخصت ہوئے۔ ہم نے عشاء ادا کی اور سو گئے۔
اگلی صبح ہمارےقیامِ کینیڈا کی آخری صبح تھی، آرام سے ناشتہ کیا اور چہل قدمی کے لئے باہر نکل گئے۔ کڑاکے کی دھوپ ہوٹل کے کمرے سے دکھائی دے رہی تھی اور برف باری کا بھی کوئی امکان نہیں تھا، مگر برفانی ہوا نے سورج کی تپش کو مات دے ڈالی ۔ اب ہم جوش میں ہوٹل سے سیدھے ایک سمت میں چل تو پڑے پر ہوا نے ہمیں اپنے جسم کا درجہ حرارت اور گردشِ خون بحال رکھنے کے لئے دوڑ لگانے پر مجبور کردیا۔ ہم نے کینیڈا میں اسقدر سردی اب تک نہیں کھائی تھی جتنی اس صبح برداشت کی۔
ہانپتے کانپتے ہوٹل پہنچے اور سامان سمیٹ کر ٹیکسی بلوائی، ہوٹل والوں کا کھاتہ صاف کیا اتنے میں ٹیکسی آن پہنچی، یہ ٹیکسی ڈرائیور بھی دیسی نکلے جن کا تعلق پاکستانی شہر گجرات سے تھا۔ انھوں نے ہمیں ہوائی اڈے کے قریب ایک اتوار بازار مفت میں دکھا دیا۔ یہ 'فلی مارکیٹ' اپنے معیار کے لحاظ سے ہمارے ہاں کے لائٹ ہاوس کے بازار جیسی تھی۔
ہماری پرواز کا وقت شام میں تھا۔ واپسی کے ساڑھے بارہ گھنٹوں کے سفر میں سے ہم نے آٹھ گھنٹے سو کر گزارے، صرف کھانے پینے کے وقفوں میں بیدار رہے، پاکستانی وقت کے مطابق اگلے دن شام میں کراچی کے ہوائی اڈے پر اترے۔
اس پہلے بین الاقوامی سفر نے ہمیں بہت کچھ سکھایا جوآگے آنے والے دوروں میں ہمارے بہت کام آیاخاص طور پر ہمارے قیامِ آسٹریلیا میں ہمیں بڑی معاونت ملی ۔ ندیم کی شخصیت کے بھی بہت سے پہلو سامنے آئے جن سے ہمیں انسانوں کو سمجھنے میں خاصی آسانی ہوئی۔
گوروں پر ہم نے ایک بات واضح کر دی کہ ہم بھلے ہی تیسری دنیا کے ایک ملک سے تعلق رکھتے تھے مگر منہ میں زبان رکھتے تھے اور پنے ادارے اور ملک کی نمائندگی احسن طریقہ سے کر سکتے تھے۔
ختم شُد 

Tuesday, April 30, 2013

نیاگرا کے دیس میں، تصویری ٹکڑا


گذشتہ ٹکڑوں میں قارئین نے سفر نامہ میں تصاویر نہ ہونے کی شکایت کی، ان شکایات کا ازالہ ہم اس تصویری ٹکڑے میں کئے دیتے ہیں۔
پہلی تصویر کے بارے میں ہمیں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے اس آبشار پر نظر اور کیمرہ دونوں جمانا مشکل ہے۔
 اس کے بعد والے منظر میں کہیں برف اور کہیں پانی دکھائی دے رہا ہے اور پس منظر میں رینبو برج ہے۔


امید ہے کہ اب قارئین کو ہم سے شکایت نہیں رہی ہو گی۔
نوٹ: شخصی تصاویر بلاگ سے ہٹا دی گئی ہیں۔
جاری ہے

Sunday, April 28, 2013

نیاگرا کے دیس میں، پانچواں ٹکڑا


نیاگرا پر پہلی نظر پڑتے ہی دم بخود رہ گئے، اب تک اس کے بارے میں سنا کرتے تھے یا ٹی وی پر دیکھا تھا، مگر اب خود کو اس کے سامنے پاکرہماری سٹی گُم ہو گئی۔ ایک تو اسکا شور، دوسرے اسکے چھینٹے اور تیسرا کڑاکے کی سردی، یک نہ شُد سہ شُد ہو گیا۔ اللہ نے کیا قدرتی سرحد بنائی ہے دو بڑی زمینی طاقتوں کے درمیان، جھیل امریکی ہے تو آبشار کینیڈیائی۔آبشار کا دیدار ٹھیک طور پر کینیڈا سے ہی ممکن ہے کیونکہ یہ اِسی جانب گرتی ہے۔ اس طلسماتی منظرِ قدرت کو دیکھتے ہوئے آپ کو کوئی اور آواز سنائی نہیں دیتی، اسکے پانی کا شور اپنے انداز میں اللہ کی حمد بیان کرتا ہے اور نشیب میں جاکر پرسکون ہوجاتا ہے۔ سردی اسقدر تھی کہ نشیب میں کہیں کہیں پانی دکھائی دیتا تھا ورنہ برف کی اوپری تہہ پانی کو ڈھکے ہوئے تھی۔بیسویں صدی کے اوائل میں یہ جھیل مکمل طور پر جم گئی تھی۔
ایلکس ہمیں وہاں اتار کر خود گاڑی میں بیٹھا رہا تاکہ پارکنگ نہ ادا کرنی پڑے، ویسے بھی اسے نیاگرا میں کوئی خاص دلچسپی نہ تھی وہ محض ہمیں اسکا دیدارکرانےلایا تھا۔یہاں پر سیاحوں کی تعداد بہت کم تھی جسکی وجہ موسم کی سختی تھی، مگر اللہ دیسیوں کو سلامت رکھے یہ ہر موسم میں ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔دیسیوں میں سرداروں اور پٹھانوں کو خاص اہمیت حاصل ہے، پہاڑوں کے پتھر کاٹنے ہوں یا زمین کا سینہ چیرنا ہو، بوجھ اٹھانا ہو یا ٹرک چلانا یہ دونوں اقوام کسی بھی محنت طلب کام سے جی نہیں چراتے، ہماری طرح صرف قلم کے سپاہی نہیں ہوتے بلکہ اپنے دست و بازو کو کام میں لاتے ہیں۔
یہاں بھی ہمیں ایک سردار جی مل گئے جنھوں نے خوشی خوشی ندیم اور ہمارے ساتھ تصاویر کھنچوائیں۔اکثر لوگ آبشار کو پس منظر میں رکھتے ہوئےتصاویر اتارتے ہیں مگرقوسِ قزح پل یعنی رینبو برج یہاں کا ایک مشہور پل ہےجو عین نیاگرا پر واقع ہے اور نیاگرا آبشار سے امریکہ جانے کی قریب ترین راہداری ہے،اس کے سامنے کھڑے ہو کر بھی لوگ شوق سے تصاویر کھینچواتے ہیں۔ ہم بھی ان لوگوں میں شامل ہوگئے۔
نیاگرا کے ساتھ دونوں جانب ڈالر بہانے کے بہت سے مقامات ہیں، جن میں بنتِ حوا سے لے کر  اُم الخبائث  تک  ہر طرح کی اجناس و جنس ڈالروں  کے مول بکتی ہے۔مگر ہم نے متذکرہ بالا ممنوعات سے خود کو باز رکھا اور نیاگرا کے پہلو میں واقع شیریٹن ہوٹل میں اسٹار بَک نامی کافی شاپ پر پہنچے۔ ایلکس ہمیں کچھ کھلانا پلانا چاہتا تھا اور ہم حلال کھانا ڈھونڈنے کی تگ و دو سے بچنا چاہتے تھے لہٰذا طے کیا کہ کافی سے گزارا کر لیا جائے۔ اب ندیم نے کافی کے متعلق فرمایا کہ ہم یہ کیسے پیئیں گے اتنی تو کڑوی ہوتی ہے، سچ تو یہ ہے کہ ہم بھی ان دنوں کافی نہ ہونے کے برابر پیا کرتے تھے، مگر ندیم کی تسلی کی خاطر جواب دیا کہ برادر یہاں بھوک اور سردی سے بچنے کا ایک طریقہ تو یہ کہ شراب سے شغل کر لو،لحمِ خنزیر کھالو یا پھر کافی کا ایک بڑا گلاس ڈکار جاو، اگر کافی کا دم مارنا ہے تو اس میں چاکلیٹ یا ونیلا کا سفوف ڈال لو جو کہ مفت ہے۔ ندیم کی سمجھ میں ہماری بات آگئی اور ہم لوگوں نے انگریزی کافی کو اردو میں کافی جان کر اپنے اپنے معدوں میں اتار لیا۔ اور پھر ہمارا تجزیہ درست ثابت ہوا کہ کہاں تو ہم جرسی، اوور کوٹ اور دستانے پہنے ہوئے تھے اور کافی پینے کے بعد سوئیٹر بھی ہمیں گرم لگنے لگا۔باہر نکل کر ہم نے گرم کپڑوں کے بغیر بھی تصاویر کھینچیں۔
نیاگرا کا دیدار کرنے کے بعد ہم نےواپس ٹورنٹو کا رُخ کیا، واسپی کا سفر خاصی تیز رفتاری سے طے ہوا۔ ایلکس ہمیں سی این  ٹاور لے آیا اور ہمیں وہاں اتار کر ایک چکر لگانے چلا گیا تاکہ اُسے پارکنگ نہ دینی پڑے۔ ہمارے لئے یہ وقت بہت تھا ہم نے اس دوران ٹاور کی  تصاویر اتاریں۔ یہ ٹاور قریبا اٹھارہ سو فٹ بلند ہے، جس پر چودہ سو فٹ کی بلندی پر یک مشاہداتی گول کمرہ ہے جس کا فرش شیشے کا ہے آپ جب اس پر چل رہے ہوتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ سینکٹروں فٹ کی گہرائی میں جا گریں گے۔
یہاں سے فارغ ہو کر شہرِ زیریں یعنی ڈاون ٹاون کی ایک مشہور سڑک  ینگسٹ اسٹریٹ پر سفر کیااور عشاء کے وقت واپس ہوٹل پہنچے۔کیونکہ ظہرانہ نہیں کیا تھااس لئےساتھ لایا ہوا  ادرکی مرغ کا سالن اُ ڑایا، تھک ہار کے رات سو پڑے۔
جاری ہے

Thursday, April 25, 2013

نیاگرا کے دیس میں، چوتھا ٹکڑا


ایلکس کی بات سو فیصد درست نکلی اور ہم نے نیاگرا جانے کے ارادے کو حتمی شکل دے ڈالی۔ فجر میں بیدارہوئے اور نماز کے بعد تیار ہو کر ناشتے کی میز پر پہنچے، ابھی ساڑھے آٹھ بھی نہ ہوئے تھے کہ ایلکس ہمیں لینے آن پہنچا۔ ایلکس کی گاڑی تھی، اونٹاریو کی شاہراہ اور ہم دیدارِ نیاگرا کی چاہ لئے محوِ سفر تھے۔ سڑکوں پر سے گذشتہ روز کی برف صاف کی جا رہی تھی، زیادہ تر صفائی کی جا چکی تھی، مگر شاہراہ کے کنارے اب بھی برف کے ڈھیر موجود تھی، برف کھرچنے اور ہٹانے کے بعد، سڑک پر نمک چھڑک دیا جاتا تھا تا کہ باقی ماندہ برف جلد پگھل جائے، ایسی صورت میں سڑک پر پھسلن ہو جاتی تھی اور گاڑی چلانے والوں کو احتیاط سے ڈرائیونگ کی تلقین کی جاتی تھی۔
شہر سے نکلتے نکلتے ہمیں خاصی تاخیر ہو گئی، وجہ گاڑیوں کی بھیڑ اور برف کی صفائی کا عمل تھا۔راستے کے دونوں جانب ہر شے برف پوشی اختیار کئے ہوئے تھی، ہمارا سفر اونٹاریو جھیل کے کنارے شاہراہ پر تھا، کہیں یہ شاہراہ بالکل جھیل سے آلگتی تو کہیں بیچ میں گھروں کی چند ایک قطاریں آجاتیں۔ اس جھیل کی وسعت کا اندارہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس میں باقاعدہ جہاز رانی ہوتی ہے۔
ندیم گاڑی کی پچھلی نشست پر اکیلے تھے، جبکہ ہم ایلکس کے برابر براجمان تھے، یہاں ٹریفک دائیں جانب چلتی تھی لہٰذا وطن کی نسبت سے ہماراسڑکوں پر گاڑیوں کا مشاہدہ بالعکس ہو گیا تھا، ندیم گفتگو سےبچنے کےلئے خاموش ہوتے تو اونگنا شروع کر دیتے اس پر ایلکس انھیں انکا نام لے کر چھیڑتا اور ندیم کو پھر سے حالتِ بیداری اختیار کرنا پڑتی۔ یہاں نشستی پیٹی یعنی سیٹ بیلٹ تمام سواروں کے لئے لازم تھی اور ایلکس اس کا خاص خیال کرتا تھا کہ ہم نے سیٹ بیلٹ باندھ رکھی ہے کیونکہ پکڑے جانے کی صورت میں اسے ٹریفک چالان بھرنا پڑتا۔
ندیم نے ایک جگہ ٹریفک میں پھنسے ہونے پر برابر کی گاڑیوں میں تانکاجھانکی شروع کردی، جس پر ایلکس نےانھیں سرزنش کی کہ یہاں پر اگر کسی صنفِ نازک نے آپ کی شکایت کردی تو پولیس آپ کو ہی حوالات میں داخل کرے گی۔
یہاں سڑکوں پر راستوں کی علامات اور بورڈ ز پرنظر رکھنا ضروری تھا، کیونکہ ایلکس کی گاڑی میں جی پی ایس نہیں لگاہوا تھا اسلیئے وہ بہت محتاط انداز سے گاڑی چلا رہا تھا کہ کہیں غلط موڑ یا راستہ اختیار نہ کر لے۔ ہم نے اس غیر معمولی احتیاط کی وجہ پوچھی تو کہنے لگا کہ یہاں سے بہت سے راستے سرزمینِ ریاست ہائے متحدہ امریکہ جاتے ہیں اور بیچ میں کوئی واپسی کاموڑ نہیں ہے، اگر غلطی سے ہم امریکہ صاحب بہادر والے رستے پر چل نکلے تو میری تو خیر ہے مگر آپ پاکستانیوں کو امریکی حساس اداروں کا مہمان بننا پڑے گا۔ اسکی بات سن کر ہمارے بدن میں ایک عجب سی سنسنی پیدا ہو گئی اور تصور میں ہم خود کو گونتانا موبے میں دیکھنے لگے۔ ہم نے اسے کہا کہ بھائی بھلے نیا گرا نہ لے جاو مگر اس طرح سے ہمیں ڈراو مت، آرام و سکون سے گاڑی چلاو اور راستے پر نظر رکھو۔ مگر ہم سے زیادہ وہ گھبرایا ہوا لگتا تھا کہ راستہ بھٹک کر نیاگرا کے قریب ایک قصبہ میں جا اترا۔ وہاں ایک بندہ خدا نے ہمیں نیاگرا کا راستہ بتلا دیا جس پر گاڑی دوڑاتے ایلکس ہمیں نیاگرا لے آیا۔
جاری ہے

Sunday, April 21, 2013

نیاگرا کے دیس میں، تیسرا ٹکڑا


اگلی صبح پھر وہی ہوا کہ تڑکے ہی آنکھ کھل گئی۔ فجر کی نمازادا کی، برف باری شروع ہو گئی تھی- یہاں پر برف صاف کرنے کا ایک مکمل نظام موجود تھا جس پر ہر سال پچاس لاکھ ڈالر کی لاگت آتی تھی اور زیادہ تر دیسی موسمِ سرما میں یہ کام انجام دیتے تھے- ہاتھ گاڑی سے لے کر برف کھرچنے کے بڑے بڑے بلڈوزر اس کام کے لئے استعمال کئے جاتے تھے۔ ہر خاص وعام اپنی گاڑیوں میں کُھرپیاں رکھتے تھےاور کام سے فارغ ہو کر کھلی پارکنگ میں کھڑی اپنی  گاڑیوں کے شیشوں سے برف ہٹاتے اور پھر سفر کا آغاز کرتے تھے۔
ناشتہ کے بعد ایلکس کے ساتھ اسکے دفتر پہنچےاور تربیتی عمل کا آغاز کیا، کافی کے وقفہ کے دوران ایلکس ہمیں کینیڈا سے متعلق معلومات سے نوازتا رہا کہ اگر ہم ترکِ وطن کا ارادا کریں، جو کہ تاحال نہیں ہوا، تو یہ باتیں ہمارے کام آسکیں۔ ہم نے عمارت کے پچھواڑے باہرجاکر مقناطیسی آلہ پر مشق کی اور اس سے پیمائش کی۔ ہر سُو برف ہی برف تھی، پاس ہی ایک جھیل بھی بہتی تھی جو قریبا جم چکی تھی۔ ایسے میں چچا مستنصر حسین تارڑ ہوتے تو اس برفیلی جھیل میں کسی حسینہ کا عکس تلاش کرتے، محترم مشتاق احمد یوسفی، مرزاعبدالودودبیگ کا تذکرہ کرتے اور برف کے گولے گنڈوں کی بات کرتے، چچا غالب درودیوار پر برف کے 'اُگنے' کی بات کرتے، مگرہم ایلکس کی اُستادی میں سائنسی پیمائش اور ناپ تول میں مصروف رہے۔
 کھانا ایک مدراسی ریسٹورانٹ میں کھایا جس کا پتہ گذشتہ روز شیلا نے بتلایا تھا، اسکا نام سراوانہ بھَوَن تھا۔ یہ دیسی کھانا ناریل کے تیل میں بنا تھا ہم کراچی والوں کو کچھ خاص پسند تو نہ آیا مگر جیک آسٹر والے تجربہ سے بہت بہتر تھا ، پس منظر میں بالی ووڈ کی جانی پہچانی موسیقی بھی چل رہی تھی، کھانے کے بعد پان سے بھی شوق فرمایا۔ ایلکس کے لئے یہ کھانا بالکل نیا تھا۔
کھانے کے بعد پھر سکھلائی کا دور رہا شام کو فارغ ہو کر نکلے تو باہر شیلا دی دی اپنی گاڑی سے برف کھرچ رہیں تھیں ہم نے انکا دل رکھنے کے لئے انکا شکریہ ادا کیا کہ آج ہم نے دیسی کھانا ان کے بتائے ہوئے ریسٹورانٹ سے کھایا تھا۔ساتھ ہی یہ بھی کہہ ڈالا کہ ان کھانوں میں ہمیں پاکستانی کھانوں جیسی لذت ملی۔ وہ یہ بات سن کر بہت خوش ہوئیں-
شام کو ہم اپنی ہمدرد کے زمانے کی رفیقہ، مسز شبنم معراج سے ملنے انکے گھر گئےجوگذشتہ وہ دو برسوں سے اپنے دو چھوٹے بچوں اور بیہاری شوہر کے ساتھ ٹورنٹو میں مقیم تھیں، معراج بھائی بہت ہی نفیس اور انسان دوست طبیعت کے حامل شخصیت ہیں، دونوں میاں بیوی نے ہمارا پُر تپاک خیرمقدم کیااور ہمیں چائے ناشتہ پیش کیا، ایلکس نے ہمارے ساتھ ڈرائیور کی خدمات انجام دیں اور انکے گھر سے ہمیں شاپنگ مال لے گئے جہاں ہم نے وِنڈوشاپنگ کی اور مختلف اشیاء کی قیمتوں کا تقابل وطن کی مارکیٹ سے کیا ، ڈالر کی قدروقیمت اور قوتِ خرید کا ہمیں کسی حد تک اندازہ پہلی بار ہوا۔
ایلکس نے ہمیں ہوٹل چھوڑا اور خود گھر روانہ ہو گیا،ہم نے کچھ دیر ٹی وی دیکھا اور اسکے بعد انٹرنیٹ پر وقت گزارا، رات سو پڑے۔
اگلے دن کا آغاز گزشتہ ایام کی طرح ہی رہا، البتہ ظہرانہ ہم نے'چٹنی' نامی  ایک پاکستانی ڈھابہ سے کیا، کیونکہ گذشتہ روز سراوانہ بھون سے نکلتے ہوئے ہم نے اس ڈھابے کے پینافلیکس پر حلال لکھا ہوا تاڑ لیا تھا۔ایلکس آج بھی باز نہ آیا اور حلال حرام کا تذکرہ لے بیٹھا، ہم نے حتی المقدور اسکی طبیعت صاف کی اور پاکیزگی کے فلسفہ اور حلال جانور کے جسم سے خون نکلے کی سائنس بیان کی، مگر وہ اپنی ضد پر اڑا رہا کہ جب قدرت نے بس کچھ انسان کے لئے پیدا کیا ہے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ حلال کریں یا جھٹکا، ہم نے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا ۔
'چٹنی' پرہمیں آلو قیمہ، پالک مرغ، بنا ہڈی کا گوشت، آلو پھلیاں اور تلی ہوئی مچھلی کے ساتھ خستہ نان پیش کئے گئے۔ ہم نے ایلکس کو نان سے سالن کھانا سکھایا۔ یہ تمام کھانے ایک ہی رکابی میں تھے اور ہر فرد کی تھالی الگ تھی۔ بقول ایلکس کے، کھانے کے اچھے ہونے کی دلیل یہ ہے کہ کھانے والا اپنی پوری پلیٹ صاف کرے ، تو خیر سے ہم تینوں نے اپنی اپنی رکابیاں صاف کیں۔اس ڈھابے کے مالک ایک ہزارہوی، پاکستانی  جن کا نام رفیق تھا انھوں نے ہمیں ہاتھوں ہاتھ لیا اور ہمارے لئے تازہ نان بنوائے۔
کھانا کھا کے واپس کمپنی پہنچے اور شام میں حسبِ معمول ہوٹل، عشائیہ گول کیا اور فرج میں پڑا دودھ پی لیا۔ انٹرنیٹ پر وقت گزارا اور رات دیر سے سوئے۔دن بھر پربرف باری ہوتی تھی مگر اگلے روز ایک چمکدار دن کی پیشنگوئی کی گئی تھی۔ موسم پر بات کرنا یہاں پر گفتگو کا لازمی جزو تھا اور لوگ لمحہ بہ لمحہ اس سے آگاہ رہنا ضروری سمجھتے تھے تاکہ اپنے معمولاتِ زندگی ترتیب دے سکیں۔حیرت انگیز طور پر یہاں کا محکمہ موسمیات ٹھیک ٹھیک پیشنگوئیاں کرتا تھا۔
اگلے دن کی پیشنگوئی کے متعلق ایلکس نے کہا کہ کل موسم صاف ہو گا اور ہم نیاگرا جاسکیں گے۔
جاری ہے

Monday, April 15, 2013

نیاگرا کے دیس میں، دوسرا ٹکڑا


یہ سڑک ووڈبائن ایونیو بھی خوب تھی کہ اس کے کنارے بنی عمارتیں لکڑی کے کام کا ایک خوبصورت منظر پیش کرتی تھیں حتٰی کہ یہاں لگے بجلی کے کھمبے بھی لکڑی کے تھے۔ قریب ہی ایک چھوٹا تربیتی ہوائی اڈا تھا اور ٹی وی پر اس علاقہ کے موسمی حالات الگ سے بتائے جاتے تھے۔
صبح سحری میں ہی آنکھ کھل گئی، وجہ زمینی گردش اور وطن میں وقت کا فرق تھا، اپنے قیام کے دوران مسلسل ہم اس الجھن کا شکار رہے۔ رات کو سو نہ سکتے تھے اور دن میں جاگنا پڑتا تھا۔ دن میں اونگتے رہتے اور وقفوں اور خاموشی میں سونے کا دل کرتا۔خیر اسقدر جلد بیدار ہونے پر ہم پطرس کی طرح سیخ پا تو نہ ہوئے البتہ ٹیکنالوجی کی بدولت احباب سے انٹرنیٹ پر بات چیت ضرور ہو گئی اور بیک وقت ہم سعودی عرب، عمان اور پاکستان سے منسلک ہو گئے۔
فجر کی نماز کے بعدتیار ہو کر ہوٹل کی زمینی منزل پر واقع ریسٹورانٹ سے انگریزی ناشتہ کیا جو ہمارے کمرے کے کرایہ میں شامل تھا۔اس ریسٹورانٹ کا بیرا ایک فلپائنی تھا، جس سے ہم نے حلال، حرام پر استفسا کیا تو اس نے ہمیں ٹکہ سا جوب دیا کہ اسے اس بابت کچھ علم نہیں ہے جیسے کہہ رہا ہو کہ جو کچھ ہے کھا مر لو میرا سر مت کھاو۔ ریسٹورانٹ اپنے اندر مئے خانے کے تمام لوازمات رکھتا تھا۔ بار کی نقلی چھت لکڑی کی تھی جس میں جام الٹے لٹک رہے تھے کہ انکے چپٹے پیندے اور پتلی ڈنڈی لکڑی کے کھانچوں میں پھنس ہوئی تھی کہ بقول شاعر
وحشت میں ہر شے کا نقشہ الٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے، لیلٰی نظر آتا ہے
اگر مرزا نوشہ ہوتے تو ضرور مئے نوش کرتے، مگر ہم نے نارنگی کے رس کو ہی مئے رنگین جانا اور توس مکھن کے ساتھ اسے نوش کر ڈالا۔  ناشتہ سے فارغ ہوئے تو استقبالیہ میں اپنے میزبان جن کا پورا نام الیگزینڈر ستاوری تھا کو اپنا منتظر پایا۔ یہ اپنے آپ کو ایلکس کہلوانا پسند کرتے تھےاور انکا تعلق مشرقی یورپ کے اسلامی ملک البانیہ سے تھا مگر اسلام سے انکا دور کا بھی واستہ نہ تھا بلکہ عیسائیت سے بھی فارغ تھے، مگر پیدائشی عیسائی تھے۔ گذشتہ سات برس سے یہ ایک تارکینِ وطن کی حیثیت سے کینیڈا میں مقیم تھے۔انکی ہنڈا اسوک میں سوار ہوکر ہم انکی کمپنی پہنچے جو ہمارے ہوٹل سے پیدل کے فاصلہ پر ہی تھی۔
دراصل ہمارے اس دورہ کا مقصد یہ تھا کہ ہم اس کمپنی سے خرید کردہ زمینی مقناطیسی میدان کی پیمائش کے آلہ پر تربیت حاصل کریں اور اپنے آرڈر کی جانچ کریں کہ ہمیں صحیح شے برآمد کی جا رہی تھی کہ نہیں۔ یوں کمپنی والوں کو ہماری خاطر داری کرنا تھی اور ہم نے اپنے ادارے اور ملک و قوم کے پیسے کو حلال کرنا تھا کہ ہم کوئی غلط شے یہاں سے نہ خرید لیں۔ یہ ایک چھوٹی سی کمپنی تھی جس میں پندرہ سے بیس کی نفری تھی، بنیادی آلات ملک ہنگری سے درآمد کرنے کے بعد انکی الیکٹرانکس اور دیگر لوازمات مقامی طور پر بنا کر اور پھر اسے مہنگے داموں برآمد کیاجاتا تھا۔ اس کمپنی کے مالک ایک وسط ایشیا کی آزاد ریاستوں سے تعلق رکھنے والے پی ایچ ڈی تھے جو تین دھائیوں سے کینیڈا میں مقیم تھے۔ انکے اکاوئنٹس اور کاروباری معاملات ایک فلپائنی ڈائریکٹر صاحب دیکھتے تھے جن سے ہماری اس دورہ سے متعلق خاصا طویل اور پرانا برقی رابطہ رہا تھا۔اس کمپنی میں مرد و خواتین کی شرح کم وبیش یکساں تھی۔ استقبالیہ پر بھی گوروں کی قائم کردہ ریوایت کے مطابق صنفِ نازک ہی تھی مگر اسے نازک  کہنا لفظ نازک کے ساتھ زیادتی ہو گی۔
اندر ایک مصنوعی آبشار کا منظر تھا جسے برقی قوت سے ایک فوارہ سے منسلک کیا گیا تھا اور اس میں مچھلیاں اور دیگر آبی حیات دیکھی جا سکتی تھی۔ عمارت کی چھت تکونی اور لکڑی کی تھی جس میں زیادہ تر شیشے لگے تھے کیونکہ یہاں دھوپ کا مسئلہ نہیں تھا اس وجہ سے شیشوں کی چھت کارآمد تھی کہ ایسے موسم میں اضافی اور قدرتی روشنی کے حصول کا ذریعہ تھی۔
ایلکس نے ہماری ملاقات ہر سامنے آنے والے فرد سے کرائی اور بطورِ خاص ڈائریکٹر صاحب سے انٹرویو بھی کرایا، اسی دوران مالک سے بھی ملاقات ہوگئی۔ اللہ جانے یہ فرنگی ہم پاکستانیوں کو کیا سمجھتے ہیں کہ جیسے ہم کسی دیہات یا 'پنڈ' سے آئے ہوں، مگر جب ہم ان سے ہمکلام ہو کر انہی کی زبان بولتے ہیں اور کچھ تیکنینی موضوعات چھیڑتے ہیں تو پھر انھیں یقین ہوتا ہے کہ
ع میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
سو ہم نے ان دونوں حضرات کوبخوبی یہ باور کرادیا کہ ہمیں پِنڈ سے آیا ہوا نہ سمجھیں ساتھ ہی اپنے وطن کی برفیلی وادیوں اور چنگھاڑتے دریاوں کا تذکرہ بھی کرڈالا کیونکہ وہ ہمیں کینیڈا کی برف باری اور جھیلوں سے مرعوب کرنا چاہتے تھے، لیکن ہم نے انکی ایک نہ چلنے دی۔
ہمیں کچن دکھایا گیا اور چائے ،کافی کے لوازمات اور ترتیب سمجھادی گئی، کہ یہاں اپنے دفتر والے مزے نہیں تھے کہ اردلی چائے لا کر پیش کرے گا، صاحب کو چائے خود بنانی تھی اور برتن بھی خود ہی دھونا تھے۔
اسکے بعد تربیتی کورس کا آغاز ہوا جس میں ہمیں آلے کی خصوصیات، ساخت، پیائش کے طریقے وغیرہ کی بابت تفصیلات پڑھائی اور سمجھائی گئیں۔اس دوران ایلکس سے دوستی ہوتی چلی گئی، یہ دھیمے لہجہ میں بات کرتے تھے اور اپنے کام سے کام رکھتے تھے، انکا تکیہ کلام انگریزی ترکیب 'اسکریو اَپ' تھاجو کہ ہالی ووڈ کی لغویات سے کچھ کم برا تھا۔ندیم پہلے تو ان کے تکیہ کلام کو سمجھنے کی کوشش کرتے رہے مگر جب ہم نے انکو کراچی کی اردو میں اسکا ترجمہ بتایا تو ایلکس کا تکیہ کلام انہی پر آزمانے لگے اس پر ایلکس اپنے اس تکیہ کلام سے کافی حد تک اجتناب برتنے لگے۔
ظہرانے کے لئے ہمیں 'جیک ایسٹر' لے گئےجہاں شراب و کباب،پُرشباب دوشیزائیں پیش کرتی تھیں، انکی انگریزی ایک دفعہ سُن کر نہیں سمجھی جا سکتی تھی، مگر ایک آدھ جملے کے بعد ہم چالُو ہوگئے اور انکی بولی سے آشنا ہوگئے۔اب کھائیں تو کیا کھائیں، ایلکس کو حلال حرام سمجھانا اسوقت مشکل تھا، لہٰذا سبزی والے پیزا کا آرڈر دے ڈالا اس کے ساتھ سبز پتوں کا سلاد تھاجس پرکالی مرچ چھڑکی ہوئی تھی اور ساتھ میں کوک ۔ جی کڑا کر کے جیسے تیسے پیزا کا ایک آدھ ٹکڑا منہ میں ڈالا اور سلاد کے پتوں کے ساتھ کوک پی لی، ادھر ایلکس بڑےمزے سے بفیلو چکن اُڑا رہا تھا۔اورہمارا منہ چڑا رہا تھا، اس نے ہم سے گوشت نہ کھانے کی وجہ پوچھی تو ہم نے اس وقت اس سوال کا جواب محفوظ کر لیا۔
کھانے کے بعدکمپنی آکر ایلکس نے ہماری ملاقات تامل ناڈو سے تعلق رکھنے والی شِیلا سے کرائی اُس سانولی سلونی نے ہمیں سبزی خور سمجھ کر ایک بھارتی ریسٹورانٹ کا پتہ سمجھا دیا۔
دوبارہ سے سکھلائی کا عمل شروع ہوا جہ کہ عصر تک جاری رہا۔عصر کے بعد ایلکس نے ہمیں واپس ہوٹل چھوڑا اور خود گھر روانہ ہو گیا۔ ہم نے باہرنکل کر کچھ آوارہ گردی کی اور فوٹو کھینچے، شام ہوٹل میں گزاری، برف باری ہونا شروع ہو گئی۔ رات دیر سے سوئے۔
جاری ہے

Saturday, April 13, 2013

نیاگرا کے دیس میں، پہلا ٹکڑا


یہ سن ۲۰۰۸ کے اوائل کا ذکر ہے کہ ہم نے اپنا پہلا بین الاقوامی سفر نیاگرا کے دیس یعنی کینیڈا کی جانب کیا۔ کڑاکے کی سردی میں برفیلی جھیلوں کی سرزمین کی سیر کا ہمیں کوئی خاص شوق تو نہیں تھا مگر سرکاری نوکری کی وجہ سے ہمیں اپنے ایک دفتری ساتھی جنھیں ہم ندیم کے نام سے یاد کریں گے، کے ہمراہ رختِ سفر باندھنا پڑا۔ سو جناح کا بین الاقوامی ہوائی اڈا تھا اور ہم تھے دوستو۔ علی الصبح  ہوائی اڈے میں داخل ہو کر قومی ہوائی کمپنی کا سفری داخلی نامہ حاصل کیا اور انتظار گا ہ  میں منتظرپرواز ہو گئے۔
 یہ لگا تار ساڑھے پندرہ گھنٹوں کی اڑان تھی جو شیطان کی آنت محسوس ہوئی اورختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ دورانِ پرواز ہم نے تمام جتن کر ڈالے، پہلے ٹی وی، ویڈیوز، کمپیئوٹر گیمز وغیرہ سے شغل کیا، پھر ندیم سے گپ شپ کی، کھانے کے وقفوں میں آب و دانہ سے سیر ہوئے،کچھ سو بھی لئے، حتٰی کہ جہاز میں تانک جھانک اور چہل قدمی بھی کر ڈالی مگر یہ سفر انگریزی کا سفر ہونے لگا۔ خدا خدا کر کے پاکستانی وقت کے مطابق رات سوا بارہ بجے ہمارے جہاز نے ٹورنٹوکے ہوائی اڈے کےرن وے پر حالتِ سکون اختیار کی اور ہم جہاز سے باہر آئے۔مقامی وقت تھا دوپہر کے سوا دو، یوں ہم جیٹ لیگ کا شکار ہو چکے تھے کہ وطن میں تاریخ بدل چکی تھی اور ٹورنٹو میں ابھی وہی گذشتہ تاریخ تھی کہ جس دن کی صبح کو ہم جہاز میں سوار ہوئے تھے۔
برقی زینوں اور طویل راہداریوں کے بعد ویزہ کی جانچ پڑتال اور داخلہ کا مرحلہ تھا، ندیم قطار میں ہم سے آگے ہو لئے اور امیگریشن افسر کا سامنا بھی ہم سے پہلے کیا۔ اس افسر نے ندیم سے ضابطہ کی پوچھ گچھ کی کہ کیا کرنے آئے ہو کینیڈا ؟اور کے دن کا قیام ہوگا؟کہاں رُکو گے؟ وغیرہ وغیرہ۔ بیچارے ندیم کی انگریزی زبان میں کم و بیش ایسی ہی مہارت ہے جیسی  بی بی مرحومہ کی اردو دانی تھی۔لہٰذا یس، نو سے کام چلایا اور پلٹ کر میری جانب دیکھا کہ بچو اب تمہاری باری ہے۔  ہماری قسمت اچھی تھی کہ افسر نے فقط اتنا پوچھا کہ تم اس شخص کے ساتھ ہو اور ہم نے فوری طور پر جی حضور کی صدا لگا دی، یوں ہمیں اپنی انگریزی کو استعمال کرنے کی خاطر خواہ نوبت ہی پیش نہ آئی۔ ہم وطن سے یہ ٹھان کر نکلے تھے کہ گوروں کے دیس میں انکی انگریزی سے مرعوب نہ ہونگے بھلے ہی یہ ہمارا پہلا بیرونِ ملک کا دورہ تھا۔
سامان کے حصول میں خاصی دیر لگی قریباپینتالیس منٹ کے بعد ہم وہاں سے فارغ ہوئے اور ٹیکسی کی تلاش میں ایک عدد سردار جی سے آ ٹکرائے، ان سے پنجابی میں بات کی کیونکہ سردار کو دیکھتے ہی ہم  پنجابی میں سوچنے لگتے ہیں۔ انھوں نے ہماری وطنیّت پوچھی اور ہمیں ایک پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور کو سونپ دیا۔ یہ ٹیکسی ڈرائیور جنکا نام انیس اور سکنہ گوجرانوالہ تھا کافی دلچسپ شخصیت کے مالک نکلے۔ پیشہ کے اعتبار سے ماہرِنفسیات  تھے اور زیادہ تر تارکینِ وطن کے کیسسز  لیا کرتے تھے اور وہ بھی ایسے جن میں مدعی نے اپنا پاسپورٹ کھو دیا ہو یا جانے انجانے میں پھاڑ دیا ہو۔ اس کے علاہ شاید وطن میں اپنی زمینوں کو بھی یاد کرتے تھے اور ہفتہ وار تعطیلات پرلیموزین ٹیکسی بھی چلاتے تھے۔ ہمارے ہوٹل تک کے پینتالیس منٹ کے سفر میں انھوں نے ہمیں مسلسل اپنی گفتگو سے لطف اندوزکئے رکھا۔
ہماری منزلِ مقصودمارکھم کے علاقہ کی ایک سڑک ووڈبائن ایونیوپر واقع ہوٹل مونٹی کارلواِن تھی۔ٹیکسی والے دیسی کو امریکی ڈالرمیں کرایہ ادا کیا تو انھوں نے اپنا کارڈ ہمیں دیا کہ ایک فون پر وہ ہمیں نیاگرا کی سیر کرانے آحاضر ہوں گے۔ہوٹل کے استقبالیہ پر پہنچےاور اپنے کمرے کا زرِ ضمانت اور سات ایّام کا پیشگی کرایہ ادا کیا۔ یہاں یہ بتاتے چلیں کہ اُن دِنوں امریکی ڈالر ساٹھ روپے کے لگ بھگ تھا اور کینیڈا کا ڈالر چند پیسے سستا تھامگر کینیڈا میں یہ ترتیب اُلٹ نکلی اور ہمیں سو امریکی ڈالر پر نناوے کینیڈین ملے۔یوں ہم اپنے بٹوے میں سے تقریبا پچپن فیصد ڈالروں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔اس مالی صدمہ کے بعد جب تیسری منزل کے اپنے کمرے میں پہنچے تو کمرے کا سازوسامان دیکھ کر اس صدمے میں کافی کمی واقع ہوئی کیونکہ وہاں موجود سہولیات کم وبیش چار ستاروں والے ہوٹل جیسی تھیں۔ہم دو افراد کیلئے الگ الگ پلنگ، کرسیاں میزیں وغیرہ اور کافی بنانے کا ضروری سامان قریبا سبھی کچھ میسر تھا۔ہم نے سب سے پہلے لاہوری انداز کا اشنان فرمایا اور آوارہ گردی کرنے نکل کھڑے ہوئے تاکہ دودھ اور ڈبل روٹی کا بندوبست کر سکیں۔ ہم اپنے قیام کے دوران ہوٹل کے کھانے سے دور رہنا چاہتے تھے، ویسے تو ہمارے پاس ٹین کے ڈبوں میں گھر کے بنے پکوان تھے جو کہ زیادہ تر ندیم اپنے ساتھ لائے تھے مگر ہم نے پھر بھی احتیاط کے طور پر دودھ وغیرہ خریدنا چاہا۔ راستے میں ایک آنٹی سے اسٹور کا پتہ پوچھا تو معلوم ہوا کہ یہ علاقہ ایسی نعمتوں سے محروم ہے، البتہ گیس اسٹیشن پراسٹور ہوتا ہے۔ ہم ان کے بتائے ہوئے پتہ پر ناک کی سیدھ میں چلتے ہوئے پہنچ گئے، وہاں بھی ایک دیسی ٹکرایا۔ ہم اب تک چاند پر نہ جا سکے پر ہمیں یقین ہے کہ وہاں بھی کوئی نہ کوئی دیسی ہم سے پہلے موجود ہو گا۔
ڈبل روٹی اور دودھ خرید کر واپس ہوٹل آئےاور ہوٹل کے بغلی دروازے سے زینے کے راستے اپنے کمرے میں پہنچے، سردی اچھی خاصی تھی اور باہر چہار سو برف ہی برف تھی کہ جسکا نظارہ ہم جہاز کے ٹورنٹو ہوائی اڈے پر اترے ہوئے کر چکے تھے۔لہٰذا سردی تھی کہ بقول یوسفی لگے ہی چلی جا رہی تھی۔ ہم نے لاہوری چھولوں کا سالن مائکروویو میں تتا کر کے کھایا، اسکے بعد انٹرنیٹ پر کچھ وقت گزارا اور رات جلدی سو پڑے کیونکہ وقت کی تبدیلی کی وجہ سے یہ نیند ہم نے چوبیس گھنٹوں بعد لی تھی۔
جاری ہے