اگلی صبح ہم الوداعی دورے پر ایلکس کے ساتھ کمپنی
پہنچے اور کاغذی کاورائی وغیرہ مکمل کی، ہمیں اسناد سے نوازا گیاکہ ہم نے مقررہ
مشق مکمل کر لی تھی۔ ظہرانہ اختتامِ ہفتہ کے باعث کمپنی میں ہی تھا، جہاں عہدہ سے
بالاتر ہو کر سب ایک ساتھ کھانا کھاتے ہیں، ہم نے سبزی والا اڑایا اور ساتھ میں
ندیم کے گھر کا کوفتوں کا سالن تھا۔ ایلکس کو ندیم نے کوفتوں کی پیشکش کی تو وہ پوچھنے لگا کہ یہ کیا ہے، ہم نے
کہا کہ اس کی شُد انگریزی تو ہم نہیں بتا سکتے کیونکہ انگریز کیا جانے کوفتے کا
سواد، مگر میٹ بال کہے دیتے ہیں۔ اس نے
چھری کانٹے کی مدد سے کوفتے کا دل چاک کیا اور اسے اپنی غذائی نالی سے معدہ میں
اتار کیا، اب مرچ مصالحہ کی وجہ سے ایلکس کو لگ پتہ گیا کہ کوفتہ کسے کہتے ہیں،
حالانکہ کوفتے تیکھے نہ تھے مگر ایلکس کے لئے مرچیلے ثابت ہوئے، مگر اس نے بھی ہمت
نہ ہاری اور پیپسی کے گھونٹ کے ساتھ کوفتہ نگل لئے۔
ظہرانے کے بعد ایلکس ہمیں خریداری کرانے لے گیا اور
ہم دونوں کو چاکلیٹ تحفتادیں، ہم پاکستان سے جاتے ہوئے کینیڈیائی میزبانوں کے لئے
دستکاری کے چند چھوٹے موٹے نمونے لے گئے تھے، لہٰذا ایلکس نے ہمیں کینیڈا کی
چاکلیٹس سے نوازا۔
شام میں ایلکس نے ہمیں اونٹاریو کے سائنسی مرکز پر
چھوڑا۔ جہاں سے ہم مسز شبنم کے گھر جانا چاہتے تھے مگر ہمارے پاس ان کا فون نمبر
تھا اور نہ ہی گھر کا صحیح پتہ، کیونکہ ہماری ڈائری ہوٹل میں پڑی تھی، سو ہم
سائنسی مرکز میں قید ہو کر رہ گئے، اللہ کا شکر ہے کہ ندیم کے پاس انکے ایک ٹورنٹو
میں مقیم رشتہ دار کا فون نمبر تھا، انھیں فون ہر صورتِ حال سے آگاہ کیا تو انھوں
نے ندیم کو تسلی دی اور آنے کا وعدہ کیا، انکا وعدہ قریبا سات بجے وفا ہوا۔
کاشف ایک دراز قد شخصیت کے حامل تھے اور بات چیت
نہایت شستہ کرتے تھے، کینیڈا کے قوانین اور سماجی اصولوں سے بخوبی آگاہ تھے ،
کیونکہ یہاں ایک طویل عرصہ سے تارکِ وطن کی حیثیت سے رہ رہے تھے۔وہ ہمیں اپنی
امریکن وویجر جو کہ ہشت نشستی تھی میں اسکاربرو کے ایک حلال چینی ریسٹورانٹ میں
جسکا نام لکی ریسٹورانٹ تھا، میں لے گئے۔
ریسٹورانٹ لوگوں سے
پُر تھا، ہمیں ایک چار افراد والی میز پر جگہ ملی اور ہم تین کرسیوں پر
قابض ہو گئے، ہمارے برابر والی میز خاصی طویل تھی جو دراصل دو میزوں کو جوڑ کر
بنائی گئی تھی، اس پر نو عدد دوشیزائیں جو کہ جونی کی دہلیز پر قدم رکھ چکی تھیں
تشریف فرما تھیں اور بنا کسی توقف کے چٹر پٹر انگریزی بگھار رہی تھیں، ان میں سے
کسی ایک کی سالگرہ تھی جسے انگریزی میں سیلیبریٹ کیا جا رہا تھا۔
ایک میز چھوڑ کر دو افراد کی میز پر دو پولیس والے
وردی میں نظر آئے، وہ دونوں کھانا کھا رہے تھے، ہم نے ازراہِ مذاق کاشف سے پوچھا
کہ کیا یہ پولیس والے کھانے کا بل ادا کریں گے تو کاشف نے کہا کہ بالکل ادا کریں
گے۔ ہم نے کہا یہ کیا بات ہوئی یہاں کی پولیس سے زیادہ طاقتور تو ہمارے ہاں کی
پولیس ہے کہ کھانا کھا کر بل بھی میٹھے کے طورپر ڈکار جاتی ہے اور کوئی مائی کا
لال ان سے کھانے کے پیسے نہیں وصول سکتا۔
ہم رویتی چینی کھانوں سے لطف اندوز ہوئے اور پیٹ بھر
کے کھایا، آخر میں امریکی موسمی اور شکر پارے جیسی ایک مٹھائی پیش کی گئی جس کے
ساتھ، چینی انداز کے لفافہ میں انگریزی میں ایک جملہ اور لکی نمبر درج تھا جیسا
ہمارے ہاں طوطے کی فال کا تماشہ ہوتا ہے۔
کھانے سے فارغ ہوکر کاشف نے ہمیں ہوٹل چھوڑا اور اگلی
صبح آنے کا وعدہ کیا۔ ہم نے عشاء پڑھی اور انٹرنیٹ پر کچھ وقت صرف کرنے کے بعد سو
گئے۔
اگلا دن فراغت کا تھا، لہذا سکون سے ناشتہ کیا ، ہلکی
بارش اور کچھ کچھ برف باری وقفہ وقفہ سے آنکھ مچولی کھیل رہے تھے۔ نو بجے کاشف آن
پہنچے اور ہمیں اسکاربرو کے مرکزِ شہر لے گئے،وہاں ہم نے بچوں کے لئے کچھ خریداری
کی اور سونی کا ایک کیمرہ بھی خرید ڈالا جو ہنوز ہمارے پاس ہے۔
یہاں پر ہمیں حقیقتا آٹے دال کا بھاو پتہ چلا اور
ڈالر میں قیمتوں سے یہ آگاہی ہمیں سڈنی میں اشیاء کے داموں پر حیران ہونے سے بچاتی
رہی۔ ہم دیسیوں کا المیہ یہ ہے کہ ہم دیگر کرنسی کو روپوں سے ضرب کر کے سوچتے ہیں
جو کہ کسی حد تک صحیح ہو سکتا ہے کہ ہم کماتے روپوں میں ہیں، مگر آپ کی جیب میں
ڈالر ہوں اور آپ ڈالر میں ہی سوچ رہے ہوں تو پھر آپ کو کوئی چیز مہنگی نہیں لگتی۔
ایک اور بات قوتِ خرید کی بھی ہے۔پردیس میں
اگر ایک شخص دس ڈالر فی گھنٹہ بھی کماتا ہے تو وہ اکیلا مناسب گزر بسر کر
سکتا ہےکیونکہ کم سے کم اجرت کے تحت ہی اشیاِئے خُرد و نوش کی قیمتیں مقرر کی جاتی
ہیں، جبکہ ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے۔ اس وجہ سے ایک تو طبقاتی فرق جنم لیتا ہے اور
دوسرا اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں اور عام آدمی کی پہنچ سے باہر
ہو جاتی ہیں۔
اسکاربروکے جدید شاپنگ مال سے نکل کر ہم دیسی بازار
آگئے جہاں سے کاشف اپنے گھر کا راشن وغیرہ لیا کرتے تھے، یہاں پر وطن کی بہت سی
اشیاء ڈالرز میں بکتی دیکھیں۔یہاں پر بھی احسان دانش کے مصرع کے مصداق ہمیں بندہ
مزدور کے اوقات تلخ ہی نظر آئے کیونکہ گوشت کے ایک کھوکے پر کہ جو ایک بڑے اسٹور
میں ہی تھا، ہمیں ایک غیر قانونی دیسی تارکِ وطن ملا، کاشف کے بقول وہ شخص کم سے
کم سرکاری مزدوری سے بھی کم میں وہاں کام کرنے پر مجبور تھا، دیسی مالک نے اس پر
احسان کیا ہوا تھا کہ کام دے رکھا تھا ورنہ سرکار اسے جیل میں ڈال دیتی، کیونکہ
کسی جرم میں ملوث نہ تھا اس وجہ سے حکومت نے صرفِ نظر کیا ہوا تھا کہ اپنی روزی تو
کما رہا تھا، ورنہ سرکار کو اسے روٹی دینا پڑتی۔ ایسے مناظر ہم نے اطالیہ میں بھی
دیسیوں کے ساتھ دیکھے تھے۔
راشن لے چکنے کے بعد کاشف ہمیں ایک افغانی نان بائی
کے ہاں لے گئے، وہاں ہر طرح کے روایتی تازہ اور پیکٹ والے افغانی نان دستیاب تھے،
ساتھ ہی افغانی قہوہ مفت تھا۔ مفت کی شراب تو اچھے اچھے نہیں چھوڑتے سو ہم نے مفت
کا افغانی قہوہ کاغذی پیمانوں میں بھر لیا اور اس کے کش لگاتے پھرے، باہر ہلکی
ہلکی برف باری ہو رہی تھی اور ہمارے ہاتھوں میں قہوہ کے کاغذی پیمانے تھے، ہم نے
اسی کو ساغر و مینا جانا اور غالب کی طرح روزِ ابر میں پینے لگے، جیسے ہی ہمارا
پیمانہ ختم ہوا ہم نے کاغذی جام قریب موجود کچر کے ڈرم میں ڈال دیا۔ ندیم ابھی
قہوے کی چسکیاں لے رہے تھے، اسی انداز میں وہ گاڑی تک پہنچے، ہم نے انھیں سرزنش
کردی تھی کہ اچھے بچوں کی طرح اس کاغذی جام کو کوڑَ کے ڈرم میں ڈالنا کیونکہ یہ
کراچی نہیں ہے کہ چلتی گاڑی سے پان کی پیک تھوک دی یا کوئی خالی تھیلی اُڑا دی،
مگر انھوں نے ہماری بات کو بھی خالی تھیلی کی طرح اُڑا دیا اور خالی پیمانہ وہیں
برف پر پھینک دیا۔ دور سے ایک ضعیف خاتون نے انکی یہ حرکت دیکھ لی اور وہیں سے
انگریزی میں انھیں للکارا کہ تیری یہ جرات کہ ہمارے ملک کو گندا کرتا ہے، کاشف نے
موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئےفورا اس کاغذ کے ساغر کو کوڑے کا ڈرم دکھایا اور اماں
جی سے معافی چاہی کہ یہ بچہ نادانی میں ایسی حرکت کر بیٹھا ورنہ اسکا ارادہ ڈَسٹ
بِن استعمال کرنے کا ہی تھا۔ اب ہم نے ندیم کو گھورا تو انھوں نے ہمیں معصوم نظروں میں جواب دیا کہ
ہمیں کیا پتہ تھا کہ یہ اماں ہمیں دیکھ لیں گی۔
اس کے بعد کاشف نے ہمیں ایک اسٹور پر چھوڑا اور ندیم
سمیت خود اپنے گھر کی راہ لی۔ ہم دراصل معراج فاطمی کے مہمان ہونے جا رہے تھے اور
طے شُدہ ترتیب کے مطابق انکے منتظر تھے۔انھوں نے دس منٹ کے اندر اندر ہمیں وہاں سے
لیا اور اپنے گھر جا پہنچایا۔ٹھیٹ بہاری لہجے میں اردو بولتے ہیں اور ایک کثیر ملکی
باشندوں پر مشتمل خاندان کے سربراہ ہے، کیونکہ انکی اہلیہ پاکستانی ہیں تو
صاحبزادی قطری، خود پڑوسی ملک کے ہیں تو صاحبزادے کینیڈیائی۔
ہم نے پورا دن انکےساتھ گزارا، ظہرانہ اور عشائیہ بھی
ساتھ کیا۔ مسز شبنم نےخاصا اہتمام کر رکھا تھا۔ ان لوگوں کے ساتھ گپ شپ رہی اور
کراچی میں انکے میکے والوں کے لئے انکی تصاویر کھینچیں۔ معراج بھائی نے اپنے گھر
میں تاج محل کی تصویر لگا رکھی تھی، ہم نے اس پر انھیں ساحر لدھیانوی کی تاج محل
یاد دلائی تو اس پر وہ بھول پن سے کہنے لگے کہ بھئی بہت برا ہے وہ، تاج کے بارے
میں ایسا کہا ہے۔
معراج بھائی اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ ہیں شپنگ کرانے
لے گئے، مسز شبنم نے بچوں کے لئے خریداری میں ہماری معاونت کی اس کے بعد ہم نے
کینیڈا کے مشہور کافی ہاوس 'ٹم ہارٹن' سے ذائقہ دار کافی پی۔ معراج بھائی نے ہمیں دارالسلام نامی مسجد دکھائی
جوتھورن ہِل نامی علاقہ میں واقع ہے، یہاں مسلمان اکثریت میں بستے ہیں، اسی کی وجہ
سے اس علاقہ کو ازراہِ مذاق اسلامی جمہوریہ تھورن ہل کہا جاتا ہے۔اسی علاقہ میں
پاکستانی مصنوعات کا ایک بہت بڑا اسٹور بھی ہے جہاں حلال گوشت، مٹھائیاں اور دیگر
اشیائے خورد و نوش دستیاب ہیں۔
رات پونے دس بجے کے قریب معراج بھائی نے ہمیں
اونٹاریو سائنسی مرکز پر کاشف کے حولے
کیا، جن کے ساتھ ندیم پہلے سے موجود تھے ۔ ہم دونوں کو کاشف نے ہوٹل چھوڑا اور خود
رخصت ہوئے۔ ہم نے عشاء ادا کی اور سو گئے۔
اگلی صبح ہمارےقیامِ کینیڈا کی آخری صبح تھی، آرام سے
ناشتہ کیا اور چہل قدمی کے لئے باہر نکل گئے۔ کڑاکے کی دھوپ ہوٹل کے کمرے سے
دکھائی دے رہی تھی اور برف باری کا بھی کوئی امکان نہیں تھا، مگر برفانی ہوا نے
سورج کی تپش کو مات دے ڈالی ۔ اب ہم جوش میں ہوٹل سے سیدھے ایک سمت میں چل تو پڑے
پر ہوا نے ہمیں اپنے جسم کا درجہ حرارت اور گردشِ خون بحال رکھنے کے لئے دوڑ لگانے
پر مجبور کردیا۔ ہم نے کینیڈا میں اسقدر سردی اب تک نہیں کھائی تھی جتنی اس صبح
برداشت کی۔
ہانپتے کانپتے ہوٹل پہنچے اور سامان سمیٹ کر ٹیکسی
بلوائی، ہوٹل والوں کا کھاتہ صاف کیا اتنے میں ٹیکسی آن پہنچی، یہ ٹیکسی ڈرائیور
بھی دیسی نکلے جن کا تعلق پاکستانی شہر گجرات سے تھا۔ انھوں نے ہمیں ہوائی اڈے کے
قریب ایک اتوار بازار مفت میں دکھا دیا۔ یہ 'فلی مارکیٹ' اپنے معیار کے لحاظ سے
ہمارے ہاں کے لائٹ ہاوس کے بازار جیسی تھی۔
ہماری پرواز کا وقت شام میں تھا۔ واپسی کے ساڑھے بارہ
گھنٹوں کے سفر میں سے ہم نے آٹھ گھنٹے سو کر گزارے، صرف کھانے پینے کے وقفوں میں
بیدار رہے، پاکستانی وقت کے مطابق اگلے دن شام میں کراچی کے ہوائی اڈے پر اترے۔
اس پہلے بین الاقوامی سفر نے ہمیں بہت کچھ سکھایا
جوآگے آنے والے دوروں میں ہمارے بہت کام آیاخاص طور پر ہمارے قیامِ آسٹریلیا میں
ہمیں بڑی معاونت ملی ۔ ندیم کی شخصیت کے بھی بہت سے پہلو سامنے آئے جن سے ہمیں
انسانوں کو سمجھنے میں خاصی آسانی ہوئی۔
گوروں پر ہم نے ایک بات واضح کر دی کہ ہم بھلے ہی
تیسری دنیا کے ایک ملک سے تعلق رکھتے تھے مگر منہ میں زبان رکھتے تھے اور پنے
ادارے اور ملک کی نمائندگی احسن طریقہ سے کر سکتے تھے۔
ختم شُد