یہ سڑک ووڈبائن ایونیو بھی خوب تھی کہ اس کے کنارے
بنی عمارتیں لکڑی کے کام کا ایک خوبصورت منظر پیش کرتی تھیں حتٰی کہ یہاں لگے بجلی
کے کھمبے بھی لکڑی کے تھے۔ قریب ہی ایک چھوٹا تربیتی ہوائی اڈا تھا اور ٹی وی پر
اس علاقہ کے موسمی حالات الگ سے بتائے جاتے تھے۔
صبح سحری میں ہی آنکھ کھل گئی، وجہ زمینی گردش اور
وطن میں وقت کا فرق تھا، اپنے قیام کے دوران مسلسل ہم اس الجھن کا شکار رہے۔ رات
کو سو نہ سکتے تھے اور دن میں جاگنا پڑتا تھا۔ دن میں اونگتے رہتے اور وقفوں اور
خاموشی میں سونے کا دل کرتا۔خیر اسقدر جلد بیدار ہونے پر ہم پطرس کی طرح سیخ پا تو
نہ ہوئے البتہ ٹیکنالوجی کی بدولت احباب سے انٹرنیٹ پر بات چیت ضرور ہو گئی اور
بیک وقت ہم سعودی عرب، عمان اور پاکستان سے منسلک ہو گئے۔
فجر کی نماز کے بعدتیار ہو کر ہوٹل کی زمینی منزل پر
واقع ریسٹورانٹ سے انگریزی ناشتہ کیا جو ہمارے کمرے کے کرایہ میں شامل تھا۔اس
ریسٹورانٹ کا بیرا ایک فلپائنی تھا، جس سے ہم نے حلال، حرام پر استفسا کیا تو اس
نے ہمیں ٹکہ سا جوب دیا کہ اسے اس بابت کچھ علم نہیں ہے جیسے کہہ رہا ہو کہ جو کچھ
ہے کھا مر لو میرا سر مت کھاو۔ ریسٹورانٹ اپنے اندر مئے خانے کے تمام لوازمات رکھتا
تھا۔ بار کی نقلی چھت لکڑی کی تھی جس میں جام الٹے لٹک رہے تھے کہ انکے چپٹے پیندے
اور پتلی ڈنڈی لکڑی کے کھانچوں میں پھنس ہوئی تھی کہ بقول شاعر
وحشت میں ہر شے کا نقشہ الٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے، لیلٰی نظر آتا ہے
اگر مرزا نوشہ ہوتے تو ضرور مئے نوش کرتے، مگر ہم نے
نارنگی کے رس کو ہی مئے رنگین جانا اور توس مکھن کے ساتھ اسے نوش کر ڈالا۔ ناشتہ سے فارغ ہوئے تو استقبالیہ میں اپنے
میزبان جن کا پورا نام الیگزینڈر ستاوری تھا کو اپنا منتظر پایا۔ یہ اپنے آپ کو
ایلکس کہلوانا پسند کرتے تھےاور انکا تعلق مشرقی یورپ کے اسلامی ملک البانیہ سے
تھا مگر اسلام سے انکا دور کا بھی واستہ نہ تھا بلکہ عیسائیت سے بھی فارغ تھے، مگر
پیدائشی عیسائی تھے۔ گذشتہ سات برس سے یہ ایک تارکینِ وطن کی حیثیت سے کینیڈا میں مقیم تھے۔انکی ہنڈا اسوک میں سوار ہوکر ہم انکی کمپنی
پہنچے جو ہمارے ہوٹل سے پیدل کے فاصلہ پر ہی تھی۔
دراصل ہمارے اس دورہ کا مقصد یہ تھا کہ ہم اس کمپنی
سے خرید کردہ زمینی مقناطیسی میدان کی پیمائش کے آلہ پر تربیت حاصل کریں اور اپنے
آرڈر کی جانچ کریں کہ ہمیں صحیح شے برآمد کی جا رہی تھی کہ نہیں۔ یوں کمپنی والوں
کو ہماری خاطر داری کرنا تھی اور ہم نے اپنے ادارے اور ملک و قوم کے پیسے کو حلال
کرنا تھا کہ ہم کوئی غلط شے یہاں سے نہ خرید لیں۔ یہ ایک چھوٹی سی کمپنی تھی جس
میں پندرہ سے بیس کی نفری تھی، بنیادی آلات ملک ہنگری سے درآمد کرنے کے بعد انکی
الیکٹرانکس اور دیگر لوازمات مقامی طور پر بنا کر اور پھر اسے مہنگے داموں برآمد
کیاجاتا تھا۔ اس کمپنی کے مالک ایک وسط ایشیا کی آزاد ریاستوں سے تعلق رکھنے والے
پی ایچ ڈی تھے جو تین دھائیوں سے کینیڈا میں مقیم تھے۔ انکے اکاوئنٹس اور کاروباری
معاملات ایک فلپائنی ڈائریکٹر صاحب دیکھتے تھے جن سے ہماری اس دورہ سے متعلق خاصا
طویل اور پرانا برقی رابطہ رہا تھا۔اس کمپنی میں مرد و خواتین کی شرح کم وبیش
یکساں تھی۔ استقبالیہ پر بھی گوروں کی قائم کردہ ریوایت کے مطابق صنفِ نازک ہی تھی
مگر اسے نازک کہنا لفظ نازک کے ساتھ زیادتی
ہو گی۔
اندر ایک مصنوعی آبشار کا منظر تھا جسے برقی قوت سے
ایک فوارہ سے منسلک کیا گیا تھا اور اس میں مچھلیاں اور دیگر آبی حیات دیکھی جا
سکتی تھی۔ عمارت کی چھت تکونی اور لکڑی کی تھی جس میں زیادہ تر شیشے لگے تھے
کیونکہ یہاں دھوپ کا مسئلہ نہیں تھا اس وجہ سے شیشوں کی چھت کارآمد تھی کہ ایسے
موسم میں اضافی اور قدرتی روشنی کے حصول کا ذریعہ تھی۔
ایلکس نے ہماری ملاقات ہر سامنے آنے والے فرد سے
کرائی اور بطورِ خاص ڈائریکٹر صاحب سے انٹرویو بھی کرایا، اسی دوران مالک سے بھی
ملاقات ہوگئی۔ اللہ جانے یہ فرنگی ہم پاکستانیوں کو کیا سمجھتے ہیں کہ جیسے ہم کسی
دیہات یا 'پنڈ' سے آئے ہوں، مگر جب ہم ان سے ہمکلام ہو کر انہی کی زبان بولتے ہیں
اور کچھ تیکنینی موضوعات چھیڑتے ہیں تو پھر انھیں یقین ہوتا ہے کہ
ع میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
سو ہم نے ان دونوں حضرات کوبخوبی یہ باور کرادیا کہ
ہمیں پِنڈ سے آیا ہوا نہ سمجھیں ساتھ ہی اپنے وطن کی برفیلی وادیوں اور چنگھاڑتے
دریاوں کا تذکرہ بھی کرڈالا کیونکہ وہ ہمیں کینیڈا کی برف باری اور جھیلوں سے
مرعوب کرنا چاہتے تھے، لیکن ہم نے انکی ایک نہ چلنے دی۔
ہمیں کچن دکھایا گیا اور چائے ،کافی کے لوازمات اور
ترتیب سمجھادی گئی، کہ یہاں اپنے دفتر والے مزے نہیں تھے کہ اردلی چائے لا کر پیش
کرے گا، صاحب کو چائے خود بنانی تھی اور برتن بھی خود ہی دھونا تھے۔
اسکے بعد تربیتی کورس کا آغاز ہوا جس میں ہمیں آلے کی
خصوصیات، ساخت، پیائش کے طریقے وغیرہ کی بابت تفصیلات پڑھائی اور سمجھائی گئیں۔اس
دوران ایلکس سے دوستی ہوتی چلی گئی، یہ دھیمے لہجہ میں بات کرتے تھے اور اپنے کام
سے کام رکھتے تھے، انکا تکیہ کلام انگریزی ترکیب 'اسکریو اَپ' تھاجو کہ ہالی ووڈ
کی لغویات سے کچھ کم برا تھا۔ندیم پہلے تو ان کے تکیہ کلام کو سمجھنے کی کوشش کرتے
رہے مگر جب ہم نے انکو کراچی کی اردو میں اسکا ترجمہ بتایا تو ایلکس کا تکیہ کلام
انہی پر آزمانے لگے اس پر ایلکس اپنے اس تکیہ کلام سے کافی حد تک اجتناب برتنے
لگے۔
ظہرانے کے لئے ہمیں 'جیک ایسٹر' لے گئےجہاں شراب و
کباب،پُرشباب دوشیزائیں پیش کرتی تھیں، انکی انگریزی ایک دفعہ سُن کر نہیں سمجھی
جا سکتی تھی، مگر ایک آدھ جملے کے بعد ہم چالُو ہوگئے اور انکی بولی سے آشنا
ہوگئے۔اب کھائیں تو کیا کھائیں، ایلکس کو حلال حرام سمجھانا اسوقت مشکل تھا، لہٰذا
سبزی والے پیزا کا آرڈر دے ڈالا اس کے ساتھ سبز پتوں کا سلاد تھاجس پرکالی مرچ
چھڑکی ہوئی تھی اور ساتھ میں کوک ۔ جی کڑا کر کے جیسے تیسے پیزا کا ایک آدھ ٹکڑا
منہ میں ڈالا اور سلاد کے پتوں کے ساتھ کوک پی لی، ادھر ایلکس بڑےمزے سے بفیلو چکن
اُڑا رہا تھا۔اورہمارا منہ چڑا رہا تھا، اس نے ہم سے گوشت نہ کھانے کی وجہ پوچھی
تو ہم نے اس وقت اس سوال کا جواب محفوظ کر لیا۔
کھانے کے بعدکمپنی آکر ایلکس نے ہماری ملاقات تامل
ناڈو سے تعلق رکھنے والی شِیلا سے کرائی اُس سانولی سلونی نے ہمیں سبزی خور سمجھ
کر ایک بھارتی ریسٹورانٹ کا پتہ سمجھا دیا۔
دوبارہ سے سکھلائی کا عمل شروع ہوا جہ کہ عصر تک جاری
رہا۔عصر کے بعد ایلکس نے ہمیں واپس ہوٹل چھوڑا اور خود گھر روانہ ہو گیا۔ ہم نے
باہرنکل کر کچھ آوارہ گردی کی اور فوٹو کھینچے، شام ہوٹل میں گزاری، برف باری ہونا
شروع ہو گئی۔ رات دیر سے سوئے۔
جاری
ہے