Saturday, March 22, 2014

مونال سے میلوڈی تک

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کا چکر ہم سال میں ایک آدھ بار لگا ہی لیا کرتے ہیں اور یہ دورے سرکاری  ہُوا کرتے ہیں۔ گذشتہ ماہ بھی ہم ایک ایسےہی سرکاری دورے پر پوٹھوہار میں تھے۔ اس دفعہ ہمارے ساتھ دفتر کے چندساتھی بھی تھے۔ سرکاری مصروفیات کے ساتھ ساتھ اس بار ہم نے خود سے  آوارہ گردی کرنے کی بھی ٹھان رکھی تھی اور اس ارادے کو تکمیل کا درجہ بخشنے والوں میں ہمارے سڈنی کےدوست  ڈاکٹر فیصل پیش پیش تھے۔ وہ اپنے سات عدد ماتحت افسران بشمول دو عدد دوشیزاوں کے اس قافلہ کے امیر تھے۔ڈاکٹر فیصل کی ٹیم کے علاوہ دو عدد افسران شعبہ آئی ٹی سے تھے اور ایک اور غیر ایم بی بی ایس ڈاکٹر  ملا کر ہم سمیت یہ بارہ کا مجمع بنا جو کراچی سےآیا تھا اور  اسلام آباد کی سڑکیں ناپنے کا متمنی تھا۔
ہمارا اسلام آباد آنے کا اصل مقصد تو ایک ورکشاپ میں شرکت کرنا تھا مگر شام کے اوقات میں ہم فارغ ہوا کرتے تھے اور ہوسٹل کے کمرے میں جا کر سویا کرتے یا انٹرنیٹ پر وقت گزارتے تھے۔ سو ایک دن کمرے سے چھٹکارا پانے کی خاطر مونال جانے کا منصوبہ بنایا گیا اور طے یہ پایا کہ عشائیہ وہیں کیا جائے گا۔ شام میں جب ہوسٹل پہنچے تو ایک ویگن کا بندوبست کیا گیا اور اس میں لد کر ۱۲ افراد کا قافلہ عازمِ سفر ہوا۔ جیسے ہی ویگن والے نے گاڑی اسٹارٹ کی تو ہمارے دوست حسن بن جمال نے جملہ کسا کہ بھائی یہ پہنچا دے گی؟  ڈرائیور صاحب ہندکو میں فرمانے لگے کہ 'تساں فکر نہ کرو، پُوچا چھوڑسی'۔پہلی بار میں ہی گاڑی اسٹارٹ نہ ہونے پر ڈرائیور نےکلینر کو  اگلی نشست اٹھانے کو کہا اور ہمیں تسلی کی خاطر گویا ہوئے کہ اس میں چورسوئچ لگا ہوا ہے۔ پیٹرول کا پوچھا تو جواب ملا کہ ٹنکی فل ہے۔ اللہ جانے ٹنکی فُل تھی یا ڈرائیور ہمیں فُول بنا رہا تھا۔ گاڑی اسٹارٹ ہوئی اور ہم اطمینان سے خوش گپیوں میں مشغول ہو گئے۔ حسن بن جمال سے ہماری دوستی ان ہی دِنوں میں ہو ئی تھی اور وہ خاصے محظوظ کن جملے گاہے بگاہے اچھالتے رہتے تھے۔سفر کے دوران بھی ہم مستقبل میں رونما ہونے والے متوقع حالات پر بحث جاری رکھے ہوئے تھے کہ اتنے میں دامنِ کوہ گزر گیا اور ہماری گاڑی مزید اونچائی کی جانب چڑھنے لگی۔ ابھی دامنِ کوہ سے کوئی ایک آدھ فرلانگ ہی طے کئے ہوں گے کہ ڈرائیور نے گیس اور پیٹرول کی تبدیلی والا سوِِئچ بدلا اوربقول شاعر پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ گاڑی اپنے لغوی معنوں کے مصداق گَڑ گئی۔
ہم گاڑی چلانے میں کوئی ملکہ نہیں رکھتے مگر اپنی ذاتی چھوٹی سی گاڑی چلایا ہی کرتے ہیں اور اتنا جانتے ہیں کہ جب کلچ دبایا جاتا ہے تو ایکسلیریٹر پر زور کم کر دیا جاتا ہے، مگر آفرین ہے اس پوٹھوہاری پر کہ جو اپنے دونوں پیر استعمال کرنے پر بضد تھا اور وہ بھی بیک وقت۔
اب گاڑی نے ایک انچ بھی بزورِ انجن بڑھنے سے انکار کر دیا۔اس پرزورِ دستِ دوستاں کام آیا اور گاڑی کو مونال کی مخالف سمت میں موڑ کر اُترائی کی جانب محوِ سفر کروایا گیا تاکہ ڈھلوان کی وجہ سے گاڑی کو دھکا نہ لگانا پڑے۔ اس پر بھی ڈرائیور صاحب اگنشن میں چابی گھمائے چلے گئے۔ اس بندہ خدا میں اتنا بھی صبر نہ تھا کہ وہ گاڑی کو کچھ رفتار پکڑنے دیتے۔ اس دوران خواتین ویگن میں ہی براجمان رہیں اور تمام مرد حضرات گاڑی سے اُتر کر پیدل چلنے لگے۔
واضح رہے کہ ہم ہوسٹل سے مغرب ادا کرکے نکلے تھے اور اب اندھیرا ہو چلا تھا، سونے پر سہاگہ یہ کہ بجلی کی عدم دستیابی کے کارن پہاڑی بل کھاتی سڑک پر لگے برقی قمقمے اس اندھیرے میں اپنا حصہ بھی ڈال رہے تھے۔نیچے اترتے اترتے ہم دامنِ کوہ تک آن پہنچے، اس دوران گاڑی کافی رفتار پکڑ چکی تھی اور آندھی و طوفان کی طرح نیچے اترے جا رہی تھی۔ جب تک ہم صورتِ حال سے پوری طرح آگاہ ہوئے تو پتہ چلا کہ ہم سمیت سات حضرات دامنِ کوہ کے پڑاو پر تھے اور باقی پانچ افراد مع دو خواتین کے گاڑی میں سوار تھے۔ گاڑی ہماری نظروں سے اوجھل ہو کر مرگلہ کی پہاڑیوں کی اترائی میں گم ہو چکی تھی۔ اس پر ہمیں اعجاز اور فردوس کی فلم ہیر رانجھا کا ایک منظر یاد آگیا جس میں رانجھا جوگی بن کر ہیر کے ساتھ ساتھ منورطریف یعنی کھیڑے کی بہن کو بھی بھگا لے جاتا ہے اور کھیڑا کہتا ہے ،'جوگی ہیر وی لے گیا اے تےنال ہمشیر وی لے گیا اے'
اب ہم سات حضرات  دامنِ کوہ کی تفریح گاہ پر موجود تھے اور بقیہ کے تین حضرات اور دو خواتین ویگن میں سوار تھیں، موبائل کے سگنلز مستقل طور پر  نہ تھے اور بات کرنے کے دوران آواز بے ربط ہو جاتی تھی۔ خیر ہمیں ڈاکٹر فیصل کی جانب سے یہ پیغام ملا کہ انتظار فرمائیں۔ حسن بن جمال اور ہم نے اس دوران جائےفراغت ڈھونڈی تاکہ رفع حاجت کی جا سکے- مرگلہ کی پہاڑیاں، فروری کا موسم اور عشاء کا وقت،  یہ ایک مساوی الاضلاع مثلث بنی اور اسکے مرکز پر ہم تھے۔اس دوران ہمارے ساتھ رہ جانے والے غیر ایم بی بی ایس ڈاکٹر صاحب اور حسن بن جمال کے ساتھی ،جو پرانے دوست تھے، چائے پی چکے تھے اور ڈاکٹر فیصل کی ٹیم کے تین جوان صورتِ حال پر تبادلہ خیال فرما رہے تھے۔ وقت گزرتا جا رہا تھا اور اب ہمیں بھی تشویش ہونے لگی۔ آخرکار سب لوگ اس بات پر متفق ہوئے کہ پیدل نیچے اترا جائے اور گاڑی والوں تک پہنچا جائے کیونکہ وہاں سے اس وقت سواری کا ملنا قریبا نا ممکن تھا۔
ہم سب اللہ کا نام لے کر دامنِ کو ہ سے چل پڑے مگر ابھی چند گز ہی اُترے ہوں گے کہ ہم نے ہمت ہار دی، ہم کراچی کے اسٹریٹ کرائمز کے جلے تھے سو مرگلہ کی پہاڑیوں میں بھی پھونک پھونک کر قدم رکھ رہے تھے، اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ اسی لمحہ ایک پک اپ جسے مقامی زبان میں 'ڈالا' کہتے ہیں  نیچے آتی نظر آئی۔ ہم اس میں لد گئے ، گو کہ یہ گاڑی عام طور پر چوپائیوں کے ڈھونے کے کام آتی ہے مگر اس وقت ہم اس میں ڈھوئے جا ہے تھے اور اس بات پر خوش تھے کہ پیدل چلنے سے بچ گئے۔
نیچے پہنچے تو دامنِ کوہ جانے والے راستے کی چیک پوسٹ پر اتر گئے۔ ڈاکٹر فیصل سے رابطہ کیا تو انھوں نے کہا کہ وہ تو ہمیں لینے دامنِ کوہ پہنچ چکے تھے۔ اصل میں ہماری ویگن ٹھیک ہو گئی تھی اور اسکی وجہ یہ تھی کہ اُس میں سِرے سے پیٹرول تھا ہی نہیں، اب ڈرائیور نے اس میں شاید چُلّو بھر پیٹرول دلوا لیا تھا۔
خیر ڈاکٹر فیصل مع ویگن اور دیگر پسماندگان کے ہمیں لینے آن پہنچے اور اب کی بار ہم سب کے سوار ہونے پر ہم نے اسلام آباد کی جانب عزمِ سفر ہوئے۔ ڈرائیور صاحب نےہمیں پھر مونال کے سبز باغ دکھانے شروع کر دیئے۔ شہر کے ایک اور پیٹرول پمپ سے گاڑی کی ٹنکی مکمل بھروا لی اور ضد کرنے لگےکہ وہ ہمیں مونال لے جا کر ہی دم لیں گے، انکی اس فرمائش سے ہمارا دم نکلا جا رہا تھا کہ بعد ازعشاء ہمیں مرگلہ کا 'لام ہے' ہٹانے کا کوئی شوق نہیں تھا۔
آخرِکار یہ طے پایا کہ میلوڈی پر جا کر عشائیہ کر لیا جائے، اب ڈرائیور کا یہ عالم تھا کہ حضورِ والا کو میلوڈی کا راستہ بھی اسے طرح نامعلوم تھا جیسے مونال کا۔ ہمارا دل چاہا کہ رُکی ویگن سے چھلانگ لگا دیں اور کسی چنگچی میں جا بیٹھیں مگر دارالحکومت اس نعمت ِ چائنہ سے محروم ہے یوں ہم اپنا سا منہ اور دل لے کر ویگن میں ہی براجمان رہے۔ ڈرائیور نے خاصی تین پانچ کے بعد ہمیں میلوڈی پہنچا دیا۔
میلوڈی پہنچ کر ہم نے ایک مناسب سا ہوٹل دیکھا اور شامیانوں میں لگی کرسیوں پر میزوں کے گردجا  بیٹھے، سردی کا یہ عالم تھا کہ شامیانوں کے باوجود ہر میز پر گیس والے ہیٹر رکھے تھے جو گاہکوں کے آنے پر جلا دئیےجاتے تھے۔ تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے ہم تین ٹولیوں میں بٹ گئے جس میں ایک ٹولی زنانہ تھی۔
ہمارے ہاں  کھانے والے کو مزہ آئے یا نہ آئے، شامت مرغ ہی کی آتی ہے۔ کھانے کے بعد پان بھی تناول کئے گئے۔ اس دوران ڈرائیور صاحب آپے سے باہر ہو چکے تھے اور وہ ہمیں ویگن میں ٹھونس کر کسی ہوائی جہاز کی رفتار سے واپس ہوسٹل لائے اور مونال کے لئے طے کئے گئے کرایہ کا مطالبہ کیا۔ ہمارے ہوسٹل کے عملہ میں ایک ڈرائیور بھی تھے ،ان کو بیچ میں ڈالا اورنوبت تلخ کلامی تک پہچنے سے پہلے ہی ویگن والے صاحب کو مناسب کرایہ ادا کر کےفارغ کر دیا گیا ، یوں ہم مونال کی چاہ میں میلوڈی ہو آئے۔
جھلکیاں:
۱- مرگلہ سے پیدل اُترے ہوئے ہمارے ایک ساتھی کا پیر پھسلا اور وہ بمشکل اپنے آپ کو سنبھال پائے۔
۲- ڈالے میں ہم سب کھڑے ہو کر سفر کرتے رہے جبکہ  ہمارے ایک ساتھی تھکن اور اُکتاہٹ کی وجہ سے کچھ اس طرح بیٹھے کہ جیسے گندم سے بھر ی بوری کو اونچائی سے گرا دیا جائے-
۳-جب ہم ڈالے سے نیچے پہنچے تواُس سے اُتر کر ڈرائیور کو سلام کر کے شکریہ ادا کیا  اور فٹ پاتھ پر ایک طرف ہو لئے، اس پر ڈرائیور نے بیس روپے فی کس  کرایہ کا تقاضا کیا جو ہم نے شرمندہ ہو کر ادا کر دیا۔
۴- میلوڈی پر کھانے کی تیاری میں ہمارے غیر ایم بی بی سی ایس ڈاکٹر ساتھی نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور کڑاہی میں چمچ ہلاتے ہوئے تصاویر بھی اتروائیں۔
۵- بقول محترم مشتاق احمد یوسفی، ہوسٹل کے عملہ میں سے جن صاحب نے ویگن کے دڑائیور سے معاملہ رفع دفع کیا انھوں نے ویگن کےجانے کے بعد دڑائیور کے 'نسب میں پدرانہ داخل ہونے کی خواہش کا اظہار فرمایا'۔

ختم شُد
نوٹ: قارئین سے معذرت کہ ہم عرصہ دراز سے کوئی بلاگ پوسٹ نہ کر سکے۔