Friday, October 10, 2014

پوٹھوہاراور لاہور کی سیر، دوسرا ٹکڑا

پہلا ٹکڑا یہاں پڑھیں۔
اگلے دن ہم بچوں کو جامعہ قائدِاعظم میں بنے اپنے ایک دفتر لے گئے۔ وہاں پر ہمارے ماتحت عملہ نے ہماری تواضع جامعہ کی سموسہ چاٹ سے کی۔ وہاں کچھ وقت گزار کر ہم واپس پہنچے اور ظہرانے کے بعد بچوں کی خالہ اورخالو ہمیں دامنِ کوہ اور مونال دِکھانے لے گئے۔ مونال ہم اپنے گذشتہ سرکاری دورے میں نہ جا سکے، جسکا حال ہم قارئین کے نذر کر چکے ہیں مگر اب کی بار ہم اپنے گھر والوں کے ساتھ وہاں دن کے اجالے میں ہو آئے۔
مونال کا راستہ واقعی بہت کٹھن ہے اور اس پر گاڑی چلانا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں ہے ،مگر ہمارے ہم زلف نہات مہارت سے مہران کو اوپر چڑھارہے تھے، ایک مقام پر پہاڑی سڑک قریبا چالیس درجے کا زاویہ بناتی ہے اور ایسے میں کلچ اور گیئر کا صحیح استعمال ہی گاڑی کو اس چڑھائی سے پار کروا سکتا ہے۔
مونال کے دنوں اطراف وادیاں ہیں۔ ایک جانب پورا اسلام آباد دیکھا جا سکتا ہے تو دوسری طرف مرگلہ کی وادی میں چھوٹے موٹے گاوں انچائی سے نہایت دلفریب منظر پیش کرتے ہیں۔
دامنِ کوہ اور مونال کی زیارت کے بعد ہم نے شاہدرہ کی راہ لی، وہاں بھی سالگراں کی مانند پہاڑی جھرنے ایک نالے کی صورت اختیار کرتے ہیں اور لوگ پانی میں پاوں ڈال کر تازہ پکوڑوں اور چائے سے لطف اندوز ہونے آتے ہیں۔ سو ہم بھی اس راہ چل پڑے۔ شاہدرہ جانے کے لئے پہلے آپ کو دامنِ کوہ سے اسلام آباد اترنا پڑتا ہے اور پھر آپ جامعہ قائدِاعظم سے نیشنل سینٹر فار فزکس کی جانب جاتی سڑک پر مزید آگے جاتے ہیں اور ایک خطرناک موڑ سے نالہ پار کر کے اس متذکرہ مقام تک پہنچتے ہیں۔ جب ہم اس وادی میں پہنچے تو شام پڑ چکی تھی، مگر مغرب میں وقت تھا۔ سو ہم نے جلدی سے چائے اور پکوڑوں کا آرڈر دیا اور پانی میں چہل قدمی کرنے لگے۔ جیسے ہی چائے اور پکوڑے تیار ہوئے ہم نےمزے لے لے کراُن سے انصاف کیا ، اس دوران ہم پانی میں رکھی کرسیوں پر ٹکے ہوئے تھے۔
جب ہم  شاہدرہ سے نکلے تو آفتاب مرگلہ کی پہاڑیوں کے پیچھے پوری طرح غائب ہو چکا تھا۔یہاں سے ہم لیک ویو پہنچے، جو کہ راول جھیل کے کنارے قدرے نئی تفریح گاہ ہے۔ یہاں پر ایک خوبصورت پارک بنایا گیا جس میں درخت اور پھول اگائے گئے ہیں۔ یہاں کی سب سے قابلِ دید چیز، پرندوں کی آماجگاہ یعنی aviaryہے، جو ہے تو مصنوعی مگر اس میں قدرتی عنصر کو غالب کیا گیا ہے۔ اس آماجگاہ میں پرندے آزادانہ طور پر اپنے قدرتی ماحول میں پرورش پاتے ہیں۔ اس میں اُن کے کھانے پینے کا خاطر خواہ اہتمام کیا گیا ہے۔ آماجگاہ کا عملہ نہایت مستعد اور ذمہ دار ہے۔ یہاں ہمیں کبوتر سے لے کر مور تک دیکھنے کو ملے۔ سفید موروں کی نایاب نسل کا دیدار بھی ہیں یہاں  نصیب ہوا۔
 ہمارا اگلا پڑاو اسلام آباد شہر میں تہذیب بیکری تھا۔ یہ راحت کے نام سے جانی جاتی تھی مگر اب انکے کچھ اندرونی معاملات کی وجہ سے نام بدل دیا گیا ہے۔ یہاں بیکری کے دیگر آئٹمز کے ساتھ ساتھ سلاد اور پیزا بھی دستیاب ہوتے ہیں اور بھیڑ دیکھ کر لگتا ہے کہ سب مفت مل رہا ہے۔ اسلام آبادی بھی کھانے پینے میں لاہوریوں سے کم نہیں، ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے ہر منٹ میں ایک پیزا اوون سے باہر آتا اور اسلام آبادی اسے لے کر چلتے بنتے۔ چند افراد بیکری کے باہر سبزہ زار میں لگی کرسیوں پر تشریف فرما  پیزے سے انصاف کرتے اور زیادہ تر پیزے کے حصے گھر جا کر کرتے۔ ہمارے ہم زلف نے بھی ایک ایکسٹرا لارج پیزا کا آرڈر دیا اور اپنی باری آنے پر پیزا وصول کیا۔ باہر موجود نشستوں پر بیٹھ کر ہم نے پیزا کھایا۔ پیزا نہات لذیذ اور خستہ تھا، چاہنے کے باوجود بھی ہم مکمل پیزا ختم نہ کرسے کیونکہ پیٹ بھر چکا تھا اور پیزا ابھی باقی تھا۔ باقی ماندہ پیزا سمیٹا اور گھر کی راہ لی۔
اگلے دن ہم نے پنڈی کے مشہور راجہ بازار کا چکر لگایا اور چھوٹی موٹی خریداری کی۔ یہاں پر ایک گلی میں دہی بھلے اور چھولوں کی چاٹ فروخت ہوتی ہے اور بالخصوص خواتین کا رش ہوتا ہے، ہم بھی اپنی خاتونِ اول کے ساتھ تھے تو یہاں کی روایتی چاٹ سے سیر ہوئے۔
ظہر کے بعد ہمارے ہم زلف نے ایک ٹیکسی والے کو فون کیا اور ہمیں اسلام آباد دکھانے کو کہا۔گذشتہ روز ہم نے راول جھیل کا ایک کنارا دیکھا تھا تو آج ہم نے راول ڈیم دیکھنے کا ارادہ کیا۔ راول ڈیم گو کہ ایک اہم مقام ہےلیکن یہاں سیاحوں کے لئے خاطر خواہ انتظام موجود نہیں ہے۔ سبزہ زار میں سبزہ نہ ہونے کے برابر ہے اور تفریح گاہ میں مناسب صفائی نہ ہونے کی وجہ سے اکتاہٹ کا احساس ہوتا ہے۔ ڈیم کی جانب بھی کوئی راستہ یا حفاظتی حصار نہیں ہے اور کوئی بھی با آسانی ڈیم کے چلّو بھر پانی میں غرق ہو سکتا ہے۔
جھیل  اور ڈیم کے دیدار کے بعد ہم لوک ورثہ پہنچے، وہاں بچوں نے عجائب گھر اور گیلیریز میں خاصی دلچسپی لی۔ اسکے بعد یادگارِ پاکستان، شکر پڑیاں پر پڑاو ڈالا، وہاں بھی بچے تحریکِ پاکستان اور اسکے پس منظر کی پیش کردہ عکاسی سے خوب لطف اندوز ہوئے اور انکی معلومات میں گراں قدر اضافہ ہوا۔ اس طرح کی مشاہداتی معلومات اُن کو اسکول کے کمرے میں محض کتابوں سے نہیں مل سکتی تھی۔
مغرب ہو چکی تھی اور شکر پڑیاں پر تعمیر شدہ پھول، چاند اور تارے والی یادگار برقی قمقموں میں نہایت حسین منظر پیش کر رہی تھی۔ ہم نے بچوں کو خود سے اس میں کنندہ عمارتوں اور مقامات کی شناخت پر معمور کیا جو انھوں نے بہت آسانی سے بوجھ لیں اور اس پر خوش ہوئے۔
اسلام آباد کا دیدار فیصل مسجد کی زیارت کے بغیر ادھورا ہے ، ہمیں وہاں عشاء ادا کرنے کا شرف حاصل ہوا، گو کہ ہم نے یہ نماز اکیلے ہی پڑھی کیونکہ ہم مسافر تھے پر اندر ونی ہال میں نماز کی ادائگی کا ماحول ہی کچھ الگ سا تھا۔ اندر قرآن پاک کے نسخے  رکھے تھے۔ ان نسخوں کی جسامت ایک جیبی کتابچہ سے لے کر جہازی جسامت تک تھی اور مختلف اسلامی خطوط میں خطاطی کی گئی تھی، جن میں خطِ کُوفی، خطِ نسخ، خطِ نستعلیق نمایاں تھے۔
جب ہم بچوں کی خالہ کے ہاں پہنچے تو دس بج چکے تھے۔ گھر پہنچ کر  سامان سمیٹا  کیونکہ اگلی  ہم نے صبح لاہور روانہ ہونا تھا۔

جاری ہے
نوٹ: اس بلاگ کے ساتھ ہی ہمارے ۱۰۰ بلاگ مکمل ہوئے

Sunday, October 5, 2014

پوٹھوہار اور لاہور کی سیر- پہلا ٹکڑا

'ہاں ایسے ٹورسٹ جو ایک چھوٹی سی پہاڑی چڑھ کر ہی تھک جاتے ہیں'، وجیہہ نے  پھبتی کسی۔ اسی لمحے ہم اسلام آباد کے سینٹورس پلازہ کے صدر دروازہ پر پہنچے اور ٹیکسی والے عمر عباسی کو فارغ کیا۔
الحمد اللہ ، ہم تو اندرون اور بیرون ملک سفر کیا ہی کرتے ہیں اور نگری نگری گھومتےرہتے ہیں مگر ہمارے اہل و عیال اب تک ملتان سے آگے نہ جا سکے۔ اس بار تعلیمی سال کے خاتمہ پر بچہ پارٹی ملتان اپنے ننھیال روانہ ہوئی اور ہم نے انھیں مری وغیرہ گھمانے کا ارادہ کیا۔ ملتان سے انکو لیا اور براستہ سڑک ڈائیوو میں راول پنڈی کے سفر کا آغاز کیا۔
وجہیہ فاطمہ نے جماعت پنجم کے سالانہ امتحانات دیئے تھے اور محمد علی سوم سے چہارم میں جانے کے منتظر تھے، ان دونوں کا یہ بس کا پہلا طویل سفر تھا۔ ملتان سے بس کبیر والہ سے ہوتی ہوئی جھنگ والے روڈ پر چڑھ گئی اور براستہ سرگودھا، پنڈی پہنچی۔ راستہ میں اہلِ خانہ نے سفر سے لطف اٹھایا، کھانا کھایا، خوش گپیاں کیں اور بس سےباہر کے مناظر پر تبصرے کئے۔ بس کی میزبان سے ہمارے بچوں کی دوستی ہوگئی اور وہ ہمارا خاص خیال رکھنے لگیں۔ جھنگ اور سرگودھا کے اسٹاپس پر اترے۔ سرگودھا کے اڈے پر شام کی چائے پی۔ مغرب کے بعد اندھیرے کے باعث بچوں کو نیند کے جھونکے آنے لگے کیونکہ باہر کے مناظر دکھائی نہیں دے رہے تھے اور ان کی بوریت بڑھ رہی تھی۔ رات کے ساڑھے نو بجے ہم پنڈی کے بس کے اڈے پر پہنچے۔
وہاں سے ٹیکسی کے ذریعہ بچوں کی چھوٹی خالہ کے گھر پہنچے اور سو پڑے۔ اگلے دن ناشتہ کئے بنا ہی تیار ہوکر فیض آباد آئے اور وہاں ناشتہ کیا، ایک ٹیکسی والے سے پتریاٹہ اور مری کے سفر کا کرایہ طے کیا اور پتریاٹہ کے سفر کا آغاز کیا۔ ٹیکسی ڈرائیور، عمر عباسی بہت دلچسپ انسان تھے، پورا پاکستان دیکھ چکے تھے اور گھاٹ گھاٹ کا پانی پی چکے تھے، کراچی میں بھی کئی برسوں کے قیام کا شرف حاصل تھا اور بے تکان بولتے تھے، مگر باتیں مزے کی کرتے تھے۔گاڑی چلانے میں خاصی مہارت رکھتے تھے اور سڑک پر موجود ہر ڈرائیور انکے نزدیک اناڑی تھا، ما سوائے انکے۔
وہ ہمیں موٹر وے سے پتریاٹہ لے گئے اور ہمیں ہدایت دی کہ اگر ہم انکے بتائے ہوئے وقت کے مطابق سیر کرتے رہے تو با آسانی پتریاٹہ ، مری اور اسلام آباد تک کے قابلِ دید مناظر سے لطف اندوز ہو سکیں گے۔ ہم نے انکی ہدایات پر بھرپور طریقہ سے عمل کیا اور شام تک ان سے خوشگوارتعلقات استوار ہو چکے تھے۔
پنڈی سے روانہ ہوتے ہوئے ہم نے فیض آباد سے ناشتہ تو کر لیا تھا مگر چائے نہیں پی تھی، عمر بھائی سے کہا کہ ہمیں چائے ایسی جگہ سے پلائیں جہاں سے ڈرائیور حضرات چائےپیا کرتے ہیں، ایسی جگہوں پر چائے اچھی ملتی ہے۔ لہٰذا پتریاٹہ پہنچتے ہی انھوں نے سب سے پہلے پارکنگ کے پاس ایک کھوکھے والے کو چائے بنانے کا آرڈر دیا ۔ ہم سڑک کے کنارے لگی کرسیوں پر بیٹھ گئے اور بچے قریب کی چھوٹی چھوٹی اونچائیوں پر چڑھنے اور اترنے لگے۔ اتنے میں چائے آگئی اور ہم نے بسکٹس کے ساتھ چائے پی۔ چائے واقعی مزے کی تھی اور اسے پینے کے بعد ہم خود کو تازہ دم محسوس کرنے لگے۔
پتریاٹہ کی سب سے بڑی دلچسپی چیئر لفٹ اور کیبل کار ہیں۔ ہم چیئر لفٹ کی چار ٹکٹس خرید کر قطار میں جا لگے۔ بچے  چیئر لفٹ میں  چڑھنےاور اترنےکے طریقہ کار  کا مشاہدہ کرتے رہے اور ہم سے پوچھتے رہے کہ یہ چیئر لفٹ کہاں جائے گی اور آگے کے مناظر کیسے ہونگے۔ اس دوران ہماری باری آگئی ، وجہیہ اپنی والدہ کے ساتھ اور علی صاحب ہمارے ساتھ بیٹھے۔ بچوں کو لفٹ میں سوار ہونے میں کوئی دقت پیش نہ آئی۔ اوپر جاتے ہوئے لفٹ ہچکولے لیتی ہوئی اس وقت تیز ہو جاتی جب اسکے تار کا کوئی ستون راستے میں آتا، علی صاحب نے اس کا نام اسپیڈ بریکر رکھ دیا۔ نیچے کے مناظر قابلِ دید تھے اور حدِ نگاہ کے بڑھ جانے کے باعث ہم افق کے پار تک دیکھنے کی کوشش میں لگے تھے۔ سرسبز پہاڑ اور گہری وادیاں، مکانوں کی چمنیوں سے اٹھتا دھواں ، پس منظر میں برف پوش پہاڑ  اور دھوپ چھاوں کا عالم سب مل کر ماحول کو نہایت پر کشش اور حسین بنا رہے تھے۔
اوپر پہنچے تو اگلا سفر کیبل کار کا تھا۔ یہاں بھی قطار بنی اور اس میں سوار ہونے کا مشاہدہ کیا گیا ، کیونکہ کیبل کار بھی چیئر لفٹ کی طرح  رُکتی نہیں تھی ،محض رفتار میں کمی واقع ہوتی تھی۔ با آسانی اس میں بھی سوار ہوئے اور مزید اونچائی کی جانب سفر کیا۔ پہاڑ کی چوٹی پر بنی سیر گاہ پر پہنچے ، وہاں ریسٹورانٹس، دوکانیں اور پہاڑی راستے ہیں۔ہم نے کچھ دیر وہاں چہل قدمی کی۔ بچوں نے چھرے والی بندوق سے نشانے لگائے۔
وہاں ایک گھنا جنگل بھی تھا اور اونچے نیچے راستے اور چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں بھی تھیں۔ ہم سڑک سے ہٹ کر پہاڑی راستے سے اوپر آنے لگے ، یہ راستہ جنگل سے گزرتا تھا۔ بچے تو خوب لطف اندوز ہو رہے تھے کہ انھوں نے اپنی زندگی میں پہلی دفعہ پہاڑ دیکھے تھے۔ اوپر پہنچ کر ہماری سانس ہی پھول گئی اور تھکن کا احساس ہونے لگا۔ کچھ دیر سانس لینے کو بیٹھے اور پھر واپسی کا راستہ لیا۔ وہاں  پر ایک مکئی والے سے چنے اور مکئی کے بھنے ہوئے دانے خریدے اور خود بھی بھٹی پر دانوں کو بھونتے ہوئے تصویر کھنچوائی۔ بچوں نے آئسکریم کھانے کی فرمائش کی تو انکو کون دلا دی اور پھر اُترائی کے سفر کے لئے کیبل کار میں سوار ہوئے۔ دورانِ سفر بچوں کی گفتگو سے دو نئے شادی شدہ ہمسفر لطف اندوز ہوتے رہے اور انھوں نے  تاڑ لیا کہ ہم کراچی سے آئے ہونگے۔
کیبل کار سے اتر کر چیئر لفٹ میں سوار ہوئے، اب کی بار صاحب زادے والدہ کے ساتھ تھے اور بیٹی، ابا کے ساتھ۔ نیچے پہنچ کے عمر بھائی سے رابطہ کیا اور انکی ٹیکسی میں مری روانہ ہوئے۔ جب ہم مری پہنچے تو قریبا چار سوا چار کا وقت تھا۔ عمر عباسی نے ہمیں ایک ڈیڑھ گھنٹہ مری کی مال روڈ پر چہل قدمی کے لئے دیا۔ ہم نے پہلے تو کچھ پیٹ پوجا کی اور پھر مال روڈ پر آوارہ گردی شروع کردی۔ مری میں ٹھنڈک کا احساس ہوا، مگر آہستہ آہستہ ہمارے جسم درجہ حرارت کے عادی ہو گئے اور فضا خوشگوار لگنے لگی۔ مال روڈ پر  کرنے اور دیکھنے کو بہت کچھ ہوتا ہے۔ کہیں نام والے چابی کے چھلے بِک رہے ہیں تو کہیں آلو کی چپس، کوئی دستکاری کا اسٹال لگا ئے بیٹھا ہے تو کوئی پہاڑ پر خود کو سنبھالنے کے لئے چھڑیاں بیچ رہا ہے، میووں کی دوکان سجی ہے تو ساتھ ہی کشمیری شالیں بھی برائے فروخت ہیں۔ اور ان سے سے دل بھر جائے تو سڑک پر آتے جاتے نفوس بھی اپنے اندر پورا جہاں رکھتے ہیں۔ ان میں ایک بڑی تعداد نئے شادی شدہ جوڑوں کی ہوتی ہے اور کچھ منچلوں کی بھی ، ساتھ ہی ساتھ ہم جیسے دو بچوں اور ایک بیوی والے جی-پی-او مری  کی سیڑھیوں پر بیٹھے، آئسکریم کھاتے اور بچوں کو مناتے دکھائی دیتے ہیں۔
مال روڈ سے نیچے اتر کر جب ہم عمر عباسی کی ٹیکسی میں بیٹھے تو پانچ سے اوپر کا وقت تھا۔ اس دوران ہم نے ایک دوکان سے تازہ پکوڑے خرید لئے تھے جن کے ساتھ انصاف کولڈ ڈرنک پیتے ہوئے ٹیکسی میں ہی کیا۔
واپسی پر عمر عباسی ہمیں پرانی شاہراہ مری  سے لے گئے، سانگلی کے مقام پر پہاڑی جھرنے دیکھنے رُکے۔وجیہہ کو برف دیکھنے کی خواہش تھی تو عمر عباسی نے ہمیں مری روڈ کے کنارےپر موجود برف کے پگھلتے ہوئے چند ٹکڑے دکھائے۔ ان برف کے ٹکڑوں کو بھی استعمال میں لا کر ایک شخص نے برف کا پتلا یعنی سنو مین بنا ڈالا تھا اور اس کے ساتھ تصویر کھینچوانے کے پیسے لیتا تھا۔
مری سے اترتے ہوئے ہم سالگراں کے مقام پر پہنچے جہاں گذشتہ دنوں بہت سے حادثات ہوئے ہیں۔ سالگراں پر ایک پارک بنایا گیا ہے، جسکے لئے پہاڑی نالہ پار کر کے دوسری  جانب جانا پڑتا ہے۔ یہ مقام نہایت خوبصورت ہے، پہاڑوں سے اترتا پانی یہاں پتھروں پر سے گزرتا ہے۔ آپ بڑے مزے سے پانی میں پاوں ڈال کر بیٹھ سکتے ہیں۔ یہاں حسن اور بےحسی دونوں ایک ساتھ دیکھے جا سکتے ہیں، قدرتی حسن، پہاڑوں ، پانی اور پتھروں میں ہے جبکہ بے حسی کھائی میں گری ہوئی ایک بس کے ڈھانچہ میں نظر آئی جو اس خونی موڑ سے لڑھکی ہوگی۔
شام کے سائے گہرے ہو چلے تھے، سو ہم اسلام آباد کی جانب روانہ ہوئے۔ راستہ میں ایک ہوٹل سے چائے پی۔ عمر عباسی نے جب سڑک کنارے ہوٹل میں چائے کا آرڈر دیا اپنے لئے 'ٹوکن' کا لفظ استعمال کیا۔ بعد میں ہمارے استفسار پر انھوں نے بتایا کہ ٹوکن آدھی پیالی کے لئے استعمال ہوتا ہے اور عموما ڈرائیور حضرات آدھی پیالی چائے پیا کرتے ہیں۔
چائے سے فارغ ہو کر عمر عباسی نے ہمیں سینٹورس اتارا۔ وہاں انسانوں کی ایک طویل قطار شاپنگ پلازہ میں جانے کی منتظر دکھائی دی۔ ہم بھی قطار میں جا لگے۔ سینٹورس بلاشبہ بین الاقوامی طرز کو شاپنگ مال ہے۔ اسلام آبادی اس پر اتراتے ہیں، مگر ہم  کراچی میں ڈالمن مال رکھتے ہیں اور سڈنی میں ایک سے ایک شاپنگ مال دیکھ چکے ہیں تو ہم سینٹورس سے کچھ خاص مرعوب نہ ہوئے۔

کچھ وقت وہاں گزار کر ہم عشائیہ کے لئے سیور چل پڑے جو کہ قریبا ایک میل کے فاصلہ پر بلو ایریا میں تھا۔ وہاں ایک جمِ غفیر تھا کہ جیسے کھانا مفت تقسیم کیا جا رہا ہو۔ جیسے تیسے ایک میز پر جگہ ملی اور ہم نے وہاں کا مشہور پلاو کھایا۔ اس کے بعد گھر کی راہ لی۔ہم کراچی والے ہر طرح کے چاول کا طعام پکانے اور کھانے میں خاصی مہارت رکھتے ہیں اور اس بات پر اِتراتے بھی ہیں، لہٰذا اسلام آباد کا سیور کا پلاو ہمیں خاص متاثر نہ کر سکا۔
جاری ہے