پہلا ٹکڑا یہاں پڑھیں۔
اگلے دن ہم بچوں کو جامعہ قائدِاعظم میں بنے اپنے ایک دفتر لے گئے۔ وہاں پر ہمارے ماتحت عملہ نے ہماری تواضع جامعہ کی سموسہ چاٹ سے کی۔ وہاں کچھ وقت گزار کر ہم واپس پہنچے اور ظہرانے کے بعد بچوں کی خالہ اورخالو ہمیں دامنِ کوہ اور مونال دِکھانے لے گئے۔ مونال ہم اپنے گذشتہ سرکاری دورے میں نہ جا سکے، جسکا حال ہم قارئین کے نذر کر چکے ہیں مگر اب کی بار ہم اپنے گھر والوں کے ساتھ وہاں دن کے اجالے میں ہو آئے۔
اگلے دن ہم بچوں کو جامعہ قائدِاعظم میں بنے اپنے ایک دفتر لے گئے۔ وہاں پر ہمارے ماتحت عملہ نے ہماری تواضع جامعہ کی سموسہ چاٹ سے کی۔ وہاں کچھ وقت گزار کر ہم واپس پہنچے اور ظہرانے کے بعد بچوں کی خالہ اورخالو ہمیں دامنِ کوہ اور مونال دِکھانے لے گئے۔ مونال ہم اپنے گذشتہ سرکاری دورے میں نہ جا سکے، جسکا حال ہم قارئین کے نذر کر چکے ہیں مگر اب کی بار ہم اپنے گھر والوں کے ساتھ وہاں دن کے اجالے میں ہو آئے۔
مونال کا راستہ واقعی بہت کٹھن ہے اور اس پر گاڑی چلانا کوئی خالہ جی کا گھر
نہیں ہے ،مگر ہمارے ہم زلف نہات مہارت سے مہران کو اوپر چڑھارہے تھے، ایک مقام پر
پہاڑی سڑک قریبا چالیس درجے کا زاویہ بناتی ہے اور ایسے میں کلچ اور گیئر کا صحیح
استعمال ہی گاڑی کو اس چڑھائی سے پار کروا سکتا ہے۔
مونال کے دنوں اطراف وادیاں ہیں۔ ایک جانب پورا اسلام آباد دیکھا جا سکتا ہے
تو دوسری طرف مرگلہ کی وادی میں چھوٹے موٹے گاوں انچائی سے نہایت دلفریب منظر پیش
کرتے ہیں۔
دامنِ کوہ اور مونال کی زیارت کے بعد ہم نے شاہدرہ کی راہ لی، وہاں بھی
سالگراں کی مانند پہاڑی جھرنے ایک نالے کی صورت اختیار کرتے ہیں اور لوگ پانی میں
پاوں ڈال کر تازہ پکوڑوں اور چائے سے لطف اندوز ہونے آتے ہیں۔ سو ہم بھی اس راہ چل
پڑے۔ شاہدرہ جانے کے لئے پہلے آپ کو دامنِ کوہ سے اسلام آباد اترنا پڑتا ہے اور
پھر آپ جامعہ قائدِاعظم سے نیشنل سینٹر فار فزکس کی جانب جاتی سڑک پر مزید آگے
جاتے ہیں اور ایک خطرناک موڑ سے نالہ پار کر کے اس متذکرہ مقام تک پہنچتے ہیں۔ جب
ہم اس وادی میں پہنچے تو شام پڑ چکی تھی، مگر مغرب میں وقت تھا۔ سو ہم نے جلدی سے
چائے اور پکوڑوں کا آرڈر دیا اور پانی میں چہل قدمی کرنے لگے۔ جیسے ہی چائے اور
پکوڑے تیار ہوئے ہم نےمزے لے لے کراُن سے انصاف کیا ، اس دوران ہم پانی میں رکھی
کرسیوں پر ٹکے ہوئے تھے۔
جب ہم شاہدرہ سے نکلے تو آفتاب مرگلہ
کی پہاڑیوں کے پیچھے پوری طرح غائب ہو چکا تھا۔یہاں سے ہم لیک ویو پہنچے، جو کہ
راول جھیل کے کنارے قدرے نئی تفریح گاہ ہے۔ یہاں پر ایک خوبصورت پارک بنایا گیا جس
میں درخت اور پھول اگائے گئے ہیں۔ یہاں کی سب سے قابلِ دید چیز، پرندوں کی آماجگاہ
یعنی aviaryہے، جو ہے تو مصنوعی مگر اس میں قدرتی عنصر کو غالب کیا گیا ہے۔ اس
آماجگاہ میں پرندے آزادانہ طور پر اپنے قدرتی ماحول میں پرورش پاتے ہیں۔ اس میں اُن
کے کھانے پینے کا خاطر خواہ اہتمام کیا گیا ہے۔ آماجگاہ کا عملہ نہایت مستعد اور
ذمہ دار ہے۔ یہاں ہمیں کبوتر سے لے کر مور تک دیکھنے کو ملے۔ سفید موروں کی نایاب
نسل کا دیدار بھی ہیں یہاں نصیب ہوا۔
ہمارا اگلا پڑاو اسلام آباد شہر میں
تہذیب بیکری تھا۔ یہ راحت کے نام سے جانی جاتی تھی مگر اب انکے کچھ اندرونی
معاملات کی وجہ سے نام بدل دیا گیا ہے۔ یہاں بیکری کے دیگر آئٹمز کے ساتھ ساتھ
سلاد اور پیزا بھی دستیاب ہوتے ہیں اور بھیڑ دیکھ کر لگتا ہے کہ سب مفت مل رہا ہے۔
اسلام آبادی بھی کھانے پینے میں لاہوریوں سے کم نہیں، ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے ہر
منٹ میں ایک پیزا اوون سے باہر آتا اور اسلام آبادی اسے لے کر چلتے بنتے۔ چند
افراد بیکری کے باہر سبزہ زار میں لگی کرسیوں پر تشریف فرما پیزے سے انصاف کرتے اور زیادہ تر پیزے کے حصے
گھر جا کر کرتے۔ ہمارے ہم زلف نے بھی ایک ایکسٹرا لارج پیزا کا آرڈر دیا اور اپنی
باری آنے پر پیزا وصول کیا۔ باہر موجود نشستوں پر بیٹھ کر ہم نے پیزا کھایا۔ پیزا
نہات لذیذ اور خستہ تھا، چاہنے کے باوجود بھی ہم مکمل پیزا ختم نہ کرسے کیونکہ پیٹ
بھر چکا تھا اور پیزا ابھی باقی تھا۔ باقی ماندہ پیزا سمیٹا اور گھر کی راہ لی۔
اگلے دن ہم نے پنڈی کے مشہور راجہ بازار کا چکر لگایا اور چھوٹی موٹی خریداری
کی۔ یہاں پر ایک گلی میں دہی بھلے اور چھولوں کی چاٹ فروخت ہوتی ہے اور بالخصوص
خواتین کا رش ہوتا ہے، ہم بھی اپنی خاتونِ اول کے ساتھ تھے تو یہاں کی روایتی چاٹ
سے سیر ہوئے۔
ظہر کے بعد ہمارے ہم زلف نے ایک ٹیکسی والے کو فون کیا اور ہمیں اسلام آباد
دکھانے کو کہا۔گذشتہ روز ہم نے راول جھیل کا ایک کنارا دیکھا تھا تو آج ہم نے راول
ڈیم دیکھنے کا ارادہ کیا۔ راول ڈیم گو کہ ایک اہم مقام ہےلیکن یہاں سیاحوں کے لئے خاطر
خواہ انتظام موجود نہیں ہے۔ سبزہ زار میں سبزہ نہ ہونے کے برابر ہے اور تفریح گاہ
میں مناسب صفائی نہ ہونے کی وجہ سے اکتاہٹ کا احساس ہوتا ہے۔ ڈیم کی جانب بھی کوئی
راستہ یا حفاظتی حصار نہیں ہے اور کوئی بھی با آسانی ڈیم کے چلّو بھر پانی میں غرق
ہو سکتا ہے۔
جھیل اور ڈیم کے دیدار کے بعد ہم لوک
ورثہ پہنچے، وہاں بچوں نے عجائب گھر اور گیلیریز میں خاصی دلچسپی لی۔ اسکے بعد
یادگارِ پاکستان، شکر پڑیاں پر پڑاو ڈالا، وہاں بھی بچے تحریکِ پاکستان اور اسکے
پس منظر کی پیش کردہ عکاسی سے خوب لطف اندوز ہوئے اور انکی معلومات میں گراں قدر
اضافہ ہوا۔ اس طرح کی مشاہداتی معلومات اُن کو اسکول کے کمرے میں محض کتابوں سے
نہیں مل سکتی تھی۔
مغرب ہو چکی تھی اور شکر پڑیاں پر تعمیر شدہ پھول، چاند اور تارے والی یادگار
برقی قمقموں میں نہایت حسین منظر پیش کر رہی تھی۔ ہم نے بچوں کو خود سے اس میں کنندہ
عمارتوں اور مقامات کی شناخت پر معمور کیا جو انھوں نے بہت آسانی سے بوجھ لیں اور
اس پر خوش ہوئے۔
اسلام آباد کا دیدار فیصل مسجد کی زیارت کے بغیر ادھورا ہے ، ہمیں وہاں عشاء
ادا کرنے کا شرف حاصل ہوا، گو کہ ہم نے یہ نماز اکیلے ہی پڑھی کیونکہ ہم مسافر تھے
پر اندر ونی ہال میں نماز کی ادائگی کا ماحول ہی کچھ الگ سا تھا۔ اندر قرآن پاک کے
نسخے رکھے تھے۔ ان نسخوں کی جسامت ایک
جیبی کتابچہ سے لے کر جہازی جسامت تک تھی اور مختلف اسلامی خطوط میں خطاطی کی گئی
تھی، جن میں خطِ کُوفی، خطِ نسخ، خطِ نستعلیق نمایاں تھے۔
جب ہم بچوں کی خالہ کے ہاں پہنچے تو دس بج چکے تھے۔ گھر پہنچ کر سامان سمیٹا کیونکہ اگلی ہم نے صبح لاہور روانہ ہونا تھا۔
جاری ہے
نوٹ: اس بلاگ کے ساتھ ہی ہمارے ۱۰۰ بلاگ مکمل ہوئے
نوٹ: اس بلاگ کے ساتھ ہی ہمارے ۱۰۰ بلاگ مکمل ہوئے