Friday, November 27, 2015

اشتیاق احمد کے نام

 از کراچی
27 نومبر 2015
پیارے انکل اشتیاق احمد
اسلام علیکم،
امید ہے کہ آپ جنت میں ہونگے، دل چاہا کہ خراج عقیدت کے طور پر آپ پر ایک مضمون لکھوں، مگر پھر سوچا کہ کیوں نا آپ کو براہ راست ہی مخاطب کر لیا جائے۔ آپ کی حیات تو سسپنس سے بھرپور کہانیوں پر مشتمل رہی لیکن آپکی وفات بھی آپ کے ناولز کے کیسسز کی طرح تفتیش کا شکار ہو گئی۔
سترہ نومبر کو بورڈنگ کرا کے  آپ کراچی کے ہوائی اڈے سے ملکِ عدم کے سفر پر چل دیئے اور ہمارے جیسے بہت سے قارئین کو سوگوار چھوڑ گئے۔ 
'دھت تیری کی'، ' یہ تو کسی ناول کا نا م ہو سکتا ہے'، 'جلتی ہے میری جوتی' جیسے تکیہ کلام اور ان کے ادا کرنے والے کردار، محمود، فاروق اور فرزانہ یتیم ہوگئے ہمیں ڈر ہے کہ کہیں یہ یتیم کسی کاروباری مصنف کے ہتھے نہ چڑھ جائیں اور وہ انھیں اپنی کمائی کا دھندہ بنا ڈالے۔
آپ کے لکھے ناولز کے ذریعہ ناشرین نے تو خوب دولت کمائی اور آپ محض دال روٹی پر ہی رہے ۔ کیا کریں کہ آپ کی پیدائش آپ کے اختیار میں نہ تھی ورنہ اگر آپ فرنگیوں کے ملک میں ہوتے توہر طور سے جے کے رولنگ کے ہم پلہ ہوتے۔
ہماری آپ سے ملاقات کی خواہش کبھی پوری نہ ہو سکی، مگرہمیں یہ شرف ضرور حاصل ہے کہ آپ ہمارے لکھے خطوط کا جواب دیتے تھے۔
یہ سن چھیاسی، ستاسی کا ذکر ہے کہ اسکول میں ہم سے سینیئر طلبہ آپ کے ناول پڑھا کرتے تھے ایک آدھ بار ان سے مستعار لے کر آپ کے ناول پڑھنا شروع کئے تو پھر انکا چسکا ہی پڑ گیا۔
اس زمانے میں ہمیں روزانہ ایک اٹھنی جیب خرچ کے لئے ملا کرتی تھی اور محلے کی لائبریری سے آپ کے ناول ایک روپے یومیہ کرائے پر ملا کرتے تھے. ہم اور ہمارے برادر خرد اپنے جیب خرچ کے پیسے ملا کر ہر نیا آنے والا ناول لائبریری سے لے کر پڑھتے اور آئندہ آنے والے ناولزکا انتظار کرتے۔
آپکی 'دو باتیں' اور'ناول پڑھنے سے پہلے'سے لے کر اگلے ناول کی جھلکیاں ایک ہی نشست میں پڑھنے کے ہم نے کئی ریکارڈ قائم کیے. مزہ تب آتا جب آپ کا لکھا کوئی خاص نمبر شائع ہوتااور ہم موسم گرما کی تعطیلات میں رات دیر تک جاگ کر اسے ختم کرنے کی تگ و دو کرتے۔
آپ کے کرداروں کی نوک جھونک اور محاورات کی جنگ نے ہماری اردو خوب نکھاری اور ہم اسکول میں نہایت روانی کے ساتھ اردو کی بلند خوانی کرتے تھے، واضح رہے کہ اردو ہماری مادری زبان نہیں ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی کچھ لکھنے کی عادت ہوئی تو آپ کا اندازِ تحریر ہمارے سامنے تھا- آج اگر ہم تھوڑا بہت لکھ سکتے ہیں تو اسکی وجہ بھی یہی ہے آپ کے جملوں کی روانی نے ہمیں اس جانب راغب کیا۔
یاد آیا آپ نے چاند ستارے کے نام سے ایک ماہنامہ بھی جاری کیا تھا، تب تک ہمارا جیب خرچ بڑھ چکا تھا اور ہم ہر ماہ یہ رسالہ خریدا کرتے تھے۔ مگر آپکا یہ رسالہ شاید مالی مشکلات کا شکار ہو گیا اور جلد ہی آپ نے اسے بند کر دیا.شیخ غلام علی اینڈ سنز سے لے کر اٹلانٹس پبلیکیشنز تک آپ لکھاری ہی رہے اور کاروباری نہ بن سکے۔
ہمیں اشتیاق پبلیکیشنز کا ساندہ کلاں والا پتہ زبانی یاد ہوگیا تھا جو آپ کے ناولز میں درج ہوتا تھا اور اس پر ہم آپکوخط لکھتے تھے۔
جاسوسی اور سسپنس سے بھرپور ناول لکھنا تو آپ کی شخصیت کا ایک پہلو تھا اور اپنی تحریروں میں آپ ہمیں حالات حاضرہ سے بھی روشناس کرواتے تھے. اس کے ساتھ ساتھ، ختم نبوت کے عقیدہ کو نوجوان نسل میں واضح کرنے کا جو کام آپ نے کیا وہ آپ کے لئے تا قیامت صدقہ جاریہ رہے گا۔ اسلام کے بنیادی عقائد بشمول عقیدہ توحید کے بارے میں، ہم آپ کے ناولز کے آخر میں دیئے گئے اوراق سے استفادہ کرتے۔
آپ کے ناولز کی طرح ہمدرد کا نونہال بھی ہم باقاعدگی سے پڑھتے تھے، آپ کی کہانیاں اس میں شائع ہونے لگیں بلکہ ماضی قریب سے تو آپ ہر ماہ ایک کہانی اس میں لکھ رہے تھے۔ آج جب ہمارے بچے نونہال پڑھتے ہیں تو آپ کی کہانی دیکھ کر ہم انھیں آپ کے بارے میں بتاتے ہیں۔
ابھی پچھلے ماہ صاحبزادی اپنے اسکول کی لائیبریری سے آپ کا ایک ناول پہلی بار پڑھنے کو لائیں تو ہم نے انھیں آپکے تخلیق کردہ کرداروں کے بارے میں بتایا۔ اس پرصاحبزادے بھی آپ کے ناول پڑھنے پر کمر بستہ ہو گئے۔ مگر ابھی وہ محض دس برس کے ہیں اور ہمیں ڈر ہے کہ وہ کے ناولز کی روانی کا ساتھ نہیں دے پائیں گے۔ صاحبزادی جو کہ بارہ برس کی ہیں ، نے خوب سمجھ کر آپ کے ناولز پڑھنا شروع کردیئے ہیں۔ حالیہ منعقد ہونے والے کتب میلے سے ہم نے انھیں  آپ کے ناولز خرید کر دیئے اور آج کل وہ انھیں پڑھ رہی ہیں۔ ان کے پڑھنے سے پہلے ہم نے انھیں پڑھا، ناول گو کہ پرانے تھے اور ہمارے زیرِ مطالعہ رہ چکے تھے مگر دوبارہ پڑھ کر بھی ہم بور نہیں ہوئے, ان سطور کے منظر عام پر آنے تک ہماری اولاد متذکرہ ناولز پڑھ چکی ہے۔
انکل آپ اب ایسی جگہ پہنچ گئے ہیں جہاں انسان کے اعمال ہی اسکے کام آتے ہیں ہمیں یقین ہے کہ اللہ آپ کا نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں پکڑائے گا، کیونکہ آپ نے اپنے قلم کے ذریعہ ہم لوگوں میں خوشیاں بانٹیں ہیں اور ہمیشہ اصلاحی ادب لکھا ہے۔ ملکِ خداداد کے حاکم بھلے ہی آپ کو کسی اعزاز سے نہ نوازیں آپ کے قاریئن کی کثیر تعداد آپ کے حق میں سدا دعا گو رہے گی۔
اللہ آپ کے درجات کو بلند فرماکر ،جنت کے اعلٰی درجے میں جگہ عطا فرمائے، آمین۔
فقط
 آپکی تحاریر کا ایک قاری