پس منظر کے لئے گذشتہ بلاگ یہاں پڑھیں۔
یہ جنوری سن دو ہزار چار کے آخری ہفتے کا ذکر ہے کہ ہم
بحیثیت انچارج اگزیمینشن سیل کے مسسز گلزار کے ساتھ لاہور روانہ ہوئے۔ اس سفر کا
مقصد یہ تھا کہ حکیم صاحب کے نام سے جاری کردہ وظائف دینے کی خاطر لاہور کے
ہونہاروں کا تحریری اور زبانی امتحان لیا
جائے اور فاونڈیشن کو نتیجہ ارسال کیا جائے۔ امتحانی پرچے خصوصی طور پر تیار کئے
گئے تھے- میٹرک پاس اور انٹر پاس امیدواران کی فہرست کے مطابق پرچے اور امتحانی
مواد ہم نے پیک کروا دیا تھا۔
چھبیس جنوری کی شام کو مسسزگلزار اور ہمیں، یامین ڈرائیور
نے جناح انٹرنیشنل کے ڈومیسٹک ٹرمینل پر سرکاری گاڑی میں چھوڑا۔ یامین، ہمدرد میں
چلتے پھرتے اخبار کا درجہ رکھتے تھے، صاحب لوگوں کے ڈرائیور ہونے کی وجہ سے ان سے
ہم لوگ تفریحا یہ پوچھا کرتے کہ اب کے برس تنخواہ میں کتنا اضافہ متوقع ہے،
یا آج کل ایڈمینسٹریشن اور میڈم کے حالات
کیسے چل رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ان کی گفتگو غور سے سننا پڑتی تھی کیونکہ انکے بولنے
کا ایک خاص انداز تھا کہ وہ معمولی بات کو بھی غیر معمولی بنا دیتے تھے۔
پرواز کا وقت ساڑھے چھ بجے کا تھا مگر فنی خرابی کے باعث
پینتیس منٹ کی تاخیر سے اڑان ہوئی۔ فضائی میزبان، عمر شریف کے لطیفوں کی ہو بہو
تصویر تھیں کہ جن سے جام بھی طلب کیا جاتا تو تتے پانی کا مزہ دیتا۔ اس کے برعکس
کھانا لذ یذ تھا۔ اتنے میں لاہور آن پہنچا اور ہمعلامہ اقبال کے بین الاقوامی
ہوائی اڈے پر اترے جہاں سردی بارہ درجہ سینٹی گریڈ تھی۔ ہمارے استقبال کے لئے جناب
علی بخاری صاحب موجود تھے، ان کا نام گو کہ ہمارے پی ٹی انسٹرکٹر الحاج اصغر علی
بخاری سے ملتا ہے مگر ہمارے بخاری صاحب والی عادات ان میں مفقود تھیں۔
علی بخاری نے ہمیں گاڑی میں لادا تو ہم لوگوں نے چھوٹتے ہی
کسی کتب خانہ جانے کی فرمائش داغ دی، اس پر انھوں نے ہمیں تحیر آمیز نگاہوں سے
گھورا مگر لاہوری گرم جوشی کے ساتھ فرض میزبانی ادا کرتے ہوئے لالہ زار کتاب گھر
پر گاڑی رکوائی، ہم وہاں انٹر، میٹرک کی ڈھیروں کتابیں خریدیں اور دو ہزار کا بل
ایڈمنسٹریٹر حافظ پرویز صاحب کے لئے تحفتا رکھ لیا۔
ہمارا پڑاو مرکز ہمدرد، لاہور کی عمارت میں تھا۔ مسسز گلزار
کو حکیم صاحب کے زیر استعمال رہنے والا کمرہ دیا گیا اور ہمیں اسی کمرے کے
بالمقابل ٹھکانہ ملا۔ سامان وغیرہ ترتیب دینے کے بعد مسسز گلزار کے ساتھ خشک
میواجات کی ضیافت اڑائی اور ہماری اور عمارت کی چوکیداری پر مامور گارڈ کے تعاون
سے چائے پی۔ آدھی رات کے قریب یہ سطور قلمبند کیں اور سو پڑے۔
اگلی صبح قریبا ساڑھے ساتھ بجے باقاعدہ بیدار ہوئے، میڈم کے
ہاتھ کی بنائی کافی پی اور باہر نکل گئے، سردی ایسی تھی کہ اس سے لطف اندور ہوا جا
سکتا تھا۔لب سڑک ایک مسجد کی محراب سے سمتوں کا تعین کیا تو پتہ چلا کہ مرکز ہمدرد
کا مرکزی دروازہ مغرب کی جانب ہے جبکہ سڑک لٹن روڈ شمالا جنوبا گزرتی ہے۔
ہمدرد مرکز سے جنوبی سمت جو سڑک سیدھی نکلتی ہے وہ پرانی
انارکلی جاتی ہے، ہم اسی سڑک پر واقع ایک چھوٹے سے 'شان ہوٹل' میں بیٹھے اور ناشتہ کیا۔
مسسز گلزار سےجو قارئین واقف ہیں انھیں انکی خصوصیات بتلانے
کی ضرورت نہیں، پر نافاقف قارئین اتنا جان لیں کہ یہ اپنے زمانے کی ٹیبل ٹینس کی قومی چیمپیئن ،
تاریخ کی استاد، سینٹ جوزف کالج کراچی کی پرنسپل
اور کراچی کی پرانی رہائشی ہیں، خاصی دنیا دیکھ چکی ہیں اور خاصی پریکٹیکل خاتون ہیں۔
اردو میں انکی گفتگو محترمہ بینظیر بھٹو کی اردو کی یاد دلاتی ہے۔
جاری ہے
نوٹ: ان دنوں ہم انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا کی سہولیات سے
محروم تھے اور سفروں کے دوران باقاعدہ ڈائری لکھا کرتے تھے۔ یہ بلاگ پرانی ڈائری
کی مدد سے تحریر کیا جا رہا ہے۔