Friday, October 23, 2020

فریدی سیریز پر تبصرہ

 ہمارا پچھلا بلاگ ابن صفی کی عمران سیریز پر تھا، اس بار ہم انکی فریدی سیریز پر بات کریں گے۔

ابن صفی اپنے ہر ناول کا دیباچہ پیشرس کے عنوان سے لکھا کرتے تھے۔ اپنے ابتدائی دور کے ایک پیشرس میں وہ لکھتے ہیں کہ ان کے زمانے میں زیادہ تر مصنفین اردو میں ریوایتی عشق و محبت کی داستانوں کو بیان کرتے تھے یا بازاری قسم کے گھٹیا ناولز عام تھے۔ گنتی کے لکھاری انگریزی یا دیگر زبانوں کے شاہکاروں کے تراجم کرتے تھے مگر سری یعنی جاسوسی ادب اردو میں ناپید تھا۔ ایک محفل میں انھیں کسی بزرگ ادیب نے یہ کہ کر ٹہوکا دیا کہ میاں جاسوسی ادب اردو میں صرف جنسی کہانیوں میں ہی ملتا ہے۔ 
ابن صفی نے اس بات کو ایک چیلنج کے طور پر قبول کیا اور کمال احمد فریدی جیسا لازوال کردار تخلیق کر ڈالا۔ فریدی کہ جو شروع کے ناولز میں اپنے ارتقائی مراحل سے گزرتا ہے، اولا انسپکٹر فریدی کہلاتا ہے اور ترقی کر کے اعزازی طور پر کرنل بنا دیا جاتا ہے، چھوٹے موٹے مجرموں پر ہاتھ نہیں ڈالتا مگر ام اور ملک دشمنوں کو کہیں کا نہیں چھوڑتا۔ اعصابی جنگ ہو یا ہاتھ پیر چلانے ہوں، ہیلی کاپٹر اڑانا ہو یا پیرا شوٹ سے چھلانگ لگانا ہوں وہ ہر میدان میں اپنا لوہا منوایا نظر آتا ہے۔ سنگ ہی آرٹ کی بدولت گولیوں سے بچتا ہے تو میک اپ اور آواز بدلنے کے فنون کے باعث کوئی بھی روپ دھارنے کی مہارت رکھتا ہے۔ سانپوں کو پالتا ہے اور اپنی کوٹھی میں سانئنسی تجربہ گاہ بھی رکھتا ہے، مطالعہ میں غرق ہوتا ہے تو اپنے کتب خانہ میں گھنٹوں بسر کر لیتا ہے۔ ڈانس فلور پر ہوتا ہے تو دیسی بدیسی رقص کی تمام حرکات و سکنات انجام دے ڈالتا ہے۔ غرض انگریزی مقولہ یو آسک فار اٹ، وی ہیو اٹ کے مصداق کبھی بھی کچھ بھی کر سکتا ہے۔
اس کا ساتھی سارجنٹ ساجد حمید جو بعد میں کیپٹن حمید کے نام سے جانا جاتا تھا، کسی طور بھی کرنل فریدی سے کم نہیں۔ کرنل فریدی کو اپنے بڑے بھائی اور باپ کا درجہ دیتا ہے بلکہ پیار سے فادر ہارڈ اسٹون کہتا ہے۔ ہارڈ اسٹون اس وجہ سے کہ فریدی صنف مخالف سے جتنا دور بھاگتا ہے حمید اتنا ہی لڑکیوں میں مقبول ہے اور ان سے ہمہ وقت دوستی کا خواہاں رہتا ہے۔ مگر یہ دونوں کردار اپنی طبیعتوں میں تضادات کے باوجود ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ فریدی مجرموں کے لئے یقینا ہارڈ اسٹون ہے مگر حمید کو اگر ذرا سی بھی خراش آجائے تو ایک پر شفقت باپ اور زخم دینے والوں کے لئے بھوکا شیر بن جاتا ہے۔
ان دونوں میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ علی عمران کی طرح یہ دونوں بھی صنف مخالف پر بری نظر نہیں ڈالتے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک ناول میں کیپٹن حمید کو ایک کیس میں کسی لڑکی کے ساتھ میک اپ میں ایک ہی کمرے میں مجبورا رات گزارنا پڑتی ہے تو وہ نیند کی گولیاں کھا کر سو پڑتا ہے کہ رات میں کہیں اس سے کوئی اخلاق سے گری ہوئی حرکت نہ ہوجائے۔
ہمارے اس بلاگ کا مقصد فریدی اور حمید کے قصیدے بیان کرنا نہیں ہے بلکہ ہم ابن صفی کے قلم کو خراج تحسین پیش کرنا چاہتے ہیں کہ جس کی مدد سے انھوں نے نوجوان نسل کی کردار سازی کی۔
اگر آپ ہمارے بیان کی تصدیق کرنا چاہیں تو ان کے فریدی سیریز کے ناولز کا مطالعہ کر کے دیکھ لیں۔

Monday, September 21, 2020

عمران سیریز پر تبصرہ

جب سے پرانے گانوں کو نئے انداز میں پیش کرنے کا رواج ہوا ہے اس سے بھی پہلے سے کسی کے تخلیق کردہ کرداروں پر مشتمل کہانیاں لکھنے کا سلسلہ چلا آرہا ہے۔ سن اسی اور نوے کی دہائی میں جہاں ہم مرحوم اشتیاق احمد کی انسپکٹر جمشید سیریز کے دلدارہ تھے وہیں مظہر کلیم کی عمران سیریز کے بھی رسیا تھے اور انہی کو اس کردار کا خالق سمجھتے تھے، بھولے بھالے دور کے معصوم قاری تھے نا، شاید اسی لئے۔
مگر جب شعور و آگاہی کی منازل طے کیں تو یہ عقدہ کھلا کہ علی عمران کا کردار جناب اسرار احمد المعروف ابن صفی مرحوم کی تخلیق ہے۔
ہم اپنے طالب علمی کے زمانے میں ابن صفی کے شاہکاروں تک رسائی حاصل نہیں کر پائے، مگر شادی بچوں اور نوکری کے بعد اکیسویں صدی میں انکی عمران سیریز کے تمام ناول پڑھ ڈالے۔
سن 1955 سے 1980 تک کے 25 برسوں میں انھوں نے 120 ناول لکھے جن میں مرکزی کردار علی عمران ہی تھا۔ 
ہم کیونکہ سائنس کے طالب علم ہیں اور ادب میں سائنس فکشن سے واقف ہیں اس لئے یہ بات پورے وثوق سے کہ سکتے ہیں کہ ابن صفی نے پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں جن سائنسی خیالات کو بطور فکشن پیش کیا وہ آج فیکٹ یعنی حقیقت کا روپ دھار چکے ہیں۔ مثلا ایک ناول میں عمران لکڑی کے ایک تختہ پر بجلی کے تاروں کی مختلف لمبائی سے اینٹینا بنا کر کسی کی گفتگو سننا چاہتا ہے۔ یہ خیال آج کی سائنس میں ملٹیپل اینٹینا ایرے کے طور پر موجود ہے جس کی مدد سے ایک مخصوص تعدد کا حیطہ یعنی فریکوئنسی رینج معلوم کیا جا سکتا ہے۔
ادبی اعتبار سے ان کے کرداروں کی تہیں ہیں۔ علی عمران کے کردار کی جہتیں ہر ناول میں ایک کے بعد ایک کر کے سامنے آتی ہیں۔ اگر اس سیریز کے ناول ترتیب وار پڑھے جائیں تو ان میں ایک ربط ملتا ہے جو قاری کو اس سلسلے سے جڑے رہنے پر مجبور کرتا ہے۔
سسپنس کی بات کریں تو ان کا انداز تحریر کسی بھی طور آگاتا کرسٹی سے کم نہیں، ایکشن میں بھی ابن صفی اپنے کرداروں کو مافوق الفطرت نہیں بناتے بلکہ انھیں زخم بھی لگتے ہیں اور وہ بے ہوش بھی ہوتے ہیں۔
بظاہر احمق نظر آنے والا علی عمران جہاں ایک طرف سوپر فیاض کو بلیک میل کرتا ہے تو دوسری طرف ایکسٹو کا کردار ادا کرتا ہے، ایک جانب اپنے باورچی سے مونگ کی دال بنانے پر واویلا کرتا ہے تو دوسری جانب جولیا کی چکنی چوڑی باتوں سے کوسوں دور بھاگتا ہے۔ لیکن ان تمام تضادات کے باوجود ایک چیز جو ان کے کرداروں کو دوسروں سے ممتاز بناتی ہے وہ ہمارے ادب میں موجود روایتی عشق و محبت سے فرار ہے۔ ان کے کرداروں بالخصوص علی عمران کا صنف مخالف سے کوسوں دور بھاگنا اور اپنے دامن کو پاک صاف رکھنا ایسے اوصاف ہیں جو ہمیں جیمز بانڈ جیسے کرداروں میں بھی نہیں ملتے، یہاں یہ نہ سمجھا جائے کہ ہم جیمز بانڈ پر تنقید کر رہے۔
کم کہے کو زیادہ جانیں اور اگر اب تک آپ ابن صفی کے ناول نہیں پڑھ سکے تو وقت نکال کر اول تا آخر پڑھ ڈالئے ہمارا دعوی ہے کہ بیسویں صدی کے ناول آپ کو اکیسویں صدی کے لکھے ہوئے لگیں گے۔
آئندہ ہم ابن صفی کی جاسوسی دنیا یعنی فریدی سیریز کا ذکر کریں گے۔