Monday, September 21, 2020

عمران سیریز پر تبصرہ

جب سے پرانے گانوں کو نئے انداز میں پیش کرنے کا رواج ہوا ہے اس سے بھی پہلے سے کسی کے تخلیق کردہ کرداروں پر مشتمل کہانیاں لکھنے کا سلسلہ چلا آرہا ہے۔ سن اسی اور نوے کی دہائی میں جہاں ہم مرحوم اشتیاق احمد کی انسپکٹر جمشید سیریز کے دلدارہ تھے وہیں مظہر کلیم کی عمران سیریز کے بھی رسیا تھے اور انہی کو اس کردار کا خالق سمجھتے تھے، بھولے بھالے دور کے معصوم قاری تھے نا، شاید اسی لئے۔
مگر جب شعور و آگاہی کی منازل طے کیں تو یہ عقدہ کھلا کہ علی عمران کا کردار جناب اسرار احمد المعروف ابن صفی مرحوم کی تخلیق ہے۔
ہم اپنے طالب علمی کے زمانے میں ابن صفی کے شاہکاروں تک رسائی حاصل نہیں کر پائے، مگر شادی بچوں اور نوکری کے بعد اکیسویں صدی میں انکی عمران سیریز کے تمام ناول پڑھ ڈالے۔
سن 1955 سے 1980 تک کے 25 برسوں میں انھوں نے 120 ناول لکھے جن میں مرکزی کردار علی عمران ہی تھا۔ 
ہم کیونکہ سائنس کے طالب علم ہیں اور ادب میں سائنس فکشن سے واقف ہیں اس لئے یہ بات پورے وثوق سے کہ سکتے ہیں کہ ابن صفی نے پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں جن سائنسی خیالات کو بطور فکشن پیش کیا وہ آج فیکٹ یعنی حقیقت کا روپ دھار چکے ہیں۔ مثلا ایک ناول میں عمران لکڑی کے ایک تختہ پر بجلی کے تاروں کی مختلف لمبائی سے اینٹینا بنا کر کسی کی گفتگو سننا چاہتا ہے۔ یہ خیال آج کی سائنس میں ملٹیپل اینٹینا ایرے کے طور پر موجود ہے جس کی مدد سے ایک مخصوص تعدد کا حیطہ یعنی فریکوئنسی رینج معلوم کیا جا سکتا ہے۔
ادبی اعتبار سے ان کے کرداروں کی تہیں ہیں۔ علی عمران کے کردار کی جہتیں ہر ناول میں ایک کے بعد ایک کر کے سامنے آتی ہیں۔ اگر اس سیریز کے ناول ترتیب وار پڑھے جائیں تو ان میں ایک ربط ملتا ہے جو قاری کو اس سلسلے سے جڑے رہنے پر مجبور کرتا ہے۔
سسپنس کی بات کریں تو ان کا انداز تحریر کسی بھی طور آگاتا کرسٹی سے کم نہیں، ایکشن میں بھی ابن صفی اپنے کرداروں کو مافوق الفطرت نہیں بناتے بلکہ انھیں زخم بھی لگتے ہیں اور وہ بے ہوش بھی ہوتے ہیں۔
بظاہر احمق نظر آنے والا علی عمران جہاں ایک طرف سوپر فیاض کو بلیک میل کرتا ہے تو دوسری طرف ایکسٹو کا کردار ادا کرتا ہے، ایک جانب اپنے باورچی سے مونگ کی دال بنانے پر واویلا کرتا ہے تو دوسری جانب جولیا کی چکنی چوڑی باتوں سے کوسوں دور بھاگتا ہے۔ لیکن ان تمام تضادات کے باوجود ایک چیز جو ان کے کرداروں کو دوسروں سے ممتاز بناتی ہے وہ ہمارے ادب میں موجود روایتی عشق و محبت سے فرار ہے۔ ان کے کرداروں بالخصوص علی عمران کا صنف مخالف سے کوسوں دور بھاگنا اور اپنے دامن کو پاک صاف رکھنا ایسے اوصاف ہیں جو ہمیں جیمز بانڈ جیسے کرداروں میں بھی نہیں ملتے، یہاں یہ نہ سمجھا جائے کہ ہم جیمز بانڈ پر تنقید کر رہے۔
کم کہے کو زیادہ جانیں اور اگر اب تک آپ ابن صفی کے ناول نہیں پڑھ سکے تو وقت نکال کر اول تا آخر پڑھ ڈالئے ہمارا دعوی ہے کہ بیسویں صدی کے ناول آپ کو اکیسویں صدی کے لکھے ہوئے لگیں گے۔
آئندہ ہم ابن صفی کی جاسوسی دنیا یعنی فریدی سیریز کا ذکر کریں گے۔