Sunday, February 12, 2023

امجد اسلام امجد کی یاد میں

 

ہمیں جب اردو شعر و ادب کی سمجھ آنا شروع ہوئی اور اشعار یاد ہونے لگے تو 'اگر کبھی میری یاد آئے'، 'گلاب چہرے پہ مسکراہٹ، چمکتی آنکھوں میں شوخ جذبے' اور 'ایک کمرہ امتحان میں'، منہ زبانی دھرایا کرتے اور سر دھنا کرتے کہ میر اور غالب کا مقام اپنی جگہ مگر امجد ہمارے عہد کے شاعر تھے اور آپ بیتی کو جگ بیتی بنانا خوب جانتے تھے کہ بقول غالب، میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔ دورِ حاضرکی نسل کی کول زبان میں بیان کریں تو امجد اسلام امجد ہمارا چائلڈ ہوڈ کرش تھے۔

جامعہ کراچی میں طالب علمی کے زمانے میں ہماری دلی مراد بھر آئی جب انھیں روبرو سُنا اورپھر بارہا ساکنان شہر قائد کے سالانہ مشاعروں میں ان کے کلام سے محظوظ ہوئے ساتھ ہی انکی کتب پر انکے دستخط بھی لئے۔ اُنکا مشفقانہ اور دھیما انداز انکی انسان دوست شخصیت کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ جب بھی انکی شاعری کی نئی کتاب آتی ہم خود سے خرید کر اسے پڑھتے، ان میں سے موجود بعض کتب اب ہماری اولاد پڑھتی ہے۔

جہاں 'سیلف میڈ لوگوں کا المیہ' اور 'تو چل اے موسم گریہ' نے اردو شاعری میں تہلکہ مچایا وہیں 'زندگی کے میلے میں، خواہشوں کے ریلے میں' بھی زبان زد خاص و عام رہی۔ 'اسے بھول جا' کی طویل بحر ہو یا 'تمہیں نکال کے دیکھا تو سب خسارہ ہے' کی ترکیب، انکے کلام کا ہر ہر حرف خود بخود نظروں یا سماعتوں سے گزر کر دماغ سے ہوتا ہوا دل میں جا پیوست ہوتا۔ حال ہی میں انکی ایک تازہ نظم 'اے میرے دوستوبھلے لوگو' ہمارے معاشرے میں موجود عدم برداشت کی عکاسی کرتی ہے اور اس بات کا درس دیتی ہے کہ جس معافی یا سہولت کو ہم اپنا استحقاق سمجھتے ہیں وہی رعایت اگر دوسروں کو بھی دے دیں تو دنیا امن کا گہوارہ بن جائے۔

'موسم میرے دل کی باتیں تم سے کہنے آیا ہے' جیسی سطر یا 'محبت ایسا دریا ہے کہ بارش روٹھ بھی جائے تو پانی کم نہیں ہوتا' جیسا خیال امجد کے سوا کسی اور کا نہیں ہوسکتا۔ ان کے کلام کی نزاکت، ندرت، اچھوتے پن اور بے ساختگی کی مثال کہیں اور ملنا مشکل ہے۔ جو تھوڑی بہت بھی امجد فہمی رکھتا ہے وہ بخوبی ان کے کلام کو دیگر شعراء کے کلام سے ممتاز کر کے دیکھ اور پہچان سکتا ہے۔

ہم طبیعات کے مدرس ہونے کے دوران گاہے بگاہے طلبہ کو اشعار سُنایا کرتے تھے، ایک بار انکی نظم 'محبت کی طبیعت میں یہ کیسا بچپننا قدرت نے رکھا ہے' پری میڈیکل کے بارہوں جماعت کے سیکشن میں منہ زبانی سُنا ڈالی اور نئی نسل کو امجد کے تخیل پرواز سے روشناس کرایا۔

'علی ذیشان کے لئے ایک نظم' میں انھوں نے نئی نسل کو مخاطب کیا ہے اور عرفان یعنی خود آگاہی کے اس لمحہ کی بات کی ہے جو ہر کسی کے لئے الگ اور منفرد تجربہ ہو تا ہے۔  

ہم امجد کی شاعری پر لکھتے چلے جائیں گے اور ورق تمام ہوتے جائیں گے۔ خرم سہیل نے لکھا ہے کہ امجد کی خواہش تھی کہ وہ تاریخ کے اوراق میں بحیثیت شاعر زندہ رہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ انکی یہ خواہش بجا تھی اور اردو ادب اس پر فخر کرے گا کہ اسے امجد اسلام امجد جیسا شاعر ملا۔

انکے انتقال پرجہاں ہم افسردہ ہیں کہ خوبصورت لفظوں کا ایک با کمال خالق اس دنیا سے رخصت ہوا وہیں ہمیں اس بات کا بھی دکھ ہے کہ پچیس فروری کو ہونے والے مشاعرہ میں وہ موجود نہیں ہوں گے اور ہماری اولاد انھیں پہلی بار روبرو دیکھنے اور سُننے سے محروم ہو گئی۔

وہ یقینا چاند راتوں کی نرم دلگیر روشنی میں ستارہ بن چکے ہیں جو نہ صرف اپنا اجالا رکھتا ہے بلکہ مسافروں کے لئے بھی چراغ منزل کا کام کرتا ہے۔

حق مغفرت کرے۔